1-الف: خاص پندرہ شعبان کی تاریخ کی خصوصیت کے لحاظ سے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا مستحب ہے یا نہیں؟
ب: پندرہ شعبان کا خاص کرنا اور صرف اس دن کا روزہ رکھنا بدعت ہے یا نہیں؟
2- الف: پندرہ شعبان کے روزے کا تذکرہ متقدمین فقہاء احناف نے کیا ہے؟
ب: متاخرین فقہاء احناف نے اس روزے کی تصریح کی ہے؟
ج: اس روزے کا تذکرہ علماء احناف میں سب سے پہلے کس نے کیا ہے؟
3- الف: پندرہ شعبان کے روزے کے بارے میں جواحادیث ہیں، ان پر تفصیلی کلام درکار ہے۔
ب: کیا ابوبکر بن ابی سبرۃ ائمہ فنِ حدیث کے نزدیک بالاتفاق مجروح ہے؟
ج: شدید ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں؟
1- مطلقاً شعبان کے روزوں کے استحباب میں کسی کا اختلاف نہیں ؛ البتہ پندرہویں شعبان کے روزے کے متعلق کچھ اختلاف ہے۔ بعض علماء نے اسے بدعت کہا ہے، لیکن صحیح رائے اور جمہور علماء دیوبند کے ہاں اس دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے، لہٰذا یہ روزہ نہ فرض ہے، نہ واجب ہے اور نہ ہی بدعت ہے، بلکہ مستحب ہے۔
2- متقدمین احناف میں سے کسی کے ہاں اس روزے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر نہیں ملا، البتہ متأخرین فقہاء میں سے شیخ نظام صاحبِ ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ نےصومِ شعبان کو مطلقاً مندوبات میں ذکر کیا ہے، اسی طرح اکابر علماء دیوبند کے فتاویٰ میں اس روزے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ملتا ہے، اور اس کے رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں، چنانچہ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
’’صبح شب براءت کے دن کا روزہ اور شش عید کا روزہ بھی مستحب ہے۔‘‘ (فتاویٰ عزیزی، مکمل، ص : ۵۰۲)
حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ جو ارشاد فرمایا کہ: ’’صوموا نھارھا‘‘ تو یہ امر بھی استحبابی ہے، یعنی روزہ پندرہویں کا مستحب ہے، فرض و واجب نہیں، غرض ’’قوموا لیلہا‘‘ سے اس رات کی فضیلت معلوم ہوگئی، اور حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں: (جس قسم کا نزول ان کی شان کے موافق ہو، ہمارے جیسا نزول مراد نہیں) اور فرماتے ہیں: ’’ہل من داع فأستجيب لہٗ؟ ہل من مستغفر فاغفر لہٗ؟ ‘‘صبح تک یہی کیفیت رہتی ہے۔‘‘ (خطبات حکیم الامت،ج:۷، ص:۴۹۶)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحبؒ فرماتے ہیں :
’’ شعبان کی پندرہویں کو روزہ رکھنے کا حکم حدیث میں موجود ہے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ، ج:۱۳، ص:۴۱۵)
اسی طرح فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:
’’شعبان میں کون سا روزہ ضروری ہے اور کب سے ممنوع؟
(سوال: ۲۷۱) شعبان میں کس تاریخ کا روزہ فرض ہے یا مسنون ہے؟ نیز یہ روایت کہ اس ماہ میں سوائے ۱۳ ؍تاریخ کے اور روزہ رکھنا جائز یا ممنوع ہے، کہاں تک صحیح ہے؟
(جواب) ماہِ شعبان میں کسی تاریخ اور دن کا روزہ فرض اور واجب نہیں ہے اور تیرہ شعبان کے روزے کی کوئی خاص فضیلت حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے، البتہ یہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب کو بیدار رہ کر عبادت میں مشغول رہو اور پندرہویں تاریخ کا روزہ رکھو، پس پندرہویں تاریخ شعبان کا روزہ مستحب ہے، اگر کوئی رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کچھ حرج نہیں ہے، فقط ۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، کتاب الصوم، ج:۶، ص:۳۰۹)
3- پندرہویں شعبان کے روزے کے متعلق پورے ذخیرۂ حدیث میں صرف سنن ابن ماجہ (باب: ما جاء في ليلۃ النصف من شعبان) کی ایک مفصّل روایت ہے جو استحباب پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے:
’’حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن أبي سبرۃ، عن إبراہيم بن محمد، عن معاويۃ بن عبد اللہ بن جعفر، عن أبيہ عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: ’’إذا کانت ليلۃ النصف من شعبان، فقوموا ليلہا، وصوموا نہارہا، فإن اللہ ينزل فيہا لغروب الشمس إلی سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافيہ، ألا کذا ألا کذا، حتی يطلع الفجر۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ، ج:۲، ص: ۳۹۹، دار الرسالۃ العالميۃ)
یہ روایت ابو بکر ابن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرہ راوی کی وجہ سےسنداً ضعیف ہے، ابوبکر بن ابی سبرہ راوی ائمہ فن کے نزدیک بالاتفاق مجروح ہے؛ البتہ بعض علماء نے اس کی شان میں تعریفی جملے بھی کہے ہیں، مگر وہ اصطلاحی تعدیل میں سے شمارنہیں ہوتے، لیکن اس روایت پر موضوع کا اطلاق درست نہیں؛ کیوں کہ محض کسی راوی پر کذّاب، یا وضّاع کے اتہام سے روایت موضوع نہیں ہوتی، البتہ ضعیف ہو جاتی ہے۔ علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’کسی کذّاب، یاوضّاع راوی کے تفرّد سے روایت موضوع نہیں ہوجاتی، جب تک کوئی اور خارجی قرینہ ساتھ نہ ہو۔ ‘‘ ضعیف حدیث فضائل کے باب میں قبول ہوتی ہے اور استحباب بھی ثابت ہوسکتا ہے؛ چنانچہ علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ائمہ فنِ حدیث کے ہاں ضعیف حدیث کی سند میں تساہل برتنا، اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا، اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی صفات اور احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ اس وجہ سے بھی اس روایت کا موضوع میں شمار مناسب نہیں کہ جن علماء نے سنن ابن ماجہ کی موضوع حدیثوں کی نشاندہی کی ہے ان میں اس روایت کا ذکر نہیں ملتا، جیسے: ’’ما تمس إلیہ الحاجۃ‘‘، البتہ علامہ شوکانی ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب: ’’فوائد مجموعہ‘‘میں ضعیف کے ضمن میں شمار کیا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’المرغوبات من الصيام أنواع أولہا صوم المحرم والثاني صوم رجب والثالث صوم شعبان وصوم عاشوراء، وہو اليوم العاشر من المحرم عند عامۃ العلماء والصحابۃ رضي اللہ تعالی عنہم۔‘‘ (کتاب الصوم، الباب الرابع، ج:۱، ص:۲۰۲، المطبعۃ الکبری، مصر)
’’الکفایۃ في علم الروایۃ‘‘ میں ہے:
’’سمعت أحمد بن حنبل، يقول: إذا روينا عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم في الحلال والحرام والسنن والأحکام تشددنا في الأسانيد، وإذا روينا عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم في فضائل الأعمال وما لا يضع حکما ولا يرفعہتساہلنا في الأسانيد۔‘‘(باب التشدد في أحاديث الأحکام، ص:۱۳۴، دائرۃ المعارف العثمانيۃ)
فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 144508101663
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن