بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

پلازما عطیہ کرنے کا حکم

پلازما عطیہ کرنے کا حکم


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

۱:…پلازما کا عطیہ کرنا کیساہے؟
 واضح رہے کہ پلازما انسانی خون کا ایک حصہ ہوتاہے جو خون میں سے ریڈ سیلس اور وائٹ سیلس جدا کرنے کے بعد بچتا ہے اور اس کا رنگ زرد ہوتا ہے اور اس کو خون کی طرح جسم میں ڈالا جاتاہے اور اس عمل کو پلازما تھیراپی کہتے ہیں اور یہ تھیراپی اس لیے کی جاتی ہے کہ جو شخص کس مرض سے شفایاب ہوا ہو اس کا پلازما لے کر اسی مرض میں مبتلا کس دوسرے مریض میں ڈالا جاتاہے، اس احتمال کی وجہ سے کہ شفاپانے والے مریض کے پلازما میں موجود کسی اینٹی باڈی سے وہ مرض ختم ہواہوگا تو ممکن ہے وہی اینٹی باڈی کسی اور مریض کو بھی اس مرض سے بچالے، البتہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ عمل ڈاکٹروں کے نزدیک بھی محض احتمال کا درجہ رکھتاہے۔
۲:…موجودہ صورت حال میں کورونا وائرس سے شفایاب ہونے والے شخص کا اس کا عطیہ کرنا کیسا ہے؟ جب کہ اس وبائی مرض کی ابھی تک کوئی دوائی دریافت نہیں کی گئی ہے اور اس تھیراپی کے ذریعہ امید ہے کہ کسی کو شفا ہوجائے، لیکن یہ محض احتمال ہے، ظن غالب نہیں ہے، کیا احتمال کی بنیاد پر پلازما ڈونیٹ کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے؟
پھر اس میں ایک دوسری خرابی، اس کی خرید وفروخت کی شکل میں بھی سامنے آرہی ہے جو کہ قطعاً ناجائز ہے۔ نیز فقہائے کرام نے خون عطیہ کرنے کی اجازت بھی اسی صورت میں دی ہے جبکہ واقعی ضرورت اور مجبوری ہو اور اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو۔
۳:…موجودہ صورت حال میں اس کے عطیہ کرنے کی اپیل کرنا یا ترغیب دینا کیسا ہے؟

 مستفتی:علی عثمانی

الجواب حامدًا ومصلیًا

واضح رہے کہ جب خون سے خون کے خلیے یعنی سفید اور سرخ خلیے نکال دیئے جائیں تو جو باقی ہلکے زرد رنگ کا مائع بچتا ہے اسے طب جدید کی اصطلاح میں پلازما کہا جاتاہے، یہ انسان کے دیگر اعضاء کی طرح مستحکم عضو نہیں ہے، بلکہ خون کی طرح انسان کا جزء ہے۔ جو مریض کرونا سے صحت یاب ہوجاتے ہیں ان کے خون میں کرونا وائرس کے خلاف دافع جسم (اینٹی باڈیز) بن جاتی ہیں، ان کے خون کے پلازما میں موجود یہ اینٹی باڈیز اگر کسی بیمار شخص کے جسم میں داخل کی جائیں تو اس کی صحت یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، علاج کا یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے، بلکہ طویل مدت سے مختلف قسم کے ایسے وبائی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہورہا ہے جن کی دوا اور ویکسین وغیرہ ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ ویسے تو دنیا کے تمام طریقہ ہائے علاج ظن اور احتمال کے درجہ میں ہیں، اسی طرح پلازما کے ذریعہ طریقۂ علاج بھی احتمال کے درجے میں ہے جو بعض مریضوں کے علاج میں مؤثر ہے اور بعض مریضوں کے لیے نقصان دہ غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ بہرحال اگر ماہر ڈاکٹر اس پر متفق ہوں اور یہ تشخیص کریں کہ یہ پلازما مریض کی صحت یابی کے لیے ممد اور معاون ہے تو ضرورت کے وقت خون کی طرح پلازما عطیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ضرورت کے وقت مستحسن عمل ہے، البتہ اس کی خرید وفروخت شرعاً ناجائز وحرام ہے۔حدیث شریف میں ہے:
’’عن أبي جُحیفۃ رحمہ اللّٰہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن ثمن الدم وثمن الکلب وکسب الأمۃ الخ۔‘‘ (صحیح بخاری، ج: ۱۰، ص:۲۹۸)

 الجواب صحیح

 الجواب صحیح الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکرسعید الرحمن

محمد انعام الحق عبد القادر

تقی الدین شامزی

   

دارالافتاء

   

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین