بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

پریشانیوں سے نجات کانسخہ

پریشانیوں سے نجات کانسخہ



اس وقت پوری امت گوناگوں مسائل، امراض اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے، اور طرح طرح کے عذابات کا شکار ہے، ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اس سے نجات کی کیا صورت ہے ، زیر نظر مضمون میں اس عمل کی ترغیب دی گئی ہے، جس کے اہتمام سے امت عذاب سے محفوظ ہوسکتی ہے، خود بھی اس عمل کا اہتمام کیجئے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں، انشاء اللہ امت کے حالات درست ہوجائیں گے۔
استغفار کی کثرت عذاب سے بچنے کا ذریعہ:
استغفار ایک ایسا عمل ہے جس پر وعدئہ خداوندی ہے کہ امت عذاب سے محفوظ رہے گی، آج ہم جو طرح طرح کے عذابات کا شکار ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی اور استغفارنہیں کرتے ، کیونکہ ا گر ہم گناہوں کے بعد سچے د ل سے استغفار کرتے رہتے تو ہم اس طرح کے پریشان کن حالات سے ہرگز دوچار نہ ہوتے، کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:
”وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون۔“ (الانفال:۳۳)
ترجمہ: ۔”اور اللہ تعالی ہرگز نہ عذاب کرتا ان پر جب تک تو رہتا ان میں اور اللہ ہرگز نہ عذاب کرے گا ان پر جب تک وہ معافی مانگتے رہیں گے ۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: ارض کائنات میں دو امان دیئے گئے، زمین کے دو امان میں سے ایک تو اٹھالیا گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور دوسرا باقی رہ گیا اور وہ استغفار ہے، اس کو مضبوط پکڑلو (روح کی بیماریوں کا علاج، ص:۳۱)
معلوم ہوا کہ امت جب تک استغفار کرتی رہے گی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے گی، اس کی مزید تائید اس حدیث شریف سے ہوتی ہے۔ مسند احمد میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
”العبد امن من عذاب اللہ کا ن استغفراللہ“
ترجمہ :۔”بندہ عذاب خداوندی سے امن میں ہے جب تک کہ وہ استغفار کرتا ہے۔“ معلوم ہوا کہ ہمیں ہر وقت استغفار یعنی گناہوں سے معافی مانگتے رہنا چاہئے۔
استغفار کیا ہے؟
استغفار کا معنی ہے :مغفرت طلب کرنا، یعنی جب انسان سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوجائے اور انسان اس پرنادم ہوگیا کہ میں نے اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا توشرع میں اس کو استغفار کہتے ہیں، لیکن استغفار میں اپنے گناہوں پر سچے دل سے ندامت ہو کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت رابعہ بصریہ  کا ارشاد ہے کہ: ہمارا استغفار ایک اور استغفار کا محتاج ہے، یعنی گناہوں سے سچے دل سے استغفار نہیں کرتے۔ امام غزالی  کا ارشاد ہے کہ: استغفار سے قبل ندامت ضروری ہے، ورنہ یہ ا ستغفار جو ندامت کے بغیر ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء کے مترادف ہے۔ (روح کی بیماریوں کا علاج، ص:۷۶)
اللہ کی رحمت وسیع ہے
انسان کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اسے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، اللہ کی وسیع رحمت کے سامنے ہمارے گناہوں کی کیا حیثیت ہے، بشرطیکہ انسان گناہوں پر نادم بھی ہو، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ شیطان نے کہا کہ اے رب! قسم ہے تیری عزت کی کہ میں تیرے بندوں کو بہکاتا ہی رہوں گا، جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی، اس پر اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی اور رتبہٴ بلندی کی قسم ہے، میں ان کو بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔ (مشکوٰة)
کثرت سے استغفار کرنے والے:
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت عمدہ حالت ہے، اس شخص کے لئے جو (قیامت کے دن) اپنے اعمال نامے میں کثیر استغفار پائے۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جو شخص چاہے کہ قیامت کے دن اس کا اعمال نامہ اس کو خوش کردے تو اس کو کثرت سے توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
استغفار کی برکت:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نگرانی کرنے والے دو فرشتے (یعنی اعمال لکھنے والے) کسی بھی دن جب اللہ جل شانہ کے حضور (کسی کا اعمال نامہ) پیش کرتے ہیں اور اس کے اول و آخر میں استغفار لکھا ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ کا ارشاد ہوتا ہے کہ میں اپنے بندہ کا وہ سب کچھ بخش دیا جو اس اعمال نامہ کے اول و آخر کے درمیان ہے۔ (بزاز)
استغفار کرنے والا گناہوں پر اصرار کرنے والا نہیں:
انسان سے بوجہ بشریت گناہ کا صدور ممکن ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ گناہ ہوجانا اور چیز ہے اور گناہ کرتے رہنا اور چیز ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
”ولم یصروا علی مافعلو وہم یعلمون۔“ ( اٰل عمران:۱۳۵)
ترجمہ:۔”اور اڑتے نہیں اپنے کیے پر اور وہ جانتے ہیں۔“ قابل ملامت اصرار علی المعصیت ہے،یعنی گناہ کرتے رہنا بُرا ہے، لیکن گناہ کے بعد اگر کوئی استغفار بھی کررہا ہے تو اللہ کے نزدیک یہ گناہوں پر اصرار کرنے والا نہیں، چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص استغفار کرتا رہے، وہ ان لوگوں میں شمار نہیں جو گناہوں پر اصرار کرنے والے ہیں، اگرچہ ایک دن میں ستر مرتبہ گناہ کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد) اللہ کی اس رحمت و مغفرت سے ہم فائدہ نہ اٹھائیں تو اس میں کسی کا کیا نقصان ہے، اپنی ہی کم نصیبی ہے، اگرگناہ نہیں چھوڑتے تو کم از کم سچے دل سے استغفار یعنی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی تو مانگتے رہیں، وہ تو اتنا رحیم ہے کہ جب بھی معافی مانگی جائے، فوراً معاف فرمادیتا ہے، لیکن ہم استغفار کرنے یعنی معافی مانگنے میں بھی غفلت کرتے ہیں۔
دنیوی پریشانیوں کا حل:
کثرتِ استغفار سے جہاں گناہوں کی معافی ہوتی ہے، وہاں دنیا کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص استغفار میں لگا رہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ بنادیں گے اور ہر فکر کو ہٹاکر کشادگی فرمادیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیں گے، جہاں سے اس کو دھیان بھی نہ ہوگا۔ (ابوداؤد)
لوگ دشواریوں کو ختم کرنے اور تکفرات سے نجات پانے اور رزق حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں، لیکن استغفار میں نہیں لگتے جوکہ بہت آسان نسخہ ہے، جس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ استغفار میں لگنے والا بندہ مذکورہ فوائد حاصل کرے گا۔ استغفارکرنے پر جن انعامات کا ذکر ہوا، وہی انعامات متقین کے لئے بھی وارد ہوئے ہیں، رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان جایئے کہ آپ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ میری امت کے خطا کار بندے محروم رہ جائیں، پس مستغفرین و تائبین (توبہ و استغفار کرنے والوں) کے لئے بھی ان ہی انعامات کا وعدہ فرمایا جو متقین کو عطا ہوں گے ( فضائل توبہ و استغفار، ص:۲۶) لہٰذا ہمیں گناہوں پر سچے دل سے استغفار کرنا چاہئے، تاکہ ہم بھی مذکورہ انعامات کے مستحق ہوسکیں۔
حکایت:
حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی ، یعنی بارش نہ ہونے کی، تو انہوں نے فرمایا: استغفار کرو، دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،تو اس کو بھی فرمایاکہ : استغفار کرو، تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونی کی شکایت کی،تو اس کو بھی فرمایاکہ: استغفار کرو، چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوار زمین میں کمی ہے،تو ان کو بھی فرمایاکہ: استغفار کرو، پس کہا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج تجویز فرمایا ؟تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:
”استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔“ (نوح:۱۰)
ترجمہ:۔ ”گناہ بخشواؤ اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنادے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادے گا۔“
یعنی استغفار پر اللہ تعالیٰ نے جن جن انعامات کا اوپر والی آیت میں ذکر فرمایا ہے تو ان چاروں شخصوں کو انہی کی حاجت درپیش تھی، لہٰذا حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے سب کو استغفار ہی تلقین فرمایا۔
مصائب کا حل ،استغفار کا اہتمام:
مولانا روم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہرچہ بر تو آید از ظلماتِ غم
غم چوں بینی زود استغفار کن
آن زیباکی و گستاخی است ہم
غم بامر خالق آید کارکن
ترجمہ: مولانا رومی فرماتے ہیں: اے انسان جو کچھ تجھ پر غم و مصائب اور ظلماتِ غم آتے ہیں وہ سب تیری بیباکی اور نافرمانی اور گستاخی کے سبب آتے ہیں، پس جب تو غم اور مصائب دیکھے تو جلد استغفار کر، کیونکہ یہ غم خدا کے حکم سے آتا ہے، ارشاد خداوندی ہے : اولا یرون انہم یفتنون، یعنی اور کیا ان کو دکھائی نہیں دیتا کہ یہ لوگ ہر سال میں ا یک یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی وہ باز نہیں آتے اور نہ وہ کچھ سمجھتے ہیں۔“
پوری امت کے لئے استغفار:
اپنے گناہوں پر تو استغفارکرنا ہی ہے، ساتھ ہی پوری امت کے لئے بھی مغفرت کی دعا کرنی ہے اور انہیں ا س بات کے لئے آمادہ کرنا ہے کہ ہم سارے کے سارے اللہ سے معافی مانگنے والے بن جائیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ سنا ہے کہ: جو شخص مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے استغفار کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مومن اور ہر مومنہ کے( استغفار) کے عوض ایک نیکی لکھ دے گا۔ ( طبرانی) کتنا سستا سودا ہے کہ تمام مومن مردوں اور عورتوں کے استغفار کے بدلے ایک ایک نیکی سے ہر مسلمان کے لئے کروڑوں نیکیاں جمع ہوجائیں گی۔
استغفار کے آسان صیغے:
۱:… استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ۔
۲:… رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین۔
۳:… استغفراللہ العظیم الذی لا الٰہ الا ہوالحی القیوم واتوب الیہ۔
اپنے گناہوں کو یاد کرکے ان میں سے کسی ایک صیغے کی روزانہ ایک تسبیح پڑھتے رہیں۔
توبہ:
استغفار کے ساتھ ساتھ توبہ کا بھی اہتمام ہو، استغفار کا مطلب گناہوں کی مغفرت چاہنا، جب کہ شرعی اصطلاح میں معصیت سے طاعت کی طرف لوٹنے اور جوع ہونے کا نام توبہ ہے، یعنی توبہ کرتے ہوئے اگر گناہوں کو نہیں چھوڑتا تو یہ حقیقی توبہ نہیں ہے۔
توبہ اور استغفار جدا جدا ہیں:
ارشاد خداوندی ہے:
”استغفرو ربکم ثم توبوا الیہ“ …( ھود:۵۲)
گناہ بخشواؤ اپنے رب سے پھر رجوع کرو اس کی طرف… اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر استغفار اور توبہ ایک ہی حقیقت رکھتے تو حق تعالیٰ شانہ دونوں کوالگ الگ بیان نہ فرماتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے :
”التوبة ندم“
یعنی توبہ ندامت اور شرمندگی کا نام ہے۔توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ: اس گناہ کو چھوڑدے، اگر گناہ نہیں چھوڑتاتو یہ صرف زبان سے توبہ اور استغفار کررہا ہے، جو صحیح توبہ نہیں ہے، اگرچہ استغفار کا ثواب مل جائے گا۔ (اصلاحی مقالات ص:۲۷۵)
توبہ کی ضرورت:
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا کوئی وقت گناہ سے خالی نہیں، کیونکہ گناہ کا معنی ہے: خدا تعالی کی نافرمانی کرنا، اب دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کس کس بات کا حکم دیا ہے اور کن کن کاموں سے منع فرمایا ہے اور ہم ان میں سے کتنے امور سے بچتے ہیں، تو معلوم ہوگا کہ ہمارا کوئی وقت گناہوں سے خالی نہیں ، اس لئے ہمیں ہر وقت توبہ کی ضرورت ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
”یا ایھاالذین آمنوا توبوا الی اللہ توبة نصوحاً۔“ (التحریم:۸)
ترجمہ:… ”اے ایمان والو!تو بہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ۔“
تمام مومنوں سے خطاب کرتے ہوئے حکم خداوندی ہے:
”وتوبوا الی اللہ جمیعاً ایہا المومنون لعلکم تفلحون۔“(نور:۳۱)
ترجمہ:’۔’اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو تاکہ تم بھلائی پاوٴ۔“ خدا تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ یوں نہیں فرمایا کہ: بالکل گناہ ہی نہ کرو، بلکہ یہ فرمایا کہ: اگر گناہ ہوجائے تو توبہ کرو۔ صاحبو! اس میں تو کوئی دقت نہیں ہے، اس میں تو ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔
مایوسی گناہ ہے
پس معلوم ہوا کہ آدمی کی خوش بختی اسی میں ہے کہ سابقہ گناہوں سے سچے دل سے معافی مانگ کر اللہ کی طرف رجوع کرلے، وہ مالک سارے گناہ معاف فرمادے گا، چاہے وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، اللہ کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا چاہئے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیسے اطمینان اور تسلی دے رہے ہیں:
”قل یٰعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطو من رحمة اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً انہ ہو الغفور الرحیم۔“ (زمر :۳ )
ترجمہ:۔”(اے پیغمبر ﷺ) کہہ دے اے میرے بندو! جنہوں نے کہ اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں ،تم خدا تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے گا، واقعی وہ بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین