بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

بینات

 
 

پروفیسر غلام محمد سوریا رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔ شجر ثمر آور و سایہ دار

پروفیسر غلام محمد سوریا رحمۃ اللہ علیہ 

شجر ثمر آور و سایہ دار


کچھ انسان ہماری زندگی میں پھل دار اور سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں، اس کے پھل کا لطف اُٹھاتے اور ان کے سائے میں راحت پاتے وقت ہمیں ان کی موجودگی اور ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوپاتا، لیکن جب وہ درخت گر جاتا ہے، تب موسم میں اس کا پھل، اور تمازت کے وقت اس کا سایہ خوب یاد آتا ہے، اور اس وقت احساس ہوتا ہے کہ کیا کچھ کھودیا ہے۔ جناب مکرم استاذ محترم غلام محمد سوریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی مجھ ایسے کئی ایک معلوم ونامعلوم لوگوں کے لیے اس پھل دار اور سایہ دار درخت کی طرح تھے، جن سے محرومی کا احساس ۲۴؍ذو الحجہ۱۴۴۱ھ/ ۱۴؍اگست۲۰۲۰ء بروز جمعہ اس وقت خوب ہوا جب یہ اطلاع ملی کہ وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر کے جہانِ جاودانی پہنچ چکے ہیں۔

استاذِ محترم سے تعلق

استاذِ محترم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے انگریزی زبان کے مدرس کی حیثیت سے وابستہ ہوئے اور تقریباً عرصہ سات سال تک وابستہ رہے۔ اس زمانے میں تخصص کے کئی طلبہ اور جامعہ کے کچھ اساتذہ نے آپ سے استفادہ کیا۔ آپ کی یہ محنت وکوشش آپ کے نامۂ اعمال کی ان حسناتِ جاریہ میں سے ہے جن کا ثواب ان شاء اللہ! وہاں آپ کو پہنچ رہا ہوگا۔ درجہ سابعہ کے سال استاذ محترم کو تخصص کے طلبہ کو سبق پڑھاتے ہوئے دیکھا تو خیال ہوا کہ استاذ محترم سے استفادہ کیا جائے، لیکن جب آپ سے درخواست کی تو آپ نے صاف انکار کرتے ہوئے جو عذر پیش کیا اس میں بڑا سبق تھا، آپ نے کہا کہ: جامعہ کی انتظامیہ کی طرف سے مجھے صرف تخصص کے طلبہ کو سبق پڑھانے کی اجازت ہے، اس لیے اس سبق میں تم شریک نہیں ہوسکتے۔ قسمت کی یاوری سے جب تخصص فی الفقہ میں داخلہ ہوا تو باقاعدہ استاذ محترم سے تعلق استوار ہوا اور رفتہ رفتہ یہ تعلق اس قدر گہرا ہوتا گیا کہ آپ کی ذات گرامی کی حیثیت میرے لیے صرف انگریزی زبان کے استاذ کی نہ رہی تھی، بلکہ ایک ایسے دردمند اور خیر خواہ رہنما کی ہوگئی جنہوں نے زندگی کے نشیب وفراز میں میرا ہاتھ تھاما، اور مشکل گھاٹیوں سے سہارا دے دے کر مجھے گزارا۔ میں زندگی بھر آپ کی ہمدردی اور مدد کے احسانات کے زیرِ بار رہوں گا۔ میں صرف بارگاہِ الٰہی میں دامن پھیلا کر دعا ہی کرسکتا ہوں کہ وہ پروردگار استاذ محترم کو مجھ پر اُن کے کیے ان احسانات کا بدلہ اپنی شان کے مطابق عطا فرمائے،آمین 

الف: اللہ تعالیٰ سے محبت وتعلق 

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی چیز کی محبت انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کرے۔ استاذِ محترم کی گفتگو میں بھی میں نے اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کا بہت سنا، جا بجا آپ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت اور صفتِ محبت کو بہت زیادہ ذکر کیا کرتے تھے، کہا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ کی رحمت کو مسلمان بھول گئے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں؟! اللہ تعالیٰ کی طاقت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے، اس بات کو خوب بیان کرنے کی ضرورت ہے، انسانوں کو اللہ کا تعارف کروانا اس وقت اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، فضا میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق مایوسی چھائی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت کے واقعات لوگوں کو سنانا اس وقت اُمتِ مسلمہ کے ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ تبلیغی اجتماعات میں جہاں کہیں آپ کی گفتگو سنی آپ کا موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کا تعارف ہی ہوتا، اور گفتگو کرتے کرتے خوب جوش میں آجاتے، ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کے مصداق آپ سے جب بھی اللہ تعالیٰ کا تذکرہ سنتا تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور دل میں ایک کیفیت محسوس ہوتی۔ اللہ جل جلالہٗ کی ذات عالی سے ایسی محبت کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ سعودی عرب میں ملازمت کے دوران ہی آپ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ یہاں مستقل قیام نہیں کرنا، بلکہ جلد یا بدیر پاکستان لوٹنا ہے، اسی وجہ سے وہاں گھر میں انتہائی ضرورت کا سامان ہی رکھتے تھے، ضرورت کے مطابق برتن، بستر اور فرنیچر، اور مستقل قیام نہ کرنے کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ :’’حرمِ مکی اور حرمِ مدنی کے قریب مستقل قیام سے ان مقدس مقامات کی عظمت اور محبت میں کمی کا اندیشہ ہے، اور ان مقاماتِ مقدسہ کی عظمت اور محبت میں کمی بڑے نقصان اور خسارے کی بات ہے، جو قدر اور اہمیت دور رہ کر دل میں پیدا ہوتی ہے، وہ قریب رہ کر کہیں کمزور نہ پڑ جائے، اس لیے ہم یہاں مستقل قیام نہیں کرسکتے۔‘‘ 

ب: کر بھلا ہو بھلا

یہ آپ کا وہ جملہ تھا جو کئی دفعہ بطور سبق اور نصیحت مجھے کہا کرتے تھے، اور جو وقت آپ کے ساتھ گزارا آپ کے عمل سے با رہا تجربہ کیا کہ اس جملے پر آپ خصوصی طور پر عمل پیرا ہیں۔ مصیبت اور پریشانی کے وقت میں جب بھی کسی کو آپ سے رابطہ کرتے دیکھا تو آپ کی کیفیت سے محسوس کیا کہ اس کے غم کو آپ محسوس کررہے ہیں، اور اس کے مسئلے کے حل کرنے کے لیے جو کچھ بن پڑے کر گزرنا چاہتے ہیں۔ اپنی جسمانی تکلیف اور کمزوری کی پرواہ کیے بغیر اس مصیبت زدہ کی امداد کے لیے چل پڑتے تھے۔کئی ایک معلوم اور نا معلوم افراد میرے علم میں ہیں، جن کی مالی معاونت آپ کی طرف سے جاری تھی اور اس کی اطلاع سوائے چند افراد اور کسی کو نہیں تھی۔ وفات کے بعد ایسے افراد کو آپ کے لیے آنسو بہاتے اور بخشش کی دعا کرتے ہوئے دیکھا، اور بارگاہِ خداوندی میں دل کی گہرائی کے ساتھ نکلی ایسی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ استانی صاحبہ (آپ کی اہلیہ) کے بقول:’’ پچیس سال کا عرصہ جو سعودی عرب میں ملازمت کے سلسلے میں گزارا، اس عرصے میں جو کچھ کمایا اس میں سے اپنی ذات کے لیے بہت کم، صرف بقدرِ ضرورت رکھا، بقیہ سب کچھ اپنی والدہ صاحبہ کو بھجوادیا کرتے تھے۔ پچیس سال کی ملازمت کے بعد جب وطن واپسی ہوئی تو رہائش کے لیے ذاتی مکان تک نہیں تھا، ان کی ہمشیرہ نے ان کے بھیجے ہوئے پیسوں سے بچا کر جو کچھ جوڑ رکھا تھا اس رقم سے ایک فلیٹ گھر والوں کی رہائش کے لیے بطور تحفہ دیا۔ کچھ سالوں سے ان کا معمول یہ تھا کہ استانی صاحبہ سے صرف پچاس، یا سو روپے لے کر نکلتے، تاکہ کرائے کا بندوبست ہو جائے یا ذیابیطس(شوگر) کے مرض کی وجہ سے ناقابلِ برداشت بھوک لگے تو تھوڑا بہت کھا لیں۔ــ‘‘ اور یہ بات میں نے بارہا دیکھی کہ یہ پچاس اور سو روپے بھی اپنے لیے کچھ معمولی سی چیز خریدنے کے علاوہ کسی کے اکرام میں یا کسی کی حاجت روی میں خرچ کردیا کرتے تھے۔ 

ج: اُمتِ مسلمہ کی دینی حالتِ زار کی فکر اور کڑھن

تبلیغی جماعت سے بہت گہری وابستگی تھی، اور تبلیغی جماعت سے مخلصانہ تعلق پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بھی آپ میں خوب نمایاں تھے۔ اس گہرے تعلق کی ایک بڑی وجہ سعودی عرب کے زمانۂ قیام میں مولانا سعید احمد خانؒ صاحب سے گہرا اور قریبی تعلق تھا، اپنے بچوں کی تعلیم تک کے مشورے حضرت مولانا سعید احمد خان صاحبؒ سے فرمایا کرتے تھے۔ مولانا سعید احمد خانؒ صاحب ایسے صاحبِ فکر داعی کی اسی صحبتِ نیک کا اثر تھا کہ آپ مسلمانوں کی دینی کمزوری پر بہت زیادہ غم کا اظہار کیا کرتے تھے، کہا کرتے تھے کہ: ملازمت کے سبب جب سعودی عرب کے شہر جدہ یا ریاض میں رہائش تھی تو معمول تھا کہ چھٹی کے ایام‘ ایک ہفتہ حرمِ مکی اور ایک ہفتہ حرمِ مدنی میں گزرتا تھا، وہاں اُردو بولنے والے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں سے علیک سلیک اور تعلق کے بعد اُنہیں طہارت کے چھوٹے چھوٹے مسائل سکھایا کرتا تھا، اور اس وقت احساس ہوا کہ جب عوام کو طہارت ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل کا بھی شرعی علم نہیں ہے، تو اس سے بڑھ کر زندگی کے سنجیدہ مسائل کے بارے میں ان کی ناواقفیت کی کیا صورت حال ہوگی۔ جسمانی کمزوری اور بیماریوں کی تکلیف کے باوجود آپ تبلیغی جماعت کے ہفتہ واری اعمال میں جڑنے کی کوشش کرتے اور جماعت کی نصرت کے لیے جیسے بن پڑتا، ملاقات کی کوشش کرتے۔

د: محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے محبت

بانیِ جامعہ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو بہت زیادہ قلبی تعلق تھا۔ آپؒ کی حیات پر شائع شدہ ماہ نامہ بینات کا خاص نمبر آپ نے خوب مطالعہ کیا ہوا تھا، اور حضرت بنوریؒ کے اخلاص، زہد، تقویٰ، علم اور اُمتِ مسلمہ کے لیے آپ کی دردمندی کے کئی واقعات آپ کو یاد تھے، اور موقع بہ موقع ان کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ اگر یوں کہا جائے کہ حضرت بنوریؒ کی محبت آپ کے دل میں تمام اہلِ علم کی محبت پر غالب تھی تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ آپ نے حضرت بنوریؒ کی سیرت وسوانح پر انگریزی زبان میں ایک کتاب بھی مرتب کی تھی، نیز ’’دورِ حاضر کے فتنے اور اُن کا علاج‘‘ کے نام سے حضرت بنوری ؒ کے مجموعۂ مضامین کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ 

ہ: طلبائے علومِ دینیہ سے والہانہ تعلق

طلبائے علومِ دینیہ سے والہانہ اور بے لوث محبت کیا کرتے تھے، ان کی پریشانی سے پریشان اور ان کی خوشی سے خوش ہوجایا کرتے تھے، کچھ سالوں سے آپ نے پڑھانے کے لیے تشریف لانا چھوڑ دیا تھا، جب ان سے میں نے درخواست کی کہ اس سلسلے کو ختم نہ کریں تو جو جواب انہوں نے دیا، اس میں ایک طرف طلبہ سے اُن کی دلی وابستگی واضح ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کی قدر بڑھتی ہے کہ وہ اپنے اعمال کا کس باریک بینی سے محاسبہ کیا کرتے تھے، آپ نے کہا: میرا جامعہ آنا اور طلبہ کو پڑھانااس غرض سے تھا کہ یہ وارثانِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ان سے محبت کرنا اور ان کا اکرام کرنا ہمارا فرض ہے، چونکہ میں ذیابیطس کا مریض ہوں اور اس مرض میں اپنے غصے پر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے غصے میں کبھی طلبہ سے ناراضگی بھی ہوجاتی ہے، جس سے ان کے دل میں میرے لیے برائی آسکتی ہے، میں تو اُن کو پڑھانے اس وجہ سے جاتا ہوں کہ میری آخرت سنور جائے اور ان کو ناراض کر کے میں اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کردوں، یہ بات مجھے پسند نہیں، بس اس خیال سے میں نے اب جانا چھوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ استاذ محترم کو فردوسِ بریں آپ کا مسکن بنائے، آپ کی حسنات کو قبول فرمائے، آپ کی لغزشوں سے درگزر فرمائے، اور آپ کی ان لائقِ تقلید صفاتِ حمیدہ اور قابلِ اتباع اخلاقِ کریمانہ سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے، آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین