بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پردہ وحجاب... امن وسلامتی کی ضمانت!

پردہ وحجاب... امن وسلامتی کی ضمانت!

 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

جب سے دنیائے انسانیت اپنے خالق ومالک اور اپنے مربی و محافظ کے احکامات و تعلیمات سے منہ موڑ کر دور ہوئی ہے، تب سے وہ گویا ایک گرداب اور بھنور میں جکڑ اور پھنس چکی ہے۔ دائیں بائیں ہچکولے کھارہی ہے، اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے، لیکن اسے اس مشکل اور مصیبت سے نکلنے کی کوئی راہ اور کنارہ نظر نہیں آرہا۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہر ملک کے باشندے سربراہِ مملکت ہوں یا عام رعایا، مسلم ہوں یا غیر مسلم، سب ایک انجانی سی جھنجھلاہٹ اور ایک ہیجانی سی کیفیت میں مبتلا نظر آتے ہیں، انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ زندگی گزاریں تو کیسے گزاریں؟ اور معاشرہ کو امن وسلامتی کے ساتھ آگے لے جائیں تو کس طرح لے جائیں؟
مسلم حکمران اسلامی تعلیمات سے غیراعلانیہ اغماض برت کر فکرِکفار اور مغربی تہذیب کو اپنے لیے کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں، اس لیے ہر دن ان کی پالیسیاں مغربی افکار اور ان کی تہذیب سے ہم آہنگ ہونے کا نظارہ پیش کرتی ہیں، جب کہ غیرمسلم حکمرانوں نے ایکا کرلیا ہے کہ ہم نے اسلام، اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب اور اسلامی شعائر کو مٹانا، ان کو فرسودہ قراردینا اور ان کو غیرمؤثر کرنا ہے، اس لیے وہ کبھی اذان پر پابندی لگاتے ہیں تو کبھی مساجد کے میناروں کو گرانے کا حکم دیتے ہیں۔ کبھی نعوذباللہ! پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکے بناتے ہیں تو کبھی قرآن کریم کو جلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ اب ان کا نشانہ مسلم خواتین کا حجاب اور پردہ ہے۔ پہلے فرانس نے پابندی لگائی اور باپردہ مسلم خواتین پر جرمانے عائد کیے، پھر ڈنمارک اور سوئٹزر لینڈ اور دوسرے مغربی ممالک نے مذہب سے انسانی آزادی کے اجتماعی اور ملحدانہ تصور کی بنیاد پر حجاب کو انسانی حقوق کے خلاف قراردیا اور اس غلط نظریے کی وجہ سے حجاب پر پابندی عائد کردی۔ الحمد للہ! باہمت، باحیا اور باکردار مسلم خواتین نے پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پردہ اور حجاب پر جرمانے قبول کیے، طعنے سہے، حتیٰ کہ حجاب کی بناپر ان کی شہادتیں بھی ہوئیں، لیکن انہوں نے حجاب اور پردہ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔
 اب بھارت نے اپنے مغربی آقاؤں کی آشیرباد اور ہلہ شیری کی وجہ سے ریاست کرناٹک جہاں مودی کی جماعت کی حکومت ہے، وہاں کے تعلیمی اداروں میں مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کردی ہے، یہ پابندی کسی ضابطہ اور قانون کی بناپر نہیں، بلکہ ایک اسکول میں متعصب ٹیچر نے ایک طالبہ کو باپردہ ہونے کی بناپر کلاس سے اٹھادیا، اس کی دیکھا دیکھی دوسرے اسکولوں میں بھی غیراعلانیہ اس پر عمل ہونے لگا، اسی اثنا میں ایک طالبہ مسکان نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ متعصب اور جنونی غنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا برقع اور حجاب نہیں اُتارا، بلکہ نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کہہ کر پوری مسلم برادری کو بھی ایک بھولا ہوا سبق یاد دلادیا کہ مشکل وقت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی مدد کرتا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم مان کر اس سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی بدھ ۹؍ فروری ۲۰۲۲ء میں ہے:
’’نئی دہلی، لکھنؤ (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) بھارت میں ہراسانی کا شکار با حجاب طالبہ کے نعرہ اللہ اکبر کی گونج‘ ریاست کرناٹک کے ایک کالج میں زعفرانی مفلر پہنے طالب علموں نے مہاتما گاندھی میموریل کالج میں باحجاب طالبات کو ہراساں کیا اور ان کے خلاف نعرے لگائے۔ انڈین میڈیا کے مطابق منگل کو سو سے زائد طالب علم کالج میں گھس گئے اور طالبات کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی ، تعلیمی ادارہ جے شری رام اور اللہ اکبر سے گونج اٹھا، طالب علموں نے کالج کے دروازے پر اپنا تعارف آ کھل بھارتیہ ودیار تھی پر شاد (اے بی وی پی ) کے ارکان کے طور پر کرایا۔ ہراساں کیے جانے کے باوجود ہجوم کے سامنے اللہ اکبر کے نعرے لگانے والی مسلمان لڑکی مسکان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے انڈیا اور پاکستان میں اللہ اکبر ٹرینڈ کر نے لگا ہے۔ ایک انڈین نیوز چینل سے گفتگو کر تے ہوئے مسکان کا کہنا تھا کہ وہ پریشان نہیں تھیں، وہ اپنی اسائنمنٹ جمع کرانے کے لیے کالج گئی تھیں، لیکن وہاں موجود ہجوم نے انہیں برقع میں ملبوس ہونے کی وجہ سے اندر نہ جانے دیا۔ اس موقع پر انہوں نے میرے سامنے شور شرابا کر تے ہو ئے نعرے لگائے، جس کے جواب میں‘ میں نے بلند آواز میں اللہ اکبر پکارنا شروع کردیا۔ مسکان کا کہنا تھا کہ وہ حجاب پہننے کے اپنے حق سے متعلق جد و جہد جاری رکھیں گی ۔ طالبہ نے ہجوم کے سامنے اللہ اکبر پکارنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا، جب وہاں موجود انتظامیہ کے کچھ افراد نے انہیں ہجوم سے بچایا۔‘‘ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، ۹؍ فروری ۲۰۲۲ء)
اس واقعہ کے خلاف ریاست کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے اور حالات کشیدہ ہونے پر ریاستی حکومت کو تعلیمی ادارے تین دن بند کرنا پڑے۔ ہندو انتہا پسند کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں مسلمان طالبات کو مسلسل ہراساں کررہے ہیں، جس کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ جمعیت علمائے ہند نے مسکان کی جرأت مندی پر اسے پانچ لاکھ روپے بطور انعام دیئے۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ہدایت پر ۱۸؍ فروری ۲۰۲۲ء بروز جمعہ کو ملک بھر کی مساجد میں حجاب اور پردہ کے موضوعات پر جہاں بیان کیے گئے، وہاں جمعہ کے اجتماعات میں بھارت کے خلاف مذمتی قراردادیں بھی منظور کی گئیںاور بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف مظاہرے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔
اس بھارتی درندگی پر سب سے زیادہ مؤثر ردِ عمل کویتی عوام اور کویتی اراکین پارلیمنٹ نے دیا، جہاں ۲۲ کویتی اراکین پارلیمنٹ بھارت میں حجاب پر پابندی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور دستخط شدہ ایک بیان جاری کیا، بیان میں حجاب کو مسلمان خواتین کا شرعی اور آئینی حق قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مودی سرکار کی جانب سے حجاب پر پابندی دراصل مسلم خواتین کو اپنا دین اور سماجی شناخت چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔ انھوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق سمیت اسلامی تنظیموں، حکومتوں اور کویت کی وزارتِ خارجہ سے بھارت کی انتہاپسند سرکار کو بیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف جاری وحشیانہ اقدامات روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس سے پہلے گیارہ اراکینِ پارلیمنٹ نے بھارت کی جماعت بی جے پی سے وابستہ تمام افراد کا کویت میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
ادھر جب یہ معاملہ بھارت کی نچلی عدالت میں گیا تو اس نے بڑی عدالت میں بھیج دیا، اس عدالت نے بھی اس پابندی کو جواز دیا اور حکم دیا کہ فیصلہ آنے تک حجاب پر پابندی برقرار رہے گی، حالانکہ بھارت کے آئین میں مسلمانوں کو ان کی مذہبی آزادی اور تہذیبی روایات پر عمل کی اجازت دی گئی ہے۔ اب بھارت کی کئی ریاستوں میں جابجا فساد ہورہے ہیں، طالبات نے امتحانات کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ کرناٹک کے کالج میں ایک مسلم خاتون انگلش لیکچرر نے حجاب اُتارنے کا حکم ماننے کے بجائے استعفا دے دیا ، اس نے کہا کہ: حجاب اُتارنے کے حکم سے میری عزتِ نفس مجروح ہوئی ہے، پچھلے تین سال سے حجاب کرکے کالج آرہی ہوں، مذہبی آزادی کا حق ملکی آئین دیتا ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ حجاب پر پابندی کے غیرجمہوری اقدام کی مذمت کرتی ہوں۔
ہمارے ملک پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی بھارتی سفارت خانے کے ناظم الامور کو طلب کرکے خواتین کے حجاب کے خلاف شرانگیز مہم جوئی اور مسلم خواتین کو ہراساں کرنے جیسے سنگین واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت انتہاپسندی پر مشتمل پالیسیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو کچلنے جیسے اقدامات سے باز رہے۔
برقع پہننا، اسکارف اوڑھنا، نقاب کرنا، حجاب سے چہرے اور جسم کو چھپاکر گھر سے باہر نکلنا، مسلمان خواتین کے لیے دینی تقاضا ہے، جو کہ اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان اور مذاہب میں بھی اس کی تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے اور ہر باشعور اور عقل مند آدمی حجاب اور پردہ کو نہ صرف یہ کہ خواتین کی عزت، حرمت، عصمت، حیا اور شرم کے لیے ضروری قراردیتا ہے، بلکہ مردوں کے لیے بھی بدنظری، غلط خیالات اور گناہوں سے بچنے کے لیے لازمی امر سمجھتا ہے۔
خواتین کا حجاب بے حیائی کی روک تھام اور جنسی ہراسانی کے سدّباب کا واحد حل ہے، صرف مسلم ہی نہیں غیرمسلم خواتین کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر قراردینا عین عقل مندی ہے۔ اس پر حیا سے محروم دنیا کی غیرمسلم خواتین کے تجربے اور تجزئیے بھی میڈیا پر عام ہوئے ہیں۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی حجاب اور پردہ کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس پر عمل ہونا چاہیے اور ایسے لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے جو یہاں بھی حجاب، اسکارف اور پردہ کرنے والی خواتین کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ بالخصوص میڈیا مالکان اور ان کے کارپردازان اپنے ہاں خبریں پڑھنے والی خواتین ہوں یا پروگراموں کی میزبانی کرنے والی اینکر ان کے لیے حجاب اور پردہ کے روادار نہیں۔ اسی طرح کتنے پرائیویٹ اور مشنری تعلیمی ادارے ہیں، جن میں طالبات کے حجاب اور پردہ تو دور کی بات ہے، سرپر دوپٹہ لینے کی بھی اجازت نہیں۔ اسی طرح شادی بیاہوں میں مردوزن کا اختلاط عام ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مرد وزن کا اختلاط بھی ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ بہرحال جہاں ہم دنیا بھر میں خواتین کے باپردہ ہونے پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں، وہاں ہمیں خود بھی اپنے ہاں ایسے ماحول کے احیاء پر زور دینا چاہیے، جہاں بے پردگی اور خواتین کی آزادی کے نام پر چہرے اور جسم کو نہ ڈھانپنے کی کوئی کوشش نہ کی جاتی ہو، ورنہ ہمارا یہ احتجاج نہ صرف یہ کہ دنیا بھر کی مظلوم، باحیا، باکردار اور باغیرت مسلم خواتین کے لیے غیرمؤثر ثابت ہوگا، بلکہ دنیا میں ذلت ورسوائی کے ساتھ ساتھ آخرت میں وبال بھی بھگتنا پڑے گا، ولافعل اللہ ذٰلک۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین