بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پاکستان کے عذابِ الٰہی سے محفوظ رہنے کی وجہ

پاکستان کے عذابِ الٰہی سے محفوظ رہنے کی وجہ واضح رہے کہ پاکستان کی اس پاک سر زمین پر بطور استہزائ' اللہ کے پسندیدہ ''دینِ اسلام'' کو ''ملاازم '' اور اس کے حاملین علماء حق کو '' ملا''کہہ کر مذاق اُڑانے اور تو ہین کر نے والوں پر قہرِ خداوندی کی بجلی نہ گر نے اور عذابِ الٰہی سے محفوظ رہنے کا سبب آیتِ کریمہ ''وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعِذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ'' کی روشنی میں صرف یہ ہے کہ: پاکستان کے عوام کے دلوں میں قوتِ ایمان زندہ اور روحِ اسلام بیدار ہے، اور اونچے طبقہ کو چھوڑ کر متو سط اور ادنیٰ طبقہ کی اکثریت کسی نہ کسی حدتک کم ازکم انفرادی زندگی میں احکامِ شر عیہ کی پابند ہے۔ چپہ چپہ پر مسجد یں آباد ہےں، پنج و قتہ اذان کی آواز یں گونج رہی ہیں۔ عربی مدارس میں ''قال اللّٰہ و قال الرسولؐ'' کی آسمان سے رحمت الٰہی کو لا نے والی آوازیں بلند ہور ہی ہیں۔ تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی کتابیں ادنیٰ سے اعلیٰ تک با قاعدہ پڑھائی جارہی ہیں اور قانونِ الٰہی کو زندہ اور محفوظ رکھنے کے لیے حاملینِ علوم انبیاء تیار کیے جارہے ہیں۔ مکاتبِ قرآن جگہ جگہ بے شمار کھلے ہوئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے حفظ اور ناظرہ باتجوید اور بے تجوید قرآن پڑھنے میں مصروف ہیں۔ وعظ وتذکیرکے خوفِ خدا اور خوفِ آخرت کو زندہ اور بیدار رکھنے والے ہفتہ وار حلقے (اجتماعات ) جمعہ کے جمعہ نمازِ جمعہ کے بعد قائم ہیں، تبلیغی جماعتوں کے پیارو محبت سے کلمہئ طیبہ اور نماز پڑھوا نے وغیرہ کی غرض سے تبلیغی دورے جاری ہیں۔ احکام شرعیہ اور مسائل دینیہ بتلا نے کے لیے جگہ جگہ دارالا فتاء کھلے ہوئے ہیں۔ صرف ان دارالا فتاؤں سے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق مختلف اور متنوع احکام شرعیہ کے استفتائ(سوالات)اوران کے جوابوں کی ہزاروں لا کھوں تک پہنچنے والی تعداد ہی اس امر کا ناقابل تر دید ثبوت ہے کہ اس ملک کا عام مزاج دینی ہے اور غالب اکثریت کے دلوں میں ہر شعبہئ زندگی کے اندر احکامِ شرعیہ معلوم کر نے کی تڑپ ضرور موجود ہے اور جہاں تک ملکی حالات مساعدت کرتے ہیں' اُن پر عمل بھی کرتی ہے، استفتائ( سوال کرنا) اس کی دلیل ہے ۔ اور یہ بتلا نے کی تو ضرورت نہےں، ہر ذی ہوش سمجھتا اور مانتا ہے کہ یہ تمام تر صورت حال صرف انہی حکومت کے کنٹرول سے آزاد عربی مدارس، دینی مکاتب کی بر کات اور دولت ورفاہیت پر فقر وافلاس کو ترجیح دینے والے اور اس فقر کو خدا کی رحمت باور کر نے والے حاملینِ علومِ دینیہ علماء حق کی دیر ینہ اور مسلسل جد وجہد اور ان کی مساعی مشکورہ ( عند اللہ وعند الناس)کا نتیجہ اور خالقِ کا ئنات جل وعلا کی تو فیقِ خدمتِ دین عطا فرمانے کا ثمرہ ہیں۔ اس لیے بھی خاص طور پر ان گستاخ اور دریدہ دہن ملحدوں،بے دینوں اور علوم دینیہ اور علماء دین کو گالیاں دینے والوں اور ان کے ہمنواؤں کو ان حکومت کے کنٹرول سے آزاد علوم دینیہ کی درسگاہوں اور ان سے نکلنے والے علماء وخدامِ دین کے پاکستان میں وجود کو مغتنم اورقہرِ خداوندی سے بچا نے والی پناہ گا ہیں اور پناہ دہندہ سمجھنا چاہیے، ورنہ اگر خدا نا کر دہ اس مسلمان ملک کے عوام وخواص پر بھی وہی عام بے دینی، خدافراموشی، اغراض وخواہشات پرستی اور روحانیت کش مادہ پر ستی مسلط ہوجاتی جو دوسرے اشترا کیت نواز مسلم ممالک پر مسلط ہے تو یہ ملک بھی آج دوسرے مسلمان اشتراکیت پسند ملکوں کی طرح کسی نہ کسی صورت میں قہرِخداوندی اور انتقامِ الٰہی کا نشانہ بنا ہوتا، ارشاد ہے: ''نَسُوْا اللّٰہَ فَأَنْسَاھُمْ أَنْفُسَھُمْ۔'' (الحشر:١٩) '' انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے ان سے خود اپنے نفسوں کو فراموش کرادیا۔'' یعنی خالقِ کائنات خدا فر اموش لوگوں کو اس خدا فر اموشی کے جرم کی سزا دنیا میں یہ دیتا ہے کہ انہیں خود فر اموش بنادیتا ہے تو وہ اپنے بقا وتحفظ کی تد بیریں سو چنے اور اسباب اختیار کرنے کے بجائے خود اپنی ہلاکت وبر بادی کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور صفحہئ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ اقوامِ عالم کے عروج وزوال کی تاریخ اس کی شاہد ہے، یہ انتہائی تباہ کن انتقامِ خداوندی ہے۔ ارحم الراحمین اپنے لطف وکرم سے اس نوز ائیدہ اسلامی مملکت کو اس خدا فراموشی کے جرم کے ارتکاب سے اور اس کی پاداش میں اس انتقام الٰہی سے محفوظ رکھے اور ہماری بد اعمالیوں کو معاف فرمائے۔ ''أللّٰھم إنا نعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک ونعوذبک منک۔'' دین کے محافظ علماء حق ہیں بہر حال سن لیجئے! اسلام خالقِ کا ئنات کا پسندیدہ اور کامل تر ین دین ہے، وہی اس کا شارع اور قانون ساز ہے، اسی نے نوعِ انسانی کی آخری ہدایت کے طور پر نبی آخر الز ماں aکے تو سط سے اس کو اُتارا ہے اور اس کا حامل اور محافظ اُمتِ محمد یہ (l)کے علماءِ حق کو بنایا ہے،ارشاد ہے: ''وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْ عُوْنَ إِلٰی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔'' (آل عمران:١٠٤) '' چا ہیے کہ تم میں سے ایک جماعت (تیار) ہو وہ خیر ( دین) کی طرف( لوگوں کو) دعوت دے، بھلے کا موں کا حکم دے، برے کا موں سے منع کر ے۔'' ''فَلَوْلَانَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْ قَۃٍ مِّنْھُمْ طَا ئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْھِمْ۔'' (التوبۃ:١٢٢) '' کیوں نہ نکلا اُن میں سے ہر فر قہ کا ایک گر وہ، تاکہ وہ دین میں سمجھ (علوم دینیہ) حاصل کرتا اور جب وہ لوٹ کر جاتا تو اپنی قوم کو با خبر کرتا ۔'' چنانچہ علماءِ امت نے اللہ جل شانہ، کی تو فیق واعانت سے ہر زمانہ اور ہردور میں اس کو حاصل کیا ہے، اس کے حصول کو جاری وساری رکھنے اور اس کی حفاظت کے لیے معاون علوم کی تدوین کی ہے، تصانیف لکھی ہیں، علوم دینیہ کی در سگا ہیں قائم کی ہیں اور قرآن وحدیث اور ان کے معاون علوم دینیہ کی درس وتد ریس کا سلسلہ جاری کیا ہے۔ یہ سلسلہ محض اللہ کی تو فیق واعانت سے حکومتوں کی امداد واعانت اور کنٹرول کے بغیر صد یوں سے جاری ہے اور ایسے ہی قیامت تک جاری رہے گا، مخبر صادقa نے خبردی ہے: ''یحمل ھذا العلمَ من کل خَلَف عدولُہ۔'' (مشکوٰۃ، کتاب العلم،ج:١، ص:٣٦، ط:قدیمی) جو کوئی فر دیا قوم یا حکومت اس کو مٹا نے اور نوعِ انسانی کے اس آخری''منارہئ نور''کو گل کرنے کا قصد کر ے گی، اس کی زندگی کا چراغ خود گل کر دیا جائے گا اور صفحہئ ہستی سے اس کا نام ونشان مٹادیا جائے گا اور یہ منارہ روشنی جب تک اللہ چاہے گا' رشد وہدایت کی روشنی بہم پہنچاتا رہے گا،ارشاد ہے: ''یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِأَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔'' (الصف:٨) '' وہ ( دشمن)چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور (دین ) کو پورا کر کے رہے گا، اگر چہ منکروں کو کتنا ہی نا گوار ہو۔'' اور اس سلسلہ کا حقیقی محافظ خالقِ کائنات حق جلا وعلیٰ ہے، ارشاد ہے : ''إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہ، لَحٰفِظُوْنَ۔'' (الحجر:٩) '' بے شک ہم ہی نے اس ذکر (دین) کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔'' اب اگر کوئی فرد یا جماعت، حکومت یا قوم اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنا اور ہلاکو خاں، چنگیز خاں، اکبر اور اس کے ہر دو شیطانوں ابو الفضل اور فیضی، کمال اتا ترک اور آخر میں مسلم اشترا کیت نواز ممالک کے زُعماء اور بر سر اقتدار پارٹیوں کے نقشِ قدم پر چل کر خود کشی کرنا چاہتی ہے' شوق سے کرے۔ علماءِ دین اور حاملینِ شرع متین بھی سر بکف،بر ہنہ جسم پر تا ز یا نے کھا نے دار ورسن پر چڑھنے اور دم واپسیں تک کلمہ حق کہتے رہنے کے لیے تیار ہیں۔ علماء کے لیے بھی یہ کھیل کوئی نیا کھیل نہ ہوگا، بلکہ یہ مقاومت اور مقابلہ اور آزمائش تو ان کے اسلاف واکابر کی سنت ہے، اس کے باوجود ارحم الر احمین سے دعا کہ وہ پاکستان کے علماء حق کو اس ابتلاء سے محفوظ رکھے اور اپنی پناہ میں لے کرا س دینی خدمت کے سلسلہ کو جاری وساری اور قائم ودائم رکھے، آمین۔  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین