بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

پاکستان: بیرونی مداخلت کی آماجگاہ کیوں؟


پاکستان: بیرونی مداخلت کی آماجگاہ کیوں؟

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

ایک وقت تھا کہ ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم اور ترقی کی منازل طے کر رہا تھا، پھر اچانک اس وقت کے وزیراعظم کی تبدیلی، اس کے بعد الیکشن میں ایک خاص تکنیک کے ذریعے ایک جماعت کو مصنوعی طریقے پر کرسیِ اقتدار پر براجمان کرانا، اور پھر اس جماعت کی آڑ میں قادیانیوں کی یلغار، اور پس پردہ پاکستان کے کلیدی عہدوں پر ان کے تسلط کی کوششیں، یورپی یونین کے دباؤپر آسیہ ملعونہ کی رہائی اور بیرونِ ملک اس کو بھیجا جانا، قومی اسمبلی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ، آئین سے تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوششیں، ختمِ نبوت کے حلف نامہ کو ختم کرنے کی جسارتیں، اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کو ورلڈ بینک کے کنٹرول میں دینا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کی شکست وریخت کے ذریعہ وطن عزیز کی معیشت کو تباہی کے دَہانے پر پہنچانا، یہ سب کچھ گزشتہ حکومت کے دور میں ہوا۔ کوئی ایک کام اور پروجیکٹ ایسا نہیں بتایا جاسکتا جو عوامی مفاد کے لیے کیا گیا یا لگایا گیا ہو۔ 
اب حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عدمِ اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں وفاقی حکومت ہاتھ سے جانے کے بعد دو اسمبلیاں ایک شخص کی اَنانیت کی بھینٹ چڑھانے کے بعد یہ جماعت کبھی جلسہ کرتی ہے، کبھی ریلیاں نکالتی ہے، کبھی جیل بھرو تحریک چلاتی ہے، اور اب اس جماعت کا کام صرف اپنے قائد کی حفاظت اورجس دن   عدالت میں جائیں تو یہ تمام جتھے اپنے قائد کی معیت میں عدالت کے اندر تک جانے کے لیےقانون اور ضابطوں کو روندتے ہوئے عدالتوں کو مرعوب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بجا طور پر صحیح ہے کہ اگر کوئی مذہبی جماعت یا تنظیم اس کا ایک حصہ بھی ایسا کرتی تو وہ دہشت گرد قراردی جاچکی ہوتی اور اس پر پابندی لگ چکی ہوتی۔ لیکن اس لاڈلی اور بے راہ رو جماعت کے کارکنان پولیس اور دوسری فورسز پر پتھراؤ، پیٹرول بم اور اداروں کے افسران اور جوانوںکو ڈنڈوں، اینٹوں اور غلیلوں سے لہولہان اور زخمی کرچکے ہیں، اور طرفہ تماشا یہ کہ ہماری عدالتیں جس طرح اس جماعت کو ریلیف اور سہولتیں دے رہی ہیں، ماضی میں کسی اور جماعت کو اس طرح کی سہولتیں دینے کی مثال نہیں ملتی۔ 
اسی جماعت نے اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے اپنے نوجوانوں کے ایک گروہ کو اپنی ریاست، اس کی سالمیت اور ملکی ونظریاتی سرحدوں کی نگہبان فوج کے خلاف کھڑا کردیا۔ آج اسی جماعت کے کارکنوں نے لندن میں بھارتی نژاد وزیراعظم کے گھر کے سامنے پاک فوج کے خلاف نعرہ بازی کی، اور انہوں نے آرمی چیف جناب حافظ عاصم منیر صاحب کے پوسٹر اُٹھارکھے تھے، جن پر توہین آمیز ریمارکس درج تھے، ان کے خلاف جو نعرے لگارہے تھے، وہ سراسر توہینِ مذہب پر مبنی تھے۔ 
مبینہ طور پر اب ہر عام وخاص کے ذہن اور زبان پر یہ بات آچکی ہے کہ لگ یوں رہاہے کہ ادارے آپس میں ایک پیج پر نہیں، یہ تمام مناظر اداروں کی آپس کی لڑائی کے شاخسانے اور پھر ہر ادارے میں ایک واضح تقسیم اور پسند اور ناپسند کی تصویر پیش کررہے ہیں ، جو کہ ایک ریاست اور ملک کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ 
بات صرف اندرونِ ملک سیاسی رسہ کشی یا پسند اور ناپسند کی ہوتی تو کسی قدر قابلِ برداشت ہوتی، اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بیرونِ ملک میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہمارے سیاسی معاملات میں واضح طور پر ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں نہ صرف بول رہے ہیں، بلکہ در پردہ وہ ہمارے اداروں اور حکومت کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ ان میں سے :
1: ایک ’’زلمے خلیل زاد‘‘ جو سی آئی اے کا ایجنٹ ہے، افغانستان کی تخریب اور عراق کی بربادی میں امریکیوں کا نہ صرف حمایتی بلکہ امریکہ کی طرف سے سفارت کار اور ان کا نمائدۂ خصوصی رہا ہے۔ اب امریکہ کی طرف سے کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود گزشتہ مہینو ں میں اس نے عمران خان سے کئی گھنٹے خفیہ ملاقات کی ہے۔ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان صلح صفائی کرانے کی بھی کوشش کی ہے، اب وہ کھل کر عمران خان کے حق میں بول رہا ہے۔ جنگ اخبار کے معروف کالم نگار محترم جناب سلیم صافی صاحب زلمے خلیل زاد سے اپنی ایک ملاقات کے احوال میں لکھتے ہیں کہ:زلمے خلیل زاد وہ آدمی ہے جس کی ہر بات سے پاکستان کے خلاف نفرت جھلک رہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان سے متعلق امریکی اور افغانی غصہ ان کی ذات میں یکجا ہوگیا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارتِ خارجہ) سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں سیکرٹریز دفاع (گیٹ، ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ڈک چینی) نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا اور یہ بھی لکھا کہ: طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل اور اس کے بعد وہ ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ 
2: ایک ’’آصف محمود قادیانی‘‘ ہے جو امریکی کانگریس کا رکن ہے، الیکشن میں جس کی حمایت کے لیے عمران خان نے امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں سے ووٹ مانگنے کی اپیل کی تھی اور اس کے حق میں بیانات دیئے تھے، وہ بھی پاکستان کے خلاف اور عمران خان کے حق میں بیان دے رہا ہے۔
3: اسی طرح ’’گریک برے‘‘ جو سخت گیر برطانوی یہودی ہے، سابق سفیر رہا ہے، انسانی حقوق کی ایک تنظیم چلاتاہے، لیکن یہ اسلام کے مقدسات اور مقدس شخصیات کے کارٹون بنانے کا حامی ہے، اسلام دشمن اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خاکے بنانے والوں کی حمایت میں سب سے آگے ہے، یہ بھی عمران خان  کے حق میں بیانات دے رہا ہے، بظاہر تو یہ کہہ رہا ہے کہ ہم پاکستان میں سب لوگوں کو قانون میں برابر سمجھتے ہیں ، لیکن در پردہ وہ قادیانیوںکو بھی سب کے برابر سمجھنے کی بات کرتاہے۔ 
حالانکہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ملک میں رہنا چاہتا ہے تو پہلے اس ملک اور ریاست کو تسلیم کرے، پھر اس کے آئین اور قانون کو مانے، تب وہ اس ملک کی شہریت اور اس ملک کے وسائل کو استعمال کرنے کا مجاز ہوگا۔ رہے قادیانی ، یہ نہ تو پاکستان کی ریاست کو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے آئین اور قانون کو مانتے ہیں تو یہ عام پاکستانیوں کے برابر کیسے ہوگئے؟ اس کے علاوہ ہر قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی بنا پر کافر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو آخری نبی ماننے والوں کو مسلمان ہونے کے باوجود کافر کہتا ہے۔ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ پاکستان اکھنڈ بھارت بنے گا، اس لیے وہ اپنے مردے جناب نگر میں امانتاً دفناتے ہیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں انہیں غیرمسلم اقلیت قراردیے جانے کے بعد وہ اور زیادہ پاکستان کے مخالف اور اس کو کمزور اور ناکام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، اسی لیے قادیانی کہیں پس پردہ رہ کر اور کہیں اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعہ ہمہ وقت اور ہمہ جہت پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں، اس لیے درپردہ وہ ایک سیاسی جماعت کو مہرہ بناکر اپنے کام نکلوانے اور اپنے منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں، لیکن ان شاء اللہ! ان کے تمام ناپاک عزائم ناکام ہوں گے۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں بھی ایک سیاسی جماعت کی پناہ میں انہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی، لیکن اسی جماعت نے ان کو مسلمانوں سے علیحدہ کردیا، ان شاءاللہ! یہ مزید آگے بڑھے تو اب بھی ان کا حشر ایسا ہی ہوگا۔
4: اسی طرح ’’جارج گلبے‘‘ اپنے بیان میں کہہ رہا ہے کہ ایک قانونی وزیر اعظم کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے اور پھر کہتا ہے کہ: اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو وہ شاید سلاخوں سے واپس زندہ نہ آسکے، اور کہتا ہے کہ عمران خان سے اس لیے ڈر رہے ہیں کہ اگر وہ حکومت میں آتا ہے تو وہ آئین کو تبدیل کردے گا۔ وہ کہتا ہے کہ پاکستانی آئین کو تبدیل ہونا چاہیے اور یہ بات ایک عرصہ سے کہی جارہی ہے اور اس کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کے آئین کو تبدیل کیا جائے، اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کیا جائے اور اس کی اسلامی دفعات خصوصاًناموسِ رسالت کے قانون کو تبدیل کیا جائے۔ 
پاکستان میں یہ سب کھیل اور تماشا اس لیے کھیلا اور رچایا جارہا ہے کہ ملک دشمن، آئین دشمن اور اسلام دشمن لابیوں کی خواہشوںاور تمناؤں کو پاکستان میں پورا کیا جاسکے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔  
ہم عمران خان اور اس کی جماعت سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کا ان بیرونی عناصر سے کوئی تعلق نہیں ہے تو برملا ان کے بیانات کی تردید کریں اور برملا ان سے کہیں کہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور ہمارے ملکی معاملات میں کسی کو دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اوران کی ٹیم آئی ایم ایف سے کئی مہینوں سے مذکرات کررہے ہیں، اور وہ ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہے، ان سےبھی یہ مترشح ہوتا ہے کہ کہیں کوئی بات آئی ایم ایف کے کارپردازان کے حلق میں اَٹکی ہوئی ہے، جسے وہ کھلے الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں ، لیکن نہیں کہہ پارہے۔ افواہ کہیں یا حقیقت، اس طرح کی بات اُڑائی گئی ہے کہ بیرونی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ جب تک اس معاہدہ پر عمران خان صاحب دستخط نہیں کریں گے، یہ معاہدہ مکمل نہیں سمجھا جائے گا۔ اور اسی طرح ہمارے وزیر خزانہ سے منسوب یہ بیان بھی دبے لفظوں میں آیا ہے کہ: ’’کوئی ہمیں یہ نہ سمجھائے کہ کتنی رینج کے میزائل رکھنے چاہئیں اور کتنی رینج کے نہیں۔‘‘ جس سے یہ تأثر اُبھرا کہ شاید آئی ایم ایف ایٹمی پروگرام پر کچھ شرائط عائد کرنا چاہتی ہے، لیکن بعد میں وزیر خزانہ صاحب کا بیان آیا کہ میرے بیان کو توڑ موڑ کرپیش کیا گیا ہے، حقیقی بیان کیا تھا، اس کی وضاحت انہوں نے بھی نہیں کی۔ 
بہرحال ملک ایک نازک صورت حال سے گزررہا ہے، ایک طرف جہاں پاکستان میں معاشی عدمِ استحکام اور سیاسی افراتفری ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک دشمن یہودی ہوں یا قادیانی، وہ اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے آئین اور قانون کو پہلے بازیچۂ اطفال بنانے کی سعی نامشکور کی جارہی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کو لاحاصل اور لایعنی باور کراکر خاکم بدہن تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ 
اس لیے مقتدر قوتوں اور اربابِ اختیار سے ہمارا مطالبہ ہے کہ آگے بڑھ کر اس تمام کھیل کو ختم کریں، دین دشمن، ملک دشمن، اور اسلام دشمنوں کے ناپاک منصوبے اور غلیظ عزائم جن ایجنٹوں کے ذریعے وہ انہیں پورا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ایسے عناصر کو چن چن کر قانون کے شکنجے میں کسا جائے اور ان کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے، یہی سب سے بڑی ملک اور قوم کی خدمت ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کی ہر طرح کی حفاظت فرمائے اور جو ادارے اس کی حفاظت اور ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا رہے ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں بہترین نعمتوں سے مالا مال کرے، آمین

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین