بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

پاکستان اپنے اہداف کب حاصل کرپائے گا؟!

پاکستان اپنے اہداف کب حاصل کرپائے گا؟!

 


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

ہمارا ملک پاکستان ’’اسلام‘‘ کے نام پر وجود میں آیا، بانیانِ پاکستان نے اس ملک کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کرنے کے لیے حاصل کیا، اسی لیے پہلی دستور ساز اسمبلی میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پاس کی گئی اور پھر ۱۹۷۳ء میں ایک متفقہ دستور پاس کیا گیا، جس میں یہ طے کیا گیا کہ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے، یعنی اس کے منتخب نمائندے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔ اور اس ملک کا سپریم لاء قرآن وسنت ہوگا اور کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ اس ملک کو اسلامی ریاست کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ تشکیل دی گئی اور اس نے بڑی محنت، جدوجہد اور کوشش وکاوش کرکے کئی سو سفارشات مرتب کرکے قومی اسمبلی کو بھیجیں، لیکن آج تک ان میں سے کوئی ایک سفارش بھی قانون کا درجہ نہیں پاسکی۔
ہمارے ملک کے اس ۷۲ سالہ دور میں ہر اُس بات بلکہ ہر اُس اشارے اور خیال کو تو قانون کا درجہ دیا گیا جو بیرونی قوتوں نے ان کو تھمایا، یا ان تک پہنچایا، لیکن پاکستان کے حصول کے مقاصد پر آج تک سنجیدہ انداز سے نہ سوچا گیا اور نہ اس پر کوئی غوروفکر کیا گیا۔
اسلام نے سود چھوڑنے کو ایمان کی شرط ، سودی معاملات کرنے کو اللہ ورسول (a) سے اعلانِ جنگ اور معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیا، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
۱:-’’ ٰٓیاَیُّھَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا إِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ  ۔‘‘                         (البقرۃ: ۲۷۸-۲۷۹)
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور چھوڑدو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود، اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا، پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے۔‘‘
۲:-’’یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا  وَیُرْبِيْ الصَّدَقٰتِ وَاللّٰہُ  لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ۔‘‘(البقرۃ:۲۷۶)
ترجمہ: ’’ مٹاتا ہے اللہ سود کواور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ خوش نہیں کسی ناشکرگنہگار سے۔‘‘
لیکن آج تک ہمارے ملک میں یہ سودی کاروبار رائج ہے اور اس کی نحوست وسزا پوری قوم مہنگائی، بے روزگاری اور بے برکتی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ انہی سودی قرضوں کی جکڑبندیوں کی بناپر بیرونی مالیاتی ادارے آئے دن ہمارے اوپر کڑی شرائط لگاتے اور اپنے مطالبات منواتے رہتے ہیں، جیسا کہ حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ نے پاکستان کو چالیس مطالبات کی ایک فہرست دی کہ آپ ہمارے ان مطالبات کو پورا کریں گے تو آپ کو گرے لسٹ میں رکھا جائے گا۔ پاکستانی حکومت نے اس پر عمل درآمد کیا۔ اس اکتوبر میں اس ادارے کا اجلاس ہوا، اس نے حکومتِ پاکستان کے ان اقدامات کی تفصیل کو دیکھا تو نتیجہ نکالا کہ پاکستان نے ہمارے ۳۴ یا ۳۶ مطالبات پر تو عمل کیا، لیکن چار اقدامات اب بھی باقی ہیں اور چار مہینہ کی مزید مہلت دی کہ پاکستان ان اقدامات پر عمل کرے گا تو اس کا نام فروری میںگرے لسٹ میں آئے گا، ورنہ پاکستان کو معاشی میدان اور بین الاقوامی تجارت میں بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔ اُدھر ’’آئی ایم ایف‘‘ جس نے ابھی تک موجودہ حکومت کو کوئی قرضہ نہیں دیا، لیکن مسلسل وہ بھی مطالبات کررہے ہیں کہ گیس، بجلی اورپٹرول جیسی بنیادی اشیاء پر مزید ٹیکس لگائے جائیں، تب ہم آپ کو قرض دیں گے۔ اس سے پہلے یورپی یونین کی اقتصادی کمیٹی نے موجودہ حکومت پر یہ شرط رکھی تھی کہ اگر آسیہ مسیح کو رہا کرتے ہیں تو ہم پاکستان کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دیں گے، ورنہ نہیں۔ ان کے اس مطالبہ کو مانتے ہوئے موجودہ وزیراعظم نے اس کو رہا کراکر باعزت طریقے پر اس کے پسندیدہ ملک بھجوادیا۔
اسی طرح عبدالشکور قادیانی جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس کو عدالت نے پانچ سال کی سزا سنائی تو صدر ٹرمپ نے یہ مطالبہ کیا کہ اس کو رہا کیا جائے، ابھی اس کی سزا باقی تھی، لیکن موجودہ حکومت نے نہ صرف اس ٹرمپ کے مطالبہ کو مانا، بلکہ اُسے اس کے دربار تک بھی پہنچایا، اس کے وہاں پہنچنے پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں نے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس عبدالشکور قادیانی نے پاکستان کے خلاف جو زبان درازی کی اور جو اتہامات لگائے‘ وہ اس کی زبانی پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔
ان حالات میں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارا ملک آزاد ہے؟ یا ہم آزاد رہ کر اپنے ملک کی پالیسیاں بناتے ہیں؟
’’آئی ایم ایف‘‘ نے صرف پاکستانی عوام پر مزید ٹیکس لگانے کا ہی نہیں کہا، بلکہ اپنے دو نمائندے اسٹیٹ بینک کا چیئرمین باقر رضا اور ایف بی آر کا چیئرمین شبرزیدی بھی پاکستان بھیجے جو معاشی معاملات کو نہ صرف کنٹرول کررہے ہیں، بلکہ پاکستان کی معاشی اور تجارتی پالیسیاں بھی وہ حکومتِ پاکستان کو بناکر دے رہے ہیں۔ان کی سخت اور سمجھ میں نہ آنے والی پالیسیوں کی بناپر پوری تجارتی برادری سراپا احتجاج ہے، کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے، روپے کی قدر بہت گرچکی ہے، ڈالر آسمان سے باتیں کررہا ہے، بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے، ملک میںمہنگائی کا ایک طوفان ہے، جو کسی بھی اعتبار سے تھمنے میں نہیں آرہا۔ ابھی شنید ہے کہ ۲۰-۲۰۱۹ء کے رواں مالی سال میںبجلی، گیس اور ٹیکسوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث مہنگائی میں ۱۲ فیصد مزید اضافہ ہوگا، یعنی اس وقت ۱۵ فیصد مہنگائی ہوچکی ہے اور مزید ۱۲ فیصد تک مہنگائی کی نوید سنائی جارہی ہے۔ پاکستان کی شرح نمو‘ دو عشاریہ آٹھ فیصد ہے، حالانکہ سابق وزیرداخلہ احسن اقبال کے بقول جب ہم نے حکومت چھوڑی، اس وقت پاکستان کی شرح نمو پانچ عشاریہ آٹھ فیصد تھی، اور یہ حکومت اگر پورے پانچ سال اور لگالے تو ان پالیسیوں کے نتیجے میں وہ اس شرح نمو کو نہیں پہنچ سکتی۔ جب کہ بنگلہ دیش جو ہمارے ملک کا حصہ تھا، اس کی اب شرح نمو آٹھ فیصد اور ہمارا پڑوسی ملک جو ابھی تک جنگ زدہ ہے، اس کی شرح نمو ہم سے زیادہ تین عشاریہ پچاس فیصد ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کتنا پتلی ہے، اسی بناپر معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دو سال میں مزید ۲۰ لاکھ لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔
مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت بجائے اس کے کہ پاکستان کو ترقی کی طرف لے جائے، اُلٹا پاکستان کو ہر طرف اور ہر اعتبار سے نیچے لے جارہی ہے، جب کہ حکومت میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران احمد خان صاحب نے کہا تھا کہ: ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ہم بیرونی قرضے نہیں لیں گے، ہم ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دیں گے، پچاس لاکھ گھر بناکر غریبوں کو دیں گے، غربت کا خاتمہ کریں گے، بجلی، گیس، تیل اور خوردونوش کی اشیاء کی قیمتیں کم کریں گے۔ وفاقی وزیر جناب فیصل واوڈا صاحب نے بڑے فخر وانبساط کے ساتھ قوم کو یہ خوش خبری دی تھی کہ حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں قوم کو لاکھوں روزگار کے مواقع ملیں گے۔ اب اس کے برعکس وفاقی وزیرسائنس وٹیکنا لوجی جناب فواد چوہدری صاحب فرمارہے ہیں کہ: عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگے، حکومت تو خود چار سو محکمے ختم کرنے جارہی ہے۔ گویا اس حکومت کی سوا سال کی کارکردگی بس اتنی ہے کہ اس نے سیاسی مخالفین کی گرفتاری، زبان بندی اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ یہ حال ہے اس حکومت کے اپنے ہی منشور کی دھجیاں اُڑانے کا۔
اُدھر وزیر اعظم جناب عمران احمد خان نیازی صاحب جب بھی کسی غیرملکی دورہ پر جاتے ہیں توپاکستان کے اہلِ سیاست ، اہلِ تجارت اور پاکستان کے اداروں کے بارہ میں ایسے بیانات دیتے ہیں کہ بیرونی دنیا کے لوگ بجائے پاکستان میں تجارت کی طرف راغب ہونے کے یا پاکستان پر اعتماد کرنے کے اُلٹا جو پاکستان میں سرمایہ لگاچکے ہیں یا لگانا چاہتے ہیں، وہ بھی اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں یا پاکستان سے دور ہورہے ہیں۔ ایسے حالات میں کون یہاں سرمایہ لگائے گا؟ کون پاکستان پر اعتماد کرے گا، اور ملک کی اقتصادی صورت حال کیسے درست ہوگی؟!
اسی لیے تمام اپوزیشن جماعتیں پاکستان کی اس بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ رہی ہیں کہ آج اگر اس زبوں حال معیشت کو سہارا نہ دیا گیا تو آنے والے سالوں میں معاشی صورت حال اتنا خراب ہوجائے گی کہ اس کو اُٹھانا اور سہارا دینا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس لیے مولانا فضل الرحمن صاحب اور دوسری اپوزیشن سیاسی جماعتیں آزادی مارچ کررہی ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں لائی گئی ہے اور ان کو بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لایا گیا ہے، ملک کی بگڑتی صورت حال کو سنبھالنے کی ان میں صلاحیت نہیں، اس لیے ان سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومتی وزراء اور افراد ایسی عوام دوست پالیسیاں بناتے جن کو دیکھ کر عوام خوشحال ہوتی ، پاکستان ترقی کرتا ہوا نظر آتا، اُلٹا عوام سے کیے گئے تمام وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ بڑا لیڈر ہو نہیں سکتا جو یوٹرن نہ لے (یعنی وعدے سے مکر نہ جائے)، حالانکہ قرآن کریم میں ہے: 
’’وَأَوْفُوْا بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۴)
ترجمہ: ’’ اور پورا کرو عہد کو ، بے شک عہد کی پوچھ ہوگی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کشمیر کی جو صورت حال بنی ہوئی ہے، وہ بھی ہماری حکومت کی غلط پالیسیوں اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے۔ اول تو ۷۲ سال سے پاکستانی حکومتوں نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر جو تکیہ اور بھروسہ کیا ہوا ہے، حالات نے بتادیا کہ وہ صحیح نہیں، اس لیے کہ اقوامِ متحدہ نے کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں کوئی بہتری کا کام نہیں کیا۔ جہاں بھی معاملہ مسلمانوں کا ہوا تو اقوامِ عالم بظاہر بے حس اور متعصب ہی نظر آئی ہے۔ آئے دن انڈیا پاکستانی سرحد پر بمباری کرتا ہے اور عام شہریوں کو شہید کرتا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ، انٹرنیشنل لاء سیکورٹی کونسل اور بین الاقوامی عدالتیں یوں لگتا ہے کہ سب یا تو خوابِ خرگوش میں ہیں یا بے بس ہیں، بلکہ امریکہ اور انڈیامسلمان دشمنی میں ایک جیسے اقدامات ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ 
دوسری طرف جب پاکستان کا وزیراعظم کہے گا کہ مودی الیکشن میں کامیاب ہوجائے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا، جب کہ اس مودی نے اپنے منشور میں لکھا ہوا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے دو تہائی اکثریت مل گئی تو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردوں گا اور اس کو انڈیا میں ضم کردوں گا اور اس نے الیکشن میں کامیابی کے بعد اس کی خصوصی حیثیت ختم کردی، تو قوم کو بتایاجائے کہ کیا یہی کشمیر کے مسئلہ کا حل ہے جس کی پاکستانی وزیراعظم نوید دے رہے تھے؟! اگر یہی حل ہے تو پھر کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا کیا معنی ہے؟ یا یہی معنی ہے کہ مقبوضہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہے، ہم نے اس سے ہاتھ اُٹھالیے ہیں اور اب کشمیری عوام انڈیا کے شہری ہیں اور انڈیا بس اتنا کرے کہ ان پر سے کرفیو اُٹھادے اور ان کو رہن سہن اور کاروبار کی اجازت دے۔ اگر یہی مطلب ہے تو کیا یہ ۷۲ سالہ پاکستانی موقف کے سراسر خلاف نہیں؟! کیا یہ کشمیری عوام کی اُمنگوں کے خلاف موقف نہیں؟ !
اب کشمیر پر تو یہ صورت حال ہے کہ پوری قوم اپنے کشمیری بھائیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے خلاف سراپا احتجاج ہے، لیکن ہماری پاکستانی حکومت انڈیا کے ساتھ کرتارپورہ بارڈر کھولنے کی طرف گامزن ہے، بلکہ ۹؍نومبر۲۰۱۹ء کو بارڈر کھولنے کا افتتاح بھی کررہی ہے، پہلے کہاجارہا تھا کہ یہ بارڈر صرف سکھوں کے مقدس مقامات تک آنے جانے کے لیے استعمال ہوگا، لیکن اب جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، اس میں یہ تحریر ہے کہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے انڈین کرتارپورہ راہداری سے آجاسکیں گے، گویا وہی ہوا جس کااندیشہ تھا کہ سکھوں کی آڑ میں دراصل قادیانیوں کو نوازا جارہا ہے، کیونکہ اس راستہ پر قادیان بہت قریب پڑجاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے بقول ’’قادیانی اکھنڈ بھارت کے قائل ہیں‘‘ اور شروع دن سے یہ پاکستان کے خلاف اور پوری دنیا میں پاکستانی قوم اور حکومت کے خلاف مشکلات کھڑی کرتے آئے ہیں، ان حالات میں بھی ان کے لیے راہداری کھولنا یہ قادیانیت نوازی نہیں تو اور کیا ہے؟ معلوم یوں ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم مودی اور پاکستانی وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کو ڈیوٹی پر لگایا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی کرتے رہیں اور میرے احکامات پر عمل بھی کرتے رہیں، اس لیے کہ آج کل امریکہ بہادر قادیانیوں کے لیے بڑی نوازشات کررہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستانی قوم کو سوچنا چاہیے کہ یہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا جارہا ہے۔
آج امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل تینوں ممالک مسلم دشمنی میں سب سے آگے ہیں اور تینوں مل کر ہمارے ملک کی اقتصاد، معیشت، امن وامان اور کشمیری مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کو خراب اور ضائع کرنے پر متفق ہیں اور ہماری حکومت ہے کہ ان کے بنائے گئے مذموم مقاصد کو سمجھنے سے شاید قاصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حکومت نے جس طرح آسیہ ملعونہ سمیت تین مجرموں کو جیلوں سے آزاد کراکر باہر ملک بھیجا ہے، اسی طرح اس حکومت نے یہ بھی کوشش کی تھی اور اب بھی اس کا خطرہ ہے کہ ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے تحفظ کے قانون کو غیرمؤثر کردیا جائے۔ اولین کوششوں میں اس کے لیے انہوں نے سینیٹ میں بل بھی پیش کردیا تھا، مگر سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کے بروقت اقدام اور ڈٹ جانے کی وجہ سے انہیں وہ بل واپس لینا پڑا۔ 
اب سنا ہے کہ حکومت مدارس اور اسکولوں کے یکساں نصاب بنانے کے خوش کن منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔ نیا نصابِ تعلیم مرتب ہورہا ہے، اور لگ یوں رہا ہے کہ یہ سب کچھ بھی بیرونی ایجنڈے اور ان کے حکم پر ہی ہورہا ہوگا اور شنید یہ بھی ہے کہ نصاب مرتب کرنے والوں میں اکثریت غیرعلماء کی ہے، تو بتایا جائے کہ یہ کیسا نصاب ہوگا؟ اور کیا یہ اسلامی معاشرہے کے تقاضوں کو پورا کرے گا؟ اس بارے میں علمائے کرام اور بطور خاص وفاق المدارس العربیہ اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کو توجہ دینے اور اپنا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہوکہ اس رہے سہے دینی نظام سے بھی پاکستانی قوم فارغ ہوجائے اور اس وقت ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہ کرسکیں۔
آج ہم نظریۂ پاکستان کو نظر انداز کرنے اور اپنے آئین وقانون کی خلاف ورزیوں کی بناپر بیرونی مالیاتی اداروں اور استعماری قوتوں کے شکنجوں کی وجہ سے ایسے گمبھیر ، پیچیدہ اور ایسے خوفناک مسائل کا شکار ہوچکے ہیں کہ جن سے نکلنے کی راہ بظاہر نظر نہیں آرہی، ایسے حالات میں تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں اور ہمارے ریاستی و پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی اغراض، خواہشات، مفادات اور اپنی اناؤںسے بالاتر ہوکر، باہر سے کوئی ڈکٹیشن لیے بغیر صرف اور صرف ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر نظریۂ پاکستان اور پاکستان کے آئین کی روح کے مطابق کوئی پالیسی بنائیں تو امید ہے کہ پاکستانی قوم اور ہمارا ملک اس مہلک بھنور سے نکل سکتا ہے۔
 اس کے لیے ہماری دانست میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے ملک سے سود کو بالکلیہ ختم کیا جائے، اس لیے کہ جب تک ہم سود دیتے اور لیتے رہیں گے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کی مختلف شکلوں میں مبتلا رہیں گے ، جس سے نکلنے کی راہ سود سے چھٹکارے کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتی۔
۲:-اسلامی نظریاتی کونسل کی بھیجی گئی تمام سفارشات کو آئین وقانون کا حصہ بنایاجائے، تاکہ پاکستان اپنی تشکیل کے مقاصد کی طرف گامزن ہوسکے۔
۳:- تھانہ، کچہری اور عدالت کے نظام کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس لیے کہ اور مقدمات کے فیصلوں کے علاوہ سانحہ ساہیوال جہاں دن دیہاڑے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو پولیس فورس کے ’’بہادر جوانوں‘‘ نے گولیاں مارکر شہید کیا، ان کی ایف آئی آر کاٹی گئی، لیکن ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے عدالت نے بری کردیا، اگر یہ ملزمان قاتل نہیں تو ان بچوں کے ماں باپ کو کس نے قتل کرکے شہید کیا؟ اس کا پتا چلانا اور بچوں و اُن کے ورثاء کو انصاف دلانا حکومت اور عدالت کا کام ہے یا نہیں؟
۴:- ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصابِ تعلیم کو اسلامی تہذیب کا آئینہ دار بنایا جائے۔ 
۵:-مہنگائی کو روکا جائے، قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے اور تاجر برادری کے ساتھ بیٹھ کر ان کے لیے کوئی آسان، واضح اور قابل قبول ٹیکسوں کی وصولی کی صورت نکالی جائے۔
۶:- ملکی خزانہ، ایف بی آراور تمام بڑی پوسٹوں پر صرف اور صرف خداترس، باصلاحیت اور پاکستانی قوم کے مفاد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے پاکستانی افراد کو بٹھایا جائے۔ 
۷:-مدارس کی آزادی وخودمختاری کا تحفظ کیا جائے۔
۸:- آئین میںموجود تمام اسلامی دفعات کا تحفظ کیا جائے۔
۹:- قادیانیت کی فتنہ پردازیاں روکی جائیں اور ان کی پشت پناہی نہ کی جائے ۔
۱۰:-اور تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود اور قیود کا پابند کیاجائے۔ ان ابتدائی اصلاحات کے نتیجے میں ان شاء اللہ! ہمارا ملک خوش حال بھی ہوگا اور اسلامی دنیا کی راہبری اور راہنمائی کا ذریعہ بھی بنے گا۔  إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقي إلا باللّٰہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔
 

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین