بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 پاک بھارت جنگ


 پاک بھارت جنگ


 الحمد للہ کہ۶؍ ستمبر ۱۹۶۵ء مطابق ۹؍ جمادی الا ولیٰ ۱۳۸۵ء کے مبارک دن مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک جدید اور مقدس باب کا افتتاح ہوگیا، یہ تاریخ پا کستان کی قومی زندگی کی کتاب میں ایک نئے باب کا آغاز ہے، اور پاکستان کی عزت ومجد کے عنوانات میں ایک شاندار عنوان کا اضافہ ہے۔ مہا جر قوم کے بعد مجا ہد قوم! اور ہجرت کے بعد جہاد ! سبحان اللّٰہ، نور علی نور۔ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قابلِ قدر اور لائقِ صد تشکُّر نعمت ہے۔
 چند اہم حقیقتیں اور قابلِ عبرت بصیر تیں بھی اس مبارک افتتاح میں منظر عام پر آگئیں:
۱:- ہندوستانی حکومت کی بدنیتی، مکاری، عیاری اور نفاق۔
۲:- ان سے حسنِ معاشرت اور بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی تو قعات سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔

خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم

۳:- پاکستانی عسا کر و افواجِ قاہرہ کے مجا ہدانہ ولو لے اور عزائم، سرفروشانہ جذبات اور احساسات، دین ووطن پر مر مٹنے کی پوری اہلیت وصلاحیت اور میدانِ کارزار میں استقلال واستقامت اور ذوق وشوقِ شہادت۔
۴:- پا کستانی افواجِ منصور ہ کی فنی مہارت، قابلیت، بحری، بری اور فضائی افواجِ قاہرہ کے فوق العادۃ حیرت انگیز کار نامے جن سے سلف صالحین کے محیر العقول کا ر نا موں کی یاد تا زہ ہو گئی اور اقوامِ عالم کے سامنے پہلی مر تبہ پاکستانی فوجوں کے جوہر اس طرح کھلے کہ دشمنانِ اسلام پر بھی سکتہ طاری ہوگیا اور آخر اُن کو بھی پاکستانی افواج کی برتری اور قابلیت، نیز سرفروشانہ وجاں نثارانہ خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑا: ’’ والفضل ماشھدت بہ الأعداء‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’بزرگی وہ ہے جس کی دشمن بھی شہادت دیں۔‘‘
۵:- دشمن قید یوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے بعد انتہائی ہمدردانہ، شریفا نہ اور حوصلہ مندانہ، انسانیت نواز سلوک۔ 
۶:- پاکستانی افواج اپنے ملکی دفاع کی پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ حملہ آور دشمن کی چند در چند فوجی طاقت اور سامانِ جنگ کی فر اوانی کے باوجود ہر محاذ پر منہ توڑ جو اب دے سکتی ہیں۔
۷:- فیلڈ مارشل محمد ایوب خاںأیدہ اللّٰہ بنصرہٖ کے حسنِ تد بر، مجا ہدانہ عزیمت، اہلیت، قیادت اور شجاعت وجواں ہمتی کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی تد بر کے جو ہر بھی اس طرح منظر عام پر آگئے کہ دنیائے اسلام کو اس کا یقین ہوگیا کہ مو صوف دنیا ئے اسلام کی قیادت کی صلاحیت کے مالک ہیں۔
۸:- پا کستانی قوم بھی اس قدر باشعور اور سمجھدار ہے کہ ملکی دفاع کے نازک ترین مر حلہ پر اپنے تمام باہمی اختلافات اور ذاتی منا فع کو یکسر پسِ پشت ڈال کر اپنے حکمرانوں کی ہر آواز پر لبیک کہنے، تعاون کر نے اور تن، من، دھن سب کچھ قربان کر نے کے لیے تیار ہو گئی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اتحاد اور تنظیم کا مکمل مظاہرہ کیا اور اس قدر حوصلہ مند ہے کہ دشمن کی تباہ کن بمباریوں سے شکستہ خاطر اور ہر اساں ہونے کے بجائے اس کے جو ش وخروش اور ذوق وشوقِ شہادت میں چند در چند اضافہ ہوتا ہے، والحمد للّٰہ علی ذلک۔

قابلِ عبرت نتائج وحقائق
 

ان بصیرت افروز حقائق اور عبرت انگیز واقعات سے جو عظیم نتائج نکلے ہیں وہ بھی قوموں کی زندگی کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں:
۱:- جھاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لیے پا کستانی قوم میں ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔ 
۲:- دشمنانِ اسلام کے دلوں پر پا کستانیوں کا رعب چھا گیا ’’تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’ تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر اس سے ہیبت اور رعب طاری کردو‘‘ کی تفسیر سامنے آگئی۔
۳:- مسلمان اگر اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتمادو تو کل سے بہرہ ور ہوں تو ان کی امداد و نصرت کے لیے ا بھی اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد نو بنو انداز میں ضرور آتی ہے ۔
۴:- امریکہ ہو یا روس، برطانیہ ہو یا فرانس یہ سب کفر کی طاغوتی طاقتیں ہیں، ان سے کسی بھی خیر کی تو قع رکھنا خالص حماقت ہے اور اُخر وی سے پہلے دُنیوی خسران کا موجب ہے ۔
۵:- پاکستان کو صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پوری پوری جدوجہد کرنی چاہیے، اور ار شادِ خداوندی: ’’وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ‘‘ (الانفال:۶۰) ۔۔۔۔۔۔ ’’اور جو بھی طاقت وقوت تم ان کے مقابلہ کے لیے مہیا کر سکتے ہو اس کی تیاری کرو۔‘‘ پر مکمل طور سے عمل کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تقصیر یا تغافل ہر گزروانہ رکھنا چاہیے۔
بہر حال ہند وستانی حکومت نے تمام بین الا قوامی اُصول پسِ پشت ڈال کر بغیر کسی سابقہ اعلانِ جنگ کے رہز نوں کی طرح پوری فوجی طاقت و قوت اور تیاری کے ساتھ پاکستان پر چو طرفی حملہ کر دیا اور اپنی بر بر یت اور بہیما نہ سلوک میں بھی اصلاً کو تاہی نہیں کی، لیکن احکم الحاکمین کے قانونِ قدرت نے کمزوروں کا ساتھ دیا اور آیتِ کریمہ کی:
’’وَنُرِیْدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ أَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ۔‘‘                                                             (القصص:۵)
’’ اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو روئے زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا ہے ان پر احسان فرمائیں اور انہی کو مقتدیٰ (بین الا قوامی قائد) بنادیں اور انہی کو ان کے ملک وسلطنت کا وارث بنادیں۔‘‘
تفسیر وتشریح ایک بار پھر دنیا کے سامنے آگئی کہ مٹھی بھر‘ ناتواں اور (ہر لحاظ سے) کمزور افراد کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت وطاقت بخشی کہ دشمن کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور آج دشمن کے ۱۶؍ سو سے زیادہ مر بع میل رقبہ پر پاکستانی فوجیں قابض ہیں اور پاکستانی پر چم لہرار ہا ہے۔ صدرِ مملکت سے لے کر چپڑ اسی تک اور تاجر وصنعت کار سے لے کر معمولی مزدور اور آجر تک خواص وعوام ساری قوم میں حیرت انگیز اور بے مثل اتحادو تعاون کی روح پورے طور پر کار فرما ہے اور پوری قوم دشمن کے سامنے’’ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘ (آہنی دیوار) بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔

 نعمتِ خداوندی اور اس کا شکر یہ

۱:-اللہ تعالیٰ کی اس لائقِ فخر نعمتِ عظمیٰ کاشکر یہی ہے کہ ہم صلاح وتقویٰ کی اسی پا کیزہ زندگی کو مستقل طور پر اختیار کرلیں جو اس وقت ہنگامۂ رزم وحرب نے پوری قوم کے اندر پیدا کردی ہے، اور خوف وخشیتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی کو اپنا شعار بنالیں۔ اور منکرات وفواحش کو جو اس اسلامی ملک میں غیر ملکی تہذیب وتمدن کے تسلُّط اور ان یور پین خدا ناشنا س قوموں کی قابلِ شرم نقالی کی بنا پر رائج ہوچکے ہیں‘ یک قلم ترک کردیں اور مغرب کی گندی، مہنگی اور بزدل بنا دینے والی معاشرت کے بجائے سیدھی سادی اور سستی اسلامی معاشرت کو مستقل طور پر اپنالیں، اجتماعی زند گی میں فو ق العادت طبقاتی تفاوت کو جہاں تک ممکن ہو ختم کردیں۔ شجاعت وبہادری کے احساسات کو بیدار کر نے والے خصائل، ایثار و مروت، جفا کشی وسخت کوشی، جو اںمردی وحوصلہ مندی کو اختیار کرلیں، راحت پسندی وتن پروری، بے روح نام ونمود اور نمائش پسندی کو خیر باد کہہ دیں، خصوصاً غریبوں اور کمزوروں پر ترحم وشفقت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ بیدار کریں، ہر نوجوان فوجی بنے اور مجا ہدانہ احساسات سے سرشار ہو۔ الغرض ایک ایسے صالح معاثرہ کی تشکیل کی جائے جو ’’باللیل رھبان وبالنھار فرسان‘‘ (رات میں تہجد گزار اور دن میں شہسوار) کی تفسیر ہو۔

کسی قوم کی موت

حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم میں دو مر ض پیدا ہوجائیں:۱:- ایک دنیا کی محبت،۲:- دوسرے موت کا ڈر، تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قوم مر چکی اور جب کسی قوم کو ان دونوںبیماریوں سے نجات نصیب ہوجاتی ہے تو وہ قوم حیاتِ ابدی سے ہمکنار ہوجاتی ہے ۔صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث آئی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضور k نے ارشاد فرمایا کہ: ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم پر دنیا کی قو میں اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھا نے والے کھا نے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس زمانہ میں ہم مسلمانوں کی تعدادا تنی تھوڑی ہو گی؟ فرمایا: نہیں! تم اتنے زیادہ ہو گے کہ اس سے پہلے کبھی تمہاری اتنی تعداد نہ ہوئی ہوگی، مگر تمہاری مثال ایسی ہو گی جیسے سیلاب پر خس وخاشاک، دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہوجائے گا۔ پوچھا کہ: وہن کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے خوف۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام، ج:۲، ص:۵۹۰، ط:حقانیہ) اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی کامیابی وکامرانی کا عددی اکثریت پر کبھی بھی مدار نہیں رہا ہے، نہ ہی عددی اکثریت میں اسلام کی قوت مضمر ہے، بلکہ مسلمانوں کی طاقت و قوت کا راز یہ ہے کہ اُن کے قلوب دنیا کی محبت سے پاک اور موت کے خوف سے اُن کے دل آزاد ہوں۔
 آپ نے دیکھا کہ اس موجودہ معر کۂ حق وباطل میں مسلمانوں کا جو جوہر سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں دنیوی زندگی کی بے وقعتی اور شہادت کی موت کو لبیک کہنے کا ذوق وشوق ہے۔ دنیا نے ایک بار پھر اسلامی روح اور اسلامی قوت وطاقت کا منظر دیکھ لیا اور مسلمان افواج کی بے نظیر شجاعت اور شوقِ شہادت نے تاریخ میں ایک نئے اور شاندار باب کا اضافہ کردیا۔ یہ واقعہ دورِ حاضر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے جس کو عصرِ حاضر کا مؤ رخ زریں حروف میں لکھے گا۔
کاش! اگر ہماری قوم کی غالب اکثریت میں یہ ہی روح کار فرما ہوجائے تو دنیا اور اس کی قیادت کا نقشہ ہی بدل جائے، پر نہ دنیا پر امر یکہ کی بالا دستی نظر آئے نہ روس کی۔

مسلمانوں کی بنیادی قوت

یہ حقیقت بالکل ظا ہر وعیاں ہے کہ موجود ہ اسباب وو سائل کی مادی دنیا میں ہم مسلمان ان کفر کی طاغوتی طا قتوں اور اسلام دشمن قوموں کے مقابلہ پر خواہ روس ہو یا امریکہ، جرمنی ہو یا برطانیہ‘ بہت پسماندہ ہیں۔ مادی وسائل اور حیرت انگیز سائنسی ترقیات میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے عقلاً بھی ان کے مقابلہ کا یہی مختصر اور محکم راستہ ہے کہ ہم اس رب العالمین سے اپنا رشتہ مضبوط جوڑلیں اور عبد یت کا تعلق اُستوار کرلیں جو اِن تمام مادی وسائل کا خالقِ حقیقی ہے اور اس کی قدرتِ کا ملہ اور قوتِ قاہرہ کے سامنے ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ بھلااس خالق کا ئنات کی قدرتِ کا ملہ کے سامنے ان ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے جن کا وہ خو د پیدا کرنے والا اور حقیقی موجد ہے؟!
اس کا یہ مقصد ہر گز نہ سمجھا جائے کہ ہم مادی اسباب ووسائل سے بے نیازی اختیار کر نے اور غفلت بر تنے کا در س دے رہے ہیں۔ یہ تو خود خد اوندی حکم ہے کہ جتنی بھی طاقت وقوت تمہاری استطاعت میں ہو، دشمنانِ اسلام کے مقابلہ کے لیے اس کو فراہم کرنے میں مطلق کو تاہی نہ کرو۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اعتماد کا اصل سرچشمہ وہ ذات قدسی صفات ہونی چاہیے، جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام محیر العقول وسائل ہیں اور وہی اُن کا حقیقی مالک ومتصرف ہے۔ آپ نے دیکھا چینی قوم جو اَب سے بیس سال پہلے تک دنیا کی پست تر ین افیمی قوم سمجھی جاتی تھی آج وہ قوم اپنی ہمت و جرأت اور تنظیم واتحاد، جفاکشی وسخت کوشی اور سرفروشی کی بدولت نہ صرف صنعت وحرفت میں بلکہ فنی وحربی قوت اور فوجی طاقت میں ا مر یکہ اور روس کے لیے بھی وبالِ جان بنی ہوئی ہے اور وہ دنیا جو کچھ سرخ خطرہ سے لرزہ براندام ہو اکر تی تھی، اب زرد خطرہ سے پر یشان اور حواس باختہ ہے، حتیٰ کہ اس نے اب امر یکہ وروس کے ایوانِ سیاست وتد بیر کو بھی متز لزل کردیا ہے۔ اگر ستر کروڑ چینی، امریکہ ور وس کو مر عوب کرسکتے ہیں تو کیا دنیا کے ستر کر وڑ مسلمان اگر آج تنظیم واتحاد، ہمت وعزیمت، ایثار ومحنت اور سر فرو شی کی نعمت سے سر فراز ہوجائیں تو وہ ان طاغوتی طا قتوں کو مغلو ب ومقہور نہیں کرسکتے؟
آج اگر دنیا کی مسلمان قومیں اور حکومتیں اغیار کی ریشہ دو انیوں سے محفوظ وما مون ہوجاتیں اور جو قدرتی ذخائر ان بلادِاسلامیہ میں قدرت نے پید اکیے ہیں ان سے ان’’ عیار سفید فام‘‘ قوموں کے بجائے خود وہ مستفید ہونے لگیں تو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور باعزت قوم مسلمان بن جائیں۔
الغرض وقت کا تقاضا ہے کہ مادی ترقیات میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ اغیار سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں، مگر اس سے پہلے اللہ جل شانہٗ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور تعلُّق استوار کریں تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی مسلمان ہی سرفراز ہوں گے۔فَاعْتَبِرُ وْا یَا أُولِیْ الْأَبْصَارِ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین