بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

پُرسکون زندگی

پُرسکون زندگی



کائنات کی ہر ذی روح چیز میں خواہشات کا مادہ ہے ‘ چاہے انسان ہو یا حیوان۔ اگر یہ کہا جائے کہ خواہشات کی گھٹی ان کو پلائی گئی ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں۔ انسان کی لامتناہی خواہشات میں سے ایک مشترکہ خواہش ایک پُرسکون زندگی کا خواب ہے جس کو پورا کرنے کے لئے بسا اوقات انسان خاکِ شرق وغرب کو بھی چھان لیتا ہے‘ جس کو آج کل کی اصطلاح میں ٹورسٹ سے تعبیر کیا جاتاہے‘ البتہ یہ ضروری نہیں کہ پُرسکون زندگی کے حصول کے لئے در در کی خاک کو چھان لیا جائے‘ بلکہ بعضوں کو یہ نعمت عظمی اپنے گھروں میں ہی دستیاب ہے۔ ا س نعمت عظمی سے مالا مال لوگوں میں اکثریت مذہب اسلام کے متبعین کی ہے اور اس نعمت سے محروم لوگوں میں اکثریت دین اسلام کے علاوہ ادیان باطلہ کے پیرو کاروں کی ہے۔ بے سکونی کا مرض مسلمانوں میں بہت کم پایاجاتاہے‘ اس لئے کہ مسلمانوں کے پاس حصول سکون کے لئے ایک نسخہ کیمیا موجود ہے اور وہ ہے شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گزارنا۔ مثلاًجب بھی دل بے چین ہوا فوراً اس طبیب کی طرف رجوع کرتے ہیں جو طبیب الاطباء ہے مثلا: پریشانی کی صورت میں فوراً وضو کرکے قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی یا نوافل میں مصروف ہوگیا یا ذکر واذکار میں یا اگر کچھ عبادت بھی نہیں کی‘ بلکہ صرف مسجد میں بیٹھ گیاتو چند ہی لمحوں میں طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے‘ تو مذکورہ صورت میں مسلمانوں کا عبادت کی طرف رجوع کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جوکہ قرآن مجید میں مذکور ہے:
”الذین آمنوا وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“۔ (الرعد:۲۸)
یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں‘ سن لو اللہ ہی کے ذکر میں دلوں کا اطمینان ہے۔ گویا کہ مسلمانوں کو چین وسکون کی جو دولت نصیب ہے وہ اختیار اسلام اور اتباع قرآن سے نصیب ہے۔ رہا یہ سوال کہ غیر مسلم اس نعمت سے محروم کیوں ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ انسان چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم‘ سب کو عدم سے وجود میں لانے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے‘ اس ذات نے انسان کو پیدا کر کے یونہی بیکار وبے مہار نہیں چھوڑا ‘ بلکہ زندگی کے ہرہر پہلو کی رہنمائی کے لئے اصول وضوابط مقرر فرمائے‘ جو کتب سماوی میں مذکور ہیں‘ مگرسوائے قرآن مجید کے باقی کتب میں تحریف کی وجہ سے وہ اصول وضوابط محرف ہوگئے‘ جس کی وجہ سے ان مذاہب کے پیروکار (غیر مسلم) ایک بہترین زندگی گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ قوانین سے رہنمائی حاصل نہ کرسکے اور آج اسی کے حصول یعنی سکون وچین کے لئے دنیا کے کونے کونے میں بٹھک رہے ہیں اور بزبان حال یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:
نہ خداہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
خدا تعالیٰ کے وضع کردہ قوانین پر نہ چلنے کی صورت میں ان کے لئے ان کے گھر بار‘ جال صیاد ثابت ہورہے ہیں‘ ان کے گھروں سے زیادہ تعداد پاگل خانوں کی ہے‘ اس لئے کہ جب پریشانی حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ پاگل خانے ان کا مسکن ٹھہرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ایک شہر نیویارک میں پاگل خانوں کی تعداد (۱۰۰) سے متجاوز ہے جو ان کی بڑھتی ہوئی پریشانیوں اور بے چینیوں کے لئے ایک واضح دلیل ہے‘ اس کے برخلاف اگر مسلم ممالک کے ایک ملک پاکستان میں ہی پاگل خانوں کی تعداد معلوم کی جائے تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے سوائے ایک دو کے‘ توغیر مسلم ممالک میں یہ بڑھتے ہوئے پاگل خانے یہ اندرونی عذاب کی ہی ایک صورت ہے جو ان کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔ سورة نبأ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
”وجعلنا اللیل لباساً‘ وجعلنا النہار معاشاً“۔ (النبأ:۱۰‘۱۱)
ترجمہ:․․․”اور ہم نے رات کو سونے کے لئے بنایا اور دن کو حصول معاش کا ذریعہ بنایا“ ۔
دن رات جوکہ چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے تغیر الوان کے ذریعے ایسی تقسیم فرمائی کہ ایک حصہ آرام کے لئے وقف ہوگیا اورایک حصہ حصول معاش کے لئے وقف ہوگیا۔ اور اس تقسیم کو انسان کی فطرت میں رکھ دیا کہ جب سورج نکلتا ہے تو ہر آدمی خود بخود اپنے اندر ایک طرح کی چستی محسوس کرتا ہے جو اس کو عدم قرار پر برانگیختہ کرتی ہے اور جیسے ہی دن ختم ہوتا ہے‘ شام کی کالی گھٹائیں ہر چیز کو اپنی بانہوں میں لپیٹ لیتی ہیں۔ قدرتی طور پر انسان کی طبیعت خود بخود آرام وسکون کی طرف مائل ہوتی ہے‘ انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں میں بھی یہی روز مرہ کا معمول ہے۔ ہر آدمی مذکورہ بالا آیت کو مدنظر رکھ کر ان اوقات پر پابندی سے عمل پیرا ہوجائے تو زندگی میں بہار آجائے ‘ہر لمحہ حیات خوشبو سے مہک اٹھے گا‘ سفینہٴ حیات تیز وتند موجوں سے نکل کر ساحل پر آلگے گا‘ مگر ہمیں اپنی زندگیوں میں چین وسکون کی بہار لانے کے لئے خالق قدرت کے وضع کردہ نظام حیات کے سانچے میں اپنے انگ انگ کو ڈھالنا پڑے گا اور دن رات کو اس کے مقررہ دائرہ کار میں استعمال کرنا ہوگا۔ محترم قارئین! اگر ہم رب کریم کی اس تقسیم کے خلاف کریں گے یا اس نظام پر چلیں تو سہی‘ مگر رات کو دیر سے سونے اور صبح دیر سے جاگنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے قانون میں ترمیم کرلیں تواس کے ہم پرکیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ذرا ان پر نظر ڈالتے ہیں:
۱-اس تقسیم کے خلاف یا تاخیر کی صورت میں ہمارا دل ودماغ متاثر ہوتاہے‘ معمولات زندگی درہم برہم ہوجاتے ہیں‘ چہرہ مرجھایا ہوا لگتاہے‘ ارد گرد کا ماحول الٹا نظر آنے لگتاہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رب کریم کے صرف ایک قانون میں ترمیم کی صورت میں ہمارے اوپر بے شمار اثرات ظاہر ہونے شروع ہوگئے؟
آیئے عہد کریں!
اگر ہم نے پُر سکون زندگی گزارنی ہے تو ہمیں اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ا کے وضع کردہ قوانین ‘اصول وضوابط اور ہدایت کی راہوں پر اپنے قدموں کو جمانا ہوگا اور رسول ہاشمی ا کی ہر ہر ادا کو اپنے ظاہر وباطن میں رچانا ہوگا‘ اس لئے کہ گود سے گور تک ہماری زندگی کی کامیابی کے راز انہی طریقوں میں پوشیدہ ہیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین