بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ  حمل اور ثبوتِ نسب کا حکم


ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ 

حمل اور ثبوتِ نسب کا حکم


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
حصولِ اولاد کے لیے ٹیسٹ ٹیوب کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد دورانِ حمل پتہ چل جائے کہ یہ طریقہ ناجائز ہے تو آیا حمل ضائع کرنا پڑے گا یا نہیں؟ یا طریقہ ہذا سے پیدا شدہ بچے کا نسب باپ سے ثابت ہوگا یا نہیں؟                                                 مستفتی: عبداللہ نعمانی

الجواب حامدًا ومصلیًا 

واضح رہے کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے پیدائش کے متعلق متعدد صورتیں ہیں:
q:-ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش کا یہ غیر فطری طریقہ جس میں مرد کے مادہ منویہ اور اس کے جرثومے حاصل کر کے دوسری اجنبی عورت کے رحم میں غیر فطری طریقہ سے ڈالے جاتے ہیں اور مدتِ حمل پوری ہو جانے کے بعد جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو مرد اُجرت دے کر بچہ لے لیتا ہے۔
w:-اولاد کے خواہشمند میاں بیوی کے جرثومے ناقص یا اولا د پیدا کر نے والے نہ ہو نے کی بنا پر کسی ایسے اجنبی مرد کے جرثومے کو ملاکر بیوی کے رحم میں داخل کر دیں، جس کے جرثومے میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہو ۔
مذکورہ دو صورتیں از روئے شرع ناجائز اور حرام ہیں، کیونکہ اجنبی مرد نے اجنبی عورت کے رحم میں اپنے مادہ منویہ کو داخل کیا ہے۔
البتہ ان دوصورتوں میں جو اولاد پیدا ہوگی، اُن کا نسب قرآن وحدیث کے لحاظ سے اُس مرد سے ثابت نہ ہوگا جس کا مادہ منویہ اجنبی عورت کے رحم میں ڈالا گیا ہے، کیونکہ شریعت کے اصول میں ثبوتِ نسب کے لیے عورت کا منکوحہ ہونا ضروری ہے اور اجنبی عورت اولاد کے خواہشمند مرد کے لیے منکوحہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اجنبی عورت اگر کسی مرد کی منکوحہ ہے تو بچہ کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہوگا ، لیکن اگر اجنبی عورت بے شوہر ہے تو پھر بھی اجنبی مرد جس کے جرثومے سے بچہ پیدا ہوا ہے، اس سے نسب ثابت نہ ہوگا، بلکہ عورت ہی سے بچہ کا نسب ثابت ہوگا ،بچہ کی نسبت عورت کی طرف کی جائے گی ،اس کی قانونی حیثیت ولد الزنا کی ہو گی۔
e:- ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ اولاد پیدا کرنے کا اور طریقہ یہ ہے کہ جس میں مرد اور عورت دونوں میا ں بیوی ہوں، مگر فطری طریقہ سے ہٹ کر غیر فطری طریقہ سے مرد اور عورت دونوں کے جرثومے کو نکال کر خاص ترکیب سے بیوی کے رحم میں داخل کرتے ہیں ۔
اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں شوہر کے مادہ منویہ کو اپنی منکوحہ کے رحم میں داخل کیا گیا ہے، جو کہ ناجائز نہیں ہے، اس طرح اس سے اگر حمل ٹھہرا تو بچہ بھی ثابت النسب ہوگا، اس وجہ سے کہ یہ زنا کے حکم میں نہیں ہے اور اس میں گناہ بھی نہیں ہوگا، جبکہ دونوں کے جرثومے کو نکالنے اور داخل کرنے میں کسی اجنبی مرد یا عورت کا عمل دخل نہ ہو، بلکہ سارا کام میاں بیوی خود ہی انجام دیں ۔ لیکن ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے مذکورہ طریقہ کو اگر اجنبی مرد یا اجنبی عورت ڈاکٹر کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے تو جائز نہیں ہے، یعنی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوگا ، تاہم نسب شوہر سے ثابت ہوگا ، باپ سے وراثت بھی ملےگی۔
باقی رہا حمل ضائع کرنا ! اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ حمل ضائع کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں گناہ ہے ، ۱ور ثبوتِ نسب کی تفصیل اوپر ذکر کی جا چکی ہے ۔
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے :
’’امرأۃ أصابتہا قرحۃ في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليہ لا يحل أن ينظر إليہا، لکن تعلم امرأۃ تداويہا، فإن لم يجدوا امرأۃ تداويہا، ولا امرأۃ تتعلم ذٰلک إذا علمت وخيف عليہا البلاء أو الوجع أو الہلاک، فإنہ يستر منہا کل شيء إلا موضع تلک القرحۃ، ثم يداويہا الرجل ويغض بصرہ ما استطاع إلا عن ذٰلک الموضع، ولا فرق في ہٰذا بين ذوات المحارم وغيرہن؛ لأن النظر إلی العورۃ لا يحل بسبب المحرميۃ، کذا في فتاوٰی قاضي خان.‘‘ 
                                 (فتاویٰ ہندیہ، ج:۵، ص:۳۳۰، الباب التاسع فی اللبس، ماجدیہ)
’’الدر المنثور‘‘ میں ہے :
’’وأخرج ابن أبي شيبۃ عن ابن سيرينؒ قال: الفرج لا يعار۔‘‘ 
                                        (الدر المنثور، ج:۶،ص:۸۹، سورۃ المومنون، دارالفکر)
’’احسن الفتاویٰ‘‘ میں ہے :
’’عورت کی شرمگاہ یا رحم میں کوئی ایسا مرض ہو جو جسمانی تکلیف و اذیت کا باعث ہو تو اس کا علاج طبیبہ سے کروانا جائز ہے، مرد طبیب سے جائز نہیں ،البتہ اگر مرض مہلک یا نا قابلِ برداشت ہو اور طبیبہ میسر نہ ہو تو مرد طبیب سے علاج کروانا جائز ہے۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقہ کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتاجس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفعِ مضرتِ بدنیہ نہیں، بلکہ جلبِ منفعت ہے، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بے شرمی بھی ہے جس کے تصور سے بھی انسانیت کوسوں دور بھاگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے جو اولاد حاصل کی گئی، وہ وبال ہی بنے گی۔‘‘  (احسن الفتاویٰ، ج:۸، ص:۲۱۴، کتاب الحظر والاباحۃ، دارالاشاعت)
      الجواب صحیح                  الجواب صحیح                   فقط واللہ اعلم
    ابوبکر سعیدالرحمٰن              محمد انعام الحق                     کتبہ
                      الجواب صحیح                                 محسن شاہد
                     محمد شعیب عالم                            متخصصِ فقہِ اسلامی
                                               جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین