بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ٹی وی کے ذریعہ تبلیغ اسلام

ٹی وی کے ذریعہ تبلیغ اسلام

 

تبلیغ دین کا وسیلہ 
کسی بھی نیک مقصد کے حصول کے لیے ناجائز وسائل و ذرائع کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔ اچھے اور نیک مقصد کے لیے ذریعہ بھی جائز ہی ہونا چاہیے ، کیوں کہ مسلمان جائز حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے ، جو بات اس کے بس سے باہر ہو اور اس میں اس کو جائز طریقے سے انجام دینے کی طاقت نہیں، تو وہ اس کا مکلف نہیں رہتا ’’ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَھَا‘‘ لہٰذا اگر ہم جائز حدودمیں رہ کر تبلیغ دین اورحفاظت ِ دین کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ، توقطع نظر اس بات سے کہ ہم اپنے اہداف میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یقینا عنداﷲ ماجور ہوں گے اوراپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آقرار پائیں گے، لیکن اس کے برعکس کوئی حدود شکنی کرتے ہوئے ’’ اسلام کی تبلیغ اور حفاظت‘‘ کے خوش نما عنوان سے جتنی بھی کوشش کر لے مردود سمجھی جائے گی۔
’’نقوشِ رفتگان ‘‘سے اہم اقتباس
اس مضمون کو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے حضرت بنوریؒ کے حوالے سے ’’نقوشِ رفتگان‘‘ میں اسلامی مشاورتی کونسل کے اجلاس کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کے ذیل میں ذکر فرمایا:
’’کونسل کی نشستوں میں ایجنڈے سے باہر کی باتیں بھی بعض اوقات چھڑ جاتی ہیں ، اسی سلسلہ میں دراصل ہوا یہ تھا کہ بعض حضرات نے مولانا (یوسف بنوریؒ ) سے فرمائش کی تھی کہ وہ ٹیلی ویژن پر خطاب فرمائیں۔ مولانا نے ریڈیو پر خطاب کرنے کی تو ہامی بھر لی، مگر ٹیلی ویژن پر خطاب کرنے سے معذرت فرما دی تھی کہ یہ میرے مزاج کے خلاف ہے۔ اسی دوران غیر رسمی طور پر یہ گفتگو بھی سامنے آئی تھی کہ فلموں کو مخرب اخلاق عناصر سے پاک کرکے تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟اس بارے میں مولانا نے جو کچھ ارشاد فرمایا ،اس کا خلاصہ یہ تھا :
 ’’اس سلسلہ میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہم لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بنا کر چھوڑیں ۔ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع ووسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیا رکرکے اپنی پوری کوشش صرف کر دیں ۔ اسلام نے ہمیںجہاں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں ، ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں ۔ اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے ۔
لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیںاور آدابِ تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوابنانے کی کوشش کریں۔ اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنا دیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوابنالیں تو اس کامیابی کی اﷲ کے یہاں کوئی قیمت نہیں ، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کرکے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں، کسی اور چیز کی تبلیغ ہو گی ۔ فلم اپنے مزاج کے لحاظ سے بذاتِ خود اسلام کے احکام کے خلاف ہے، لہٰذا ہم اس کے ذریعے تبلیغ دین کے مکلف نہیں ہیں ۔ اگر کوئی شخص جائز اور باوقار طریقوں سے ہماری دعوت قبول کرتا ہے تو ہمارے دیدہ ودل اس کے لیے فرشِ راہ ہیں، لیکن جو شخص فلم دیکھے بغیر دین کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو ، اُسے فلم کے ذریعے دعوت دینے سے ہم معذور ہیں۔اگر ہم یہ موقف اختیار نہ کریں تو آج ہم لوگوں کے مزاج کی رعایت سے فلم کو تبلیغ کے لیے استعمال کریں گے ، کل بے حجاب خواتین کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور رقص وسرود کی محفلوں سے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کوشش کی جائے گی، اس طرح ہم تبلیغ کے نام پر خود دین کے ایک ایک حکم کو پامال کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔‘‘          (نقوشِ رفتگان،ص :۱۰۴،۱۰۵)
 حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ کے تاثرات
حضرت بنوری رحمۃ اﷲ علیہ کے ان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :
 ’’ یہ کونسل میں موجود مولانا کی آخری تقریر تھی، اور غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے مولانا کی آخری وصیت تھی ، جو لوحِ دل پر نقش کرنے کے لائق ہے۔‘‘
حضرت بنوریؒ کے ارشاد اور پھر آخر میں ان کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زیدمجدہٗ کے تأثر کو بار بار پڑ ھا جائے ، عبرت کی نگاہ سے ، نصیحت حاصل کرنے کی غرض سے اوراپنے اکابر کے نقش قدم پر چلنے کی نیت سے پڑھا جائے ،تو اس سے ایک واضح راہنمائی ملے گی ، صراطِ مستقیم پر استقامت نصیب ہو گی اور فتنوں سے حفاظت کے لیے ایک مضبوط ڈھال بن جائے گی۔
اشیاء کی ساخت اورمقاصد میں ربط
انسانی دنیا کا طریقہ کار ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے اس کی نوع اورمناسبت سے ایک طریقۂ کار اختیار کیاجاتا ہے۔ مقصد اور اس کے طریقۂ کار میں نہایت گہرا اور مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ کسی بھی ساخت کے اندر کی روح اور اس کی تأثیر کو اس سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ، جیسے کھڑے ہو کر کھانے کی محافل اور کھڑے ہو کر کھانے کے طریقۂ کار میں حرص، طمع اور لالچ کے قبیح مناظر ظہورپذیر ہوتے ہیں، یہ خاصہ ہے اس نظام کا جو کھڑے ہو کر کھانے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسی طرح نماز کی ادائیگی مسجد میں ایک خاص ماحول میں کی جاتی ہے تو اس میں تعلق مع اﷲ اور روحانیت کے مظاہر ہوتے ہیں۔ یہی نماز مسجد سے باہر‘ شادی ہالوں اور کمیونٹی سینٹروں میں چلی جاتی ہے تو اس کی روحانیت سلب ہو جاتی ہے ۔ ان مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی کہ یہ کوئی بے کار اور غیر مؤثر شئے نہیں، بلکہ ہر ساخت ایک مخصوص مقصد کے حصول کے لیے معاون ومدد گار ہوتی ہے۔
موجودہ میڈیا کے مذموم مقاصد
آئیے! اب ٹی وی اورموجودہ الیکٹرانک ذرائع کی ساخت ومقاصد پر بھی ذرا نظر دوڑائیں، تھوڑے سے غوروفکر سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ٹی وی اور موجودہ میڈیا کا مقصد جہاں علمائے دین کی اہانت، دینی اقدار وروایات کو فرسودہ قرار دینا اور نئی نسل کو دین سے نکال کر بے دین بنانا ہے ، وہاں تمام شعبوں سے متعلقہ افراد کو بے وقوف بنا کر سرمایہ داروں کی مصنوعات کو فروخت کرنا بھی ہے، جس کے لیے اشتہارات کے جائز وناجائز طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ،اربوں کروڑوں روپے کے سرمائے سے قائم کیے گئے ان ٹی وی چینلز کے اخراجات کو اشتہارات کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے۔
اوپر ٹی وی کا جو حقیقی مقصد ہم نے بیان کیا، یہ وہی مقصد ہے جو پاکستان ٹی وی کے یومِ تاسیس سے چند ماہ پیشتر ہونے والی ایک خصوصی نشست میں جو ٹی وی کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالنے کے لیے بلائی گئی تھی، پی ٹی وی کے جنرل منیجر ذوالفقار علی بخاری نے بیان کیے تھے ، جس کوماہنامہ ’’البلاغ‘‘ میں اگست۱۹۹۴ء کو ’’ اہم تحقیق بابت پروگرام وپالیسی پاکستان ٹی وی‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ ٹی وی جیسے مجموعۂ فتن، بلکہ اُم الفتن سے تبلیغ وحفاظت ِ دین یا تطہیر نفس جیسا مبارک ومقدس عمل انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے تو دین بیزاری، علماء کی بے وقعتی، نئی نسل میں بے دینی کے زہریلے جراثیم، نفس پرستی، خواہشات کی اتباع، حرص وہوس، طمع ولالچ، بے ہودگی وبے حیائی اور دین کی پابندیوں وقیود سے آزادی کی تاریک وادیوں میں پھینکنے کا گھناؤنا عمل ہی انجام دیا جاسکتا ہے اور ایسا کیا بھی جارہا ہے، کیوںکہ یہی ٹی وی کی ساخت اور مقصد کاخاصہ ہے۔
دینی جدو جہدکا روایتی رنگ ڈھنگ
یہی وجہ ہے کہ مدارس اور دعوتِ دین کی محنت کرنے والے حضرات نے آج تک اپنی محنت کا رنگ ڈھنگ روایتی رکھا ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ دین سیکھنے سکھانے کا ایک ہی طریقہ ہے، جسے نبی اکرم ا لے کر آئے تھے اور وہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اب اس روایتی طریقے کو چھوڑ کر جدید مادی آلات کے ذریعے دین کے علم کا حصول ، اس کی روحانیت کا ادراک، تعلیم وتعلم کا نورانی عمل، پاکیزہ جذبات، احساسات اور خیالات کا حصول اور دین کی تبلیغ نہ صرف منہاجِ نبوت کے منافی ہے، بلکہ ایک ڈراؤ نے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پھر یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دین اسلام میں صرف معلومات کی فراہمی اور حصول ہی مطلوب نہیں، وگرنہ ابلیس بھی معلومات کا وسیع ذخیرہ رکھتا ہے۔
 لہٰذا جو چیز اپنی وضع سے اپنے تمام تدریجی مراحل اور نت نئی شکلوں میں سراپا شر کے پھیلانے کا باعث ہو، اس سے خیر کے پھیلنے کی توقع بے کار ہے ، کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ’’الخیر لا یأتی إلابالخیر‘‘۔
دین کی تبلیغ اور مادی آلات و اسباب
کچھ سال قبل رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مولانا سعد صاحب زید مجدہم (نظام الدین انڈیاوالے) نے جو فکر انگیز اور درد آمیز وعظ فرمایا، اس میں یہ بھی فرمایا: ’’ دعوت کے بارے میں ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دین کی تبلیغ کے مادی آلات اور اسباب بہت کثرت سے ہو گئے ہیں، اس لیے اب دعوت الیٰ اﷲ کے لیے نقل وحرکت اور خروج کی ضرورت نہیں، دعوت پہنچ چکی ہے اور پہنچ رہی ہے، آپ بھی بیٹھے بیٹھے اپنا پیغام جس جس تک اور جہاں جہاں تک پہنچانا چاہتے ہیں پہنچائیں، اب پھرنے پھرانے کی ضرورت نہیں، حالانکہ حضرت رسول اکرم ا نے اپنے جو خطوط بادشاہوں کو لکھے ہیں، وہ بھی بطور دلیل اور علامت کے لیے تھے ، ورنہ آپ علیہ السلام نے اس کے لیے باقاعدہ جماعت کی نقل وحرکت کو اختیار کیا، جب کہ دعوت سے متعلق تفصیل خطوط میں تحریر فرمادی۔
اسی بیان میں یہ بھی فرمایا کہ: ہماری روزانہ کی کلمہ طیبہ کی دعوت کا مسجد کے ساتھ ایک خاص تعلق یہ ہے کہ لوگوں کو کلمہ طیبہ کی دعوت کے ذریعہ سے غیب کی باتوں کا یقین دلا کر لوگوں کو مادی نقشوں سے نکال کر مسجد کے ماحول میں لا کرایمان کی مجلسوں میں بٹھایا جائے۔ اُنہیں سرمایہ کاری، تجارت اور دیگر غفلت کے مادی نقشوں سے نکال نکال کر کلمے والے یقین کے ماحول میں لانا ضروری ہے۔ ہمیں غیر کی باتوں کی معلومات ہیں، معلومات کو یقین نہیں کہتے، اس لیے کہ یقین کا تأثر ہوتا ہے، جب کہ معلومات کا کوئی تأثر نہیں ہوتا اور قبر میں زبان معلومات کی بنیاد پر نہیں چلے گی، بلکہ یقین کی بنیاد پرجواب دے گی۔( الفاروق، صفر المظفر۱۴۳۰ھ، ص:۷،۸)
 دین کی محنت سے مقصود
غور فرمائیے کہ دین کی محنت سے مقصود لوگوں کے دلوں میں یقین کا پیدا کرنا ہے، نہ کہ ان کو صرف معلومات فراہم کرنا اور یہ کام لوگوں کو ایک معین طریقے سے مسجد کے ساتھ جوڑنے سے ہو گا، اس لیے کہ ہماری تمام محنتوں کا محورو مرکز مسجد ومدرسہ ہے، نہ کہ ٹی وی اور ٹی وی اسٹیشن۔ اب دینی اور ملی ضرورت کے تحت لوگوںکو ٹی وی سے جوڑنے کے باتیں ہو رہی ہیں، اس سے لوگوں کومعلومات تو فراہم کی جاسکتیں ہیں ، لیکن یقین کی دولت ان کے دلوں میں ٹی وی کے ذریعے نہیں اتر سکتی، جب کہ اصل تو یقین ہی ہے، جس کی بنیاد پر آخرت کی تمام منازل میں کامیابی ملتی ہے۔
پھر اصل مقصد تبلیغِ دین سے یقین کا پیدا کرنا، رجوع الی اﷲ، خوفِ الہٰی، تقویٰ وطہارت اور فکرِ آخرت پیدا کرنا ہے ، جو آلاتِ لہو ولعب ودیگر آلاتِ شروفتنہ سے ممکن نہیں ۔ تبلیغ دین کے لیے منہاجِ نبوت سے ہٹ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا، وہ عنداﷲ مقبول نہیں، مردود ٹھہرے گا، یہی بات حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید ؒ نے تصویر کی جدید صورتوں پر گفتگو کے دوران فرمائی تھی کہ یہ بھی کہا جاتا ہے: ’’ویڈیو فلم اور ٹی وی سے تبلیغ اسلام کا کام لیا جاتا ہے، ہمارے یہاں ٹی وی پر دینی پروگرام بھی آتے ہیں‘‘۔ لیکن کیا بڑے ادب سے پوچھ سکتا ہوں کہ ان دینی پروگراموں کو دیکھ کر کتنے غیر مسلم دائرہ اسلام میںد اخل ہو گئے؟ کتنے بے نمازیوں نے نماز شروع کر دی؟ کتنے گناہ گاروں نے گناہوں سے توبہ کر لی؟یہ محض دھوکا ہے، فواحش کا یہ آلہ جو سرتاسر نجس العین ہے، ملعون ہے اورجس کے بنانے والے دنیا وآخرت میں ملعون ہیں ، وہ تبلیغ اسلام میں کیا کام دے گا؟ آخر میں یہ بھی فرمایا: رہا یہ کہ فلاں فلاں یہ کہتے ہیں اور کرتے ہیں، یہ ہمارے لیے جواز کی دلیل نہیں۔  ( تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام، ص:۱۲۶، ۱۲۷)
تبلیغ اسلام کا نہج نبوی
عصر حاضر میں گمراہ کن پروپیگنڈوں اور فتنوں کے مقابلے اور تبلیغ اسلام کے لیے جو نہج اختیار کیا جارہا ہے، کیا عہد نبوی (ا) کے مبارک زمانے میں بھی اس کی کوئی نظیر ملتی ہے یا نہیں ؟ جب ہم اس مبارک زمانے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کفارِ مکہ مشرکین ومنافقین اور یہود خاص طور پر آنحضرت ا کی ذات اقدس اور عمومی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کرتے تھے، مگر حضور اکرم ا نے مسلمانوں کو یہ تعلیم کبھی نہیں دی کہ وہ کفار کی ان مجالس میں جاکر ان پر تنقید کریں، بحث ومباحثہ کریں، جواب وگفتگو میں اُنہی کا طرزِ تخاطب اور انہی کے طور طریقوں کو اپنائیں، بلکہ تعلیم قرآن اور حضور اکرم ا کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی جاہلوں اور اس طرح کے بے سروپاباتیں کرنے والوں سے واسطہ پڑے تو ’’عباد الرحمٰن‘‘ کی طرح ’’  سلامًا‘‘ کہہ کر اعراض کرنا چاہیے۔
چنانچہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کا اپنے محبوب ا کے مبارک طریقے کے مطابق‘ کفار ومنافقین کے منفی پروپیگنڈوں کو خاطر میں لائے بغیر دین کی دعوت کو عام کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادی وسائل کی کمیابی اور عدم دستیابی کے باوجود دین اسلام کچھ ہی عرصے میں نہ صرف جزیرۂ عرب، بلکہ عالم کے اطراف واکناف میں تیزی سے پھیلنے لگا اور لوگ جوق درجوق اسلام کو قبول کرنے لگے، جب کہ آج ہم مسلمان تعداد اور مادی وسائل واسباب میں اس زمانے سے کئی سو گنا زیادہ اور ترقی یافتہ ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری محنت کا کفار پر تو کجا! مسلمانوں پر بھی کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہو رہا؟
ہماری اور حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کی محنتوں میں وہ کونسا بنیادی فرق ہے، جس کی وجہ سے کامیابی نہیں مل رہی؟ اور وہ کونسی خامیاں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے؟ کیا یہ درست ہو گا کہ ہم ان خامیوں کا پتا لگا کر اُنہیں دور کرنے کی بجائے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ اصلاحِ امت کے لیے ان اسباب کو اختیار کیا جائے جن سے خامیوں میں مزید اضافہ ہو؟۔
تعجب ہوتا ہے ان بعض علمی حلقوں کے اس غیرعلمی طرز پر جو انہو ں نے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے اپنایا ہوا ہے ۔ ان کے نزدیک اجتہادِ جدید یہ بتلارہاہے کہ موجودہ دور کے میڈیا خاص کر ’’ٹی وی پر آکر تبلیغ دین اور حفاظت ِدین کا فریضہ سر انجام دینے‘‘ کے معاملے کی نوعیت‘ لاؤڈاسپیکر کے واقعے کی طرح ہے کہ ابتدا میں لاؤڈاسپیکر پر بھی مختلف اعتراضات کیے گئے اور اس کے استعمال سے روکا گیا، لیکن بعد میں تمام حضرات اس کی افادیت وجواز کے قائل ہو گئے۔
قیاس مع الفارق
صرف ظاہری مماثلتوں کی بنیاد پر ایک چیز کو دوسری چیز کی طرح قرار دینا اور دونوں میں اختلاف کی نوعیت کو یکساں ظاہر کرنا ایک غیر علمی طرز ہے، کیوں کہ موجودہ آلات، میڈیا اور ٹی وی وغیرہ لاؤڈ اسپیکر کے برخلاف ایک آلہ نہیں ، ایک مکمل نظام ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے، جس کے اپنے مقاصد واہداف ہیں، اور وہ کسی بھی صاحب عقل پر مخفی نہیں۔
اور اگر دونوں کو ایک ہی مان لیا جائے اور ان حضرات کے قیاس کو بلاچوں وچرا تسلیم کر لیا جائے، تو پھر ان تمام قیاسوں کو بھی ماننا پڑے گا، جن کا ظہور بعض ناعاقبت اندیشوں کے جدید اجتہادات کا مرہونِ منت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہو گا جیسے کوئی شخص صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی جہاد کی تیاری کے سلسلے میں کی گئی گھڑ دوڑ اور نیزہ بازی اور دیگر جنگی مشقوں کی بنیاد پر جدید دور کے اولمپک گیمز اور دیگر عالمی کھیلوں کے مقابلوں کو بھی سند ِجواز فراہم کرے، یا صحابہ کرام ؓ کے میدانِ جنگ میں پڑھے گئے رجزیہ اشعار ، طبل جنگ اور عام حالات میں پڑھے گئے حمدیہ کلمات اور خوشی کے مواقع پر بچیوں کے دف بجانے اور اشعار کہنے کو بنیاد بنا کر آج کے آرٹ کلب اور موسیقی کو جائز کہنے لگے یا موجودہ کامیڈی کو جائز کہنے کے لیے اس صحابیؓ کا فعل بطور دلیل پیش کرے، جو رسول اکرم ا کی فرحت طبع کی خاطر کبھی مزاح کرلیا کرتے تھے۔
اگر قیاس کا یہ معیار درست قرار پایا تو پھر اس قسم کے نام نہاد متجددین روحِ شریعت کو مسخ کرکے تمام باطل نظریوں، غلط طریقوں اور آج کل کی تمام غلاظتوں کو جواز کی شرعی سند فراہم کرنے کے لیے حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کے کسی نہ کسی عمل پر قیاس کرنا شروع کر دیں گے تو کیا ہمارے محترم علمائے کرام ان کے اجتہادات بلاکم وکاست قبول فرمالیں گے؟
نااہل سے علمی گفتگو کا حکم
ملی اور دینی ضرورت ومصلحت کے تحت میڈیا کے استعمال کو ناگزیر بتانے والے حضرات ان اسلامی تعلیمات سے بھی یقینا آشنا ہوں گے، جن میں مخاطب کو سامع کے احوال کی رعایت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بالفرض اگر کوئی اس نئے اجتہاد کی بنا پر ٹی وی پر آنے کو جائز بتائے تو کیا وہ سامعین کے مستوائے ذہنی کی رعایت کرپائیں گے؟ تجربہ اورمشاہدہ سے پتا چلتا ہے کہ آج تک اس حوالے سے کیے گئے تجربات سے عوام کے ذہنوں میں شکوک وشبہات کے زہریلے جراثیم نے ہی پرورش پائی ہے۔ اب بھی اگر اس تجربے کو دہرایا گیا تو غالب گمان یہی ہے کہ بجائے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت کے ، ان کو مزید فتنوں میں مبتلا کر دیا جائے گا، وہ مزید الجھنوں کا شکار ہو جائیں گے ۔ اوٹ پٹانگ مباحثوں میں پڑ کر یقین کی قیمتی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ سنن دارمی کی ایک روایت میں حضور اکرم ا کا مبارک ارشاد ہے  : ’’ نااہل سے علمی گفتگو نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں جاہل کہے گا ، علم ہو یا دولت تم پر دونوں کے حقوق ہیں‘‘۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں اس مضمون کو یوں بیان کیاگیا ہے: ’’ جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفتگو کرو جو اُن کی عقل کی رسائی سے باہر ہو ، تو وہ کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔ ‘‘ (الصحیح للامام مسلمؒ، باب النہی عن الحدیث بکل ماسمع:۱/۱۱، دارالکتب العلمیۃ) اسی طرح بخاری شریف میں ہے : ’’ عوام کو ان کی عقل کے مطابق مسائل بتاؤ‘‘۔ (الصحیح للامام البخاری، کتاب العلم، ص:۲۷، دارالسلام)
پس ان احادیث سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے مستوائے ذہنی کی رعایت کے بغیر شرعی معاملات میں گفتگو کرنا فکری انتشار اور عوام کو دینیات میں گفتگو کرنے کی اجازت دینے جیسے خطرناک مفاسد کا ذریعہ بنتا ہے۔
دینی نقصانات کے غالب اندیشے
ملاعلی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
’’ نیکی کے جس کام میں نفس کی خواہش شامل ہو جائے، وہ اتنا لذیذ ہوتا ہے جس طرح مکھن کے ساتھ شہد ملا لیا جائے۔‘‘ 
آج جہاں حب ِمال وحب ِجاہ اور اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے کا دور دورہ ہے ، اگر ٹی وی کے ذریعے تبلیغ دین اور حفاظت ِدین کی اجازت دی گئی تو بجائے فائدے کے نقصان کا غالب اندیشہ ہے کہ کہیں مخاطبین عجب، تکبر، ریا اور اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے کے باطنی امراض میں مبتلا نہ ہو جائیں اور ممکن ہے کہ ابتدا میں کچھ مخلص لوگ اس طریقے کو اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کریں ، لیکن ایسے معاملات ومواقع پر عموماً کنٹرول ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کو اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی سے بڑھ کر اپنی عزت زیادہ عزیز ہوتی ہے،ان کے سینوں میں علم سے بڑھ کر دولت ومادیت ڈیرا ڈال چکی ہوتی ہے ۔ 
ٹی وی پر تبلیغ دین کے مفاسد میں سے ایک مسلمہ نقصان یہ بھی ہے کہجب کوئی ٹی وی چینل ’’اسلامک‘‘ کا لیبل لگا کر اپنی نشریات پیش کرے گا تو غریب عوام یہی سمجھے گی کہ یہاں کوئی دارالافتاء قائم ہے اور فتویٰ دینے والے ماہر مفتی حضرات تحقیقی جواب دیں گے، جب کہ حقیقت حال اس کے برعکس ہونا عین ممکن ہے ، کیوں کہ ٹی وی پر پیش کیا جانے والا ہر پروگرام برائے استفتا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہاں کسی ماہر مفتی کی موجودگی یقینی ہے ، لہٰذا ’’اسلامک‘‘ کے لیبل کی وجہ سے ہر وہ شخص جو علماء کی جماعت کی طر ف منسوب کرکے اس پروگرام میں سامنے لایا جائے گا، اس سے عوام طرح طرح کے سوالات براہِ راست پوچھنا شروع کریں گے، جب کہ ہر سوال ازروئے قواعدِ افتاء قابلِ جواب وقابلِ اعتناء نہیں ہوتا اور نہ ہر سوال کا جواب مستحضر ہوتا ہے۔ لیکن کیا ٹی وی پر موجود کوئی بھی مفتی اپنے علمی تبحر کو ’’ لا أدری‘‘ کی تلوار سے کاٹ سکے گا؟ یا کسی تحقیق طلب سوال کے جواب میں تأمل وتردد کا مظاہرہ کرکے اپنے اعتماد کو کھونا گوارا کرسکے گا؟ ہو سکتا ہے وہ کسی ’’ مصلحت‘‘ کی بنا پر سائل کو مطمئن کرنے کے لیے فوری جواب دے اور پھر اٹکل پچوسے جوابات دینے کا ایک مضحکہ خیز سلسلہ چل پڑے گا، جو تبلیغ تو نہیں البتہ علماء سے عوام کا اعتماد اٹھانے میں کافی معاون ہو گا۔ مجوزین حضرات اس پہلو پر بھی غور فرمالیں۔
یہاں یہ بات بھی یقینی ہے کہ جواز کے فتوے سے وہ تمام حلقے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے جو مضبوط اور ٹھوس علم سے عاری ہیں اور دو چار اُردو عربی کی کتابوں سے معدودے چند معلومات کو کل دین کا علم سمجھتے ہیں ، وہ اس فتویٰ کی آڑ میں ایسے مسائل ودلائل بیان کریں گے جن سے اصلاحِ نفس، حفاظتِ دین اور تصفیۂ عقائد کی بجائے افسادو اضلال کا کام ہوتا رہے گا۔ اُس وقت میڈیا کے شور وغوغا کا وہ عالم ہو گا کہ علمائے مخلصین کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز کی طرح سنائی نہ دے گی۔
پھر وہ مفکرین جو ہر مسئلے میں متبادل کی رَٹ لگاتے پھرتے ہیں، اس بات کی کیا ضمانت دیں گے کہ جو چند گھر ٹی وی کی غلاظتوں سے پاک ہیں، جب ان کے جواز کے فتوے کی بدولت یہ لعنت ان کے گھروں میں بھی آجائے گی تو وہاں صرف دینی معلومات پر مشتمل پروگرام ہی دیکھے جائیں گے؟ ایمان سوز، فحاشی، بے حیائی وبے دینی پر مشتمل پروگرام نہیں دیکھے جائیں گے؟ کیا گھر میں اس ملعون آلے کے آجانے کے بعد جائز وناجائز کی تحقیق ثانوی درجہ میں نہیں چلی جائے گی؟ نفس امارہ اور شیطان کی اغوا کاری اپنا کام دکھانا شروع نہ کر دے گی اور کیا اس سے گناہ اور بدکاری کی راہ نہ کھل جائے گی؟  
ٹی وی پراسلامی نشریات کا حکم
حضرت مفتی رشید احمد صاحب قدس سرہٗ ’’ ٹی وی پراسلامی نشریات سننا بھی حرام ہے‘‘ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں : 
’’ ٹی وی جیسے آلۂ لہو ولعب، بے دینی ، فواحش اور منکرات کے مرکز پر دینی پروگرام دکھائے جاتے ہیں اور انہیں اشاعت اسلام کا نام دیا جاتا ہے ، یہ دین کی سخت بے حرمتی اور مسلمان کے لیے ناقابل برداشت توہین ہے۔ کوئی کتنا ہی اہتمام کرے کہ صرف جائزاشیاء ہی دیکھے گا تب بھی نا ممکن ہے ۔ اگر بطور فرض ومحال تسلیم کر لیا جائے کہ کسی حرام کے ارتکاب کے بغیر صرف جائز اشیاء کا دیکھنا ممکن ہے تو بھی اس میں یہ فساد ہے کہ شروع کرنے کے بعد اس کا شوق اور نشہ اتنا بڑھے کہ حرام اشیاء کے دیکھنے تک پہنچا کر چھوڑے اور ہر وہ کام جو حرام تک پہنچنے کا ذریعہ ہو حرام ہے، اگر چہ وہ فی ذاتہٖ مباح ہو ۔’’الأمر المفضی إلی الحرام حرام‘‘ ۔( احسن الفتاویٰ :۸/۳۰۵،طبع:ایچ ایم سعید)
’’ کوئی دین دار شخص محرمات سے بچ کر ٹی وی دیکھنے کی کوشش کرے تو عوام اس سے ٹی وی کی مطلقاً اباحت پر استدلال کریں گے ‘‘۔  (احسن الفتاویٰ ،۸/۲۰۰،۲۰۱،ط: ایچ، ایم سعید)
اگر کوئی یوں کہے کہ ہمارا کام تو صحیح بات بتانا ہے، باقی کوئی غلط پروگرام دیکھے تو وہ اس کا اپنا ہی قصور ہو گا۔ ٹھیک ہے ، قصور وار تو وہ ہوں گے ، لیکن سبب تو وہی جواز کافتویٰ دینے والے ہی بنیں گے۔ اب بھی عوام کو دوسرے مخربِ اخلاق اور دین وایمان کو برباد کرنے والے چینلوں سے روکنا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے ، تو جواز کا فتویٰ دے کر کیوں ملی اور دینی ضرورت کے نام پر مغرب کے ناپاک عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنیں اور کیوں ان کے اس مشن کا حصہ بنیں؟ جس کا مقصد ایک ایسا ماحول ومزاج پیدا کرنا ہے، جہاں رنگینیوں، ہلے گلے اور موج مستیوں کو بھی دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسروں کی اصلاح کی خاطر ان کے دین وایمان کو بچانے کے لیے خودکو گمراہی میں مبتلا کیا جائے اور دوسروں کو گناہ کی اجازت دے کر اپنی آخرت بگاڑ لی جائے ۔ اسلام کی چودہ سو سال سے زائد تاریخ میں اس طرح کی کوئی ایک مثال بھی نہیںملتی، دوسروں کو اس کے بارے میں دعوتِ فکر دینا کہ وہ بھی جواز کی کوئی صورت نکالیںممکن نہیں ،کوئی بھی عقل مند اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا۔
بے ادب ہمیشہ بے نصیب
دین سیکھنے سکھانے سے آتا ہے، یہ ایسا عمل ہے جس میں فریقین کی محنت کے ساتھ اخلاص بھی انتہائی ضروری ہے۔ دین مشقتوں اور قربانیوں سے آیا ہے ، اس کی حفاظت بھی قربانیوں کے ذریعے کی گئی ہے اور آئندہ بھی دین کی اشاعت وحفاظت مجاہدے اور قربانیوں ہی سے ممکن ہے ۔ تعلیم وتعلم کے اس مبارک عمل میں مجاہدے کے ساتھ صبر، وقار اور ادب بھی نہایت ضروری ہے۔ بے ادب ہمیشہ بے نصیب ہوتے ہیں ، تصور کریں وہ کیا منظر ہو گا! جب ایک عالم دین برسوں کی محنت سے حاصل شدہ علم ا سکرین پر آکر بیان کرے گا اور ایک شخص اپنے بستر پر لیٹے ہوئے یا کرسی یاصوفے پر ٹانگیں لمبی کرکے، پہلو بدل بدل کر، کھاتے پیتے اس دینی پروگرام کو دیکھے گا، ذرا بتائیے تو سہی! اس کیفیت اورانداز سے پروگرام دیکھنے والے کے عقائد ونظریات میں پختگی آئے گی یا بے ادبی کی وجہ سے وہ مزید محرومیوں کی کھائیوں میں گرتا چلا جائے گا؟
اگر اہل علم ملی جذبے اور دینی مصلحتوں کے پیش نظرا سکرین کے مباحثوں اور مذاکروں میں حصہ لینا بھی شروع کر دیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ یہود اور ان کی روحانی اولاد علماء کے افکار وارشادات کو ان کی مرضی کے مطابق بیان کرنے کی اجازت دیں گے ؟کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم کے ساتھ ایک آیت کے شانِ نزول کے بیان کے بعد کیے گئے سلوک سے کون واقف نہیں؟ یہ اسکرین ہی کا کمال ہے کہ ایک بات جو صدیوں سے مسلَّم ہے اور کتابوں میں نقل در نقل چلی آرہی ہے، اس کو بیان کرنے والا عوام سے مجرموں کی طرح معافی مانگتا ہے، کیوں کہ یہ بات عوام یا بعض گمراہ فرقوں کے مزاج کے خلاف بیان کی گئی ہے ۔یہ تو ایک واقعہ ہے، اس طرح کے کئی واقعات ہوئے ہیں، جن میں علماء کو بد نام کیا گیا یا قصداً ان کے موقف کو من وعن عوام کے سامنے پیش کرنے سے احتراز کیا گیا۔
بعض علماء کی نئی تحقیق
حضرت مفتی رشید احمدلدھیانویؒ کا ایک اور ارشاد ملاحظہ فرمائیں، جس میں حضرت والا ماضی کے چند گمراہ مفکرین کے سینما کو جائز کہنے پر گفتگو کے بعد فرماتے ہیں : 
’’ اب یہی حال بعض علماء کی اس نئی تحقیق کا ہے کہ ویڈیو تصویر( یا ڈیجیٹل تصویر) کو چوں کہ قرار وبقا نہیں، اس لیے یہ تصویر نہیں ، اس سے وہ افراد جوٹی وی وغیرہ کو نا جائز سمجھ کر اس سے گریزاں وترساں تھے، ان کو اس گنجائش سے کھلی چھوٹ مل گئی اور وہ ناجائز ومنکرات سے پاک مناظر کو دیکھنے کے بہانے رفتہ رفتہ ہر غلط پروگرام، رقص وسرود اور عریانی وفحاشی کے مناظر دیکھنے میں مبتلا ہو رہے ہیں، اس کا محض امکان نہیں ، بلکہ وقوع ہے کہ بعض بظاہر دین دار لوگوں نے مسلمانوں کی مظلومیت اورجہاد کے مناظر دکھانے کے بہانے ٹی وی اور وی سی آر خریدا اور پھر ہر فحش ڈراما اور فلم دیکھنے کے عادی ہو گئے ۔ اس طرح نوجوان نسل دنیا وآخرت کی تباہی کا شکار ہو رہی ہے اور بعض مخلص دینی جماعتوں اور جہادی تنظیموں سے منسلک نوجوان اپنے اندر دین وجہاد کا جذبہ پیدا کرنے کی بجائے بے راہ روی اور غلط روش کا شکار ہو رہے ہیں ، جس سے دین وجہاد کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ‘‘۔        ( احسن الفتاویٰ، مسائل شتیٰ:۹/۹۰،ط: ایچ، ایم سعید)
اکابر کی بصیرت 
ذرا غور فرمائیں! یہ تحریر ۱۷؍ سال قبل۲۰؍ جمادی الثانیۃ۱۴۱۷ھ کی ہے ، اﷲ جزائے خیر دے ہمارے اکابر کو جن کی بصیرت افروز اور دوررس نگاہوں نے آنے والے فتنوں اوران کی سنگینیوں کو نہ صرف محسوس کیا، بلکہ ان کے سد ِباب کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکرہماری رہنمائی کے لیے اپنی تحریرات میں بہت مواد فراہم کیا اور وہ لوگ جو بظاہر دین داری کا لبادہ اوڑھ کر ، مسلمانوں کی مظلومیت کا روناروکر اورجہاد کے مقدس عمل کے مناظر دکھانے کے بہانے الیکٹرانک میڈیا کو ’’ ملی اور دینی ضرورت‘‘ کے خوب صورت عنوان کی سند ِجواز فراہم کرتے ہیں، ان کے مزعوماتِ باطلہ کو بھی یہ کہہ کر رد فرمایا کہ اس سے دین اورجہاد کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔بعض حضرات حضرت مولانا مفتی نظام الدین شہیدؒ کے بعض مبہم اقوال سے جواز کے لیے استدلال کرتے ہیں ، وہ ذرا عبرت کی نگاہ سے حضرت شہیدؒ کی اس بات کو بھی پڑھیں، طالبان کی حکومت کے دور میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین شہید ؒ اس قسم کے ایک مکالمے میں شریک ہوئے ، تو انہوں نے خود بتایاکہ میزبان پہلے تو مجھے بولنے نہیں دے رہا تھا، جب میں نے بولنا شروع کیا تو اس نے بار بار میری بات کاٹنے کی کوشش کی ، لیکن جب میں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا تو اگرچہ اس نے مداخلت بند کر دی، لیکن انٹرویو کے وہ حصے جو حکومت اور بین الاقوامی قوتوں کے ذوق کے خلاف تھے، حذف کر دیئے گئے۔
چنانچہ مفتی صاحبؒ نے خود فرمایا کہ: میں نے سوچا تھا ، شاید اس طرح عوام کے سامنے حقائق آجائیں گے اوراسی لیے میں شریک بھی ہوا تھا ، مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ میری سوچ صحیح نہیں تھی اور ایسے پروگراموں میں شریک ہونا درست نہیں ، کیوں کہ ان انٹرویو ز کا مقصد حقائق کی نشان دہی نہیں، بلکہ حقائق کو مسخ کرنا ہوتا ہے ۔ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ ہم اپنا چینل چلا کر اپنی مرضی سے حقائق بیان کریں گے ، کیا یہود اور بین الاقوامی ملت ِکفریہ اس چینل کو چلنے دیں گے؟ نہیں ، ہرگز نہیں ! الجزیرہ ٹی وی کے پروگراموں کی روک تھام تمام دنیا کے سامنے ہے ، عبرت حاصل کرنے کے لیے یہ واقعات کافی ہیں ۔
ٹی وی کے مذہبی بنیادوں پر اثرات
ٹی وی کس طرح مذہبی بنیادوں پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس کا عملی ثبوت مصر اور عرب ممالک ہیں ، آج وہاں کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ اپنوں کو چھوڑ کر غیر مسلموں میں بھی جو لوگ مذہب پرست اور راسخ العقیدہ کہلاتے ہیں ، انہوں نے جب ٹی وی کے ذریعے عوام کو اپنا پیغام پہنچانے کی فکر کی اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کیے تو وہی لوگ وقت گزرنے کے ساتھ گناہ کے ان تمام کاموں پر راضی ہوئے، جن کے وہ کبھی بھی قائل نہ ہو سکتے تھے ، چنانچہ ’’ اوینج لیکل‘‘ نامی عیسائی فرقے کا ’’گر اہم بلی‘‘ جو بنیادی طور پر نہایت متشدد عیسائی تھا، اس کی دعوت کا بنیادی نقطہ گناہوں سے بھری امریکی معاشرت سے بغاوت تھا۔ یہی ’’ گراہم بلی‘‘ جب اپنے نقطۂ نظر کو ٹی وی کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی عملی کوشش میں مصروف ہوا تو رفتہ رفتہ وہ نہ صرف گناہوں سے بھری امریکی معاشرت پر راضی ہوا، بلکہ صدر اورمونیکا جیسے کیس کو بھی بہت سہولت سے ہضم کر گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک متشدد مذہبی رہنما کی بجائے امریکی صدر کاخواجہ سرا دکھائی دینے لگا۔
اس بات سے بھی کسی کو انکار نہ ہو گا کہ جواز کے فتویٰ کے بعد تقویٰ وصلاح کا معیار سلف صالحین کی اتباع کی بجائے عوامی مقبولیت قرار پائے گا ۔ علمائے ربانیین جن کی زندگیاں علم وعمل میں بیت گئیں ، ان کو بے وقعت اور ان کے علم کو غیر معیاری قرار دیا جائے گا، جو بھی اسکرین پر آئے گا تو وہ بہت بڑا عالم کہلائے گا ، اس کی اُلٹی سیدھی باتیںحقیقی علم سمجھی جائیں گی ،یہ کتنے بڑے نقصان کی بات ہے ؟ اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اخف الضررین یا  اشد الضررین؟
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹی وی پر آنے کو اخف الضررین کے تحت گوارا کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ٹی وی پر آنا اشد الضررین ہے اور نہ آنا اخف الضررین ہے، اس لیے کہ چند فی صد لوگ ہیں جو ٹی وی کے وبال سے محفوظ ہیں اوراپنے عقائد ونظریات کی حفاظت اور عملی زندگی میں مسائل کے حوالے سے علماء سے براہِ راست رابطہ رکھتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں ، جواز کے فتوے کے بعد ٹی وی کی لعنت میں ان کے بھی مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔باقی لوگ جو اپنی زندگی گزارنے میں خود کو خود مختار خیال کرتے ہیں اور علماء کو اپنی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں، ٹی وی کے مباحثوں سے ان کی اصلاح اور ان کے عقائد ونظریات کا درست ہونا ایک امر موہوم ہے ، لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ اخف الضرر ین والے قاعدہ کے تحت ٹی وی پر نہ آنے کو برداشت کیا جائے۔
فنی باریکیاں اور اسلام
جدید تحقیقات کے حوالے سے اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی بھی شئے کی فنی باریکیوں اور سائنسی تحقیقات پر حکم کامدار نہیں رکھتا، اس لیے کہ سائنس کی آج کوئی تحقیق سامنے آتی ہے تو اگلے دن وہ تنقید کی نذر ہو کر غلط بھی قرار پاسکتی ہے ، اگر بنیاد سائنسی اور فنی باریکیاں بن جائیں تو اسلام ایک کھیل بن جائے گا، جس کا جی چاہے گا تحقیق کے بدلنے کا بہانہ کرکے اسلامی احکام میں تبدیلی کا خواہاں ہو گا۔
اس اعتراض سے بچنے کے لیے بعض لوگوں نے فنی باریکیوں کی طرح الفاظ کے پیچوں میں گتھی کو مزید سلجھانے کے لیے یہ کہاکہ ہم نے بنیاد سائنسی تحقیق پر نہیں، بلکہ ماہرین سے حقیقت معلوم کرکے اس پر رکھی ہے ۔ لیکن نتیجہ وہی نکلے گا کہ پھر تو اپنے مطلب کی بات ثابت کرنے کے لیے ہر آدمی یہی کہنا شروع کر دے گا کہ ہم نے حقیقت معلوم کرکے حکم لگایا ہے ، لہٰذا اس سے نام نہاد دینی اسکالرز اورمتجددین کو اپنے اجتہاد کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے ایک مضبوط سہارا ہاتھ آئے گا۔ اس کے لیے علماء حق کبھی تیار نہیں ہوں گے۔
اس کے باوجود اگر کسی کا زیادہ اصرار ہے کہ حقیقت معلوم کرنے کے بعد حکم لگایا جاسکتا ہے تو پھر اس سے یہ کہا جائے گا کہ وہ معاملات جن کا تعلق براہ راست مسلمانوں کے فائدے اورضرر سے ہو ، ان میں مسلمان ماہرین کی رائے معلوم کی جائے، تاکہ وہ معاملے کی نزاکت اور نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح اور حقیقی صورت حال سے آگاہ کریں۔
ماہرین کی رائے
اس سلسلے میں مسلمان ماہرین متفق ہیں کہ ڈیجیٹل کیمرے کی تصاویر اور ہاتھ کی بنی ہوئی تصاویر میں کوئی فرق نہیں ۔ چنانچہ ’’ ڈیجیٹل تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام‘‘ میں جناب علیم احمد صاحب (مدیر ماہنامہ گلوبل سائنس) اور جناب تفسیر احمد صاحب ( سینئر ڈیوپلمنٹ انجینئر ادارہ تحقیقات اردو نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر ایمرجنگ سائنس لاہور، حال پی ایچ ڈی یونیورسٹی جرمنی) نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ڈیجیٹل اور دوسری تصاویر میں کوئی فرق نہیں ، سب ’’تصویر محرم‘‘ ہی کے حکم میں ہیں۔
ٹی وی کوسند ِجواز فراہم کرنے کے تدریجی مراحل
تصویر کو جائز قرار دے کر ٹی وی چینل کے جواز کو سند فراہم کرنے کا عمل تدریجاً اختیار کیا گیا ہے ، شروع میں تمام علماء ٹی وی سے متعلقہ تمام امور حتیٰ کہ اُسے دیکھنے والے کی امامت کے عدمِ جواز اور ٹی وی کی مرمت کی اجرت کو بھی ناجائز وحرام کہتے تھے، جس کا واضح ثبوت اکابر کے فتاویٰ اور تصویر اور ٹی وی سے متعلق ان کے مضامین ہیں۔
پھر یہ موقف اپنایا گیا کہ ڈیجیٹل کیمرے سے لی جانے والی تصویر کو تصویر کہنے میں تأمل وتردد ہے ، پھر عرصے کے بعد یہ کہا گیا کہ اسکرین پر آنے والی تصاویر کی تین صورتیں ہیں، کچھ جائز اورکچھ ناجائز ہیں ۔ پھر اس پر اعتراض ہوا کہ اکابر کے قدیم فتاویٰ کی تردید ہو جائے گی ، تو یہ موقف اپنایا گیا کہ اکابر کے سابقہ فتاویٰ کو’’ سداً للذرائع‘‘ برقرار رکھا جائے اور علمائے کرام کو ضرورت کی وجہ سے ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کی اجازت دی جائے ، تو اب نئی تحقیق یہ پیش کی گئی کہ ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر تصویر ہی نہیں، نہ ہی شبیہ ہے ، بلکہ اشبہ بالعکس ہے۔
 نئی مصیبت 
دینی اور ملی جذبے کے تحت ہمارے اکابر اس طرح کی تحقیقات پیش کرسکتے تھے ، لیکن اﷲ جزائے خیر دے اُنہیں، وہ سمجھتے تھے کہ جس مصیبت میں مصر والے مبتلا ہو گئے ہیں، وہ بھی اسی طرح کی تحقیقات کا نتیجہ تھا ، اس کے برعکس ہمارے اکابر نے صاف اور واضح الفاظ میں ان مجتہدین کی تردید کی، جنہوںنے مشینی ترقی کی وجہ سے چیزوں کے نام بدل کر ان کو جائز کر ڈالا۔چنانچہ تصویر ہی کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اﷲ مرقدہٗ تحریر فرماتے ہیں :
 ’’ اس وقت ایک نئی مصیبت اس مشینی دور نے کھڑی کر دی کہ جو چیزیں پہلے دستی صنعت سے بنائی جاتی تھیں، اب وہ مشینوں کے ذریعے پہلے سے زیادہ صاف ستھری اورجلد سے جلد بن کر تیار ہوتی ہیں، ان مشینوں کے ذریعہ تیار ہونے والی چیزوں کے عموماً نام بھی الگ رکھ دیئے گئے ، جن چیزوں کو شریعت اسلام نے کسی خاص نام اور عنوان سے حرام کیا تھا، اب وہ نام وہ عنوان نہ رہا، تو کچھ لوگوں نے اس کو حیلۂ جواز بنالیا۔‘‘         ( تصویر کی شرعی احکام، ص:۵۷ )
حضرت ؒ کی اس تحریر اور دیگر تحریروں سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ مشینی ترقی اورناموں کی تبدیلی سے احکام نہیں بدلتے، اگر چہ کچھ لوگ مشینوں کی نت نئی شکلوں کے وجود میں آنے اور ناموں کی تبدیلی سے فائدہ اٹھا کر ان کے حکموں میں بھی تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں ۔
 جدید مصنفین کا حیلہ
وہ احادیث جن سے تصاویر میں رخصت معلوم ہوتی ہے، ان کے بارے میں حضرت مفتی محمد شفیع  ؒتحریر فرماتے ہیں :
 ’’ مگر آج کے جدید مصنفین نے ان حادیثِ رخصت کو عام تصاویر کی حلت کا حیلہ بنالیا ہے اور ایک نیا حیلہ تو ایسا ایجاد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ تصاویر کی ساری ہی بحث ختم ہو جاتی ہے ، وہ یہ کہ آج کل جس طرح تمام مصنوعات جو پہلے زمانے میں دستی بنائی جاتی تھیں، اب مشینوں اور آلات کے ذریعے بنتی ہیں ، اسی طرح تصاویر سازی کے فن کو اس مشینی دور نے ترقی دے کر فوٹو گرافی اور عکاسی (اس وقت کے مقابلے میں اب ڈیجیٹل کیمرے بھی وجود میں آگئے ہیں) کی صورت دے دی ہے، بض علمائے مصر نے اور پھر بعض علمائے ہند نے بھی اس کے متعلق یہ فرما دیا : کہ فوٹو ( اور اب ڈیجیٹل کیمرے) کے ذریعے جو تصویر لی جاتی ہے وہ تصویر کے حکم میں نہیں، وہ تو ایک سایہ ہے جیسے آئینہ اور پانی میں انسان کی شکل دیکھی جائے، اس کے حرام وناجائز ہونے کے کوئی معنی ہی نہیں‘‘۔          ( تصویر کے شرعی احکام، ص:۱۰۳)
حضرت مفتی صاحب ؒ کا یہ ارشاد بھی متجددین حضرات کو دعوتِ فکر دے رہاہے کہ وہ بعض علماء مصر کا طرز عمل اپنانے سے گریز کریں ، ورنہ دنیا میں ہونے والے تمام کام جائز ہو جائیں گے ۔ کوئی برائی ‘ برائی نہیں رہے گی ، بلکہ تمام برائیاں اچھائیاں بن جائیں گی، فرمایا:
’’ اسی طرح بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ علمائے ہند مثل بعض علمائے مصر کے کرنے لگیں ، ان بعض علماء نے ایسا کر رکھا ہے کہ جو دنیا میں ہو رہا ہے، سب جائز ! تو یہاں کے لوگ بھی یہی کرانا چاہتے ہیں علماء سے۔‘‘             ( تصویر کے شرعی احکام، ص:۱۰۳)
اسی بحث کے بالکل اخیر میں ارشاد فرمایا: 
’’ مسئلہ زیر بحث یعنی مسئلہ تصویر بھی اس عام ضابطہ سے خارج نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ ان شاء اﷲ! اس رسالہ کے آخری باب میں ملاحظہ فرمائیں گے کہ باوجود اس عالم گیر وباء کے جو تصاویر کی صورت میں پھیلی ہے اور بظاہر دنیا کا کوئی کام اس سے بچا ہوا نہیں ، لیکن اس وقت بھی اگر کوئی شخص شرعی فتویٰ کی پابندی کرنا چاہے تو اس کا کوئی ضروری مقصد فوت نہیں ہوتا۔                     (  تصویر کے شرعی احکام،ص:۱۰۷)
حضرت ؒ سے یہ سوال کیا گیا کہ ٹی وی کے ذریعہ علماء کرام کی تقاریر ، نعتیں اورقرآن مجید کی تلاوت سنائی جاتی ہیں ، غرض یہ بڑوں اور بچوں کی تعلیم وتربیت کا بہترین ذریعہ ہے ، کیا ان فوائد کے پیش نظر ٹی وی رکھنا یادیکھنا شرعاً درست ہے ؟ آپؒ نے جواب میں تحریر فرمایا:
 ’’ ٹی وی کی تباہ کاریاں کسی ذی ہوش انسان پر مخفی نہیں ،موجودہ معاشرے میں ٹی وی کا کردار دیکھتے ہوئے بھی کوئی شخص اس کے منافع گنوانے پر مصر ہے تو اس کی مثال اس احمق سے مختلف نہیں، جس کے سامنے آگ کا الاؤجل رہا ہے، اس کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور اس کی لَپٹ ارد گرد کی ہر چیز کو  جھلسائے دے رہی ہے ، عقل مند لوگ تو یہ منظر دیکھ کر دور دور بھاگ رہے ہیں ، مگر یہ ڈھٹائی سے کھڑا آگ کے منافع گنوارہا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے : مجھے یا تو قائل کرو،ورنہ میں بیوی بچوں سمیت اس دہکتی آگ میں کود جاؤ ں گا، ایسے شخص کو کیا جواب دیاجائے ؟ سوائے اس کے کہ اپنے دماغ کا علاج کراؤ‘‘۔
 چشم دید حقیقت 
’’غرض ٹی وی کے مفاسد اور اس کی زیاںکاریاں کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں کہ دلائل کے ذریعہ اُسے سمجھایا جائے، یہ ایک چشم دید حقیقت اور سامنے کی بات ہے کہ ٹی وی کی لعنت انسانی معاشرے کے صحت مند ڈھانچے کو ٹی بی کی طرح تلپٹ کیے جارہی ہے، مگر افسوس کہ اس کی رنگینیوں نے اچھے بھلے لوگوں کی نظروں کو خیرہ کر دیا ہے ۔‘‘    ( احسن الفتاویٰ، کتاب الحظر والاباحۃ، ۸/۲۸۹، طبع:ایچ، ایم سعید)
اس حوالے سے مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’ اگر اُسے عکس تسلیم کرکے ہم جائز قرار دیں تو خارجی مفاسد کی بنا پر ایک جائز کام بھی ناجائز ہوتا ہے اور ٹی وی تو ہے ہی مجسمۂ فساد، اس کے تمام مفاسد سے آنکھیں بند کرکے اُسے جائز کیسے قرار دیا جائے ؟ اگر خارجی مفاسد سے بھی قطع نظر کرتے ہوئے یہ فرض کر لیا جائے کہ براہِ راست پیش کیے جانے والے مناظر عکس ( یا شبیہ بالعکس) ہیں اور پہلے سے فلمائے گئے مناظر تصویر، تو ہر ٹی وی بین ہر وقت یہ چھان بین کیسے کرے گا کہ اس وقت یہ پروگرام براہِ راست نشر ہو رہا ہے یا اس کی فلم دکھائی جارہی ہے؟۔                    ( احسن الفتاوی، کتاب الحظر والاباحۃ،۸/۳۰۱،ط: ایچ ایم سعید)
ناعاقبت اندیشی اور حقائق سے اعراض
ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ میں ’’ ٹی وی اورچینل کی تباہ کاریاں اور شریعت اسلام میں ان کا عدمِ جواز‘‘ کے عنوان کے تحت استاذُ المحدثین شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب مدظلہٗ تحریرفرماتے ہیں: 
’’ خلاصہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصاویر کو ممنوع تصویر کے زمرے سے خارج قرار دینا جیسا کہ بعض ناعاقبت اندیش اور حقائق سے منہ چھپانے والے نام نہاد اُمت مسلمہ کے خیر خواہ کہہ اور کررہے ہیں، یہ ایک بدیہی اورسامنے موجود حقیقت کا انکار ہر گز قابل التفات نہیں ۔ ٹی وی جو منکرات وفواحش کا منبع ہے ، اس کو تبلیغ اسلام اور دفاعِ اسلام کے لیے استعمال کرنا ایساہی ہے، جیسے کسی ناپاک برتن کو پاکیزہ اور خوش ذائقہ مشروب کے لیے استعمال کیاجائے۔
آج ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کے بجائے مغربی تہذیب کے زیر اثر فواحش ومنکرات کی طرف مائل ہو رہے ہیں ، عوام اور خود اپنے آپ کو دھوکا دے کر ٹی وی اور چینل کو اسلام کی تبلیغ اوردفاع اسلام کی خاطر استعمال کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں، یاد رکھیے! آپ جو چاہیں کہتے رہیں اور کرتے رہیں ، خدا وندتعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے ، اسلام کی تبلیغ اور اس کا دفاع آج ہی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ مسئلہ تو چودہ سو سال سے زیادہ زمانے سے ٹی وی اور چینل کے بغیر بڑی کامیابی سے جاری ہے‘‘۔ ( اور جاری رہے گا، ان شاء اﷲ!)
اﷲ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہر باطل کو باطل جان کر اس سے دور رہنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین