بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ولی اللّٰہی نہج پر ایک نئی تفسیری کاوش!

ولی اللّٰہی نہج پر ایک نئی تفسیری کاوش!

الحمد للّٰہ رب  العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین اما بعد! قرآن کریم حق تعالیٰ شانہٗ کا معجزاتی کلام ہے، اس کے اعجاز کا ایک متواتر ثبوت یہ بھی ہے کہ قرنِ اول سے تاحال اس کلام معجز کے اسرار وحکم اور معانی ومطالب کے بحر ذخار سے علماء راسخین اپنے اپنے دامن بھرتے چلے آرہے، مگر کوئی بھی اس بحر ذخار کی تہہ تک رسائی کا دعویٰ نہیں کرسکا، لاکھوں کی تعداد میں تفاسیر وجود میں آنے کے باوجود کوئی یہ نہیں کہہ سکا، نہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن کے عجائب وغرائب میں میری کوشش ہی انتہاء ہے، باوجودیکہ بعض خاصانِ الٰہ پر حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے افاضۂ خاص کا معاملہ بھی رہا۔ ہاں! یہ ضرور ہوا کہ ہرلاحق نے سابق کی تعبیر وتاویل کے لیے انداز والفاظ کی ندرت کا سہارا لینے کی کوشش بہرحال جاری رکھی۔ یہ سلسلہ جب بارہویں صدی ہجری میں ہندوستان میں داخل ہوا تو مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویv (۱۱۱۴ھ-۱۱۷۶ھ) کے ذریعہ قرآن کریم کی تفہیم کے منفرد انداز متعارف ہوئے۔ حضرت شاہ v نے قرآن کریم کی تفہیم، تعبیر اور تاویل کے لیے سابقہ تفسیری اسالیب سے ہٹ کر قرآن میں تدبر واعتبار کا ایک ایسا انداز دیا جو نہ صرف قرآنی تعبیر کی نئی نہج تھی، بلکہ قرآنی تعبیر کے لیے کسی نئی نہج کی گنجائش کا عملی ثبوت بھی تھا، تاہم آپ کی اختیار کردہ نئی نہج کی جدت کے مسلّم بننے کے لیے تعبیر وبیان تک محدود ہونے کی شرط یہاں بھی نظر انداز نہیں رہی، بلکہ آپ کی آرائ، تأویلات اور توجیہات کو مقام حجت پر ماننے کے لیے اہل علم نے باقاعدہ شرط رکھی خود شاہ صاحبؒ کی وصیت بھی تھی کہ آپ کی آراء قبولِ اخبار کے مسلمہ اصولوں اور روایات کے اعتباری معیارات سے متصادم نہ ہوں۔ چنانچہ اس نہج پر حضرت شاہ صاحب v کی محنتِ شاقہ میں حق تعالیٰ شانہٗ کی خاص رہنمائی ومعونت شامل حال رہی اور شاہ صاحبؒ کا قرآنی تدبر واعتبار کسبی علوم پر مستزاد، وہبی ولدنی علوم سے آراستہ وپیراستہ بھی رہا، جسے حضرت شاہ صاحبؒ فرطِ جذبات میں تجلیاتِ ربانیہ سے استفاضہ اور براہِ راست تلمذِ قرآنی سے تعبیر فرماتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: اس طریق سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام عزیز کے ایسے عجائب وغرائب مجھ پر منکشف فرمائے ہیں جو شاید اس سے قبل بہت کم لوگوں پر منکشف ہوئے ہوں، مثلاً:تأویل، توجیہ، تنقیح علوم خمسہ، خواص القرآن اور ’’فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن‘‘ میں تقریب، تخصیص اور تعمیم وغیرہ کا التزام شاہ صاحبؒ کا منفرد امتیاز ہے۔ (الفوز الکبیر) شاہ صاحبv کے اس بیان سے یہ درس ملتا ہے کہ عجائب قرآنیہ تک رسائی کے لیے کسبی ووہبی علوم کا دروازہ وسیع تر ہے۔ ان عجائب قرآنیہ کو کسی بھی نئے تعبیری ظرف میں محفوظ ومنتقل کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ قرآنی اعجاز کا مظہر بھی ہے۔ ہرچند حضرت شاہ v نے جب قرآن حکیم کو اپنے غور وفکر کا محور بنایا تو اس کی بدولت ہندوستان میں یہ سنتِ حسنہ قائم ہوئی کہ قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کو مستقل دینی مشغلہ کے طور پر اپنانا قرآن حکیم کا لازمی حق ہے، چنانچہ آپ کے اس تفسیری ذوق کو آپ کے نامور صاحبزادگانِ گرامی نے بھی خوب خوب نبھایا، آپ کے فارسی ترجمہ قرآن ’’فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن‘‘ کے تقریباً ۵۵؍ سال بعد آپ کے فرزند ارجمند شاہ عبد القادر دہلویv (متوفی:۱۲۳۰ھ) نے موضح القرآن کے نام سے ۱۲۰۵ھ میں بامحاورہ اردو ترجمہ لکھا جو قرآن کریم کا سب سے اولین اردو ترجمہ تھا، ترجمہ کے ساتھ مختصر ضروری فوائد بھی رقم فرمائے تھے۔ یہ ترجمہ بامحاورہ ہونے کے باوجود مدلولِ قرآنی کے قریب تر ہے، مدلولِ قرآنی کو محاورۂ زبان پر قربان کرنے کی خرابی سے مبرّا ہے۔  دوسرا ترجمہ شاہ عبد القادرv کے بھائی شاہ رفیع الدین دہلویv (متوفی:۱۲۳۳ھ) نے کیا جو تحت اللفظ ترجمہ تھا، یہاں ترجمہ کے لفظ کو قرآن کے لفظ کے قریب رکھنے کا اہتمام ملحوظ رہا، تاکہ کم استعداد والے لوگ لفظی ترجمہ بآسانی سمجھ سکیں۔ اسی دور میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی v (متوفی:۱۲۳۹ھ) نے ۱۲۰۸ھ میں فارسی زبان میں قرآن کریم کی مبسوط تفسیر لکھنا شروع کی جو حقائق ومعارف میں بلاشبہ امام رازیؒ کی تفسیر کبیر کے ہم پلہ تھی، مگر وہ پوری نہ ہوسکی، اس کا کچھ حصہ تفسیر عزیزی کے نام سے متداول ہے۔ الغرض ہندوستان میں ترجمہ وتفسیر کا سنگ بنیاد حضرت شاہ صاحبv اور ان کے صاحبزادگانِ گرامی نے رکھا۔ پھر یہ فکر حضرت شیخ الہندv کی طرف منتقل ہوئی اور اُنہوں نے مالٹا کی قید کے دورِ تنہائی کے مراقبوں اور سوچوں کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا کہ امت کو راہِ زوال سے واپس لانے کے لیے قرآن حکیم کو اپنی تدریسی محنتوں کا محور بنانے کی ضرورت ہے، اس فکر باکرامت کے نتیجہ میں آپ نے دورانِ قید ہی قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر لکھنا شروع فرمایا، جو بعد میں آپ کے نامور شاگرد حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی v کی تکمیل کے ساتھ متعارف ومتداول ہوا۔ اسی طرح حضرت شیخ الہندv کے ایک اور نامور شاگرد حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v نے ۱۳۲۵ھ میں بیان القرآن لکھی، جسے اردو تفاسیر میں وہی مقام حاصل ہے جو عربی تفاسیر میں تفسیر جلالین کو حاصل ہے، جو اپنی افادیت، جامعیت اور مقبولیت میں ثریٰ سے ثریا تک پہنچ گئی ہے۔ (ابتدائیہ، معارف القرآن، حضرت کاندھلویؒ) قرآن کریم کو مستقل جداگانہ امتیازی اہمیت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا رواج جب عام ہوا اور اہل علم واصحاب دانش نے حضرت شیخ الہندv کی تشخیص کے مطابق امت کو راہِ زوال سے بام ترقی کی طرف لانے کے لیے قرآنی تعلیم، درسِ قرآن اور ترجمہ وتفسیر کی اہمیت کا جہاں ادراک کیا، وہاں اس اہم کام کی آڑ لے کر تجددپسندوں کی ایک بڑی کھیپ نے قرآن کریم کو اپنے تجدد پسندانہ مغربی یا استشراقی افکار کی تخریج وتبلیغ کا ذریعہ بھی بنالیا، جس کے نتیجے میں اعتزالِ قدیم نئی تعبیر کے ساتھ فکری وباء بننا شروع ہوگیا۔ اس سلسلے میں حمید الدین فراہی کا مدرسۃ الاصلاح اور سرسیداحمد خان کا مکتبِ فکر طاقت ور فکری وعلمی اور فلسفی فتنے کے طورپر رونما ہوئے جنہوں نے قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے نام پر تأویل وتحریف کا فریضہ نا مرضیہ ادا کیا اور قرآنی تعلیمات کو مغربی تہذیب وتمدن سے ہم رنگ یا تابع محض ثابت کرنے کی خدمت انجام دی۔ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویv کے بقول ان آزاد مفسروں کی ہمہ تن یہ کوشش رہی کہ لفظ عربی ہوں اور معنی مغربی ہوں اور یورپ کے ملحدین کے خیالات کو قرآن کے نام سے مسلمانوں میں پھیلایا جائے۔ یہ گروہ قرآن کریم کا مترجم اور مفسر نہیں، بلکہ یورپ کے نفسانی تمدن کا مترجم ہے۔ حضرت کاندھلویv‘ اپنی معارف القرآن کی تالیف کا مقصد بھی یہ بتاتے ہیں، اس فتنہ سے مسلمانوں کو بچایا جائے، آپ کی کوشش رہی ہے کہ مغربیت وعصریت کے نفسانی تقاضوں سے مرعوب ہوکر قرآن کریم کے مدلول اور مفہوم کو نہ بدلا جائے۔ نیز فراہی صاحب، خان صاحب اور اس ڈَگر کے جدت پسند مغربی افکار کے علمبرداروں سے دفاع کے لیے علماء دیوبند میں سے مولانا عبد الحق حقانی دہلویv(متوفی:۱۳۳۶ھ، ۱۹۱۷ئ)نے اکابرِ دیوبند کی ہدایت پر ’’فتح المنان فی تفسیر القرآن‘‘ المعروف بہ ’’تفسیر حقانی‘‘ لکھی،اور مولانا عبد الماجد دریا آبادیؒ نے ’’تفسیری ماجدی‘‘ میں مغرب زدہ لوگوں کے افکارِ کاسدہ اور تحریفاتِ باطلہ کی نشان دہی کو خاص ہدف بنایا، ان کے علاوہ خود دارالعلوم دیوبند میں تقریباً ۱۳۳۸ھ میں مجلس معارف القرآن (اکیڈمی قرآن عظیم) کے نام سے باقاعدہ مستقل شعبہ قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد قرآن حکیم کے معارف ومحاسن، اسرار وحکم اور احکام وآداب کو تعبیر کی جدت وسہولت کے ساتھ عام کرنا تھا، نیز عصری مسائل کو قرآن حکیم کی روشنی میں حل کرنا اور قرآن حکیم سے رہنمائی وروشنی حاصل کرنے کی ترغیب اور امنگ پیدا کرنا ہدف تھا۔  اس شعبہ کے لیے حضرت قاری محمد طیب صاحب v کے زیر نگرانی مختلف اکابر نے کام کیا،پھر اسی فکر کے تحت دار العلوم دیوبند اور اس کے طرزِ تعلیم سے وابستہ مدارس میں شیخ الحدیث اور صدر مدرس کی طرح باقاعدہ شیخ التفسیر کا ایک عہدہ مقرر تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ التفسیر کے طور پر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی v کا نام ملتا ہے۔ آپ ۱۹۲۹ء میں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے دوران فجر کے بعد نودرہ میں درسِ قرآن دیتے تھے۔ درمیان میں کچھ عرصہ دارالعلوم دیوبند سے علیحدگی کے بعد دوبارہ ۱۹۳۹ء میں علامہ شبیر احمد عثمانی اور حضرت قاری محمد طیب E کی دعوت پر دوبارہ شیخ التفسیر کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوئے۔  ہمارے حضرت بنوری v ڈابھیل اور پھر ٹنڈوالہٰ یار میں ابتدائی طور پر شیخ التفسیر کے عہدے سے مصروفِ خدمت رہے تھے، حضرت بنوری v نے اپنی تألیف لطیف ’’یتیمۃ البیان فی مقدمۃ مشکلات القرآن‘‘ میں تفسیر کے بنیادی اصول وآداب کے علاوہ تفسیر کے جدید وقدیم مناہج میں سے مفید ومضر تفاسیر کی نشاندہی کے لیے کئی تفاسیر اور ان کے تفسیری اسلوب کا تعارف بھی کرایاہے، بالخصوص ہندوستان کے مفسرین اور ان کی تفاسیر کاسیر حاصل تذکرہ فرمایا ہے، جس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں قرآن حکیم کی تفسیری خدمت کی معیاری کوششوں کے علاوہ تحریفی کاوشیں بھی بہ مقدارِ وافر رہی ہیں۔ تفسیر کے نام پرتحریف قرآن کے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے علماء دیوبند نے جہاں تحریری وتقریری انداز میں قرآن حکیم کے الفاظ ومعانی کی حفاظت کا فرض نبھایا، وہاں مستقل تدریسی مشغلہ اور ’’دورۂ تفسیر‘‘ کے نام سے بھی خدمات انجام دیں۔ متحدہ ہندوستان میں ولی اللّٰہی انداز میں قرآن کریم کو اپنے تدبر واعتبار کا محور بنانے والوں میں ایک نامور ہستی مولانا عبیداللہ سندھی v بھی گزرے ہیں، جو اپنے تحریکی مشاغل اور ان کے اثرات کے باوجود وہ اس کوشش میں سرخرو ہوکر گئے کہ قرآن کریم کو مستقل طور پر دیگر علوم ومعارف سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ آپ کی یہ فکر آپ کے تفسیری ذوق اور فکری شعور کے ساتھ حضرت لاہوری v کے اس سوز وگداز سے دمج ہوگئی جو سوز انہیں حضرت شیخ الہندؒ اور اکابر دیوبند سے منتقل ہوا تھا، چنانچہ حضرت امام لاہوری v نے تقریباً ۱۹۲۱ء میں لاہور میں دورۂ تفسیر کا باقاعدہ آغاز فرمایا، جس میں دیوبند اور دیگر مدارس کے فضلاء شریک ہوتے تھے۔ (پرانے چراغ، ندویؒ)  آپ کے تلامذہ نے آپ کے دورۂ تفسیر کی جو خصوصیات ضبط فرمائی ہیں، ان میں روایتی تفسیری انداز کی نمایاں خصوصیات، ربطِ سور، ربطِ رکوعات، ربطِ آیات، خلاصۂ مضامین، مضامین کے عناوین، اسبابِ نزول کی نشان دہی اور تذکیر کی مختلف جہات کے علاوہ خاص امتیازی بلکہ الہامی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے قرآن کریم کو ایک نظری کتاب سے زیادہ عملی دستورِ حیات کے طور پر سمجھانے کی تحلیلی انداز میں کوشش فرمائی تھی، جس کا حاصل یوں بنتا ہے کہ قرآن کریم ایک مسلمان کی عملی زندگی کو تین جہات سے احاطہ کرتا ہے: انفرادی زندگی، عائلی زندگی اور تمدنی زندگی جس کی تعبیر حضرت شاہ ولی اللہ v کے علوم سے یوں مستعار لی گئی ہے: تہذیب الاخلاق، تدبیرِ منزل اور سیاستِ مدنیہ، تہذیب الاخلاق کے زیرِ عنوان خالق ومخلوق کے باہمی تعلق اور اس کے لوازم سے بحث ہوتی ہے، تدبیرِ منزل کے تحت ان احکام وآداب کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو مسلمان کے گھر اور اس کے متعلقات یعنی اقارب یا اجانب میں سے اہل دیوان، اہل محلہ یا قریبی سوسائٹی سے متعلق ہوں، ایسے مباحث کو اجاگر کرنا تدبیرِ منزل کا معنون ٹھہرتا ہے۔  مسلمان انفرادی زندگی سنوار کر جب عائلی زندگی اور سماجی زندگی میں مثبت قدم رکھتا ہے تو اس کی اگلی منزل ریاستی ہے، جسے انسان کے سماجی عروج کی آخری منزل بھی کہتے ہیں، اس مرحلے کے لیے قرآنی تعلیمات کی نشاندہی ’’سیاستِ مدنیہ‘‘ کے زیرعنوان کی جاتی ہے، اس میں قوم وملت کی ریاستی زندگی کے طور طریقے بتائے جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد حضرت شاہؒ کے ہاں قرآنی علوم کی خماسی تقسیم یعنی علم الاحکام، علم المخاصمۃ، علم التذکیر بآلاء اللہ، علم التذکیر بایام اللہ اور علم التذکیر بالموت وما بعد الموت ‘کا استعمال واستفادہ بھی حضرت لاہوریv کے درس اور درسی افادات میں مناسب انداز سے جھلکتا ہے۔ بہرکیف! قرآن حکیم کو جب اس تطبیقی، ترکیزی، تحلیلی اور استنباطی انداز سے پڑھا اور پڑھایا جائے تو یقینا یہ انداز قرآن کریم کی جامعیت اور عالمگیر افادیت کا عملی ثبوت ہوگا۔ درسِ قرآن کریم کی یہ خصوصیت دیگر شیوخِ تفسیر کے دورہائے تفسیر میں شاید نہ مل سکے، اس لیے کیا ہی غنیمت ہوگی کہ حضرت لاہوری v کے تفسیری افادات کو اس انداز سے منظر عام پر لایاجائے۔ یہ خدمت اُمتِ مسلمہ کے لیے بالعموم اور علماء وطلباء دین کے لیے بالخصوص تعلیمی وتدریسی میدان میں عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور قرآن کریم کے دروس کے نام پر بعض فرسودہ عنادی طرزِ تفسیر اور عامیانہ تجدد پسندی کی لغویانہ حرکتوں سے نجات بھی مل جائے گی، ان شاء اللہ! ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی اور ہم اس خوشی میں دیگر علماء وطلباء کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت لاہوریv کے دورۂ تفسیر سے مستفید ہونے والوں میں سے آپ کے ایک نامور شاگرد، پاکستان کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہم بھی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ عملی مشاغل اور سیاسی ہنگامہ آرائی کی زد میں رہنے کے باوصف، علمی دنیا کے بلند مقام سے نواز رکھا ہے، جسے محض حق تعالیٰ شانہٗ کا فضل اور مولانا موصوف کے عظیم، باکرامت ولی، پدر مکرم مولانا عبد الحق صاحب قدس سرہٗ کی زندہ کرامت ہی کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ہمارے بزرگ وشیخ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب زیدمجدہم کے نام ایک تفصیلی خط بھیجا، جس کے ہمراہ حضرت لاہوریv کے تفسیری افادات کے مسوّدے کا ابتدائی نمونہ بھی شرفِ نظر بنا، اس مراسلت کے ذریعہ معلوم ہوا کہ مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہم نے ۱۹۵۸ء میں حضرت لاہوری v سے دورۂ تفسیر پڑھا تھا، دورانِ درس آپ کے تفسیری افادات کو جمع بھی فرماتے رہے جو ایک مجموعہ کی شکل میں محفوظ ہوگئے تھے، اس مجموعہ کو مرتب ومدون کرنے کا دیرینہ داعیہ‘ جب رو بعمل ہونے لگا، تو اس مجموعہ کے سن تسوید سے دو چار سال قبل اور دو چار سال بعد کی امالی سے استفادہ بھی کیا گیا اور حسبِ ضرورت حضرت لاہوری v کے مطبوعہ علمی افادات سے راہ نمائی بھی لی گئی۔ اس طرح یہ مجموعہ بحمد اللہ! تیار ہوچکا ہے۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ محنتِ شاقہ کا یہ ثمرہ تقریباً پندرہ جلدوں میں منظر عام پر آئے گا، جسے شاہ ولی اللہ محدث دہلویv کے الہامی ولدنی افادات سے آراستہ اور مولانا عبید اللہ سندھیv کے ’’الاعتبار والتاویل‘‘ سے معمور ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہوگااور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معتمد ومستند طریق سے جب ہمیں حضرت امام شاہ ولی اللہv اور حضرت سندھیv کے افادات وافکار پڑھنے کو ملیںگے تو ان بزرگوں کے نام پر فکرولی اللّٰہی جیسے نیم جان فتنوںکی دروغ بافتگی کے تاروپود اُدھڑ جائیں گے، ان شاء اللہ !  وہو الموفق لکل خیر ومیسّر لکل عسیر وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین