بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

بینات

 
 

وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میں درجہ ثانیہ تا درجہ خامسہ  ترجمۂ قرآن اورتفسیر کیسے پڑھائیں؟

وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میں درجہ ثانیہ تا درجہ خامسہ

 ترجمۂ قرآن اورتفسیر کیسے پڑھائیں؟


’’زیرِنظر مضمون جامعہ کے استاذ مولانا عمران عیسیٰ صاحب کی طرف سے وفاق المدارس کے ’’تدریب المعلمین‘‘ کے کراچی میں منعقد ہونے والے اجتماع مؤرخہ ۱۳ اور ۱۴ جون ۲۰۲۳ء میں پیش کردہ مقالہ یا بیان ہے، ضروری ترمیم کے بعد افادۂ قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ بیان کی ریکارڈنگ کو تحریری شکل دی گئی ہے، چوںکہ تقریر و تحریر کے اسلوب میں نمایاں فرق ہوتا ہے، اس لیے اُمید ہے کہ اس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔‘‘

قابلِ احترام اکابر اساتذۂ کرام! آپ حضرات مختلف مدارس سےتشریف لائے ہیں، میں آپ کے سامنے بات کرنے کےلیے بیٹھا ضرور ہوں، لیکن مجھے آپ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، میں آپ کا ساتھی ہوں، آپ سے ادنیٰ ہوں، علم میں بھی، عمل میں بھی، لیکن بعض دفعہ چھوٹوں سے اُن کی تربیت کے لیے کام کرایا جاتا ہے اور بعض دفعہ چھوٹے بڑوں کو سبق سنایا کرتے ہیں، تاکہ غلطیوں کی اصلاح ہوجائے تو اس لیے میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، اور اگر کوئی غلط بات منہ سے نکل جائے تو امید ہے کہ آپ حضرات درگزر بھی فرمادیں گے۔ وفاق المدارس کے تحت ’’تدریب المعلمین‘‘ کے اس اجتماع میں اس مجلس سے پہلے اور بعد میں بھی آپ کو اکابر کی بات سننا نصیب ہوگی، درمیان میں اس نشست پر گزارا کرلیں، لیکن اتنی بات ہے کہ کوئی اجتہادی بات یا کوئی اِبداع نہیں ہوگا، بلکہ جو بات بڑوں سے سنی ہے وہی آپ کی خدمت میں عرض کر دی جائے گی اور اس میں بھی کوئی غلطی ہو تو آپ اصلاح فرما سکتے ہیں۔ سننِ ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سےایک روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’تَسْمَعُوْنَ وَيُسْمَعُ مِنْکُمْ وَيُسْمَعُ مِمَّنْ يَسْمَعُ مِنْکُمْ‘‘ تم مجھ سے دین حاصل کر رہے ہو، پڑھ رہے ہو، آئندہ زمانے میں تم سے سنا جائے گا، لوگ تم سے استفادہ کریں گے، پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جنہوں نے تم سے استفادہ کیاہوگا وہ لوگوں کوسنارہےہوں گے۔ تو یہ علم سینہ بسینہ، کابراً عَن کابرٍ منتقل ہوتا ہے، اس لیے جو کتابوں میں پڑھا، جو اساتذہ سے سنا، وہ آپ کی خدمت میں کچھ باتیں عرض کردی جائیں گی۔ میرے ذمے جو موضوع ہے وہ ’’ترجمۂ قرآن اور تفسیر‘‘ ہے۔ 
ہمارے ہاں درسِ نظامی میں درجہ ثانیہ سے ترجمۂ قرآن شروع ہوتا ہے، درجہ ثانیہ میں پارہ عم پڑھایا جاتا ہے، پھر درجہ ثالثہ، درجہ رابعہ اور درجہ خامسہ کے تین سالوں میں دس، دس پارے کرکے پورا قرآن مکمل کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد درجہ سادسہ میں ’’تفسیرِ جلالین ‘‘ ہے اور پھر درجہ سابعہ میں ہمارے ہاں ’’تفسیرِبیضاوی‘‘ ہے، جس کا ’’ألمٓ‘‘ کا ایک پاؤ پڑھاجاتا ہے، پڑھایا جاتا ہے۔ 
جو ترجمۂ قرآن، درجہ ثانیہ سے درجہ ثالثہ تک، یا درجہ ثانیہ سے درجہ رابعہ تک ہے، اُس میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟ وہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، مگر پہلے کچھ تمہیدی باتیں عرض کرنی ہیں۔ 

ترجمۂ قرآن پڑھانے والا اپنی نیت کو صاف اورجذبہ کو تازہ کرے

پہلی تمہیدی بات تو یہ ہے کہ امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’ریاضُ الصالحین‘‘ میں محدثین کی عادت کے مطابق اخلاص، یا ’’إِنَّمَا الْأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ والی روایت سے کتاب کو شروع کیا ہے، اس پر عنوان یا ترجمۃ الباب انہوں نے یہ قائم کیا ہے: ’’بابُ الإخلاص واستحضار النيّۃ فيہ‘‘ یعنی عمل میں اخلاص پیدا کرنا اور جو عمل کررہے ہیں، اس عمل کرتے وقت اپنے آپ کویاد دلانا کہ میں کونسا عمل کررہا ہوں، یہ وہ بات ہے جس کو ’’احتساب‘‘ کہا جاتا ہے، گویا عمل کرتے وقت اپنے آپ کو یادد لانا کہ میں کونسا عمل کررہا ہوں، اس لیے ’’حياۃُ الصحابۃؓ‘‘ میں مولانا محمدیوسف کاندھلوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا اثر نقل کیا ہے: ’’لَا أجْرَ لِمَـنْ لَّا حِسْبَۃَ لَہٗ‘‘، اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گاجس کو نیکی کرتے وقت یہ یاد نہ ہو کہ میں کیا عمل کررہا ہوں۔ ’’احتساب‘‘ یہ ہے کہ عمل کی اہمیت دل میں ہو، دل میں یہ بات نہ ہو کہ مہتمم صاحب نے مجھے ’’ہدايۃُ النحو‘‘ نہیں دی، ’’عمّ پارہ‘‘ دے دیا، مجھے ’’کنز الدقائق‘‘ حوالہ نہیں ہوئی، جوفن کی کتاب کہلاتی ہے، ’’شرح التہذیب‘‘حوالے نہیں ہوئی، یہ میری ناقدری ہوئی کہ مجھے ’’ترجمۂ قرآن‘‘ پڑھانے کو ملا، تو یہ ناقدری نہیں ہے میرے دوستو! مجھے بہت بڑی سعادت ملی کہ مجھے قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھانا نصیب ہوا۔ 

طلباء ہمارے پاس نعمت بھی ہیں، امانت بھی ہیں، ان کی قدر کی جائے

دوسری بات جومجھے آپ سے عرض کرنی ہے، ویسے وہ بھی عمومی سی ہے، وہ یہ ہے کہ ابھی حضرت مولانا امداد اللہ صاحب سےبھی آپ نے اس طرح کی بات سنی، اور ہم نے سنا ہے کہ دار العلوم دیوبند میں جو داخلہ فارم جاری ہوتا ہے اس کے اوپر ایک روایت لکھی ہوئی ہے: ’’ إِنَّ النَّاسَ لَکُمْ تَبَعٌ، وَإِنَّ النَّاسَ یَاْتُوْنَکُمْ مِنْ اَقْطَارِ الْأرْضِ يَتَفَقَّہُوْنَ فِي الدِّيْنِ، فَاسْتَوْصُوْا بِہِمْ خَيْرًا‘‘ لوگو! تمہارے پاس لوگ آئیں گے، دین سیکھنے کے لیے (ان کی قدر کرنا) اور ان کا خیال رکھنا۔ اس لیےحضرت صدرِ وفاق شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی یہ بات کہیں سنی یاپڑھی کہ ’’ طلبہ ہمارے پاس نعمت بھی ہیں، امانت بھی ہیں۔‘‘ آپ میں سے بہت سارے دوست جمعہ پڑھاتے ہوں گے، خطباء ہوں گے، جمعہ کا مجمع بیان سننے کے لیے کتنا آتا ہے، (یہ ہم جانتے ہیں) جبکہ یہ طلبہ کتنے ادب کے ساتھ ہمارے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں؟! اور پھر بفضلہٖ تعالیٰ مدارس کی رونقیں روز افزوں بڑھ رہی ہیں۔

مطالعہ وتیاری کا اہتمام

تیسری تمہیدی بات یہ کہ ہم کتاب کوئی بھی پڑھائیں، تو مطالعہ کا خوب اہتمام ہو، جب میرا تدریس کا دوسرا سال تھا تو مجھے ’’کنز الدقائق‘‘ حوالے ہوئی، استاذِ محترم (سارے ہی اساتذہ ہمارے محسن ہیں، لیکن بعض اعتبارسے) مفتی محمد ولی درویش صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت خیال فرمایا، انہوں نے مجھ سے فرمایا: درجہ اولیٰ سے لے کر درجہ رابعہ تک ہمارے درسِ نظامی میں فقہ کی جتنی کتابیں ہیں ان سب کو دیکھنا ہے، جوسبق پڑھاؤ اس سےمتعلق ’’مختصر القدوري‘‘ بھی دیکھو، ’’کنزُ الدقائق‘‘ تو دیکھو، اس جگہ پر ’’ شرح الوقایۃ‘‘ بھی دیکھو، اس جگہ پر ’’ہدایۃ‘‘ بھی دیکھو اور ’’کنزُ الدقائق‘‘ کی ساری شروحات دیکھو۔‘‘ پھر فرمانے لگے: ’’جو مطالعہ کرو وہ سب طلبہ کو نہیں بتانا، بلکہ خود کو مسلح کرنا ہے، یعنی پوری طرح تیارہوکرجانا ہے، کوئی پتہ نہیں طالب ِعلم کیاسوال پوچھ لے۔ ‘‘
اور آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا، اس مجلس میں پرانے مدرسین بھی بیٹھے ہیں کہ جب مطالعہ مضبوط ہوتا ہے توسبق میں بڑی برکت ہوتی ہے، ہم کبھی بعض اساتذہ کا سوچتے ہیں کہ ان کاسبق کتنا برکت والاہوتا ہے، وہ برکت والا اس لیے ہوتا ہے کہ ان کی نیکی اور روحانیت تو اپنی جگہ پر، ان کا علم پر اِتقان اوردَرک ہوتا ہے جو سبق میں برکت پیدا کردیتا ہے، تو ترجمۂ قرآن کے لیے بھی ہمیں بہت اچھی طرح مطالعہ کرنا ہوگا۔ 

ترجمۂ قرآن وتفسیر کی تدریس کے دوران کن تفاسیر کو مطالعہ میں رکھیں؟
 

’’يتيمۃُ البيان‘‘ میں محدث العصرعلامہ سید محمدیوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بات لکھی ہے کہ چارتفاسیر ایسی ہیں کہ اگر ان کا اہتمام سے مطالعہ کرلیاجائے تو فی الجملہ کہاجاسکتا ہے کہ دیگر تفاسیرسےایک گونہ استغناء ہوجائے، اورانہوں نے اس کی ایک مثال دی، جیسے حافظ ابنِ حجر  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’فتحُ الباري‘‘ اگر پڑھ لیں تو ’’صحیح بخاری‘‘ پڑھانے والے کو ایک گونہ اس میں ’’صحیح بخاری‘‘ کی دیگر شروحات سے استغناء ہوجاتا ہے۔ انہوں نے جن چار تفاسیر کا لکھا ہے، وہ حسب ذیل ہیں: 
1- روح المعانی         2- تفسیرِ کبیر         3- تفسیرابنِ کثیر           4- تفسیرِ ابی السعود 
البتہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے ’’علوم ُ القرآن‘‘ میں اس میں تفسیر قرطبی کا اضافہ کیا ہے، اور یہ بھی لکھاکہ ’’يتيمۃُ البيان‘‘ میں حضرت بنوریؒ کی اس بات پر نظر پڑی، تو لکھا کہ ’’ مجھے خوشی ہوئی کہ میری بات کی تائید ہوگئی۔ ‘‘ 
پھر ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ مضبوط مطالعہ کے بغیر طلبہ بھی مطمئن نہیں ہوں گے۔ پچیس، تیس سال پہلےچلے جائیں تو طلباء عام طورپر عقیدت کی چادر اوڑھ کر سبق میں بیٹھتے تھے، اب طلبہ بہت ہوشیارہیں، ہمارے مطالعہ کانقص ان کوپتہ چل جاتا ہے، وہ یہ بھی جانچ رہے ہوتے ہیں کہ آج استاذ صاحب جوتھوڑی دائیں بائیں کی باتیں کر رہے ہیں، اس کی کیاوجہ ہے؟ اس لیے ہمیں بہت اچھی طرح محنت کرکے پڑھانا ہوگا۔ 
کسی بھی کتاب میں دلچسپی کے لیے اس سےمناسبت اورذوق ہونا ضروری ہے
چوتھی تمہیدی بات یہ ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھانے میں دلچسپی اس وقت ہوتی ہے جب اس کتاب سے مناسبت اور ذوق پیدا ہوجائے، اگر ذوق نہیں ہوگا تو طبیعت چلے گی نہیں، مطالعہ کرنے کے لیے دھکا دینا پڑےگااور سال کے بیچ میں بھی کوشش کریں گے کہ کتاب بدل جائے، ورنہ اگلے سال تو ضرور کوشش کریں گے۔ بہت کم قسمتی ہوگی اگر ترجمۂ قرآن میں یہ کیفیت پیدا ہو، اس لیے اس کو اللہ سے مانگنا بھی پڑےگا اور ایسی کتب کا مطالعہ کرنا ہوگا جن سے ہمارا ذوق جوان ہو، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’میری علمی اور مطالعاتی زندگی‘‘ میں لکھا ہے اور کہیں اور بھی میں نے پڑھاتھا، ایک دفعہ اگر قرآن کے ساتھ طبیعت لگ جائے نا تو پھر بہت ساری دیگر تصنیفات اوردیگر فنون میں طبیعت نہیں چلے گی، بس ایک دفعہ تیلی جلنےکی دیر ہے اور ایک دفعہ چولہاجلنے کی دیر ہے، پھر ہماری طبیعت چل جائےگی ۔ 
یہ کچھ تمہیدی اور اصولی باتیں میں نے آپ کی خدمت میں عرض کردیں، اب متعلقہ موضوع کے بارے میں عرض کرتاہوں:

1: مقدمۃ العلم سے آگاہی 

مدرس کوئی بھی فن پڑھائے، اس کو اس فن سے متعلق ابتدائی باتیں جس کو مقدمۃ العلم اور مقدمۃ الکتاب کہا جاتا ہے، اس کا علم ضروری ہے۔ آپ ترجمۂ قرآن کولےلیں، تو اس سے متعلق جو تمہیدی اور مقدمۃ العلم کی باتیں ہیں، وہ ہمیںعلی بصيرۃٍ پتہ ہونی چاہئیں، ممکن ہےکہ درجہ ثانیہ میں بتانے اور بیان کی نوبت نہ آئے، لیکن ہمیں پوری طرح اس کادَرک ہوناچاہیے، جمعِ قرآن، تاریخِ علمِ تفسیر، اہم تفاسیر اور ان کا منہج، تفسیر کے ماٰخذ، اس سے متعلق ہمیں ضرور آگاہی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہمارے سامنے کتب ہیں، اردو میں بھی مواد مل جائےگا، ابھی میں نے نام لیا ’’علومُ القرآن‘‘ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا، ایک ’’علومُ القرآن‘‘ مولانا شمس الحق افغانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، بعض دفعہ ناموں میں اشتباہ ہوجاتا ہے اور خیال گزرتا ہے کہ دونوں کے مضامین ایک ہیں، ایسانہیں ہے، بعض خاصے کی چیزیں مولانا شمس الحق افغانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’علومُ القرآن‘‘ میں آپ کو ملیں گی۔ مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی کے ’’ محاضرات‘‘ کئی علوم پر ہیں، آپ نے پڑھے ہوں گے، ان میں ’’محاضراتِ قرآنی ‘‘ بھی ہیں جو ان کے اسلام آباد میں دیے ہوئے لیکچرزہیں، وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوبارہ یاددہانی کرادوں کہ مدرس کا مطالعہ کبھی اس بنیاد پر نہیں ہوگا کہ مجھے کل سبق میں بتانا کیا ہے؟ بلکہ میرا مطالعہ سوفیصد ہوگا، بےشک اس میں سے دس فیصد باتیں بتانی ہیں۔ 

2: ترجمۂ قرآن
 

درجہ ثانیہ سے درجہ خامسہ تک ہمارا جوسبق ہے، اس میں بڑا عنوان ’’ترجمہ‘‘ ہے۔ تفسیر بیان تو کی جاتی ہے، لیکن اصل جو مطلوب ہے وہ ترجمہ ہے، اگر یہ ذہن میں نہ ہوا توبعض دفعہ آپ جانتے ہیں کہ مدارس میں جو جدول اور تقسیمِ اسباق کا نقشہ لگتا ہے اس میں بھی لکھ دیاجاتا ہے: ’’تفسیر‘‘، لیکن اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ طالبِ علم ہو یااستاذ ہو، ترجمہ کی وہ اہمیت ذہن میں نہیں رہتی، ہمارا اصل مطمحِ نظر ترجمہ ہے، اگر یہ ترجمہ ہمارے قابومیں نہ آیا اور ہم نے درسِ قرآن کے انداز میں، یابیان کے انداز میں تفسیر کردی، تو ہم پورا مقصد ادانہیں کر رہے۔ 

ترجمہ کی تین نوعیتیں

ڈاکٹر محمود احمدغازی کے محاضرات اگر آپ پڑھیں گے اس میں بہت تفصیل سے یہ بات لکھی ہے، ترجمے تین طرح کے ہوسکتے ہیں، ایک ’’ تحت اللفظ ترجمہ‘‘، دوسرا ’’سلیس ترجمہ‘‘ اور تیسرا ’’بامحاورہ ترجمہ‘‘، اب تینوں ترجموں میں کیافرق ہے؟ یہ بتانے کا ابھی موقع بھی نہیں ہے، لیکن بتانے کی بات ابھی یہ ہے کہ درجہ ثانیہ سے لےکر درجہ خامسہ تک اصل تو ’’تحت اللفظ ترجمہ‘‘ اور ’’سلیس ترجمہ ‘‘ ہے۔ جبکہ ’’بامحاورہ ترجمہ‘‘ بعض جگہوں پر تو کرناپڑےگاجہاں آیت مشکل ہوگی اور اس کے بغیر سمجھ میں نہ آرہاہو، جیسے مساجد میں درسِ قرآن میں آپ حضرات کا واسطہ رہتا ہوگا، لیکن طلبہ کو ہمیں آیت سے مناسبت پیدا کرانی ہےتوہمیں ’’تحت اللفظ ترجمہ‘‘ بھی کرنا ہے، تاکہ ان کو ’’مفردات‘‘ کا ترجمہ آجائے، اور ’’سلیس ترجمہ‘‘ بھی اس لیے ہوکہ اولیٰ سے رابعہ تک طلبہ صرف ونحو کی کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں، تو اس کو ترکیبی لحاظ سے بھی جملہ سمجھ میں آرہا ہونا چاہیے کہ کہاں ’’فاعل‘‘ آیا؟ کہاں ’’مفعول‘‘ آیا، کہاں ’’مرکب‘‘ مکمل ہوا؟ کہاں ’’مبتدا‘‘؟ کہاں ’’خبر‘‘؟ کہاں ’’جملہ معترضہ‘‘؟ کہاں ’’جملہ حالیہ‘‘؟ اور کبھی حسبِ ضرورت بامحاورہ ترجمہ بھی، جیسے کہیں محاورہ آگیا، مثلاً ’’وَلَمَّا سُقِطَ فِيْ أَيْدِيْہِمْ وَرَأَوْا أَنَّہُمْ قَدْ ضَلُّوْا قَالُوْا ... إلی آخر الآيۃ‘‘ اس میں ’’وَلَمَّا سُقِطَ فِيْ أَيْدِيْہِمْ‘‘، یہ ٹھیٹھ محاورہ ہے عربی کا، اب یہاں بامحاورہ ترجمہ کیے بغیر طلبہ کی تشنگی دور نہ ہوگی۔
تو خلاصہ یہ کہ اصل ’’تحت اللفظ ترجمہ‘‘ ہے اور اس کے ساتھ ’’سلیس ترجمہ‘‘ ہے اور حسبِ موقع ’’بامحاورہ ترجمہ‘‘ کرنا ہے۔ سلیس ترجمہ اور بامحاورہ ترجمہ کا فرق آپ کو محاضراتِ قرآنی میں بھی مل جائے گا۔

ترجمہ کے لیے معاون کتب
 

’’تحت اللفظ ترجمہ‘‘ کے لیے اساس تو حضرت شاہ عبد القادر صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کا ترجمہ ہے۔ ’’بيانُ القرآن‘‘، ’’ معارفُ القرآن‘‘ کی ’’ خلاصۂ تفسیر‘‘ کو جمع کرلیا تو ترجمہ پر گرفت حاصل ہوجائے گی۔ 

اجتہادی ترجمہ کرنے سے گریز کیاجائے

یہاں ایک بات عرض کرنی ہے، وہ آگے تفسیر‘‘ میں بھی کام آ ئےگی، لیکن ایسا نہ ہو کہ آگے رہ جائے تو ابھی عرض کردیتا ہوں، ہم نے دیکھا کہ اکابر ترجمہ میں احتیاط اتنی کرتے ہیں کہ بڑوں کے ترجمےسےسرِمو انحراف نہیں کرتے، کوشش یہ کی جائے کہ ترجمہ اجتہادی نہ ہو، مثلاً حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا  رحمۃ اللہ علیہ  کی فضائلِ اعمال میں جہاں جہاں آیت آئی تو ’’بیانُ القرآن‘‘ کے ترجمہ سے ہٹے نہیں، اس لیے ہمیں ’’ترجمہ‘‘ میں کوئی ایسی تعبیر اختیار نہیں کرنی جو صرف ذاتی ذوق کی عکاس ہو، یہ امانت کا معاملہ ہے، عام عبارات میں ہم اپنی تعبیر شاید کرپائیں، قرآنِ پاک میں نہیں کرسکتے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کتنے بڑے آدمی ہیں؟! ’’أعلمُ الصحابۃ‘‘، ان سے ایک آیت کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے کہا:میں نہیں جانتا، پوچھنے والے نے تعجب سے عرض کیا: آپ نہیں جانتے؟!اس پر فرمایا: ’’أَيُّ أرْضٍ تُقِلُّنِيْ وَ أَيُّ سَمَاءٍ تُضِلُّنِيْ إِذَا أَنَا قُلتُ فِي القُرْآنِ مَا لَا أَعْلَمُ ۔ أو کما قال‘‘، مجھے کونسی زمین اور کونساآسمان پناہ دے گااگر قرآن میں، میں نے اپنی طرف سے لب کشائی کی، یہ کون کہہ رہا ہے؟حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہہ رہےہیں، ان سے زیادہ بھلا کون قرآن کو جانتا ہوگا؟!

3:حلِ مفردات

ہمارا ترجمہ حل نہیں ہوگا جب تک کہ ہم ’’مفردات‘‘ طلباء سے حل نہ کرالیں، طلباء کو صیغوں کی پہچان نہ ہو، ابھی حضرت مولانا امداد اللہ صاحب فرمارہے تھے کہ میں دورۂ حدیث والوں سے دعائے قنوت سنتا ہوں اور سنتا صرف نہیں ہوں بلکہ پوچھتا ہوں کہ یہ صیغہ کونسا ہے؟ ’’ حلِ مفردات‘‘ کے تین جزء ہیں: لغوی معنی، صیغہ کی پہچان اور نحوی لحاظ سے حل، مگر اس کو آسان کرکے طلبہ کو متوجہ کیا جائے، شرح مائۃ عامل کی ترکیب کا انداز نہ اختیار کیا جائے۔ طلبہ کے پاس ’’بیاض والا قرآن ‘‘ ہونا چاہیے۔ ہم طلباء کو کہیں گے کہ آپ کے پاس پنسل ہونی چاہیے، اور جب آپ صبح سبق میں آئیں گےتو مفردات اور صیغوں کو حل کرکے آئیں گے۔ نحوی لحاظ سے حل کرانے میں اگر صرف وجہ اعراب طلبہ کو واضح ہوجائے تو کفایت ہوجائے گی، (یہ کم از کم بات ہے)، یعنی یہاں رفع کیوں پڑھ رہے ہیں؟ نصب کس نے دیا؟ جر کس نے دیا؟ ۔
اور استاذ کا کام ہے کہ طلبہ کو لغت اور قاموس دیکھنے پر پابند کرے، اس لیے کہ وہ کیسا طالبِ علم ہے جو مطالعہ کے بغیر آجائے؟!اور وہ کیسا طالبِ علم ہے جس کے پاس ’’ لغت‘‘ اور ’’قاموس‘‘ نہ ہو؟! طلبہ پر تھوڑا بوجھ ڈالا جائے اور کام کرنے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔ 

حلِ مفردات کےلیے معاون کتب

بنیادی چیز تو لغت ہے، ’’مصباحُ اللغات‘‘ اور دیگر بہت ساری ’’قوامیس‘‘ ہیں، اور ’’مفرداتُ القرآن‘‘ پر بھی مستقل کتابیں ہیں، مولانا محمد عبد الرشید نعمانی صاحب کی کتاب ہے، مولاناعبد الرشید گجراتی کی بھی ایک کتاب اسی نام سے ہے، مولانا نسیم بارہ بنکوی کی ’’منتخب لغات القرآن‘‘ دارالہدیٰ والوں نے چھاپی ہے، اس میں طلباءکوبہت آسانی ہے، کیوں کہ عام طورپر ’’مصباحُ اللغات‘‘ وغیرہ میں حروفِ اصلیہ کےلحاظ سے ڈھونڈنا پڑتا ہے، اگر درجہ ثانیہ کاطالبِ علم صرف میں کمزور ہے او رحروفِ اصلیہ کے لحاظ سے ’’مصباحُ اللغات‘‘ سے استفادہ نہیں کرپارہا، تو یہ ’’منتخب لغات القرآن‘‘ قرآن کی ترتیب پر ہے ۔ 
ایک مفید کتاب شامی عالم محی الدین درویش (متوفی:۱۹۸۲ء) کی ’’إعراب القرآن الکریم‘‘ ہے، اس پرمحقق نےچارپانچ صفحات میں مقدمہ خوب لکھا ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک پڑھنےوالے کو اعراب یعنی ترکیب کا پتہ ہونا کیوں ضروری ہے؟ نصوص کی روشنی میں بہت اچھا سمجھایا ہے۔
ایک اور مفید کتاب مولانانعمت اللہ اعظمی کی ’’نِعم البيان‘‘ ہے، پتہ نہیں چھپی ہے یانہیں؟ میرے پاس پچھلے دنوں اس کاپی ڈی ایف آیا ہے، وہ شاید ناقص بھی ہے، سورۂ قٓ سے ترجمہ وتفسیر ہے، لیکن اس کامقدمہ بہت جان دار اور فوائد پر مشتمل ہے۔ ’’حروفِ عاطفہ‘‘، ’’حروفِ استفہام‘‘، ’’بَلْ‘‘، ’’کَلَّا‘‘، ان کا ہم ایک ہی ترجمہ کررہے ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے، اُس کتاب میں لکھا ہے: ’’بَلْ‘‘ کا ترجمہ ہمیشہ ’’بلکہ‘‘ سے نہیں ہوگا، اور ’’کَلَّا‘‘ کاترجمہ ہمیشہ ’’ ہرگز ‘‘ سے نہیں ہوگا، پھر اس کی بہت ساری مثالیں دیں ہیں، ان میں یہ مثال بھی ہے: ’’کَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغٰی‘‘، تومفردات کے حل میں یہ ساری باتیں آئیں گی۔ 

مفردات کے ذیل میں ایک اہم بحث:قسم اورجوابِ قسم کی ہے
 

ایک اوربات جو درجہ ثانیہ میں بہت پیش آتی ہے، وہ ہے ’’ قسم اورجواب ِقسم‘‘، درجہ ثانیہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ’’عم پارے‘‘ میں جملہ قسمیہ بہت ہیں، اورعام طور وفاق کے سوال میں ایک سوال: قسم اور جوابِ قسم کا ضرورآجاتا ہےکہ جوابِ قسم متعین کریں، تو اس لیےمفردات ہی کے ذیل میں یہ کام بھی بہت ضروی ہے۔ پہلےہمیں بہت اچھی طرح قسم کی بحث نحو کی کتابوں میں دیکھ لینی چاہیے، ’’ہدايۃُ النحو‘‘ کو اساس بنائیں، لیکن ’’ہدايۃُ النحو‘‘ پر اکتفانہ کریں، اگرہم ’’النحو الوافي‘‘ یا ابنِ ہشام کی ’’شذورُ الذہب‘‘ دیکھ لیں گے تو ہمیں قسم کی بحث سمجھ میں آجائےگی، اس میں تین باتیں اہم ہیں: ایک ’’اداتِ قسم‘‘ ہے، دوسرا ’’مقسم بہ ‘‘ یا ’’مقسم بہا‘‘ ہے، اور تیسرا ’’ مقسم علیہ‘‘ یا ’’جوابِ قسم‘‘ ہے، ’’وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا‘‘، یہاں واؤ ’’اداتِ قسم‘‘ ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے قسم کس کی کھائی؟ یہ ’’مقسم بہ ‘‘ یا ’’مقسم بہا‘‘ بنےگا، پھر اس کو سمجھانا کہ ’’نٰزِعٰت ‘‘ سے باری تعالیٰ کی کیامرادہے؟ ’’تِیْن‘‘ کی قسم باری تعالیٰ نے کیوں کھائی؟ ’’عٰدِیٰت ‘‘، گھوڑوں کی قسم کیوں کھارہے ہیں؟ یہ سب سمجھانا ضروری ہے، یہ ’’مقسم بہا‘‘ ہے، پھر جب میں نے قسم کھائی تو اس کا کوئی نہ کوئی ’’جواب ِ قسم‘‘ ہوگا، تو باری تعالیٰ بھی کسی بات پر قسم کھاتے ہیں، جس بات پر باری تعالیٰ قسم کھائیں گے وہ ’’جوابِ قسم‘‘ ہوگا، بعض مرتبہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ’’ جواب ِ قسم‘‘ کہیں دورہوجاتا ہے تو طلباء کو متعین کرکے بتاناکہ دیکھو ’’جواب ِ قسم‘‘ یہ آرہا ہے۔ 

4:ترجمۂ قرآن حل کرنے کے ساتھ ساتھ مختصر تفسیر 

اگلا مرحلہ تفسیر کا ہے، میں نے عرض کیا کہ اصل تو ترجمۂ قرآن ہے، لیکن چوں کہ تفسیر بیان کی جاتی ہے اور بیان کرنی بھی چاہیے، کیوں کہ اس میں ایک پہلو یہ ہے کہ اگرہم ’’تفسیرِ جلالین‘‘ کا انتظار کریں اوران تین یا چار سالوں میں ہم صرف ترجمہ پر اکتفا کرائیں تو اشکال یہ ہوتا ہے کہ ’’تفسیرِ جلالین‘‘ کی اپنی مقدرات کو سمجھائیں یا تفسیر کریں؟ اسی میں فارغ نہیں ہوتے اور ’’تفسیرِبیضاوی‘‘ توپاؤپارہ ہے، توتفسیربایں معنی کہ قرآنِ پاک سمجھ میں آئے، یہ کب ہوگا؟پھر ایک اشکال یہ ہوتا ہے جو آپ حضرات کے ذہنوں میں بھی آتا ہوگاکہ بعض دفعہ وفاق کے پرچوں میں بھی تفسیری سوال آجاتا ہے تو تفسیر بتائیں لیکن مختصر۔ 
اب مختصر کیسے کریں گے؟ تو اس میں چند باتیں میں مشورۃًعرض کررہا ہوں، آپ حضرات اس کو بہتر انداز سے کررہے ہوں گے۔

سب سے اہم بنیاد باری تعالیٰ کی مراد کا واضح ہوجانا

تفسیر کی بنیاد یہ ہے کہ باری تعالیٰ مجھ سے مخاطب ہیں، باری تعالیٰ کی بات مجھے سمجھ میں آنی چاہیے، اب اس کو آپ مزید کھولتے چلے جائیں، اس کے ذیل میں ربط کی بات بھی آئے گی، جو ایک الگ موضوع ہے، یہ الگ بات ہے کہ بعض مرتبہ ربط واضح نہ ہوگا تو طلبہ کو بتانا ہوگا کہ کلام تو مربوط ہے، مگر ہماری سمجھ ناقص ہے۔ 

شانِ نزول کہاں بیان کرناچاہیے؟

شانِ نزول کے بارے میں ہمیں یہ سمجھ لیناچاہیے، ’’الفوزُ الکبير‘‘ میں شاہ ولی اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے: بعض اسبابِ نزول ایسے ہیں کہ ان کے بغیر آیات ہی سمجھ نہیں آئیں گی، وہاں تو بیان کرنا ضروری ہے اور وہ واقعی سببِ نزول ہے، اوروہی واقعہ ان آیات کے نزول کا سبب بنا ہے، جیسے سورۂ مائدہ کے آخر میں ’’یٰأیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ الخ‘‘ لیکن بعض جگہ پر تفاسیر میں سببِ نزول لکھا تو ہے اور احادیث میں ’’نزلت في کذا‘‘ وارد ہوگا، مگر ضروری نہیں کہ وہ آیت فلاں قصہ ہی پر نازل ہوئی ہو، بلکہ بسااوقات صحابیؓ کے ساتھ قصہ پیش آیا تو اس کو آیت کا حوالہ دیا گیا، آیت تو پہلے نازل ہوچکی، مگر صحابیؓ اس کواپنے حق میں سمجھ کر نقل کرتا ہے۔

تفسیر کے ذیل میں ایمانی اور نظریاتی تربیت 

تدریس میں رخ ایسا بن گیا ہے کہ امتحانی مقامات پر تو توجہ زیادہ ہوتی ہے، مگر وہ جگہیں خصوصاً قرآن کریم میں جو شاید مشکل تونہ ہوں، مگر شخصی وایمانی تربیت کے لحاظ سے اہم ہوں، اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہم نے درجہ خامسہ کا ترجمہ حضرت مولانا عبد القیوم چترالی  رحمۃ اللہ علیہ  سےپڑھا۔ ہمارے بنوری ٹاؤن کے ناظمِ تعلیمات بھی تھے۔ اس زمانے میں درجہ خامسہ میں آخرکے دس پارے تھے، ’’سورۂ عنکبوت‘‘ سے سبق شروع ہوا، مجھے یاد ہے کہ ’’أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُّتْرَکُوْا أَنْ يَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ‘‘ میں بہت وقت لگایا، پھر ’’سورۂ روم‘‘ آئی تو ’’سورۂ روم‘‘ میں یہ جو رکوع ہے: ’’وَمِنْ آيَاتِہٖ أَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ‘‘، ’’وَمِنْ آيَاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ‘‘ اس کو عام فہم انداز میں بہت دیر سمجھایا۔
میں نے مولانا ابو الحسن علی ندوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’میری علمی اورمطالعاتی زندگی‘‘ کا پہلےحوالہ دیا، اس میں انہوں نے ایک بات لکھی: ’’ہمارے ایک استاذ تھے، عرب تھے، وہ ہمیں قرآن پڑھاتے تھے، روتے بھی تھے، رُلاتے بھی تھے۔‘‘ پھر لکھا: ’’مجھے توحید اس وقت سمجھ میں آ ئی جب انہوں نے ہمیں ’’سورۂ زمر ‘‘ پڑھائی‘‘ ہم میں سے کون سورۂ زمر کو اس انداز سے پڑھاتا ہے، ہم تو اس کو بہت آسان لے لیتے ہیں۔
میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ قرآن ہمیں اس انداز سے پڑھانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام، اللہ کرےکہ مجھے سمجھ میں آجائے اور میں اس طرح پڑھاؤں کہ طلباء کو سمجھ میں آجائے ۔ قرآنی قصص بھی تو اسی لیےہیں، یوں ہی تو قرآن نے نہیں کہا: ’’لَقَدْ کَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ‘‘، ’’وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْکَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ‘‘، سورۂ شعراء اور سورۂ ہود میں تکرار ہے، یہ تکرار اس لیےنہیں ہے کہ ہم سبق جلدی سے نمٹادیں، بلکہ نہیں، باری تعالیٰ کچھ بتاناچاہ رہے ہیں ۔
اس پر تفاسیر کے بارے میں پہلے چار یا پانچ تفاسیرکانام حضرت بنوریؒ اورحضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے حوالے سے عرض کردیا، اس کے علاوہ ’’معارفُ القرآن‘‘ (مفتی محمد شفیع صاحبؒ اور مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کی، دونوں)’’تفسیر عثمانی‘‘، ’’أيسر التفاسير‘‘ ابوبکر جابر جزائریؒ کی اور امام ابن جوزیؒ کی’’زادُ المسير‘‘ سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے، ’’زادُ المسير‘‘ میں ارشادی پہلو بہت ملیں گے۔
۝۵قرآن پاک کا بلاغی پہلو بھی ہمیں معلوم ہوناچاہیے
ایک اہم بات میں صرف گوش گزار کررہا ہوں، درجہ ثانیہ، درجہ ثالثہ بلکہ شاید درجہ رابعہ میں تو بتانے کی نہیں ہے، شاید درجہ خامسہ میں بتانے کی ضرورت پڑے، لیکن میں نے پہلےبھی عرض کیا کہ مدرس کو پوری طرح مسلح ہوناچاہیےاور کبھی کبھار ہمیں طلبہ کو بھی متوجہ کرناچاہیے، وہ ہے قرآنِ پاک کا بلاغی پہلو ۔ آپ حضرات جانتے ہیں کہ علم تفسیر کے مقدمہ میں ایک عنوان ’’اعجاز القرآن‘‘ کا آتا ہے، جس کے ذیل میں قرآن کے وجوہِ اعجاز کا بیان بھی آتا ہے، تو قرآن پاک کے اعجاز وبلاغی پہلو کو بھی آشکارا کرنا چاہیے، اس کے لیے استاذِ محترم حضرت مولانا محمد انور بدخشانی دامت برکاتہم نے ہماری رہنمائی ابن عاشور کی ’’التحریر والتنویر‘‘ کی طرف کی۔ تفسیر قرطبی میں بھی یہ مباحث ملیں گے۔ 

6:طلبا کو توجہ دلانے کے لیےسبق سننے/دہروانے کا اہتمام ہوناچاہیے

ایک بات یہ ہےکہ سبق سننے کا اہتمام ہو، منتہی درجات کی طرح صرف تقریر کرلینے پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ ان درجات کے طلبہ کو اگلے دن ضرور پچھلا سننا ہوگا، یہ کام دراصل خود مدرس کے لیے بھی کٹھن ہے۔

سبق سےپہلےناظرہ خواں طلبا سے قرآنِ پاک پڑھوانےکا اہتمام کریں

ایک بات یہ محسوس ہوئی جب میرے ذمہ درجہ ثالثہ کا ترجمہ لگا کہ جیسے عام درس میں طلبہ سے ہم عبارت پڑھواتے ہیں، ایسے ہی طلبہ سے قرآن کریم کی تلاوت بھی کروائیں، خصوصاً جو طلبہ حافظ نہ ہوں ان سے ضرور پڑھوائیں، بعض مرتبہ ان کی تلاوت لحنِ جلی پر مشتمل ہوتی ہے۔
بس میں اسی پر اپنی بات ختم کروں گا، اللہ تعالیٰ اس مجلس کو قبول فرمائے، ہمارے اکابر و اساتذہ جنہوں نے ہماری تربیت کے لیے اس اجتماع کا انعقاد کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیردے، اور اللہ تعالیٰ اس مجلس کوقبول فرماکر ہم سب کی اورہمارے والدین کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین