بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

وفا ق المدارس اور سیاست ... چند ابہامات!


وفا ق المدارس اور سیاست ... چند ابہامات!


رمضان المبارک کے اواخر سے شوال المکرم کے اوائل تک ذرائع ابلاغ سے لاتعلق رہا، اس عرصے میں رونما ہونے والے حوادث وواقعات کی تفصیلات سے بھی بے خبر رہا، اسی بے خبری کے دوران اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے ایک کرم فرما بزرگ نے بذریعہ فون مبارک باد دینا چاہی کہ آپ کو نئے بورڈ مبارک ہوں! بندہ نے اپنی لاعلمی چھپانے کے لیے بزرگ موصوف کے ساتھ ظریفانہ تعلق میں بات ٹالنے کی یوں کوشش کی کہ:’’ حضرت!فقہاء نے ’’باب ثبوت النسب‘‘ میں لکھا ہے کہ جس نومولود (نکے) کا ابا مشکوک، یا نامعلوم ہونے کی بدگمانی ہو، اس کی مبارک باد وصول کرنا جائز معروف رشتے کی غیرت کے خلاف ہوتا ہے۔‘‘ وہ بزرگ خوب محظوظ ہوئے ،اور بات آئی گئی ہوگئی۔ 
کراچی پہنچنے پر تفصیلات کا علم ہوا کہ بزرگ موصوف کا اشارہ ہمارے مسلک کے اُن نئے بورڈز کے قیام کی طرف ہے :
۱:-جو وفاق المدارس سے الگ ہوکر نئے بورڈز کے طور پر متعارف ہوئے ہیں ۔
۲:-یا ایسے مدرسوں پر مشتمل ہیں جو وفاق جیسے کسی بورڈ سے منسلک ہی نہیں تھے‘ اُنھیں نیا بورڈ نصیب ہوا ہے ۔
۳:-یا بعض ایسے خوش نصیب بھی ہیں جن کے مدارس کا فی الحال وجود ہی نہیں ہے، آگے چل کر اُنھیں مدارس مہیا ہوں گے، یا بغیر طلباء کے چلنے والے بعض مدارس کی طرح، بغیر مدارس کے چلنے والے بورڈز کی طرح وہ بورڈز اپنی خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔
ان نئے بورڈز کے بارے میں مثبت و منفی ہر قسم کے تبصروں کا بازار گرم ہے، شاید ہی کوئی ایسا پہلو بچتا ہو جس پر تبصرہ نہ ہوا، تبصرے کی اس گرم بازاری میں علماء و طلباء یکساں شریک ہیں، مگر دوسری طرف ہمارے دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے، اس لیے میں اپنے طلباء ساتھیوں سے دینی خیرخواہی کے تحت یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ نئے اور پرانے بورڈز سے متعلق تبصروں سے گریز کریں اور اپنی تعلیم پر توجہ دیں، یہ جتنے بورڈز تاحال وجود میں آئے ہیں، یہ ہمارا امتحان لینے کی حرص پر مبنی ہیں، اس مبصرانہ امتحان میں پڑے رہنے کی بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دیں، تاکہ آنے والے امتحان میں سرخرو ہوا جاسکے۔
طالب علم کاکام تعلیم اور امتحان کی تیاری سے ہونا چاہیے، نہ کہ امتحانی بورڈز پر تبصروں سے ، ہاں! طالب علم یہ ضرور سوچے کہ کس بورڈ میں کیا پڑھایا جارہاہے؟! اور یہ سوچ ہر بورڈ کے ذمہ داروں کی بھی ہونی چاہیے، بالخصوص وہ بورڈز جو خالص دینی تعلیم کے نام پر مسلمانوں سے تبرُّعات، صدقات اور زکوٰۃ وغیرہ وصول کرتے ہیں ، کیوں کہ ہمارے مسلمان ہمارے دینی اداروں میں خالص دینی تعلیم کی حفاظت واشاعت کے لیے جو مال جمع کراتے ہیں، اس مال کے ذریعہ وہ اپنی آخرت سنوارنے کا عقیدہ ونیت رکھتے ہیں، ان کی اس نیت کالحاظ رکھنا شرعاً اہلِ مدارس پر لازم ہے،ورنہ اہلِ مدارس امین کی بجائے خائن کہلائیں گے اور دینی مدارس کی وضعی ساخت کے منافی اِقدام کے مرتکب ٹھہریں گے۔
دوسرا یہ کہ کسی کام کے ہوچکنے کے بعد اس کے ہونے یا نہ ہونے کے تبصروں کے بجائے اس کام کو اس کے منطقی انجام کے رحم وکرم پر چھوڑدینا چاہیے۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ دینی مدارس کے وجود، نظام، نصاب اور وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے جو بورڈز اور ادارے قائم ہوئے تھے، وہ اپنے قائم کنندگان کے اقتدار یا کرم فرماؤں کی سروس ختم ہوتے ہی ختم ہوگئے تھے۔ وفاق المدارس کے لاہور کے اجتماع میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کا نقل فرمودہ امام مالکؒ کا قول بھی سامنے رہنا چاہیے کہ : ’’ماکان للہ یبقی وماکان لغیر اللہ ینفی۔‘‘
سو دینی طلباء کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ اسلامیہ کالج پشاور ، جامعہ اسلامیہ اسلام آباد اور جامعہ اسلامیہ بہاول پور کی دینی وعصری علوم کی امتزاجی وحدت سے روایتی دینی مدارس کے وجود اور رجحان میں کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
ہمارے طلباء کو یہ بھی اطمینان رکھنا چاہیے کہ ہمارے جو مقتدر ادارے وفاق سے الگ ہوئے ہیں، وہ پہلے سے عملی وفکری طور پر انفرادیت وعلیحدگی میں معروف تھے، ان کی علیحدگی کو وفاق سے علیحدگی کہنے کی بجائے اپنی قرارگاہ میں اعلانیہ واپسی سے تعبیر کرنا زیادہ واضح ہے۔ یہ اقدام ایسے مدارس کے حق میں بھی مفید معلو م ہوتا ہے، کیوں کہ وہ وفاقی بندھن کی وجہ سے قسماقسم کی اجتماعی واخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوگئے: ’’قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلیٰ شَاکِلَتِہٖ‘‘، لہٰذا طلباء کرام کو چاہیےکہ وہ اس قسم کی اَبحاث واِبہامات سے لاتعلق ہوکر اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور کسی بحث کا حصہ نہ بنیں ۔
الحمدللہ وفاق المدارس کی ہر پالیسی واضح ،روشن اور غیر مبہم ہوتی ہے، اس بارے میں وفاق المدارس سے وابستہ اہلِ علم یا باخبر طبقے کو کسی قسم کی تشویش کا موقع بالعموم نہیں ملتا، اگر وفاق المدارس کی تاریخ ، روایت اور دستور سے مناسبت کی کمی کا شکار حضرات کو جس قسم کے اِبہامات یا تشویشات کا سامنا ہو سکتاہے، ان کا اِزالہ یا سدِباب کرنا ہم طلباء کی ضرورت اور اکابرکی ذمہ داری ہے ۔
من جملہ حال یا ماضی میں اکابرِ وفاق کی یہ وضاحتیں یا اعلانات کہ وفاق غیر سیاسی ادارہ ہے، اس کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم وفاق میں سیاست کا راستہ روکیں گے یا وفاق کو سیاست سے پاک رکھنے میں کردار ادا کریں گے ،یہ باتیں بظاہر دستورِ وفاق او رنفس الامر کے عین مطابق ہیں ،کیوں کہ وفاق المدارس دینی مدارس کے نصابی، انتظامی اور امتحانی نظم کے قیام کا ادارہ ہے ، یہ کام نہ توکوئی سیاسی جماعت کرتی ہے، نہ اس کی ضرورت ہے اور اگر ان ذمہ داریوں کا حامل بورڈ سیاسی عمل میں شریک ہو تو یقیناً بورڈ کے وضعی مقاصد میں نہ صرف یہ کہ خلل آئے گا، بلکہ بالصراحۃ مطلوبہ مقاصد فوت بھی ہوجائیں گے۔
البتہ اس نفس الامری حقیقت کا ایک عرصے سے مخصوص انداز میں مخصوص افراد سے انتہائی معنی خیزی میں اظہار ہورہا ہے، جس سے وفاق المدارس کی غیرسیاسی حیثیت کی واضح حقیقت‘ کسی خطرناک اِبہام کا شکار ہوتی جارہی ہے، اس لیے اس اِبہام کی وضاحت کے لیے اکابر سے درخواست ہے کہ وفاق کو’’سیاست‘‘ سے دور رکھنے کا مطلب واضح فرمائیں۔
اس اِبہام کا ایک پہلو یہ ہے کہ وفاق المدارس ایک امتحانی بورڈ ہے، وفا ق کی کارکردگی اپنی ساخت، شناخت اور مقصدیت تک محدود رہے، وفاق کے عہدیداران نہ تو کوئی سیاسی مؤقف قائم کریں، نہ اس پر رائے دیں ، اور نہ ہی وفاق المدارس کوسیاسی تنظیموں کے طرز پر گلی ، کوچوں، بازاروں اور چوراہوں میں گھمائیں، وفاق کو سیاسی تنظیم ، اور خود کو اس تنظیم کے قائدین بننے ،کہلانے اور مشتہر کرنے کا تأثر نہ دیں۔ اگر وفاق کے سیاست سے دور ہونے کا یہ مطلب ہو تو یہ دستور کے عین مطابق ہے،اس پر کسی کو اشکال نہیں ہونا چاہیے، بلاشبہ وفاق المدارس کے مرکز ،صوبوں اور ڈویژنوں تک جو ذمہ داران اس روش کے حامل ہیں وہ وفاق کے دستور سے انحراف کا شکار کہلائیں گے، جو اکابر اس روش پر ہمیں متنبہ فرمارہے ہیں ہمیں ان کی تنبیہ کا پاس رکھنا چاہیے، یہ وفاق کی وفاقیت ووحدت کے لیے لازمی امر ہے۔
’’وفاق اور سیاست‘‘ کی بابت ایک اِبہام یہ بھی ہے کہ وفاق سے وابستہ افراد کسی سیاسی جماعت بالخصوص حکمران جماعت سے ووٹر، سپورٹر یا ہمدردی کا تعلق نہ رکھیں ،یہ بات بھی حکمران جماعت کی حد تک اس لیے درست ہوسکتی ہے کہ سنجیدہ ، متدین، عاقبت اندیش اور واقفانِ حال خوب جانتے ہیں کہ حکمران جماعت کے بارے میں انھیں یہودی نمائندگی اور قادیانیت نوازی کے اِبہامات و شبہات ہیں، ا س لیے وفاق سے وابستہ جو حضرات سیاسی جماعتوں میں سے کسی بھی جماعت بالخصوص حکمران جماعت کی ہمدردی یا پسندیدگی کا دم بھرتے ہوں، یقیناً ایسا عمل وفاق المدارس کے دینی وروحانی عمل کے منافی ہے، ایسے سیاسی خیالات کے حامل حضرات سے وفاق کی حفاظت یقیناً اربابِ وفاق کی ذمہ داری ہے، وفاق المدارس کے ذمہ داران کی طرف سے ایسے بیانات کا خیرمقدم ایمانی تقاضا ہے۔
’’وفاق المدارس اور سیاست‘‘ کے حوالے سے ایک معنی خیز بلکہ خطرناک پہلو یہ سوچا، سمجھا اور باور کرایا جارہاہے کہ وفاق المدارس اور مسلکِ دیوبند کی دینی سیاسی جماعت ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘ اور اس کے عہدیداران کا وفاق المدارس سے تعلق باعثِ تشویش ہے، یہ تشویش واقعی بڑی تشویش ہے، اور کئی اعتبارات سے وفاق کے وجود کے خاتمے کا باعث ہے۔
 اگر وفاق اور سیاست سے متعلق بیانات کا یہ مطلب لیاجائے کہ جمعیت علمائے اسلام بحیثیت جماعت وفاق المدارس کو جمعیت طلبائے اسلام کی طرح اپنی ذیلی تنظیم بنانے جارہی ہے تو بیان کردہ تشویش اپنے ظاہر کی حد تک بالکل بجاہے، ایسا اقدام وفاق کے دستور بلکہ وجود کے بھی منافی ہے۔ لیکن ہمارے علم کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کا ایسا کوئی نامناسب عزم سامنے نہیں آیا۔
 ہاں! اگر وفاق اور سیاست کا یہ مطلب لیاجارہا ہو کہ جمعیت کا کوئی عہدیداروفاق کے کسی عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا، باوجود یہ کہ وہ وفاق سے منسلکہ کسی ادارے کا ذمہ دار ہوتو یہ سوچ وفاق المدارس کی ماضی و حال کی تاریخ کا منہ چڑاتی ہے، کیونکہ وفاق کے پہلے ناظم اعلیٰ بلکہ بانی رکن حضرت مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ ، جامعہ قاسم العلوم ملتان کے مہتمم اور حضرت لاہوریؒ کے نائب ہونے کے ناطے وفاق کی نظامتِ علیا پر فائز تھے، اس وقت سے تا حال جمعیت علمائے اسلام کے کئی عہدیدار، سینیٹرز، ممبرانِ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی‘ وفاق المدارس کی مرکزی وصوبائی باڈی کا حصہ ہیں اور جماعتی وابستگی سے بالا تر ہوکر وفاق کی خدمت میں دیگر ذمہ داران سے بڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، آ ج تک اُن پر کسی نے اشکال نہیں کیا۔
 ایسی نفس الامری حقیقت کا مطالعہ و مشاہدہ ہونے کے باوجود اگر کوئی وفاق المدارس سے سیاست کی تطہیر کا دعویدار یا علمبردار ہو تو اُن کی یہ سوچ یا تو اس عنادِ محض پر مبنی ہے جو مفتی محمود ؒکی ذات وشخصیت کے بارے میں بعض حضرات کو لاحق تھا، جس کی پاداش میں وہ وفاق سے دوری کو سیاست سے اجتناب کہا کرتے تھے یا اس کا دوسرا منفی مقصد یہ ہے کہ یہ زبان وبیان وفاق کی وفاقیت کی غرض کے بجائے جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی حریف جماعتوں کی ترجمانی اور وفاداری ہوسکتی ہے۔
اسی طرح وفاق اور سیاست کا اگر یہ مطلب لیااور باور کرایا جارہا ہوکہ وفاق المدارس میں صرف وہی مدارس ہوسکتے ہیں جن کے سربراہان اور طلباء کا جمعیت علمائے اسلام یا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، باوجودیکہ وہ سیاسی وابستگی کے باوصف وفاق کے دستور کے مطابق وفاق کی بالادستی پر یقین رکھتے ہوں تو یہ خیال پہلے تمام خیالات کے مقابلے میں زیادہ بھیانک ہوگا، کیوں کہ وفاق المدارس سے منسلک مدارس میں سے شاید ہی کوئی ایسا مدرسہ ہو جس کے اساتذہ اور طلباء میں سے کوئی جمعیت علمائے اسلام سے نظریاتی وابستگی نہ رکھتا ہو۔
وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ افراد میں سے کسی کا کوئی اس طرح کا بیان سامنے آتا ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱:- یا تو وہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو بھی غیراعلانیہ ’’مجمع‘‘ کی طرح کا وفاق بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔
۲:- یا پھر وفاق المدارس سے جمعیت علمائے اسلام کے دینی وسیاسی نظریات کے حاملین کو باہر کرکے وفاق المدارس کو نئے بورڈ کی طرح ایسا بورڈ بنانا چاہتے ہیں جو حکومت کا تابع مہمل بن کر رہ جائے۔
اگر ’’وفاق اور سیاست‘‘ جیسے بیانات کے پیچھے اس قسم کی غرضِ فاسد کارفرما ہو تو وفاق المدارس سے وابستہ احباب کو اطمینانِ تام اور یقین کامل رکھنا چاہیے کہ یہ سوچ ہمیشہ کی طرح خاک آلود ہوگی اور وفاق المدارس کی وحدت و وِفاقیت کو ایسی سوچوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،ان شاءاللہ!
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وفاق المدارس کی وفاقیت کے تحفظ کے لیے استعمال فرمائے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین