بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے

وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کا اثبات واقعاتی دلائل سے

 

عقیدۂ توحید کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’عقیدۂ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے، یہ صر ف ایک نظر یہ نہیں، بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ، اور ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے، کیونکہ عقیدۂ توحید کا حاصل یہ ہے کہ: عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی حیثیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں:

ہر  تغیر  ہے  غیب  کی  آواز

ہر  تجدُّد  میں  ہیں  ہزاروں  راز

اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف و خطر سے بالاتر ہوکر زندگی گزارتا ہے۔‘‘                                                     (معارف القرآن، ص: ۱۳۹)
ہمارے اکابر اور اسلاف نے ہر دور میں مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھانے کی پوری پوری کوشش فرمائی ہے۔ جب بھی اسلاف سے توحید کے متعلق سوالات کیے گئے تو اللہ تبارک نے مخالفین کے حالات کے اعتبار سے ان کے دل میں ایسی مثالیں ڈالیں جو بیان کرنے کے بعد بہت ہی مؤثر ثابت ہوئیں اور ہدایت کا ذریعہ بنیں۔ اس طرح کے واقعات تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں چند نمونے کے طور پر ذکر کر رہے ہیں، جن میں ابھی تک افادیت اور تاثیر کی خوشبو مہک رہی ہے :
۱:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ایک دن اپنی مسجد میں تشریف فرما تھے، دہریوں کے خلاف آپ ننگی تلوار تھے،ا دھریہ لوگ آپ کو فرصت کا موقع پاکر قتل کرنے کے در پے رہتے تھے۔ ایک دن دہریہ لوگ تلوار یں تان کر جماعت کی شکل میں امام ابوحنیفہؒ کے پاس آدھمکے اور وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ: میں اس وقت ایک بڑی سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کا تجارتی سامان ہے، مگر نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے، مگر اس کے باوجود برابر آجا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی، پھاڑتی گزر جاتی ہے، رُکنے کی جگہ پر رُک جاتی ہے اور چلنے کی جگہ پر چلنے لگتی ہے، نہ کوئی ملاح ہے، نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا کہ: آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟ کوئی عقلمند انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی نظام کے ساتھ طوفانی سمندر میں آئے جائے، اور کوئی اس کا نگران اور چلانے والا نہ ہو؟! حضرت امام صاحب ؒ نے فرمایا کہ: افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے، لیکن یہ ساری دنیا آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے اپنے کام پر لگی رہیں اور اس کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لاجواب ہو گئے اور حق معلوم کرکے اسلام لائے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳۔ تفسیر ابن کثیر، ج:۱، ص:۵۹۔ الخیرات الحسان، ص: ۷۹)
۲:-امام مالک ؒ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ: اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جدا ہونا، لب ولہجہ کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۸)
۳:- امام شافعی ؒ سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ تو آپ نے جواب دیا کہ: شہتوت درخت کے سب پتے ایک ہی جیسے ہیں، ایک ہی ذائقہ کے ہوتے ہیں، کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائے، بکریاں اور ہرن وغیرہ سب اس کو چاٹتے ہیں، کھاتے ہیں، چگتے ہیں، چرتے ہیں، اسی کو کھا کر کیڑے میں سے ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھی شہد دیتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے، گائے، بکریاں اسے کھا کر مینگنیاں دیتی ہیں، کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک ہی پتے میں مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں، وہ ہی موجد اور صانع ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱ ، ص:۳۳۳۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۷)
۴:- امام احمد بن حنبل ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: سنو، یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے، جس میں کوئی دروازہ نہیں، نہ کوئی راستہ ہے، بلکہ سوراخ تک نہیں، باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اور اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے۔ ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی ہے، اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں والا ، کانوں والا بولتا چلتا، خوبصورت شکل والا، پیاری بولی والا، چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتائو! اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالا تر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو جو ہر طرف سے بند ہے، پھر اس کی سفید زردی سے پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے، یہ ہی دلیل ہے خدا کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴۔ ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)
۵:- عالمِ اسلام اور اہلِ بیتؓ کی مشہور شخصیت حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس ایک زندیق ملحد آیا اور صانع و خالق کا انکار کرنے لگا۔ امام نے اس کو سمجھانے کی غرض سے سوال کیا کہ: تم نے کبھی سمندر کا سفر کشتی پر کیا ہے؟ اس نے جواباً کہا: جی ہاں ، پھر امام نے پوچھا کہ: کیاتونے سمندر کے خوفناک حالات کابھی کبھی مشاہدہ کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! پھر امام نے فرمایا: کیسے؟ ذرا تفصیل تو بتائیں؟ اس شخص نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ: ایک دن سمندری سفر کے دوران سخت خوف زدہ طوفانی ہوا چل پڑی، جس کے نتیجہ میں کشتی بھی ٹوٹ گئی اور ملاح بھی ڈوب کر مرگئے۔ میں نے ٹوٹی ہوئی کشتی میں سے ایک تختہ کو پکڑا، لیکن بالآخر سمندری موجوں کی وجہ سے وہ تختہ بھی مجھ سے چھوٹ گیا، بالآخر سمندری موجوں  نے مجھے کنارے تک پہنچا دیا۔ یہ سن کر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: پہلے تو سمندری سفر کے دوران سمندری پانی سے گزرنے کے لیے کشتی پر اعتماد کرکے سوار ہوا اور ساتھ ساتھ ملاحوں پر بھی اعتماد کیا، لیکن جب یہ دو نوں ختم ہو گئے تو کشتی کے ایک تختہ پر اعتماد کرکے اپنے آپ کو بچانے کے لیے تو نے اس پراعتماد کیا، یہ جب سارے سہارے ختم ہوئے تو تونے اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے تیار کرلیا۔ اس پر حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: کیا تونے اس کے بعد سلامتی کی تمنا کی؟ کہا کہ: جی ہاں، حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس درد ناک حالت میں سلامتی کی امید کس سے رکھی؟ وہ شخص خاموش ہوگیا۔ اس پر حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اس خوفناک حالت میں تونے جس سے سلامتی کی اُمید رکھی، یہ ہی تو صانع وخالق ہے، جس نے تجھے غرق ہونے سے بچایا۔ یہ سن کر وہ آپ ؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ واہ کیا ہی سمجھانے کا انداز ہے ۔ (التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۳)
۶:- امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے ایک بار وجودِ باری تعالیٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا کہ: تم نے یہ نہیں دیکھا کہ والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات والدین کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ لڑکی پیدا ہو، لیکن اس کے برعکس لڑکا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی ذات ہے جو والدین کی خواہش کی تکمیل میں مانع ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جس کو ہم اللہ تبارک تعالیٰ کہتے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۳)
۷:- شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: جس دہریہ سے چاہیں پوچھ دیکھئے کہ تمہاری کتنی عمر ہے؟ وہ ضرور بیس ، تیس، چالیس، پچاس کوئی عدد یقینی یا تخمینی بیان کرے گا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو موجود ہوئے اتنے برس ہوئے ہیں۔ اب اس سے پوچھئے کہ آیا آپ خود بخود پیدا ہو گئے یا کسی نے تم کو پیدا کیا ہے؟ اور پھر وہ پید ا کرنے والا ممکن ہے یا واجب؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا، ورنہ واجب الوجود ہو جاتا،ا ور ہمیشہ پایا جاتاا ور پھر معدوم نہ ہوتا۔ جس کا وجود اپنا ہو‘ وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ بد یہی بات ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ممکن نہیں، ورنہ تسلسل لازم آئے گا، اور پھر اس ممکن کے پیدا کرنے والے اور پھر اس کے پیدا کرنے میں کلام کیا جائے اور یہ سلسلہ کسی واجب الوجود کی طرف منتہی مانا جائے گا، جس نے ہم کو اس خوبی اور محبوب کی شان میں پیدا کیا ہے، وہ رب ہے جس کا ہر زمان میں ایک جدا نام ہے اور جب وہ خالق ہے تو اس میں علم، قدرت ، حیات، ارادہ وغیرہ عمدہ صفات بھی ہیں، خواہ وہ عین ذات ہو یا غیر، خواہ لاعین ولاغیر۔ (تفسیر حقانی، ج:۱، ص: ۱۱۲)
۸:- کسی بدوی دیہاتی سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سو ال کیا گیا تو اس نے کہا کہ: ’’یَا سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ البَعْرَۃَ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ‘‘ زمین پر پڑی ہوئی مینگنیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہاں سے اونٹ گزر گیا ہے۔ ’’وَإِنَّ اَثَرَ الأََ قْدَامِ یَدُ لُّ عَلَی المَسِیْرِ‘‘  زمین پر پائوں کے نشانات سے کسی آدمی کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے۔ ’’وَالْرَّوْثُ عَلَی الْحَمِیْر‘‘  لید سے گدھے کا پتہ چلتا ہے۔  ’’فَسَمَائٌ ذَاتِ الْأَبْرَاجِ وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجِ وَبحَارٌ ذَاتُ الْأَمْوَاجِ، أَلاَ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ؟‘‘  تو کیا برجوں والا آسمان، اور راستوں والی زمین، اور موج مارنے والے سمندر، اللہ تعالیٰ باریک بین اور خبردار کے وجود پر اور توحید پر دلیل نہیں بن سکتے؟ ۔ ( التفسیر الکبیر، ج: ۱، ص: ۳۳۴۔ تفسیر ابن کثیر، ج: ۱، ص: ۵۹)
۹:-ایک حکیم سے وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ : ’’ ہڑ اگر خشک استعمال کی جائے تو اسہال کر دیتی ہے اور اگر تر گیلی نرم کھا ئی جائے تو اسہال کو روک دیتی ہے۔‘‘ ( التفسیر الکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)
۱۰:- ایک حکیم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو فرمایا کہ: شہد کی مکھی کے ذریعہ، وہ اس طرح کہ شہد کی مکھی کی دو طرف ہوتی ہیں: ان میں سے ایک طرف سے تو شہد دیتی ہے اور دوسری طرف  سے ڈنگ مارتی ہے اور یہ شہد حقیقت میں اس ڈنگ کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے:  ’’عرفتہ بنحلۃ  بأحد طرفیھا تعسل والآخر تلسع والعسل مقلوب اللسع۔‘‘  (التفسیرالکبیر، ج:۱، ص: ۳۳۴)
۱۱:-  ابن المعتز کا قول ہے کہ افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کرجاتے ہیں، حالانکہ ہر چیز اس پر وردگار کی ہستی اور وحدہٗ لاشریک ہونے پر گواہ ہے:

فیا عجباً کیف یعص الإلٰہ

أم کیف یجحدہ الجاحد
و في کل شيء لہٗ آیۃ

تدل علی أنہ واحد

 (تفسیر ابن کثیر، ج: ۷، ص: ۵۹)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین