بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

واٹس ایپ پر اجتماعی ایصالِ ثواب کے لیے گروپ بنانا

واٹس ایپ پر اجتماعی ایصالِ ثواب کے لیے گروپ بنانا


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
آج کل واٹس ایپ پر گروپس ہیں ،جس میں کہاجاتاہے کہ سب مل کر مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے سورۂ اخلاص پڑھ کر اپناحصہ ڈالیں،یا درود گروپس بنائے ہیں کہ سب مل کر درود جمع کریں، پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو پیش کیا جاتاہے، برائے مہربانی یہ بتادیں کہ یہ بدعات میں شمار ہوگا یا جائز ہے؟

 

الجواب باسمہٖ تعالٰی

 

جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتیں لکھی جاتی ہیں:
1 - دینِ اسلام میں جن اَعمال کا جو درجہ ثابت ہے، انہیں اسی درجے میں رکھتے ہوئے عمل کرنا دین ہے، جو اُمور شریعت میں مباح ہیں انہیں لازم سمجھنا، بلکہ جن اَعمال کا استحباب شرعًا ثابت ہو، انہیں لازم سمجھنا، یا عملًا ان کا التزام یا ان کی طرف بایں طور دعوت دینا کہ مخاطب کے لیے انکار مشکل ہوجائے، یہ اُن امور کو شرعًا ممنوع بنادیتا ہے، مثلًا: بعض احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کا سلام پھیرنے کے بعد نمازیوں کی طرف دائیں جانب سے متوجہ ہوتے تھے، بعض حضرات نے اسے لازم یا باعثِ فضیلت سمجھا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے ان پر رد کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی بھی شیطان کے لیے اپنی نماز میں سے حصہ نہ بنائے، بایں طور کہ وہ سمجھے کہ اس پر نماز کے بعد دائیں طرف سے پھرنا لازم ہے، تحقیق میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بہت مرتبہ بائیں جانب سے متوجہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشہد، الفصل الأول، ص:۸۷، ط: قدیمی، کراچی)
اس حدیث کی شرح میں ملاعلی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:
’’اس حدیث میں اس بات کی تعلیم ہے کہ جو آدمی کسی مستحب عمل پر اِصرار کرے، اور اسے لازم بنالے اور رخصت پر عمل نہ کرے، تو شیطان نے اُسے گمراہ کردیا، (جب مستحب کے التزام پر یہ وعید ہے) تو جو شخص بدعت یا کسی منکر (شرعًا ناپسندیدہ عمل) پر اِصرار کرے اس کا کیا حکم ہوگا؟ (اسی سے اندازہ کرلیجیے!) ۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشہد، الفصل الأول، (۳/۳۱) ، ط: مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
2-انفرادی طور پر مُردوں اور زندوں کے لیے ایصالِ ثواب کو فقہاءِ کرام نے مستحسن لکھا ہے، اور دن، وقت یا خاص کیفیت کے التزام اور اعلان کے بغیر اتفاقی طور پر اجتماعی صورت بن جائے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن اس کے اجتماع کے لیے اہتمام کرنا یا اجتماع کی دعوت و ترغیب دینا شرعاً مطلوب و مستحسن نہیں ہے، بلکہ التزام و اصرار، یا کسی دن یا خاص کیفیت کی قید کی وجہ سے یہی عمل بدعت بن جاتا ہے،جب کہ حسبِ توفیق و سہولت انفرادی طور پر کوئی بھی نیک عمل کرکے ایصالِ ثواب کردینا مستحسن ہے۔
3- نفلی عبادات اور دعا و اَذکار میں شرعًا اِخفا پسندیدہ ہے، اور عبادات کی روح اور اِخلاص کا حصول، اِظہار کی نسبت اِخفا میں زیادہ ہے، بلکہ بسااوقات اِظہار میں ریا و نمود کا عنصر شامل ہوجاتا ہے اور عبادت کا اجر بھی ضائع ہوجاتا ہے، اور ریاکاری کے کبیرہ گناہ کی وجہ سے آدمی سخت وعید کا بھی مستحق بن سکتا ہے۔
4- نفلی اَعمال میں باہم مقابلے کا ماحول بناکر ان کے اظہار کی صورت میں زیادہ مقدار میں پڑھنے والوں کے دل میں کم پڑھنے والوں یا حصہ نہ لینے والوں کی تحقیر کا پہلو بھی آسکتا ہے، جو مستقل گناہ ہے۔
تمہید کے بعد مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے لیے واٹس ایپ گروپ میں اہتمام کے ساتھ اجتماعی انداز میں سورۂ اِخلاص کا ختم کرنا اور مجموعی طور پر درود شریف وغیرہ اکٹھا کرکے ایصالِ ثواب کرنا درج ذیل وجوہات کی بنا پر شرعاً درست نہیں ہے:
1- اجتماعی ایصالِ ثواب کی ترغیب و اہتمام جو کہ شرعاً مستحسن نہیں ہے۔
2- اگر اس کا التزام ہو، اور شرکت نہ کرنے والوں کو ملامت کی جاتی ہو تو یہ قباحت مستزاد ہے ، جو اِسے بدعت بنادے گا۔
3- نفل عمل کا اِظہار جو رِیا کا سبب ، اور اَعمال کی روح اور اِخلاص کے خلاف ہے۔
4- شرکت نہ کرنے والوں یا کم مقدار میں پڑھنے والوں کی تحقیر یا تنقیص کا سبب بننا، جس سے عُجب اور تکبر کی راہیں کھلتی ہیں۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ایصالِ ثواب کے لیے ذکر کردہ واٹس ایپ گروپس میں حصہ ڈالنے کے بجائے ہر شخص اپنے طور پر جس قدر چاہے، کم یازیادہ، قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اَذکار اور درود شریف پڑھ کر خود ایصالِ ثواب کرسکتا ہے، نیز ایصالِ ثواب کے لیے لوگوں کو ترغیب تو دی جاسکتی ہے، مگر مجموعی طور پر درود شریف وغیرہ اکٹھا کرکے ایصالِ ثواب کی صورت درست نہیں ہے۔ مسندِ احمد میں ہے:
’’حدثنا عارم، حدثنا معتمر، عن أبيہ، عن رجل، عن أبيہ، عن معقل بن يسار أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال:’’ البقرۃ سنام القرآن وذروتہ، نزل مع الآيۃ منہا ثمانون ملکا، واستخرجت ’’اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ‘‘ من تحت العرش، فوصلت بہا، أو فوصلت بسورۃ البقرۃ، ويسٓ قلب القرآن، لا يقرؤہا رجل يريد اللہ والدار الآخرۃ إلا غفر لہ، واقرؤوہا علی موتاکم۔‘‘  (مسند أحمد ، ج:۳۳، ص: ۴۱۷، رقم الحدیث:۲۰۳۰۰، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:
’’من صام أو صلّٰی أو تصدق وجعل ثوابہ لغيرہٖ من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابہا إليہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔‘‘  (بدائع الصنائع، ج:۲، ص: ۲۱۲، ط: دار الکتب العلميۃ)
’’البحر الرائق‘‘
میں ہے:
’’وأصل ہٰذا أن التطوع بالجماعۃ إذا کان علی سبيل التداعي يکرہ۔‘‘  (البحر الرائق، ج:۱، ص:۳۶۶، ط: دار الکتاب الإسلامي)
وفيہ أيضاً:
’’ولأن ذکر اللہ تعالٰی إذا قصد بہ التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يکن مشروعا حيث لم يرد الشرع بہ ۔‘‘ (بدائع الصنائع، ج:۲، ص: ۱۷۲، ط: دار الکتاب الإسلامي)

’’إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام‘‘ میں ہے:
’’قد منعنا إحداث ما ہو شعار في الدين. ومثالہٗ: ما أحدثتہ الروافض من عيد ثالث، سموہ عيد الغدير. وکذلک الاجتماع وإقامۃ شعارہٖ في وقت مخصوص علی شيء مخصوص، لم يثبت شرعا. وقريب من ذٰلک: أن تکون العبادۃ من جہۃ الشرع مرتبۃ علی وجہ مخصوص، فيريد بعض الناس: أن يحدث فيہا أمرا آخر لم يرد بہ الشرع، زاعما أنہٗ يدرجہ تحت عموم، فہٰذا لايستقيم؛ لأن الغالب علی العبادات التعبد، ومأخذہا التوقيف۔‘‘ (إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام، ج:۱، ص:۲۰۰، ط:مطبعۃ السنۃ المحمديۃ)
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
’’حدثنا أبو نعيم: حدثنا سفيان، عن سلمۃ قال: سمعت جندبا يقول:قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم ولم أسمع أحدا يقول: قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم غيرہ، فدنوت منہ، فسمعتہ يقول: قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: من سمع سمع اللہ بہٖ، ومن يرائي يرائي اللہ بہ۔‘‘  (صحيح البخاري، ج:۵، ص:۲۳۸۳، رقم الحدیث:۶۱۳۴، ط:دار ابن کثیر)

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعید الرحمٰن

 

محمد انعام الحق

عبدالرحمٰن

الجواب صحیح

 

تخصصِ فقہِ اسلامی

محمد شفیق عارف

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین