بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم


    اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، غرض ر شتے بنا نے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میںاپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔
والدین سے حسنِ سلوک کا حکم
    اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
’’وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا رَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ إِنْ تَکُوْنُوْا صَالِحِیْنَ فَإِنَّہٗ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا ۔‘‘    q
ترجمہ: ’’ اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ـ’’ہوں ‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔‘‘
    اس آیتِ کریمہ میں اللہ جل جلالہٗ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں‘ انہی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔
ماں کا مجاہدہ
    سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَ وَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا۔‘‘  w
ترجمہ: ’’اس ماں نے تکلیف جھیل کر اُسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اُسے جنا۔‘‘
حمل کے نو [۹] ماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کر تی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، سردی ہو یا گرمی، صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معاش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے، بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں، ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خاطر ڈاکٹروں و علاج گاہوں کے چکر لگاتے ہیں۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے، وہا ں ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکر گزار رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ‘‘  e
’’ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اُٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے، کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟ تو حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما نے فرما یا: ’’نہیں، ہر گز نہیں، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے: ’’وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا‘‘ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں اُن کی اطاعت کرے ، الا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر اُن کی اطا عت جائز نہیں۔ سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْہُمَا ‘‘  r
’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو اُن کا کہنا مت ماننا ۔‘‘
حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  سے کسی نے دریافت کیا کہ ماںباپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انہوں نے فرمایا: تو اُن پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں! اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔ t
حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول اُن کو نہ لگ جا ئے۔
بڑھاپے میںحسنِ سلوک کا خصوصی حکم
اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ماکر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو ’’اُف ‘‘بھی مت کہنا اور نہ اُن سے جھڑک کر بات کرنا۔ حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان القرآن میں ’’اُف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ: والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے، البتہ بڑھاپے میں  والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسااوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے، ان کو’’ اُف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوشگواری کا اظہار بھی مت کرنا۔
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: اگر والدین کی بے ادبی میں ’’اُف‘‘ سے بھی کوئی کم درجہ ہوتا تو اللہ جلّ شانہ اسے بھی حرام فرمادیتے۔ y
حضرت مجاہد  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: اگر والدین بوڑھے ہو جا ئیں اور تمہیں ان کا پیشا ب دھو نا پڑجائے تو بھی’’ اُف‘‘ مت کہنا کہ وہ پچپن میں تمہارا پیشا ب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔u
والدین کا ادب
حضرت عا ئشہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ: ایک شخص رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ: یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ: یہ میرا باپ ہے، آپ  علیہ السلام  نے فرمایا:
’’ لا تمش أمامہٗ، ولاتقعد قبلہٗ، ولاتدعہ باسمہٖ، ولاتستبّ لہٗ۔‘‘  i
’’اُن کے آگے مت چلنا، مجلس میں اُن سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔ ‘‘
 بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزرے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے؟ اس کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا‘‘o یعنی ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اچھی بات کر نا، لب ولہجہ میںنر می اور الفا ظ میں توقیر و تکریم کا خیا ل رکھنا۔ ’’قولِ کریم‘‘ کے بارے میںحضرت سعید بن مسیب ؒ نے فرمایا: ’’قول العبد المذنب للسید اللفظ ‘‘1) خطاکار اور زرخرید غلام‘ سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے اس طرح با ت کر نا، یہ قول کریم ہے۔ 
آگے فرمایا:’’  وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ‘‘ یعنی ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا۔ حضرت عروہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قرآن میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: اگر وہ کوئی با ت تیری ناگواری کی کہیں تو ترچھی نگاہ سے بھی اُن کو مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جاتی ہے۔1! اور فرمایا کہ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میںکنجوسی مت کرنا۔ (بر الوالدین، ص: ۴۰) 
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے، کیونکہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ 1@
اللہ تعالیٰ کی رضا و ناراضگی
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما  فر ما تے ہیں کہ رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’رضا اللہ مع رضا الوالدین و سخط اللہ مع سخط الوالدین۔‘‘1# یعنی ’’اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘
جنت یا جہنم کے دروازے 
حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
’’ من أصبح مطیعا في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنۃ، وإن کان واحدا فواحدا، ومن أمسٰی عاصیا للہ في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النار، وإن کان واحدا فواحدا، قال الرجل: وإن ظلماہ؟ قال: وإن ظلماہ، وإن ظلماہ،  وإن ظلماہ ۔‘‘  1$
یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبردار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوئے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اور اگر والدین میں ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ: اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین دفعہ فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔
 حضرت رفاعہ بن ایاس  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا : ’’کان لي بابان مفتوحان إلی الجنۃ وأغلق أحدھما‘‘ یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب والدہ کی وفات پر ایک بند ہوگیا ہے، اس لیے رو رہا ہوں۔ کسی قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
والدین کے لیے دعا کا اہتمام کرنا
اللہ تعالیٰ نے جہاں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: 
’’ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا‘‘  1%
’’اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر ایسے ہی رحم فرما،جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔‘‘
ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:
’’رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ‘‘  1^
’’اے میرے پروردگار! روزِ حساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔‘‘
حضرت سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :
’’ من صلی الصلوات الخمس فقد شکر اللہ، ومن دعا للوالدین في أدبار الصلوات الخمس فقد شکر الوالدین۔‘‘  1&
’’جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گو یا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعا ئے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔ ‘‘
اولاد کی دعا سے والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں، حضرت عمرو بن میمونؒ سے روایت ہے کہ جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہا ں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسیٰ  علیہ السلام  کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسیٰ  علیہ السلام  نے اللہ تعالیٰ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ: اے اللہ! تیرا یہ بندہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’کان لا یحسد الناس علی ما آتاہم اللہ من فضلہٖ، وکان لا یعق والدیہ، ولایمشی بالنمیمۃ۔‘‘  1*
’’ (یہ شخص تین کا م کرتا تھا:) ۱:- جو چیزیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کر تا تھا ، ۲:-والدین کی نا فر ما نی نہیں کرتا تھا، ۳:- چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔ ‘‘
رزق میں اضافہ
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک رزق و عمر میں اضا فہ کا سبب ہے، حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: حضورِ اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’من أحب أن یمد اللہ في عمرہٖ ویزید في رزقہٖ فلیبر والدیہ، ولیصل رحمہ۔‘‘  1(
’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔‘‘
ایک حدیث میںحضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا :
’’ بروا آباء کم تبرکم أبناؤکم۔‘‘  2)
’’تم اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، تمہا ری اولاد تمہارے ساتھ حسنِ سلوک کرے گی۔‘‘
موت کے بعد والدین سے حسنِ سلوک کا طریقہ
والدین دونوںیا ان میں کوئی ایک فوت ہو گیا ہو اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کیا اور کوتاہی ہوئی تو اب تدارک کیسے کیا جائے؟ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی بھی تعلیم دی ہے۔ حضرت ابواُسید رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ: ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسنِ سلوک کروں؟ توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’نعم ، الصلاۃ علیہما ، والاستغفار لہما ، وإنفاذ عہدہما من بعدہما ، وصلۃ الرحم التي لا توصل إلا بہما ،  وإکرام صدیقہما۔‘‘  2!
’’ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا، ان کے بعد اُن کی وصیت کو نافذکرنا اور اس صلہ رحمی کو نبھانا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کرنا۔‘‘
 حضرت ابوبردہ  رضی اللہ عنہ  جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ: نہیں، تو فرمایا: میں نے حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے: 
’’من أحب أن یصل أباہ في قبرہٖ ، فلیصل إخوانَ أبیہ بعدہ۔‘‘  2@
’’جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد عمر  رضی اللہ عنہ  اور آپ کے والد کے درمیان دوستی تھی، میں نے چاہا کہ میں اُسے نبھاؤں۔ (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں) ۔‘‘
آخر میں گزارش کہ جس کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک حیات ہے تو ان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے گئے ہیں تواُن کے ساتھ اب حسنِ سلوک یہ ہے کہ اُن کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اُسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے،ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے ،ان کی طرف سے صدقہ کرے ، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے، کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے، مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانانِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے، والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، نفلی اعمال کر کے اُن کے لیے ایصالِ ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ اُن کی خبرگیری کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین۔
حوالہ جات
q:-الاسراء : ۲۳-۲۵                w:-الاحقاف:۱۵
e:-لقمان:۴۱                r:-العنکبوت :۸
t:-الدالمنثور،ج: ۵،ص: ۲۲۴            y:-الدالمنثور،ج: ۵،ص: ۲۲۴
u:-حوالہ سابق                i:-المعجم الاوسط، للطبرانی،ج:۴،ص:۲۶۷، رقم الحدیث: ۴۱۶۹
o:-الاسراء:۲۳                1):-الدر المنثور،ج: ۵،ص:۲۲۵
1!:-الدر المنثور،ج: ۵،ص:۲۲۵            1@:-معارف القر آن،ج:۵،ص:۴۶۶
1#:-شعب الایمان،ج: ۶،ص:۱۷۷، رقم الحدیث: ۷۸۲۹،۷۸۳۰    1$:-شعب الایمان،ج: ۶،ص:۲۰۶، رقم الحدیث: ۷۹۱۶
1%:-الاسراء :۲۴                1^:-ابراہیم: ۴۱
1&:-تفسیر الخازن المسمی: لباب التاویل فی معانی التنزیل، ج: ۵،ص:۲۱۶    1*:- مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا، ج: ۱،ص:۸۶، رقم الحدیث: ۲۵۷
1(:-شعب الایمان، ج: ۶، ص:۱۸۵، رقم الحدیث: ۷۸۵۵    2):- المعجم الاوسط، ج:۱،ص:۲۹۹، رقم الحدیث: ۱۰۰۲
2!:-سنن ابی داود: ۵۰۰، رقم الحدیث: ۵۱۴۴        2@:-صحیح ابن حبان، ج:۲، ص:۱۷۵ ، رقم الحدیث: ۴۳۲
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین