بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

والدہ ماجدہؒ کی رحلت

والدہ ماجدہؒ کی رحلت


جامعہ علوم اسلامیہ علامہ سید محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے قدیم وبزرگ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد الرزاق لدھیانویؒ کی اہلیہ، اور ہماری والدہ ماجدہ گزشتہ دنوں انتقال فرماگئیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت والد مرحوم کا خاندان ۱۹۴۷ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان میں آیا۔ دادا اور والد محترم گوجرانوالہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ اباجی نے نورانی قاعدہ سے ابتدائی تعلیم کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخلہ لیا، چند سال بعد حضرت لاہوریؒ کے خلیفہ ناناجان حکیم محمد الدینؒ نے اپنی اکلوتی بیٹی کے رشتہ کے حوالہ سے حضرت صوفی عبدالحمید سواتی صاحبؒ اور حضرت مولانا سرفراز صفدر صاحبؒ کو درخواست پیش کی، ان دونوں حضرات نے اباجی کا انتخاب فرمایا، تلونڈی موسیٰ خان کا ۱۵ میل سفر طے کرکے نکاح پڑھایا۔ بقیہ تعلیم مکمل کرنے کے لیے ۱۹۶۰ء میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا رخ کیا۔ ۱۹۷۰ء میں بنوری ٹاؤن کے قریب پلاٹ خرید کر از خود تعمیراتی کام شروع کردیا، والدہ صاحبہ نے زندگی کے ہر موڑ اور مشکلات میں والد صاحب کا بھر پور ساتھ دیا۔مکان کی تعمیر میں والدہ صاحبہ کا بہت بڑا کردار اور ساتھ رہا ہے۔ والدہ صاحبہ مرحومہ بجری سیمنٹ تیار کرتیں، حضرت والد مرحوم بلاکوں سے دیواریں چنائی کرتے جاتے، اس طرح دوکمرے تیار کرکے ٹین کی عارضی چھتیں ڈال دیں۔ اسی طرح پھر رفتہ رفتہ دیگر تعمیرات مکمل کیں۔ 
والدہ صاحبہ کی بھی پوری زندگی قناعت، تقویٰ، طہارت اور سادگی میں ممتاز رہی۔ گھر کی صفائی ستھرائی اخیر زندگی تک از خود کرتی رہیں۔ گھر میں صفائی اور دیگر کام کاج میں جب مصروف ہوتیں اور اس دوران اذان ہوتی تو کام کاج چھوڑ کر اذان کا جواب دیتیں، آخر سانس تک کبھی بھی اذان کا جواب نہ چھوڑا، پھر دعا پڑھ کر اول وقت میں نمازوں کا اہتمام کرتیں، بلکہ ہم سب کو اس کی تاکید کرتیں،نمازِ تہجد کبھی نہ چھوڑی۔سفر حضر میں پوری زندگی نمازیں قضا نہ ہونےدیتیں۔ اکثر مرتبہ دیکھتا تھا کہ نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے پاک صاف ہوکر طہارت حاصل کرکے مصلے پر بیٹھی ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہو نماز پڑھ لوں، اسی طریقہ سے مسواک جیسی عظیم سنت پر عمل پیرا رہیں۔ آنکھوں میں سرمہ پوری زندگی سوتے وقت لگاتی رہیں۔ نمازِ اشراق ، نمازِ چاشت، نمازِ اوابین، صلاۃ التسبیح اپنے اپنے وقت پر ادا کرتی رہیں، آخری عمر تک نوافل نہ چھوڑے۔ دنیا کا کوئی کام کرنا ہوتا مثلاً آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، کھانا تیار کرنا، حتیٰ کہ جھاڑو لگانے سے پہلے بسم اللہ پڑھتیں، جب بھی گھر میں داخل ہوتیں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھتیں اور بلند آواز سے سلام کرکے گھر میں داخل ہوتیں، ہمیشہ کہتیں کہ بلند آواز سے سلام کرنے سے گھر میں فرشتے جواب دیتے ہیں۔ مسنون دعاؤں کا اہتمام ہمیشہ رہا۔
والدہ صاحبہ کومارکیٹ اور بازار جانا پسند نہیں تھا، تمام تر ضرورتیں الحمد للہ گھر ہی میں پوری ہوتی رہیں، حتیٰ کہ ایک عرصہ تک صابن، سرف وغیرہ گھر ہی میں بناتے رہے۔ اسی طریقہ سے والدہ صاحبہ نے آخری عمر تک برقعہ،پردہ کا اہتمام رکھا۔ فارغ اوقات میں قرآن کریم پڑھ کر صدقہ خیرات کرکے دیگر وظائف اور مسنون دعاؤں کے ذریعہ اپنے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کرتی رہتیں۔ قرآن کریم کے آخری دو سپارے حفظ کرچکی تھیں، باقی ناظرہ قرآن کریم بہت عمدہ پڑھتی تھیں۔ حضرت والد صاحبؒ نے بہشتی زیور سبقاً سبقاً سمجھا دیا تھا۔ امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کو مدِنظر رکھتے ہوئی برائی کو روکتیں، اچھائی کا حکم دیتی رہیں، حتیٰ کی اس بیماری والی کیفیت میں بھی ہسپتال کی نرسوں کو شرعی پردے کا حکم دیتی رہیں، ناخن بڑے اور ناخنوں میں نیل مالش دیکھ کر والدہ صاحبہ سے رہا نہ جاتا، وہاں بھی خوب تعلیم دیتی رہیں۔ 
آخر وقت میں قبر کی ہولناکی کا تذکرہ کرتیں، ڈاکٹر کے آنے سے پہلے اپنے آپ کو چھپالیتیں اور چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ حضرت والد صاحبؒ کی وصیتوں میں ایک وصیت یہ تھی کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنی امی جان کا دامن نہ چھوڑنا، خوب خدمت کرتے رہنا۔ الحمد للہ! وصیت پر عمل کرتے ہوئے بھائی، بہنوں نے خدمت اور علاج معالجہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امی جانؒ دل کی بہت غنی تھیں۔ ہرماہ جامعہ میں طلبہ کے لیے صدقۂ نافلہ بھجواتی تھیں۔ ہر دو جمعہ بعد مجھے کچھ رقم دیتیں کہ آپ قبرستان جاکر گورکن کو دے آئیں کہ وہ اباجیؒ کی قبر کی صفائی ستھرائی رکھتا ہے، اس کا حق ہے۔ حضرت والد صاحبؒ کے رہن سہن، مزاج، گفتار، طور طریقہ میں بہت حد تک مماثلت رہی۔ تقریباً ایک سال پہلے پتہ کی بیماری ظاہر ہوئی، اسی بیماری نے جگر، پھیپھڑے اور معدہ کو متاثر کیا۔ پیٹ کی بیماری میں جو شخص مبتلا ہو اور اسی حالت میں موت آجائے حدیث شریف کی رو سے وہ شہادت کا درجہ پاتاہے۔ الحمدللہ اعمال والی زندگی اور کلمہ توحید والی موت نصیب ہوئی ۔ 
قارئین سے التماس ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ میرے والدین کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے، تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین