بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

وَقت ِ دُعا ہے!

وَقت ِ دُعا ہے!

    ملک کے شمالی علاقے ایک بار پھر قدرت کی آزمائش سے دوچار ہیں۔ تین ماہ قبل عید الفطر کے موقع پر ان علاقوں بالخصوص چترال میں تباہ کن سیلاب آیا تھا جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے تھے۔ اُن دنوں میں چترال میں تھا، ہم کیلاش ویلی کے لیے امدادی سامان کی ترسیل کے سلسلے میں چترال کی مشہور علمی وروحانی ہستی مولانا مستجاب خان v کے گاؤں ایون گئے۔ وہاں کے مقامی دوستوں اور علماء نے بتایا کہ اس گاؤں میں ایک انتہائی نیک پارسا خاتون رہتی ہیں، یہ خاتون رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھی تھیں،اس دوران انہوں نے کوئی خواب دیکھا تھا اور پیشنگوئی کی تھی کہ ملک میں پہلے بڑے پیمانے پر سیلاب آئے گا اور کچھ عرصے بعد ایک بڑا زلزلہ بھی آئے گا، لہٰذا لوگ توبہ و استغفار اور رجوع الیٰ اللہ کا اہتمام کریں۔ پیر کے روز ملک کے بالائی حصوں میں شدید زلزلے کی خبر سنتے ہی مجھے یہ بات یاد آگئی، کیا اس خاتون کا یہ خواب محض ایک خواب تھا اور کیا اس خواب کا پورا ہوجانا محض ایک اتفاق ہے؟     اب ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء پیر کے روز پاکستان، بھارت اور افغانستان کے شمالی علاقوں میں تاریخ کے تباہ کن زلزلے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ملی ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ نقصانات پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن میں ہوئے ہیں اور ملک کا اکثر حصہ زلزلے کی زد میں آیا ہے۔ سینکڑوں افراد جاں بحق، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں مکانات بھی زمین بوس ہوگئے ہیں۔ یوں اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کو ٹھیک ۱۰؍ برس مکمل ہونے کے کچھ ہی دن بعد قوم کو ایک بار پھر ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اکثر حصوں میں آنے والے اس شدید اور تباہ کن زلزلے نے پوری قوم کو ہر طرح سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔     اس قدرتی آفت کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت انتہائی قابل افسوس امر ہے اور جو ہزاروں افراد اس سے متأثر ہوئے ہیں وہ بھی ہر طرح کی ہمدردی، تعاون اور امداد کے مستحق ہیں۔ اس عظیم سانحے پر قوم کا بچہ بچہ افسردہ اور سوگوار ہے اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کی طرح اس سانحے کی شدت وسختی کو بھی جلد فراموش نہیں کرسکیں گے۔ تاہم جیسا کہ ظاہر ومعلوم ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں قدرتی آفات کا نزول پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ ان آفات کی کچھ ارضیاتی، سائنسی، طبعی وجوہ بھی ہوسکتی ہیں جو کہ درحقیقت سبب کے درجے میں ہیں اور اصل قوت جو کائنات میں وقتاً فوقتاً ظہور پذیر ہونے والی ان آفات اور بلاؤں کے پیچھے کار فرما ہوئی ہے وہ قدرت کا وہ ابدی تکوینی نظام ہے جس کی کوئی توجیہ وتاویل انسانی دائرۂ فکر ونظر سے ماوراء ہوتی ہے۔ دورِ حاضر میںانسانی ذہن کے تمام تر ارتقائ، سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی اور ایجاد و اختراع میں خیرہ کن پیش رفت کے باوجود آج بھی دنیا کے کسی بھی حصے میں زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کے وقوع کو روکا جاسکتا ہے، نہ ان سے ہونے والے نقصانات کو بہت زیادہ کم کیا جاسکتا ہے۔     اسلام ہمیں آفات وبلیات کی آزمائش کے وقت صبرو تحمل سے کام لینے، نظم و ضبط قائم رکھنے، اپنے اعصاب اور حواس پر قابو رکھنے اور رجوع الیٰ اللہ کی تلقین کرتا ہے۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اس آزمائش کے موقع پر کس قدر صبر، ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کر پاتے ہیں اور اس کے مزید نقصانات سے جانبر ہونے کے لیے کیا کچھ اقدامات کرتے ہیں۔ اس طرح کے مواقع میں ہمارے آس پاس میں ایک دوسرے کے لیے اور خصوصاً متاثرہ افراد کے لیے جذبۂ تعاون، ہمدردی اور ایثار کا بھی امتحان ہوتا ہے۔ جو نقصان ہونے تھے وہ ہوچکے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ہماری قسمت میں جو مزید نقصان لکھے ہوں گے، ان کو بھی ہم نہیں روک سکتے، لیکن اسباب کے درجے میں ہم اب ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے اور بالخصوص متاثرہ خاندانوںکو مزید مشکلات میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے اپنے دائرۂ اختیار میں کام کرنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں اور اسی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔     سب سے پہلے تو پوری قوم اور بالخصوص ہماری وفاقی، صوبائی اور نومنتخب مقامی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ متاثر افراد کی بحالی، جاں بحق ہونے والوں کی تجہیز وتکفین، زخمیوں کے علاج معالجے اور بے گھر ہونے والے افراد کو ریلیف پہنچانے کے سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حکومت اور پاک فوج نے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں اور مواصلات کا نظام بحال کرنے کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ تاہم جس بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں ان کے پیش نظر حکومت اورپاک فوج کو امدادی کام کا دائرہ بڑھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے، اس سلسلے میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے پر سب سے پہلے توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ مزید جانی نقصانات سے بچا جاسکے۔ متاثرہ علاقوں میں کسی قسم کی افرا تفری نہیں ہونے دینی چاہیے۔ ساتھ ساتھ ملکی وغیر ملکی امدادی اداروں، این جی اوز اور رفاہی تنظیموں کو بھی اس موقع پر دکھی انسانیت کی خدمت سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور متاثرہ عوام تک بروقت رسائی اور ان کی ہر ممکن مدد کرکے انسان دوستی کا ثبوت دینا چاہیے۔ تازہ سانحے کے بعد متاثرہ افراد کی امداد اور بحالی کی صورت حال اس بات کا تعین کرے گی کہ ہم نے بحیثیت قوم ۱۰؍ برس قبل آنے والے زلزلے سے کیا سبق حاصل کیا اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت کس حد تک بہتر ہوئی ہے۔     علاوہ ازیں لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور آسمانی نظام پر یقین رکھتے ہیں، ان کو یہ باور کرانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کی قدرتی آفات عام طورپر خداوندِ کائنات کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک امتحان کے ساتھ، ایک تنبیہ اور زجر کا پیغام بھی ہوتی ہیں۔ قرآنِ حکیم میں صاف لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ بحر و بر کے نظام میں جب بھی فساد اور خرابی آتی ہے انسانوں کے اعمال کی وجہ سے آتی ہے۔ اسی طرح جنابِ نبی کریم a کی ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ جب معاشرے میں حرام خوری، نفس پروری، بے حیائی، بدکاری، فسق و فجور اورکبائر عام ہوں گے اور ناعاقبت اندیش لوگ اقتدار کے اعلیٰ کے مناصب پر فائز کیے جائیں گے تو زمین پر زلزلوں اور دیگر آفات و بلیات کانزول بھی زیادہ ہوجائے گا۔     بنا بریں اس سانحے کے بعد سب سے زیادہ چیز جس پر غور اور عمل کرنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں، گناہوں اور لغزشوں پر اللہ کے حضور استغفار کریں اور آئندہ کے لیے اس عہد کی پاسداری کرنے کا عزم کرلیں جو ہم نے اس ملک کے حصول کے وقت اللہ سے کیا تھا کہ ہم اس خطے میں اسلام کی تعلیمات کا بول بالا کریں گے اور اپنی زندگیاں شریعتِ محمدیہ (l) کے سانچے میں ڈھال کر ایک غیور، خود دار، آزاد اور خود مختار مسلمان قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنی شناخت قائم کرلیں گے، چنانچہ آزمائش کے ان لمحات میں ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں کے علاوہ بحیثیت قوم اپنی اب تک کی پالیسیوں، اقدامات اور طرز عمل پر بھی ایک نظر دوڑانا ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم سے کہاں کہاں لغزشیں ہوئیں؟ اور ہم نے کہاں کہاں صراطِ مستقیم سے اِعراض کیا؟ اس سے ہمیں اس سانحے سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں بھی آسانی ہوگی اور شاید یہ آیندہ کے لیے اس طرح کے سانحات سے ہمیں بچانے کا بھی ذریعہ بنے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور معاشرے کی تعلیم و تربیت سے متعلق اداروں کو بھی اس موقع پر اپنے کردار و عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ زلزلے کا پیغام یہ ہے: زمیں کے سر بفلک باسیو! حدوں میں رہو کہ کوئی اور بھی رہتا ہے اس جہاں سے وَرے

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین