بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نیک عمل کا وسیلہ بناکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا (تین افراد کا واقعہ)

نیک عمل کا وسیلہ بناکر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا

(تین افراد کا واقعہ)


حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم سے پہلی اُمت کے تین آدمی سفر کررہے تھے۔ رات گزارنے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے، پہاڑ سے ایک پتھر نے لڑھک کر غار کے منہ کو بند کردیا۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اس پتھر سے ایک ہی صورت میں نجات مل سکتی ہے کہ تم اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو۔
چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں ان سے پہلے کسی کو دودھ نہ پلاتا تھا۔ ایک دن لکڑی کی تلاش میں میں بہت دور نکل گیا، جب شام کو واپس لوٹا تو وہ دونوں سوچکے تھے، میں نے ان کے لیے دودھ نکالا اور ان کی خدمت میں لے آیا۔ میں نے ان کو سویا ہوا پایا، میں نے ان کو جگانا ناپسند سمجھا اور ان سے پہلے اہل وعیال وخدام کو دودھ دینابھی پسند نہ کیا۔ میں پیالا ہاتھ میں لیے ان کے جاگنے کے انتظار میں طلوعِ فجر تک ٹھہرا رہا، حالانکہ بچے میرے قدموں میں بھوک سے بلبلاتے تھے۔ اسی حالت میں فجر طلوع ہوگئی، وہ دونوں بیدار ہوئے اور اپنے شام کے حصہ والا دودھ نوش کیا۔ اے اللہ! اگر یہ کام میں نے تیری رضامندی کی خاطر کیا تو تو اس چٹان والی مصیبت سے نجات عنایت فرما، چنانچہ چٹان تھوڑی سی اپنی جگہ سے سرک گئی، مگر ابھی غار سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ 
دوسرے نے کہا: اے اللہ! میری ایک چچازاد بہن تھی، وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پورا کرنے کا اظہار کیا، مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئی، یہاں تک کہ قحط سالی کا ایک سال پیش آیا جس میں وہ میرے پاس آئی، میں نے اس کو ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ اپنے نفس پر مجھے قابو دے گی، اس نے آمادگی ظاہر کی اور قابو دیا۔ جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا: تو اللہ سے ڈر!اور اس مہر کو ناحق وناجائز طور پر مت توڑ۔ چنانچہ میں اس فعل سے باز آگیا، حالانکہ مجھے اس سے بہت محبت بھی تھی اور میں نے وہ ایک سو بیس دینار اس کو ہبہ کردیئے۔ یا اللہ! اگر میں نے یہ کام خالص تیری رضاجوئی کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عنایت فرما، جس میں ہم مبتلا ہیں۔ چنانچہ چٹان کچھ اور سرک گئی، مگر ابھی تک اس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ 
تیسرے نے کہا! یا اللہ! میں نے کچھ مزدور اُجرت پر لگائے اور ان تمام کو مزدوری دے دی، مگر ایک آدمی ان میں سے اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کاروبار میں لگا دی،یہاں تک کہ بہت زیادہ مال اس سے جمع ہوگیا۔ ایک عرصہ کے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے بندے! میری مزدوری مجھے دے دو۔ میں نے کہا: تم اپنے سامنے جتنے اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو، یہ تمام تیری مزدوری ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! میرا مذاق مت اُڑا۔ میں نے کہا: میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ سارا مال لے گیا اور اس میں سے ذرہ برابر بھی نہیں چھوڑا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ تیری رضامندی کے لیے کیا تو تو اس مصیبت سے جس میں ہم مبتلا ہیں، ہمیں نجات عطا فرما۔ پھر کیا تھا چٹان ہٹ گئی اور تینوں باہر نکل گئے۔ (مسلم )

’’وسیلہ‘‘ کا مطلب: 

مذکورہ حدیث میں نیک اعمال کے وسیلہ سے دعامانگی گئی۔ ’’وسیلہ‘‘کا مطلب ہے کہ کسی مقبول عمل یا مقرب بندے مثلاً حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا واسطہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا، یعنی اس بات کا پورا یقین اور ایمان کہ دینے والی، بخشنے والی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی نیک بندہ، حتیٰ کہ نبی یا رسول بھی خدائی میں شریک نہیں ہوسکتا ہے، لیکن اپنی عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھیجنے کے بعد اپنے کسی مقبول عمل یا حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا واسطہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا ’’وسیلہ‘‘ کہلاتا ہے۔ 

’’وسیلہ‘‘کی تین قسمیں ہیں: 

۱:- اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت مانگنا، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے: ’’ وَلِلہِ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا۔‘‘ (سورۃ الاعراف: ۱۸۰) اور اسماء حسنٰی (اچھے اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں، ان ناموں کے ذریعہ (اللہ کی تسبیح وتحمید وتکبیر یعنی ذکرِ الٰہی کے ذریعہ) اس سے دعائیں مانگو۔ 
۲:- اپنے کسی مقبول عمل مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، ذکر اور تلاوتِ قرآن کو ’’وسیلہ‘‘بناکر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا، جیسا کہ بخاری ومسلم میں مذکور موضوعِ بحث حدیث میں تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ 
۳:- کسی مقرب بندے مثلاً قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی ورسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’وسیلہ‘‘سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا۔ 
پہلی دو شکلوں کے جواز پر پوری اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے، لیکن تیسری شکل کے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے اس کو شرک قرار دے کر اس کے عدمِ جواز کا فتویٰ جاری کیا، جبکہ علماء کی دوسری جماعت نے مسئلہ مذکورہ کو قرآن وحدیث سے مدلل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ تحقیقی بات یہی ہے کہ توسل بالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو شرک قرار دینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے وسیلہ کے ذریعہ دعا مانگنے میں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگی جاتی ہے۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے وسیلہ سے دعا مانگنے والا صرف یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ذریعہ اُس کی دعا کا بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت پانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہاں! یہ بات ذہن میں رکھیںکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں کی قبولیت کے لیے وسیلہ شرط نہیں ہے، مگر مفید اور کارگر ضرور ہے۔ علماء کرام کی دوسری جماعت نے نبی کے وسیلہ سے دعا کرنے کے جواز کے لیے قرآن وحدیث کے متعدد دلائل پیش کیے ہیں، جن میں دو احادیث پیش خدمت ہیں:
حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جب کبھی قحط پڑتا تو حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  حضرت عباس بن عبد المطلب  رضی اللہ عنہ  کے وسیلہ سے دعاو استغفار کرتے۔ آپ (حضرت عمرؓ) فرماتے کہ اے اللہ! ہم اپنے نبی کو وسیلہ بناتے تھے اور (حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی برکت سے) آپ (اللہ تعالیٰ) بارش برساتے تھے، اب ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں، آپ بارش برسائیے۔ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ خوب بارش برستی۔ (صحیح بخاری) 
اسی طرح صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑا۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ! مال تباہ ہوگیا اور اہل وعیال دانوں کو ترس گئے، آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہاتھ اٹھائے، اس وقت بادل کا ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، ابھی آپ نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا اُمڈ آئی اور ابھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن، اس کے بعد اور پھر متواتر آئندہ جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو یہی اعرابی پھر کھڑا ہوااور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہوگئیںاور مال واسباب ڈوب گئے، آپ ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ: اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسائیے اور ہم سے روک دیجئے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہاتھ سے بادل کے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا ۔ (صحیح بخاری ) 
معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم   مصیبت کے وقت حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔
علماء کی پہلی جماعت نے ان دونوں احادیث کا یہ کہہ کر جواب دیا ہے کہ اس میں زندہ شخص کے ذریعہ وسیلہ کا ذکر ہے۔ اس پر دوسری جماعت نے جواب دیا کہ قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ یہ مذکور نہیں ہے کہ زندوں کے وسیلہ سے دعا مانگی جاسکتی ہے، مردوں کے وسیلہ کے ذریعہ نہیں۔ اور اس نوعیت کی تخصیص وتعیین کے لیے قرآن وحدیث کی دلیل مطلوب ہے اور وہ موجود نہیں ہے۔ غرضیکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وسیلہ کے ذریعہ دعا مانگنے کے جواز اور عدمِ جواز کے متعلق علماء کی آراء مختلف ہیں، اس اختلاف کو جھگڑا نہ بنایا جائے۔ جواز کے قائلین حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وسیلہ سے دعامانگتے رہیں اور عدم جواز کے قائلین آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وسیلہ سے دعا نہ مانگیں۔ اسی طرح امت مسلمہ میں اتفاق واتحاد ہوسکتا ہے، جس کی اس زمانہ میں سخت ضرورت ہے۔ 
موضوعِ بحث حدیث میں تین نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگی گئی: ۱:- والدین کی خدمت، ۲:- اللہ کے خوف کی وجہ سے زنا سے بچنا۔ ۳:- حقوق العباد کی کما حقہ ادائیگی اور معاملات میں صفائی۔ 

والدین کی خدمت: 

قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص اہمیت وتاکید اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا بنائے، ان کی فرمانبرداری کرنے والا بنائے، ان کے حقوق کی ادائیگی کما حقہ ادا کرنے والا بنائے۔ 

شرمگاہ کی حفاظت:

اللہ تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح مشروع کیا ہے۔ سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات میں انسان کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ ان آیات کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوتِ نفس کو تسکین دینا قابلِ ملامت نہیں، بلکہ انسان کی ضرورت ہے، لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے کو منع فرمایا ہے۔ (سورۃ الاسراء : ۳۲) 
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور اس کا زنا نظر ہے۔‘‘ آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد وعورت کا کثرت سے اختلاط، مخلوط تعلیم، بے پردگی، TV اور انٹرنیٹ پر فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں، کیونکہ اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ زنا کے وقوع ہونے کے بعد اس پر ہنگامہ، جلسہ وجلوس ومظاہروں کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مردوعورت کے اختلاط سے ہی بچا جائے۔

حقوق العباد کی ادائیگی اور معاملات میں صفائی:

ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا، مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیںگے، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم )
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین