بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

نیشنل رحمۃٌ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی  اور اس کا چیئرمین 

نیشنل رحمۃٌ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی  اور اس کا چیئرمین 


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

گزشتہ سے پیوستہ حکومت نے ایک ادارہ رحمۃٌ للعالمین اتھارٹی بنایا تھا، جس کے فرائض میں تھا کہ وہ حکومت کی راہنمائی کرے کہ پاکستان کو مدینہ منورہ کی طرح فلاحی ریاست کس طرح بنایا جائے؟ اور اس کا چیئرمین ایسے آدمی کو بنایا گیا تھاجس کا دینی تعلیم اور خصوصاً حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صورت اور سیرت سے دور دور تک کوئی علاقہ اور تعلق نہ تھا ، وہ صرف امریکن یونیورسٹی کا پروردہ اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی کا پروفیسر تھا ، اس پر ’’ بینات ‘‘ ماہِ فروری ۲۰۲۲ ء میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس ادارہ کا سربراہ اس آدمی کو بنایا جائے جو اپنے علم و عمل اور کردار و اخلاق کے اعتبار سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کا متبع ہو ۔اس حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی اس کے بعد آنے والی مخلوط حکومت نے ایک تو اس اتھارٹی کا نام بدل کر ’’نیشنل رحمۃٌ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی ‘‘ رکھا ، اور دوسرا یہ کہ پہلے سے موجود چیئرمین کو ہٹا کر اس کا نیا چیئرمین ایک صحافی جناب خورشید احمد ندیم صاحب کو بنایا گیا ۔ موصوف ’’ روزنامہ دنیا نیوز‘‘ کے کالم نگار ہیں ، اور سیکولر ازم کے ماننے والے ہیں ، وہ لکھتے ہیں :
’’ہم ریاست کو ایک مذہبی ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایک سیاسی ادارہ ہے ، اس سیاسی ادارے کو جب ہم مذہبی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن میں سے ایک مسئلہ قادیانیوں سے متعلق بھی ہے۔ ہم نے مذہبی معاملات کو ریاست کے وظائف میں شامل کردیا، حالانکہ وہ اس کے لیے بنی ہی نہیںـ۔‘‘                                         (دنیانیوز، ۱۰ ستمبر ۲۰۱۸ء)
اہلِ علم اور دانش مند سب ہی جانتے ہیں کہ سیکولرازم نام ہی اس نظریے کا ہے کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ بنیادی طور پر سیکولرازم کا نظریہ اللہ تعالیٰ کی اتھارٹی کا انکار ہے اور اللہ تعالیٰ کی اتھارٹی کا انکار کرنے والے آدمی کو ’’رحمۃٌ للعالمین وخاتم النبیین  صلی اللہ علیہ وسلم  ‘‘ کے نام پر بنائی گئی اتھارٹی کی چیئرمین شپ سونپ دی گئی ہے،  یا للعجب!
مزید لکھتے ہیں: ’’راویتی طبقہ بار بار ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش کررہا ہے اور انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ریاست تو کوئی ذی عقل وجود نہیں، جس کا کوئی مذہب ہوسکتا ہے۔ ‘‘ (حوالہ بالا)
اسلامی روایت اور روایت پر قائم رہنے والے علمائے کرام سے اس آدمی کو کس قدر چڑ ہے؟جو اس کے ان الفاظ ’’روایتی طبقہ‘‘، ’’ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش‘‘ وغیرہ سے عیاں ہورہی ہے۔
چونکہ جناب خورشید احمد ندیم صاحب جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریات کے دلدادہ اور ان کے مرید خاص اور پیروکار ہیںاور کہتے ہیں کہ : ’’جاوید صاحب سے میرا تعلق تین عشروں پر محیط ہے، یہ ان کے علم کی کشش تھی جو مجھے ان تک لے گئی، ان کی مجلس میں بیٹھا تو علم کی تعریف ہی بدل گئی۔‘‘ اسی لیے وہ اپنے مضامین اور تحریرات میں جابجا جاوید احمد غامدی کو اپنا استاذ لکھتے ہیں ، اور انہی کے نظریات کی ترجمانی اور وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بالا تحریرات میں گویا انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میرے استاذ و مرشد جناب جاوید احمد غامدی صاحب جو کچھ ریاست کے بارہ میں کہتے ہیں ، وہ بالکل صحیح اور درست ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ اور تمام مسائل کی جڑ ’’ریاست کو مذہبی اسٹیٹ‘‘ بنانا ہے۔ حالانکہ آئین میں لکھا ہے کہ : ’’اسلام ، پاکستان کا سرکاری مذہب ہوگا ۔ ‘‘
اب کوئی دانشور اس استاذ اور شاگرد سے پوچھے کہ کیا تمہارا اس طرح کہنا ، یہ آئین اور دستور کی نفی نہیں؟ اور آئین میں بھی لکھا ہے کہ جو آئین کی خلاف ورزی اور آئین سے انحراف کرے گا‘ وہ سزا کا مستوجب ہوگا۔موصوف اپنے کالم میں لکھتے ہیں : 
’’ قادیانی مسئلہ مذہب او رریاست کے باہمی تعلق ہی کی ایک فرع ہے ( یعنی اسی سے پیدا ہوا ہے ) ، مذہب اور ریاست کے مابین رشتے کا تعین ہمارا اصل مسئلہ ہے، جب تک اسے حل نہ کیا جائے گا، اس کی نئی نئی شاخیں اُگتی رہیں گی ۔ ‘‘                                         (دنیانیوز، ۱۰ ستمبر ۲۰۱۸ء)
حالانکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ قادیانیوں کے کفر کی بنیادی وجہ حضور اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختمِ نبوت کا انکار کرنا ہے، اور یہ خالصتاً دینی عقیدہ ہے، جس پر پورے دینِ اسلام کی عمارت کھڑی ہے، لیکن جناب خورشید ندیم صاحب، جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے فکر و نظر کے اسیر ہونے کی بنا پر کہہ رہے ہیں کہ یہ مسئلہ ریاست کو مذہبی اسٹیٹ بنانے کی وجہ سے ہے ۔ 
گزشتہ سے پیوستہ حکومت نے جب ایک سکہ بند قادیانی ’’عاطف میاں‘‘ کو فنانشل ایڈوائزر کے رکن کے طور پر مقرر کیا تھا، اس پر پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا اور اس کا نام اس ایڈوائزری سے نکالا گیا تو خورشید ندیم صاحب نے لکھا کہ : ’’عاطف میاں کو ہٹا دیا، مگر مسئلہ اب بھی باقی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسا مسئلہ ہے، جسے جتنا حل کیا جاتا ہے، اتنا ہی لاینحل یعنی مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔‘‘ (دنیانیوز، ۱۰ ؍ستمبر ۲۰۱۸ء)
اور آگے لکھا ہے:
’’اس ناکامی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ ہمارا مذہبی ذہن ایک سفارشی کمیٹی میں بھی ایک ایسے فرد کو گوارا نہیں کرسکا جو ہم سے مختلف مذہبی خیالات رکھتا ہے۔‘‘ (حوالہ بالا)گویا خورشید احمد ندیم صاحب کے نزدیک ختمِ نبوت کا انکار کرنا محض ایک مختلف ’’مذہبی خیال‘‘ ہے۔ اب آپ ہی بتائیں ایسے شخص کو اس ادارہ کا سربراہ بنانا اس اتھارٹی کو بے اثر کرنے کے لیے اگر نہیں ہے توپھر اور کس لیے ہے؟ 
اس کے ساتھ ساتھ غامدی صاحب قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں مانتے ۔ تو جب خورشید ندیم صاحب ان کے شاگرد، ان کے مرید، ان کے منادی، اور اپنی تحریروں میں ان کی تعلیمات کی عکاسی کرتے ہیں تو بتلایا جائے کہ اس اتھارٹی کی چیئرمین شپ پر براجمان کیا جانے والا شخص ان کو کافر کہے گا ؟ جب کہ اس اتھارٹی کی ذمہ داریوں اور اختیارات کے بارہ میں آرٹیکل ۸، اے میں کہا گیا ہے کہ : 
۱: ’’قوم کی کردارسازی کے ذریعے ملک کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر تعمیر کرنا، جس کی بنیاد انصاف، قانون کی عمل داری اور فلاحی ریاست کے ماڈل پر ہو۔‘‘ 
۲ : آرٹیکل ۸، ڈی کے ذیل میں لکھا ہے : ’’قادیانیوں، احمدیوں، لاہوریوں، یہودیوں، اور وہ تمام ادارے، تنظیمیں، اور مذاہب، جو اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں، ان کی ہر حرکت پر گہری نگاہ رکھی جائے گی، اور ان کے پروپیگنڈا اور ایکشن کو روکنے کے لیے تمام تر قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘
اب آپ بتائیے! جو شخص ریاست کے سرکاری مذہب اسلام ہونے کو ہی تسلیم نہ کرے، وہ کیا پاکستان کو دشمن سے بچائے گا ؟ کیا وہ قادیانیوں اور یہودیوں وغیرہ کی سازشوں اور حرکتوں پر نگاہ رکھے گا؟ جب کہ قادیانیوں کے بارہ میں تو علامہ اقبالؒ بہت پہلے لکھ چکے ہیں کہ : ’’ یہ ملک اور ملت کے غدار ہیں ۔ ‘‘
تو جو ملک اور ملت کے غدار ہوں اور پاکستان کا آئین جنہیں غیرمسلم قرار دے، اور پھر خاتم النبیین اتھارٹی بنائی ہی اسی لیے گئی ہے کہ ملک اور ملت کے ان غداروں سے ریاست پاکستان کو بچایا جائے گا، تو ایسے لوگ جو قادیانیوں کو کافر نہ سمجھتے ہوں، وہ اس اتھارٹی کے سربراہ بن کر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں گے یا ان ملک و ملت کے غداروں کے مفادات کے مطابق کام کریں گے؟ فیصلہ آپ کریں!
لگتا یہ ہے کہ یہ موصوف مسلم لیگ (ن) کے قریبی شمار کیے جاتے ہیں، اسی لیے سیاسی رشوت کی بنا پر ان کو اس اتھارٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے، یا بیوروکریسی میں چھپے ان عناصر اور کارندوں کی یہ کارروائی ہے جو ہمیشہ دین بیزار اور مذہب بیزار قوتوں کے آلہ کار ہونے کی بنا پر ایسے ایسے افراد کو چن چن کر ایسے اداروں کی سربراہی کے لیے سامنے لاتے ہیں جو ان اداروں کے مقاصد کے برخلاف ذہن رکھتے ہوں، تاکہ دین کی بنیاد پر بننے والے ان اداروں کی ناکامی کو نمایاں کر کے ایسے اداروں سے بالکل جان چھڑائی جائے ۔ 
بہرحال! پاکستانی قوم کا یہ پُرزور مطالبہ ہے کہ محترم جناب خورشید ندیم صاحب کو اس اتھارٹی سے بالکل علیحدہ کیا جائے، اور ان کی جگہ کوئی ایسا سربراہ مقرر کیا جائے جو ملک وملت کے دشمنوں بالخصوص قادیانیوں کی سازشوں کا مکمل ادراک رکھتا ہو اور بین الاقوامی فورموں پر مسلمانانِ پاکستان اور آئینِ پاکستان کی صحیح ترجمانی کرنے کا گُر جانتا ہو ۔ اُمید ہے کہ نگران حکومت اس پر غور کرے گی، اور اس حساس نوعیت کے مسئلہ کو بروقت حل کر کے اسلامیانِ پاکستان کے جائز مطالبہ کو پورا کرے گی، ورنہ اندیشہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان اگر اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو پھر اس عوامی طوفان کے غیظ وغضب کے سامنے بند باندھنا شاید آسان نہ ہو۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین