بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نہار منہ پانی پینا!

نہار منہ پانی پینا!

نبی اکرم a کی بعثت کا اصل مقصد انسانیت کی رہنمائی اورخالق سے اس کو جوڑنا اور ملانا تھا، اس کے باوجود آپ a نے انسانی زندگی کے مختلف شعبہ جات کے لیے ایسی ایسی تعلیمات اور ہدایات بیان فرمائی ہیں کہ عقل حیران اور بڑے بڑے دانشور انگشت بدنداں ہیں۔ مثال کے طور پر طب و معالجہ کو لیجیے، آپ a نے اس کی جزئیات اور کلیات کو بھی بیان کیا ہے۔ علماء نے’’طب نبوی‘‘ کے عنوان سے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، لیکن طب کے سلسلے میں یہ ہدایات وجوب اور لزوم کا درجہ نہیں رکھتیں ، اس میں ہر شخص کے علاقہ اور ماحول کو مدنظر رکھا جائے گا۔ مریض کے اپنے مزاج اور طبیعت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورسب سے اہم اس طریقۂ علاج کو صحیح انداز سے پورا کرنا ہے۔ آج کل یہ بات زبان زد عام ہے کہ نہار منہ پانی پینا جائز نہیں، کیوں کہ نبی کریم a نے اس کے مضرات اور نقصانات کی جانب نشاندہی کی ہے، جو شخص نہارمنہ پانی پیتا ہے، وہ حدیث کے خلاف عمل کرتاہے،لہٰذا اس عمل کو جواز اور عدم جواز کے پیمانے میں تولا اور حلال حرام کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، اس سلسلے میں چند سوالات ذہن میں بیدار ہوتے ہیں: کیا ذخیرۂ احادیث میں ایسی کوئی حدیث موجودہے جس میں نہار منہ پانی پینے کی ممانعت یا اس کے نقصانات کا تذکرہ ہو؟ اگرایسی کوئی حدیث موجود ہے توسنداً اس کی کیا حیثیت ہے؟ محدثینِ عظام کے ہاں یہ روایت قابل قبول اور لائق اعتبار ہے یا نہیں؟ کیا اس حدیث مبارک کو مدار بناکر نہار منہ پانی پینے کو ناجائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ حدیث شریف میں موجود یہ ممانعت وجوبی ہے یا یہ نہی ارشاد کے قبیل سے ہے ؟ معنی یہ کہ اس حدیث کے خلاف عمل کرنا ناجائز ہے یا یہ حدیث نبی کریم a کی جانب سے ایک ترغیب اور مشورہ ہے، جس پر عمل کرنے نہ کرنے کا اختیار ہر انسان کی صواب دید پرمنحصر ہے؟ ان روایات کے مدمقابل روایات موجود ہیں یا نہیں؟اگر موجود ہیں تو ان کی سندمضبوط ہے یا کمزور؟ یہ اور اس نوعیت کے سوالات ہر اس شخص کے ذہن میں گردش کرتے ہیں جس کا سامنا اس طرح کے پیغامات سے ہوتا ہے، ان سوالات اور اشکالات کو مدنظر رکھ کر ذیل میں کچھ عناوین قائم کیے گئے ہیں:

نہار منہ پانی پینے کے نقصان دہ ہونے کے دلائل

کتبِ حدیث میں نہار منہ پانی پینے کی ممانعت کے سلسلے میں روایات موجود ہیں،روایات اور ان پر تبصرہ ذیل میں ملاحظہ ہو: ۱:… ’’ المعجم الاوسط‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ q کی سند سے رسول اللہ a کا یہ ارشاد منقول ہے کہ:’’ جو شخص نہار منہ پانی پیتا ہے، اس کی قوت کم ہوجاتی ہے۔‘‘ (۱) تبصرہ: ۔۔۔۔۔۔۔ امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی v(۲۶۰ھ-۳۶۰ھ) نے’’المعجم الاوسط‘‘ میں اس روایت کو عبد الاول معلم کے تفردات میں سے شمار کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو اس سند کے ذریعہ رسول اللہa سے صرف عبد الاول معلم نے نقل کیا ہے۔(۲) حافظ نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی v (۷۳۵ھ-۸۰۷ھ)اس روایت کے ایک سے زائد راویوں کی جہالت کی بنا پر ان کی پہچان سے انکاری ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں ایسے مجہول راوی ہیں ،جنہیں میں نہیں جانتا۔(۳) حافظ ابن عساکر علی بن حسن v(۴۹۶ھ-۵۷۱ھ) نے اس روایت کی غرابت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: اس روایت کا متن اور سند دونوں غریب ہیں۔(۴) علامہ اسماعیل بن محمد عجلونی v (۱۰۸۷ھ -۱۱۶۲ھ) اپنی کتاب ’’کشف الخفائ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند کمزور ہے۔ (۵) ۲:… امام طبرانی v کی’’المعجم الاوسط‘‘ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے۔ (۶) تبصرہ: ۔۔۔۔۔۔۔ امام طبرانی v نے اس روایت پریہ تبصرہ کیا ہے کہ اس حدیث کو زید بن اسلم سے صرف ان کے بیٹے عبدالرحمن نے نقل کیا ہے۔(۷) حافظ نور الدین ہیثمی v نے اس روایت کومحمد بن مخلد الرعینی کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے۔(۸) علامہ  عجلونی v لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ (۹) ۳:…علامہ ابن جوزی v (۵۱۰ھ- ۵۹۷ھ)حضرت ابو ہریرہ q سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ نہار منہ پانی پینا چربی بڑھاتا ہے۔‘‘(۱۰) تبصرہ: ۔۔۔۔۔۔۔ یہ روایت موضوع ہے،علامہ ابن جوزی v نے سند بیان کرنے کے ضمن میں اس کے راوی عاصم بن سلیمان عبدی کے متعلق فرمایا ہے کہ:’’ یہ حدیثیں گھڑتا تھا، میں نے اس جیسا شخص کبھی نہیں دیکھا ،یہ ایسی ایسی حدیثیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔‘‘(۱۱) اس روایت کو گھڑنے کی ممکنہ وجہ اور سبب پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ رقم طراز  ہیں کہ : ’’مجھے اس بات کا بہت ڈر ہے کہ اس حدیث کو گھڑنے والے شخص کا مقصد شریعت کے ساتھ برائی کا ارادہ ہے، ورنہ پانی میں کیا خصوصیت ہے جو وہ چربی بڑھائے!‘‘(۱۲) علامہ ابو الفضل محمدبن طاہر مقدسی v (۴۴۸ھ-۵۰۷ھ) لکھتے ہیں کہ:’’ اس روایت میں عاصم بن سلیمان کوزی ہے، جو موضوع روایتیں بیان کرتا ہے، اس کی حدیث لکھنا حلال نہیں۔‘‘ (۱۳) ۴:… امام محمد بن ادریس شافعی v(۱۵۰ھ-۲۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ: چار چیزیں بدن کو کمزور کرتی ہیں: کثرتِ جماع، غموں کی زیادتی، نہار منہ پانی پینے کی کثرت اور کھٹی چیزیں زیادہ کھانا۔ (۱۴) ۵:… مولانا اشرف علی تھانوی v (۱۲۸۰ھ - ۱۳۶۲ھ) ’’بہشتی زیور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’سوتے اُٹھ کر فوراً پانی نہ پیو اور نہ یکلخت ہوا میں نکلو، اگر بہت ہی پیاس ہے تو عمدہ تدبیر یہ ہے کہ ناک پکڑ کر پانی پیو اور ایک ایک گھونٹ کرکے پیو اور پانی پی کر ذرا دیر تک ناک پکڑے رہو، سانس ناک سے مت لو، اسی طرح نہار منہ نہ پینا چاہیے۔‘‘ (۱۵)

نہار منہ پانی پینے کے بے ضرر ہونے پر دلائل

۱:… امام طبرانی v نے’’کتاب الدعائ’’ میں حضرت ابن عباس r سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’ جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ اُسے قرآن کریم اور دیگر مختلف علوم یاد کرانے کے قابل بنائے، اُسے چاہیے کہ وہ یہ دعا ایک صاف برتن یا شیشے کی پلیٹ میں شہد ، زعفران اور بارش کے پانی سے لکھ کر اُسے نہار منہ پئے، تین دن روزہ رکھے اور اسی پانی سے افطار کرے، ان شاء اللہ! وہ قرآن اور دیگر علوم یاد کرلے گا، اور یہ دعا ہر فرض نماز کے بعد پڑھے، وہ دعا یہ ہے :’’ أللّٰہم إنی أسألک بأنک مسئول لم یسأل مثلک ولا یسأل الخ۔‘‘(۱۶) علامہ جلال الدین سیوطی v نے ’’اللآلی المصنوعۃ‘‘ میں اور حافظ ابن عراق نے’’تنزیہ الشریعۃ‘‘ میں اسے موضوع قرار دیا ہے۔(۱۷) ۲:… نہار منہ شہد ملا پانی پینے کی روایت نبی کریم a کی عادت تھی کہ آپ a نہار منہ شہد ملا پانی پیتے تھے۔(۱۸)  حافظ ا بن قیم v (۶۹۱ھ-۷۵۱ھ) فرماتے ہیں کہ:’’ شہد کو نہار منہ پینا اور چاٹنا بلغم ختم کرتا ہے، معدہ کے اندرونی حصہ کو صاف کرتا ہے ، اس کی چکنائی کو تازگی بخشتا ہے اور اس سے فضلات کو دور کرتا ہے۔‘‘(۱۹) ۳:… وضو کا بچا ہوا پانی پینے والی روایت صحیح بخاری اور دیگر حدیث کی کتب میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایتیں موجود ہیں کہ نبی کریم a  وضو کے بعد بچے ہوئے پانی کو پی لیتے تھے۔(۲۰) ان احادیث میں تہجد اور فجر کی نماز کے لیے وضو کرتے وقت بچے ہوئے پانی کو نہ پینے کی قید یا ممانعت موجود نہیں، اس وقت انسان نہار منہ ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ نہار منہ پانی پینے میں کوئی قباحت نہیں۔ ۴:… اطباء کا موقف دورِ حاضر کے کئی طبیبوں اور ڈاکٹروں نے نہار منہ پانی پینے کے کئی فوائد گنوائے ہیں۔ ضعیف روایت کا حکم ضعیف روایت کا حکم یہ ہے کہ اس سے شریعت کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم یہ فضائل کے ابواب میں قابل قبول ہے، البتہ اس پر عمل کرنے کی تین شرائط ہیں: ۱:… اس روایت کا ضعف شدید اور انتہائی درجہ کا نہ ہو، اسی وجہ سے اگر کسی روایت میں جھوٹا ، متہم بالکذب یا واضح غلطیاں کرنے والا راوی منفرد ہو تو وہ روایت اس حکم سے خارج ہے۔ ۲:… وہ حکم شریعت کے کسی مسلمہ کلی اصل کے تحت داخل ہو، لہٰذا اگرکوئی روایت ایسی ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو تواسے فضائل کے ابواب میں بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ ۳:… فضائل کے ابواب میں ضعیف روایت کو قبول کرنے کے باوجود احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم a سے اس عمل کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، کیوں کہ اس روایت کے ثبوت میں ایک قسم کا شبہ ہے، ممکن ہے کہ یہ حدیث ثابت نہ ہو، اب اگر یقینی طور پر یہ اعتقاد رکھا گیا کہ یہ عمل ثابت ہے تو نبی کریم a کی جانب ایک ایسا عمل منسوب ہوجانے کا خطرہ ہے جو انہوں نے نہیں کیا۔(۲۱) خلاصہ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نہار منہ پانی پینے کی ممانعت سے متعلق روایات سنداًضعیف یا موضوع ہیں، احتیاطاً اس حکم کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے۔ بعض عمومی روایات سے نہار منہ پانی پینے کا ثبوت ملتا ہے،اس لیے اس مسئلے کوجائز و ناجائز اور حلال و حرام سے جوڑنا درست نہیں، بلکہ یہ ایک طبی مسئلہ ہے، جس میں اطباء کی آراء بھی متضاد نظر آتی ہیں، لہٰذا جس شخص کو پیاس لگی ہو اور اُسے نہار منہ پانی پینے کی ضرورت ہو تو وہ پی لے، لیکن اگر ڈاکٹر یا طبیب نے اُسے نہار منہ پانی پینے سے منع کیا ہے تو وہ نہ پئے۔ حوالہ جات ۱:…’’ حدثنا محمد بن أبی غسان ثنا أبو نعیم عبد الأول المعلم ثنا أبو أمیۃ الأیلی عن زفر بن واصل عن أبی سلمۃ عن أبی ہریرۃؓ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: من کثر ضحکہ استخف بحقہ ومن کثرت دعابتہ ذہبت جلالتہٗ ومن کثر مزاحہٗ ذہب وقارہٗ ومن شرب الماء علی الریق انتقضت قوتہٗ ومن کثر کلامہٗ کثر سقطہٗ ومن کثر سقطہ کثرت خطایاہ  و من کثرت خطایاہ کانت النار أولٰی بہ ۔‘‘(المعجم الأوسط: ۷/۲۸۶-۲۸۷، ط: مکتبۃ المعارف) ۲:…’’لایروی ہٰذا الحدیث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم إلا بہٰذا الإسناد تفرد بہٖ عبد الأول المعلم۔‘‘ (المعجم الأوسط: ۷/۲۸۷،  ط: مکتبۃ المعارف) ۳:…’’ وعن أبی ہریرۃؓ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم : من کثر ضحکہٗ استخف بحقہ ومن شرب الماء علی الریق انتقصت قوتہٗ ۔ رواہ الطبرانی فی الأوسط فی حدیث طویل ہو فی الزہد وفی إسنادہ من لم أعرفہم۔‘‘ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الطب، باب شرب الماء علی الریق: ۱۱/۲۴۷،  ط: دار المنہاج) ۴:… ’’ عن أبی ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من کثر ضحکہٗ استخف بحقہ ومن کثرت دعابتہ ذہبت جلالتہ ومن کثر مزاحہ ذہب وقارہ ومن شرب الماء علی الریق ذہب نصف قوتہ ومن کثر کلامہ کثر سقطہ ومن کثر سقطہ کثرت خطایاہ ومن کثرت خطایاہ کانت النار أولٰی بہ، غریب الإسناد والمتن۔‘‘ (تاریخ مدینۃ دمشق، طاہر بن محمد بن سلامۃ، رقم الترجمۃ: ۲۹۵۷۲۴/۴۵۶، ط: دار الفکر) ۵:…’’ لا تشرب الماء علی الریق ۔ قال النجم اشتہر علی ألسنۃ الناس النہی عن الشرب علی الریق وذمہ ۔ وأصلہ عند الطبرانی عن أبی سعید الخدری من شرب الماء علی الریق انتقصت قوتہ ، وأخرجہ فی حدیث طویل عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وکلاہما سندہ ضعیف۔‘‘  ( کشف الخفاء ومزیل الإلباس، حرف اللام: ۲/۳۶۱، ط:دار إحیاء التراث العربی) ۶:… ’’ حدثنا عبید اللّٰہ بن محمد بن خنیس الدمیاطی قال حدثنا محمد بن مخلد الرعینی قال حدثنا عبد الرحمن بن زید بن أسلم عن أبیہ عن عطاء بن یسار عن أبی سعید الخدریؓ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من شرب الماء علی الریق انتقصت قوتہ ۔‘‘ (المعجم الأوسط: ۵/۳۲۶، ط: مکتبۃ المعارف) ۷:… ’’لم یرو ہذا الأحادیث عن زید بن أسلم إلا ابنہ عبد الرحمن تفرد بہا أبو أسلم ۔‘‘ (المعجم الأوسط: ۵/۳۲۶، ط: مکتبۃ المعارف) ۸:… ’’عن أبی سعید الخدریؓ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال : من شرب الماء علی الریق انتقصت قوتہ ۔ رواہ الطبرانی فی الأوسط وفیہ محمد بن مخلد الرعینی وہو ضعیف۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الطب، باب شرب الماء علی الریق :۱۱/۲۴۶، ط: دارالمنہاج) ۹:… ’’لا تشرب الماء علی الریق ۔ قال النجم اشتہر علی ألسنۃ الناس النہی عن الشرب علی الریق وذمہ ۔ وأصلہ عند الطبرانی عن أبی سعید الخدریؓ من شرب الماء علی الریق انتقصت قوتہ ، وأخرجہ فی حدیث طویل عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وکلاہما سندہ ضعیف۔‘‘ (کشف الخفاء ومزیل الإلباس،حرف اللام: ۲/۳۶۱، ط:دار إحیاء التراث العربی) ۱۰:…’’ أنبأنا أبو القاسم بن السمرقندی أنبأنا إسماعیل بن أبی الفضل أنبأنا حمزۃ ابن یوسف أنبأنا أبو أحمد الحافظ قال قال عمرو بن علی سمعت عاصم بن سلیمان العبدی وکان یضع الحدیث ما رأیت مثلہٗ قط یحدث بأحادیث لیس لہا أصول سمعتہٗ یحدث عن ہشام بن حسان عن محمد عن أبی ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’شرب الماء علی الریق یعقد الشحم۔‘‘ ( الموضوعات لابن الجوزی، کتاب الأشربۃ ، باب شرب الماء علی الریق: ۳/۴۰، ط:دار الفکر) ۱۱:…’’و کان یضع الحدیث ما رأیت مثلہٗ قط یحدث بأحادیث لیس لہا أصول۔‘‘ ( الموضوعات لابن الجوزی، کتاب الأشربۃ ، باب شرب الماء علی الریق: ۳/۴۰ ، ط:دار الفکر) ۱۲:…’’قال المصنف قلت: ما أخوفنی أن یکون ہذا الوضع قصد شین الشریعۃ، وإلا فأی شیء فی الماء حتی یعقد الشحم۔‘‘ ( الموضوعات لابن الجوزی، کتاب الأشربۃ ، باب شرب الماء علی الریق: ۳/۴۰ ، ط:دار الفکر) ۱۳:… ’’ شرب الماء علی الریق یعقد الشحم۔‘‘ فیہ عاصم بن سلیمان الکوزی یروی الموضوعات لا یحل کتب حدیثہ۔‘‘ (معرفۃ التذکرۃ لابن طاہر المقدسی، حرف الشین: ۱/۱۶۰، ط:طبعۃ مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ) ۱۴:…’’وقال الشافعی : أربعۃ تقوی البدن أکل اللحم وشم الطیب وکثرۃ الغسل من غیر جماع ولبس الکتان۔ وأربعۃ توہن البدن کثرۃ الجماع وکثرۃ الہم وکثرۃ شرب الماء علی الریق وکثرۃ أکل الحامض ۔ وأربعۃ تقوی البصر الجلوس حیال الکعبۃ والکحل عند النوم والنظر إلی الخضرۃ وتنظیف المجلس ۔ وأربعۃ توہن البصر النظر إلی القذر وإلی المصلوب وإلی فرج المرأۃ والقعود مستدبر القبلۃ ۔ وأربعۃ تزید فی الجماع أکل العصافیر والإطریفل والفستق والخروب ۔‘‘ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، فصول متفرقۃ فی الوصایا : ۴/ ۴۰۸ و ۴۰۹، ط: مؤسسۃ الرسالۃ) ۱۵:… بہشتی زیور، پانی کا بیان:۹/۴۸۱،ط: اسلامک بک سروس ۱۶:…’’حدثنا یحیی بن أیوب العلاف المصری ، حدثنا أبو طاہر بن السرح ، حدثنا أبو محمد موسی بن عبد الرحمن الصنعانی المفسر ، حدثنی ابن جریج ، عن عطاء ، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ ، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : (ح) وحدثنا مقاتل بن حیان عن مجاہد ، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ ، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : من سرہٗ أن یوعیہ اللّٰہ عز وجل حفظ القرآن وحفظ أصناف العلم فلیکتب ہذا الدعاء فی إناء نظیف أو فی صحفۃ قواریر بعسل وزعفران وماء مطر ویشربہ علی الریق ولیصم ثلاثۃ أیام ولیکن إفطارہ علیہ فإنہ یحفظہا إن شاء اللّٰہ عز وجل ویدعو بہ فی أدبار صلواتہ المکتوبۃ اللّٰہم إنی أسألک بأنک مسئول لم یسأل مثلک ولا یسأل۔‘‘ (الدعاء للطبرانی، باب الدعاء لحفظ القرآن وغیرہ : ۱/۳۹۷،  ط:دار الکتب العلمیۃ) ۱۷:…’’ موضوع والمتہم بہ عمر بن صبح (قلت) لہ طریق آخر أخرجہ الخطیب فی الجامع أنبأنا محمد بن الحسین المنوثی حدثنا عثمان بن أحمد الدقاق حدثنا محمد بن خلف بن عبد السلام حدثنا موسی بن إبراہیم المروزی حدثنا وکیع عن عبادۃ عن شقیق عن ابن مسعود مرفوعا فذکر مثلہ سواء موسی بن إبراہیم المروزی کذاب وقال أبو العباس بن ترکمان الہمدانی فی کتاب الدعاء أنبأنا أبو الفضل محمد بن الحسن بن محمد الدقاق ببغداد أنبأنا محمد بن عثمان بن خالد العکبری حینئذ وقال أبو الشیخ الثواب حدثنا عبید اللّٰہ بن أحمد بن عقبۃ قالا حدثنا الحسن بن عرفۃ العبدی حدثنا زید بن الحباب العکلی حدثنا عبد الملک بن ہارون بن عنترۃ الشیبانی عن أبیہ أن أبا بکر الصدیقؓ أتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال إنی أتعلم القرآن فیتفلت منی ، فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قل: ’’اللّٰہم إنی أسألک ۔۔۔۔‘‘ عبد الملک دجال مع ما فی السند من الإعضال واللّٰہ أعلم۔ و کذا فی تنزیہ الشریعۃ ۲/۳۴،  ط: دار الکتب العلمیۃ۔ (اللآلی المصنوعۃ: ۲/۲۹۹،  ط: دار الکتب العلمیۃ) ۱۸:…’’ وکان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یشربہ بالماء علی الریق وفی ذلک سر بدیع فی حفظ الصحۃ لا یدرکہ إلا الفطن الفاضل۔‘‘ ( زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، فصل فی ہدیہ فی علاج استطلاق البطن : ۴/۳۴،  ط: مؤسسۃ الرسالۃ) ۱۹:…’’وأما ہدیہ فی الشراب فمن أکمل ہدی یحفظ بہ الصحۃ فإنہ کان یشرب العسل الممزوج بالماء البارد وفی ہذا من حفظ الصحۃ ما لا یہتدی إلی معرفتہ إلا أفاضل الأطباء فإن شربہ ولعقہ علی الریق یذیب البلغم ویغسل خمل المعدۃ ویجلو لزوجتہا ویدفع عنہا الفضلات۔‘‘  (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، فصل فی ہدیہ فی الشرب و آدابہ: ۴/۲۲۴،  ط: مؤسسۃ الرسالۃ) ۲۰:…’’سمعت النزال بن سبرۃ یحدث عن علی رضی اللّٰہ عنہ أنہ صلی الظہر ثم قعد فی حوائج الناس فی رحبۃ الکوفۃ حتی حضرت صلاۃ العصر ثم أتی بماء فشرب وغسل وجہہ ویدیہ وذکر رأسہ ورجلیہ ثم قام فشرب فضلہ وہو قائم ثم قال إن ناسا یکرہون الشرب قیاما وإن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم صنع مثل ما صنعت۔‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب الأشربۃ ، باب الشرب قائمًا: ۲/۸۴۰ ، ط: قدیمی) ۲۱:… ’’و قد سمعت شیخنا مراراً یقول  وکتبہ لی بخطہ : إن شرائط العمل بالضعیف ثلاثۃ : الأول: متفق علیہ أن یکون الضعف غیر شدید ، فیخرج من انفرد من الکذَّابین  و المتہمین بالکذب  ومن فحش غلطہ ۔ الثانی : أن یکون مندرجاً تحت أصل عام ، فیخرج ما یخترع ، بحیث لا یکون لہ أصلٌ أصلاً ۔ الثالث: ألا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ ، لئلا ینسب إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما لم یقلہ۔‘‘(القول البدیع، الخاتمۃ، ص:  ۴۷۲ و ۴۷۳ ،  ط: مؤسسۃ الریان)

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین