بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نکاح : کسی بھی مہینے میں منحوس نہیں!

نکاح : کسی بھی مہینے میں منحوس نہیں!


ہمارے معاشرے میں ماہِ محرم، صفر، شوال اور ذو القعدہ میں نکاح کرنے کو معیوب اور غلط سمجھا جاتا ہے، بلکہ ان مہینوں میں نکاح کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کی تاریخ طے کرنے سے پہلے باقاعدہ ان مہینوں پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اگر کہیں ان مہینوں میں نکاح کی تاریخ آرہی ہو تو بد فالی اور بد شگونی لیتے ہوئے اسے تبدیل کیا جاتا ہے، تاکہ نحوست سے حفاظت ہوسکے اور شادی کامیاب رہے۔ مہینوں کو منحوس قرار دینے کے معاملے میں علاقوں اور قوموں کے نظریات بھی باہم مختلف ہیں کہ مختلف قومیں مختلف مہینوں کو منحوس قرار دیتی ہیں ۔
ایسے بے بنیاد نظریات وتوہمات میں عمومًا خواتین زیادہ مبتلا ہوتی ہیں، اس لیے اس معاملے میں بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دخل اندازی اور اصرار کرتی ہیں اور بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ نکاح کی تاریخ ان مہینوں میں نہ آنے پائے۔افسوس کہ آج کا مسلمان دینِ اسلام کی تعلیمات سے کس قدر بے خبر ہے!! اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس سے متعلق شریعت کی تعلیمات کو سمجھے، تاکہ معاشرے میں رائج یہ غلط فہمیاں دورہوسکیں۔ ذیل میں اس غلط فہمی کا جائزہ لیا جاتا ہے:

سال کے تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں

یہ قمری اور اسلامی سال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اللہ ہی نے اسے بنایا اور مقرر فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتے ہیں:
’’إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَآ أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔‘‘ (التوبہ:۳۶)
ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔‘‘
اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو ’’أَشْہُرُالْحُرُم‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جس سے ان چار مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ:
’’عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: اَلزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا، مِنْہَا: أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو الْقَعْدَۃِ وَذُو الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَشَعْبَانَ۔‘‘
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ: زمانہ اب اپنی اسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت (عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں، یعنی:ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے، جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘
حُرمت اورعظمت والے ان چار مہینوں کے خصوصی تذکرے سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ان سے متعلق نحوست، بد فالی اور بد شگونی کے تمام خیالات وتوہمات غلط ہیں۔

سال کے مہینوں کے احکامات بھی اللہ ہی کی طرف سے ہیں

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ قمری اور اسلامی سال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اللہ ہی نے اسے بنایا اور مقرر فرمایا ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی سال بھر کے احکامات کا نازل کرنے والا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قرآن وسنت کی صورت میں اُمت کو سال بھر کے احکامات وتعلیمات بیان فرمادئیے ہیں، ان احکامات میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ 

کسی مہینے میں شادی کو ناجائز اور غلط قرار دینے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے

کس مہینے میں شادی جائز ہے اور کس میں ناجائز ؟ یہ طے کرنے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے کہ وہی حاکم ہے، اس لیے بندوں کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ دین میں اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہوئے کسی مہینے میں شادی کو معیوب یا منحوس قرار دیں، اس لیے اس معاملے میں بھی شریعت ہی کی پیروی کی جائے گی۔

کسی مہینے میں شادی کرنے کو معیوب یا غلط سمجھنا دین میں زیادتی ہے

جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قرآن وسنت کی صورت میں اُمت کو سال بھر کے احکامات وتعلیمات بیان فرمادئیے ہیں تو ان تعلیمات کی رُو سے سال کے کسی بھی مہینے اور کسی بھی تاریخ کو شادی کی ممانعت نہیں، بلکہ ہر مہینے میں شادی کرنا جائز ہے، اس لیے کسی مہینے میں شادی بیاہ کو غلط، منحوس یا معیوب سمجھنا دین میں اپنی طرف سے زیادتی کے زُمرے میں آتا ہے جو کہ قرآن وسنت کی رُو سے سنگین جرم ہے۔

کسی مہینے میں شادی کرنے کو معیوب یا غلط سمجھنا بِلا دلیل ہے

ساتھ میں یہ واضح رہے کہ کسی مہینے میں شادی بیاہ کو غلط، منحوس یا معیوب سمجھنا ایک حکمِ شرعی کے زمرے میں آتا ہے اور حکمِ شرعی کے لیے کوئی معتبر شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ نحوست کا یہ نظریہ بلا دلیل ہے، جس کا قرآن وسنت اور شرعی دلائل سے کوئی ثبوت نہیں۔

اسلام میں نحوست کا تصور

اسلام میں کسی دن، کسی مہینے، کسی سال یا کسی چیز کی نحوست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، البتہ نحوست صرف گناہ میں ہے، ساری نحوستیں اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، افسوس کہ آج کا مسلمان دنوں اور مہینوں کو نحوست زدہ قرار دے کر ان میں شادی سے تو گریز کرلیتا ہے، لیکن شادیوں میں اللہ کی نافرمانی نہیں چھوڑتا، جو کہ نحوست کی اصل وجہ ہے!! شیطان نے نحوست کے حقیقی اسباب ووجوہات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ کرلی ہیں جن میں ہم مبتلا ہیں، اور اللہ کو ناراض کرکے شادی خانہ آبادی کی بجائے شادی خانہ بربادی کے سامان مہیا کیے جاتے ہیں!! شیطان نے ہماری نافرمانیوں کو کس قدر مزیّن کرکے پیش کیا ہے!! کس قدر شیطان نے گناہوں کی سنگینی دِلوں سے مٹا دی ہے!! اللہ کی نافرمانی کس قدر ہلکی چیز تصور کی جاتی ہے!!اس لیے شادیوں میں نحوست سے بچنا ہو اور شادی کو کامیاب بنانا ہو تو اللہ کی نافرمانی سے بچئے اور شادی سنت کے مطابق کیجیے!!
صحیح بخاری میں ہے:
’’عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَن النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ۔‘‘ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:۵۷۶)
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مرض کا اللہ کے حکم کے بغیر دوسرے کو لگنا، بدشگونی، مخصوص پرندے کی بدشگونی اور صفر کی نحوست؛ یہ ساری باتیں بے بنیاد ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘
یہ حدیث یقیناً متعدد غلط فہمیوں کی اصلاح کے لیے کافی ہے۔

نکاح میں بلاوجہ تاخیر ممنوع ہے

نکاح ایک حکمِ شرعی ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب سنت ہے، ایک تو اس کے سنت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے میں بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے۔ دوم یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا: ایک تو نماز میں تاخیر نہ کرنا جب اس کا وقت ہوجائے، دوم: نمازِ جنازہ میں تاخیر نہ کرنا جب وہ تیار ہوجائے، سوم: غیر شادی شدہ لڑکی کے نکاح میں تاخیر نہ کرنا جب اس کے ہم پلہ کوئی مناسب رشتہ مل جائے، مستدرک حاکم(رقم الحدیث:۲۷۴) میں ہے: 
’’عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ثَلَاثٌ یَا عَلِیُّ! لَا تُؤَخِّرْہُنَّ: الصَّلَاۃُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَۃُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَیِّمُ إِذَا وَجَدَتْ کُفْؤًا۔‘‘
اس لیے جب نکاح تیار ہو تو پھر نحوست کے اس بے بنیاد نظرئیے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مہینوں کی وجہ سے اس میں تاخیر کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ عمل ہے، جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

شادی سال بھر میں کسی بھی روز ممنوع، منحوس یا معیوب نہیں

خلاصہ یہ ہوا کہ شرعی اعتبار سے شادی سال بھر میں کسی بھی روز منع نہیں، بلکہ جب بھی کرنی ہو اس کے لیے سال کے تمام ایام میں سے کسی بھی دن کا انتخاب کیا جاسکتا ہے، اس لیے جو لوگ محرم، صفر، شوال یا کسی بھی مہینے میں نکاح غلط اور منحوس سمجھتے ہیں، ان کی یہ سوچ بے بنیاد ہے، کیونکہ قرآن و سنت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں، ایسا نظریہ رکھنا دین کے سراسر خلاف ہے۔ 

ماہِ محرم میں شادی کرنے کا حکم

ماہِ محرم اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عزت، احترام، فضیلت اور اہمیت عطا فرمائی ہے، جیسا کہ ماقبل میں تفصیل بیان ہوچکی۔ جب ماہِ محرم کی عظمت وحرمت واضح ہوگئی تو اس کی عظمت اور برکت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ مہینہ شادی کے لیے نہایت ہی موزوں اور مناسب مہینہ ہے، تاکہ اس کی برکت سے شادی بھی بابرکت بنے، جیسا کہ مختلف مقامات کی برکتیں ہوتی ہیں، اسی طرح مہینوں اور ایام کی برکتیں بھی ہوتی ہیں، تعجب ہے کہ اس عظمت اور برکت والے مہینے میں شادی کو غلط یا منحوس کیسے سمجھا جاتا ہے!!

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر ماہِ محرم میں شادی نہ کرنے کا حکم

بعض لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رُفقاء کی شہادت کو بنیاد بناکر ماہِ محرم میں شادی سے گریز کرتے ہیں، یاد رہے کہ:
شہادت تو نہایت ہی معزز اور مقدس چیز ہے، جو کہ اُمت کے خوش نصیب افراد کو عطا ہوتی ہے، اس لیے اس کی وجہ سے کسی مہینے یا دن میں نحوست کیسے آسکتی ہے؟ اور اس کی وجہ سے کسی مہینے میں شادی کیسے ممنوع ہوسکتی ہے؟
قرآن وسنت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بڑی سی بڑی شخصیت کی شہادت کی وجہ سے کسی مہینے کے احکام پر اثر نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ سے بعض جائز اُمور ناجائز یا ممنوع ٹھہریں، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ماہِ محرم کے احکام میں تبدیلی کا تصور قرآن وسنت کے مطابق نہیں، بلکہ واضح طور پر بلا دلیل ہے، خصوصاً جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرپہلے ہی سے دے دی تھی، لیکن پھر بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے مہینے سے متعلق کسی حکم میں تبدیلی نہیں فرمائی اور نا ہی اس بنا پر خصوصیت کے ساتھ اس مہینے سے متعلق کچھ مخصوص حکم ارشاد فرمایا۔

کیا محرم غم کا مہینہ ہے؟

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر جانثار احباب s کی شہادت یقینا ایک نہایت ہی غمناک اور روح فرسا واقعہ تھا، لیکن ان کی شہادت کی وجہ سے ماہِ محرم کو غم کا مہینہ قرار دینا قرآن وسنت اور شرعی دلائل سے ہرگز ثابت نہیں، اس لیے یہ بات بلا دلیل ہے۔
اور اگر حضرت حسینؓ اور ان کے دیگر جانثار احباب s کی شہادت کی وجہ سے کسی مہینے کو غم زدہ قرار دینا درست مان لیا جائے تو پھر اسلامی تاریخ ایسے ہی المناک سانحات سے بھری پڑی ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی المناک شہادتیں ہوئی ہیں، جیسا کہ حضرت حمزہ، حضرت صہیب، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور دیگر بہت سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دردناک شہادتیں اُمت کی تاریخ کا حصہ ہیں، تو پھر ان کی شہادتوں کی وجہ سے تو سال بھر کو غم والا قرار دے دینا چاہیے، ظاہر ہے کہ اسے کون تسلیم کرسکتا ہے؟ بلکہ سرکارِ دو عالم رحمتِ کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے واقعے کے مقابلے میں اُمت کے لیے کونسا سانحہ بڑا ہوسکتا ہے؟! لیکن اس کی وجہ سے بھی ربیع الاول کو غم والا مہینہ قرار دے کر سوگ کے احکام جاری کرنا کہیں سے ثابت نہیں۔
کسی شخص کی وفات پر اس کے عزیز واقارب کے لیے سوگ منانے کا حکم یہ ہے کہ سوگ تین دن تک ہونا چاہیے، تین دن کے بعد بھی سوگ منانا دین کا تقاضا نہیں، البتہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے اور وہ حاملہ نہ ہو تو اس کا سوگ چار ماہ دس دن تک ہے، لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو اس کا سوگ بچے کی پیدائش تک ہے، اس لیے تین دن کے بعد سوگ منانا شریعت کے خلاف ہے۔ (صحیح البخاری، حدیث: ۵۳۳۴، احکامِ میت، فتاویٰ رحیمیہ)
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ماہِ محرم کو غم کا مہینہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے آج کل جو غم منانے کے طور پر مختلف کام کیے جاتے ہیں یا مختلف نظریات قائم کیے جاتے ہیں، یہ سراسر غیر شرعی اعمال و نظریات ہیں۔

ماہِ صفر المظفر میں شادی کرنے کا حکم

بعض لوگ ماہِ صفر کو نحوست والا مہینہ قرار دے کر اس میں شادی نہیں کرتے ہیں، یاد رہے کہ:
یہ بات صریح احادیث کے خلاف ہے، جس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔
اس ماہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا۔(البدایہ)
وضاحت: حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نکاح سے متعلق اختلاف ہے کہ کس مہینے میں ہوا، اس حوالے سے محرم، صفر یا ذو القعدۃ کا ذکر ملتا ہے۔ (سیرۃِ مصطفی، حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ )

ماہِ ربیع الاوّل میں نکاح کا حکم

ماہِ ربیع الاول کو عظیم الشان شرف حاصل ہے کہ اس میں سرورِ دو عالم، افضل الخلائق، خاتم النبیین، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں جلوہ افروز ہوئے، یقینا یہ شرف اور مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اس لیے اس حیثیت سے ماہِ ربیع الاول کو سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔ اس ماہِ مبارک کے لیے یہی فضیلت ومقام کافی ہے، اس لیے اس ماہ میں شادی نہ کرنے کا تصور ویسے ہی بے بنیاد قرار پاتا ہے۔مزید یہ کہ اس ماہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوا۔ (البدایہ، سیرۃِ مصطفی حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ )

ماہِ شعبان میں نکاح کا حکم

شعبان اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے اور ماہِ شعبان کی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متصل بعد ہی رمضان کا نہایت ہی مبارک مہینہ ہے، جس کے لیے شعبان میں تیاری کرنے کا بہترین موقع میسر آجاتا ہے اور رمضان میں خوب سے خوب تر عبادات ادا کرنے کی پہلے ہی سے عادت ہوجاتی ہے،گویا کہ یہ مہینہ رمضان کی تمہید ہے۔ مزید یہ کہ اس ماہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ہوا، جیسا کہ اُسد الغابہ میں ہے:
’’وتزوَّج صلی اللّٰہ علیہ وسلم حفصۃ بنت عمر بن الخطاب في شعبان سنۃ ثلاث۔‘‘ (اُسد الغابہ، ذکر زوجاتہ وسراریہ صلی اللہ علیہ وسلم )

ماہِ شوال میں شادی کا حکم

ماہِ شوال حج کے مبارک مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں خود حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا اور رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی اور اس سے زیادہ مبارک نکاح اور کس کا ہوگا؟! چنانچہ اسی غلط نظرئیے کی تردید کرتے ہوئے یہی برکت والی بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ارشاد فرمائی ہے، بلکہ اسی بنا پر وہ ماہِ شوال میں نکاح کو پسند فرماتی تھی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی ماہِ شوال ہی میں ہوا تھا۔ (دیکھیے: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر: وأم سلمۃ بنت أبی أمیۃ بن المغیرۃ المخزومیۃ واسمہا ہند تزوجہا سنۃ أربع فی شوال) ۔۔۔۔ جبکہ اسد الغابہ کے مطابق ان کا نکاح ماہِ شعبان میں ہوا۔

ماہِ ذو القعدہ میں نکاح کرنے کا حکم

ماہِ ذوالقعدہ حج کے مبارک مہینوں میں سے دوسرا مہینہ ہے، یہ بھی اس ماہ کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً تین عمرے اس ماہ میں ادا فرمائے، ظاہر ہے کہ یہ اس ماہ کے لیے کتنا بڑا شرف ہے۔ (اسلامی شادی از حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ )
ساتھ میں یہ بھی یاد رہے کہ بعض اہلِ علم کے مطابق ماہِ ذو القعدہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین