بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نواسۂ رسول شہیدِ کربلا حضرت حسین بن علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما ۔۔۔۔ فضائل و احوال 

نواسۂ رسول شہیدِ کربلا 


حضرت حسین بن علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما 

 

فضائل و احوال 

 

نواسۂ رسول، شہیدِکربلا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء t اور شیرِ خدا خلیفہ ٔ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کے لختِ جگر اور نواسۂ پیغمبر  علیہ السلام  ہیں۔
مؤرخِ اسلام مولانا شاہ معین الدین ندوی رحمہ اللہ  تحریر فرماتے ہیں:
’’اس لحاظ سے آپ کی ذاتِ گرامی قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی۔‘‘ (سیرالصحابہؓ: ۱/۱۳۱)
سیدنا حضرت فاطمہ t کو حق تعالیٰ نے تین بیٹوں: حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محسن  رضی اللہ عنہم ، اور دو بیٹیوں سیدہ زینب اور سیدہ ام کلثوم u سے نوازا۔ حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  آپ کی اولاد ِ امجاد میں دوسر ے نمبر پر ہیں۔

نام و نسب
 

آپ کا اسمِ سامی حسین، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ لسانِ نبوت سے ملے القاب ہیں۔ شجرۂ عالیہ یہ ہے :
’’حسین بن علي بن أبي طالب بن ہاشم القرشي الہاشمي۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸/۱۶۰)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد مبارک فرمایا:
’’الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الجَنَّۃِ۔‘‘               (سنن الترمذی: ۳۷۶۸)
ترجمہ: ’’ حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
نیز ارشاد ِ نبوی ہے:
’’عَنِ ابْنِ أَبِیْ نُعْمٍ، قَالَ: کُنْتُ شَاہِدًا لِابْنِ عُمَرَ، وَسَأَلَہٗ رَجُلٌ عَنْ دَمِ الْبَعُوْضِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ:انْظُرُوْا إِلٰی ہٰذَا، یَسْأَلُنِيْ عَنْ دَمِ الْبَعُوْضِ، وَقَدْ قَتَلُوْا ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: ہُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا۔‘‘               (صحیح البخاری، رقم: ۵۹۹۴)
ترجمہ: ’’ابن ابی نعیمؒ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کے پاس موجود تھا، ایک شخص نے آپ ؓ سے مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کیا (کہ اگر محرم کے لباس کو لگ جائے تو کیا حکم ہے؟) حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ: اہلِ عراق میں سے ہوں۔ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو! یہ مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے، حالانکہ انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیٹے (نواسے) کو شہید کرڈالا، میں نے رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ: یہ (حسن و حسین) دونوں میرے دنیا کے پھول ہیں۔‘‘

پیدائش ، نام اور ابتدائی حالات

باغِ نبوت کے پھول سیدنا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی ولادت سے قبل ہی بذریعہ خواب پیدائش کی بشارت دے دی گئی ـتھی، مستدرک للحاکم میں ہے:
’’عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ، أَنَّہَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّیْ رَأَیْتُ حُلْمًا مُنْکَرًا اللَّیْلَۃَ، قَالَ: مَا ہُوَ؟ قَالَتْ: إِنَّہٗ شَدِیْدٌ، قَالَ: مَا ہُوَ؟ قَالَتْ: رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَۃً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَوُضِعَتْ فِيْ حِجْرِيْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتِ خَیْرًا، تَلِدُ فَاطِمَۃُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ غُلَامًا، فَیَکُوْنُ فِيْ حِجْرِکِ، فَوَلَدَتْ فَاطِمَۃُ الْحُسَیْنَ فَکَانَ فِيْ حِجْرِيْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلْتُ یَوْمًا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُہٗ فِيْ حِجْرِہٖ، ثُمَّ حَانَتْ مِنِّیْ الْتِفَاتَۃٌ، فَإِذَا عَیْنَا رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُہْرِیْقَانِ مِنَ الدُّمُوْعِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّیْ مَا لَکَ؟ قَالَ: أَتَانِيْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّ أُمَّتِيْ سَتَقْتُلُ ابْنِيْ ہٰذَا فَقُلْتُ: ہٰذَا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَأَتَانِيْ بِتُرْبَۃٍ مِنْ تُرْبَتِہٖ حَمْرَائَ۔‘‘  (رقم الحدیث:۴۸۱۸)
ترجمہ: ’’حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  کی زوجہ حضرت ام فضل t سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ! رات میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت کیا: کیسا خواب ہے؟ عرض کی: بہت سخت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا ہے وہ؟ عرض کی: میں نے دیکھا ہے کہ گویاآپ کے بدن کا کوئی ٹکڑا کٹ کر میری گود میں آگیا ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعبیر بیان فرمائی کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے، فاطمہ کے ہاں بچہ پیدا ہوگا، وہ تمہاری گود میں ہوگا (تم اُسے دودھ پلاؤ گی)، چنانچہ حضرت فاطمہ t کے ہاں حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے، تو میری گود میں آئے، جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایا تھا۔ ایک روز میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حسینؓ کو میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی گو د میں ڈال دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھیں آنسوؤں سے رواں تھیں۔ حضرت امِ فضل t نے عرض کی: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کو کیا ہوا ہے؟ آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میرے پاس جبریل  علیہ السلام  آئے اور انہوں نے خبردی کہ میری اُمت میرے اس بیٹے کو شہید کردے گی۔ میں نے عرض کی: کیا یہ بات ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ہاں! اور وہ میرے پاس اس کی (خون آلود) سرخ مٹی کا کچھ حصہ بھی لائے ہیں۔‘‘
آپ کی تاریخِ پیدائش میں مؤ رخین کے مختلف اقوال ہیں: تاریخ ابن کثیر میں ۳ ، ۴ اور ۶ہجری کا قول درج ہے، جبکہ شاہ معین الدین ندویؒ نے ۴ ہجری اور مولانا منظور احمد نعمانی  رحمہ اللہ  نے ۵ ہجری لکھا ہے۔
سیدہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا  کی گود جب سبطِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  بنفسِ نفیس تشریف لائے، اپنے نومولود کو اپنے دست ِمبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعابِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام ’’حسین‘‘ رکھا۔ (ابن کثیر: ۸/۱۶۰)
نیز رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (مستدر کِ حاکم، رقم:۴۸۲۷۔ المعجم الکبیر: ۹۲۶)
حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیںکہ آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد جن کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیتِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ: ۱/۴۹۶)
مستدرک للحاکم میں مفصل روایت ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  یکے بعد دیگرے اپنے تین بیٹوں کانام ’’حرب‘‘ رکھتے رہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تبدیل فرماکر بالترتیب حسن، حسین اور محسّن رکھا اور فرمایا کہ میں نے ان کے نام حضرت ہارون  علیہ السلام  کے صاحبزادوں شبیر، شبر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم:۴۷۷۳۔ اسدالغابہ: ۱/۴۹۶)

حلیۂ مبارک

آپ کا بدن مبارک حضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بدن کے مشابہ تھا۔ (جامع الترمذی، رقم:۳۷۷۹۔ البدایۃ والنہایۃ، اسدالغابۃ)

فضائل و مناقب

آپ  رضی اللہ عنہ  کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ آپ نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول اور شیرِخدا رضی اللہ عنہ  کے لختِ جگر اور رتبۂ صحابیت پر فائز ہیں، جو اس حسب و نسب کی فضیلت کو باعثِ نجاتِ اُخروی بنادیتا ہے۔
جناب حضرت حسین شہیدِ کربلا  رضی اللہ عنہ  اپنے نانا حضرت محبوب ِ رب العالمین کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے۔ رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اپنے ان لاڈلوں سے اُلفت و موانست اور لاڈپیار بے مثال ہے۔ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  روایت فرماتے ہیں کہ: 
’’جناب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے باہم کشتی کا کھیل کھیل رہے تھے، اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  فرمارہے تھے: حسن! شاباش! جلدی کرو۔ حضرت فاطمہ t عرض کرنے لگیں: آپ حسن کو ہی کیوں شاباشیاں دے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: حسین کو جبریل امین کہہ رہے ہیں کہ شاباش حسین! جلدی کرو۔‘‘ (اسدالغابہ: ۱/۵۴۹۷)
’’عن أُسَامَۃ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ:طَرَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَۃِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُشْتَمِلٌ عَلٰی شَیْئٍ لَا أَدْرِيْ مَا ہُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِيْ، قُلْتُ: مَا ہٰذَا الَّذِيْ أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَیْہِ؟ فَکَشَفَہٗ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَیْنٌ عَلٰی وَرِکَیْہِ، فَقَالَ: ہَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيْ، اللّٰہُمَّ إِنِّیْ أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہُمَا۔‘‘ (جامع الترمذی)
ترجمہ: ’’حضرت اسامہ بن زید  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا دروازہ کھٹکھٹایا، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  باہر تشریف لائے تو آپ نے کچھ اوڑھا ہوا تھا، معلوم نہیں کیا تھا، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے عرض کیا کہ: یہ کیا ہے جو آپ نے اُٹھا رکھا ہے؟ تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہٹایا تو حضرت حسن و حسین  رضی اللہ عنہما  آپ کی پشت مبارک پر تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، ا ے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، پس تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو اِن دونوں سے محبت رکھے۔‘‘
حضرت انس  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ :
 ’’رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: حسن و حسین سے، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت فاطمہt کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔‘‘                                                       (ترمذی: ۳۷۷۲)
حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ: اچانک حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما  سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  منبر سے اُترے، دونوں حضرات کو اُٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ’’إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔‘‘ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہے) میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے ہوئے آرہے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا، حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر اُنہیں اٹھایا۔‘‘               (جامع ترمذی: ۳۷۷۴)
یعلیٰ بن مرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ :
’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں (لہٰذاحسین سے محبت مجھ سے محبت ہے اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے) اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرتا ہے۔‘‘                                                (جامع ترمذی: ۳۷۷۵)
’’ایک دفعہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر یا عصر کی نماز کے لیے تشریف لائے اور آپ نے اپنے لاڈلوں حضرت حسن یا حضرت حسین  رضی اللہ عنہما  میں سے کسی کو اٹھایا ہوا تھا، آپ امامت کے لیے آگے بڑھے تو دائیں پاؤں کی جانب نواسے کو بٹھادیا، پھر سجدہ کیا اور لمبا سجدہ کیا۔ حضرت شداد  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے سر اوپر کیا تو دیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تو سجدے میں ہیں اور بچہ آپ کی پشت پر سوار ہے، میں دوبارہ سجدے میں لوٹ گیا، آپk نے (نماز سے فارغ ہوکر) رخ پیچھے موڑا تو لوگوں نے عرض کی کہ: یارسول اللہ! آپ نے اپنی نماز میں آج جیسا سجدہ کیا ایسا سجدہ پہلے کبھی نہیں فرمایا، کیا کسی چیز کا حکم ہوا ہے یا کوئی وحی نازل ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، لیکن میرا بیٹا مجھ پر سوار تھا تو میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ اُسے جلدی اُتار دوں۔‘‘           (المستدرک للحاکم، رقم:۴۷۷۵)
رحمتِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ان پیارے نواسوں کو ان خوب صورت الفاظ میں دم کرکے شیطان اور نظرِ بد وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیتے تھے:
’’أُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ۔‘‘ 
’’ میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات سے ہر شیطان، تکلیف دہ چیز اور ہر قسم کی بدنظری سے پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘
نیز فرماتے کہ: ’’جناب حضرت ابراہیم  علیہ السلام  بھی اسی طرح اپنے صاحبزادوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق  علیہم السلام  کو پناہ ِ خداوندی میں دیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۳۳۷۱)
حضرت یعلٰی  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ:
’’ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک دعوتِ طعام پر گئے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے ، آپ نے دیکھا کہ حسین بچوں کے ساـتھ کھیل رہے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں پکڑناچاہا تو وہ ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی (اُن کو پکڑنے کے لیے دوڑ کر) خوش طبعی کرنے لگے، حتیٰ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُنہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ اُن کی گدی پر رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے دہنِ طیب پر اپنا دہن مبارک رکھ کر چومنے لگے اور فرمایا کہ: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرے۔‘‘                (المستدرک للحاکم، رقم:۴۸۲۰)
آپ  رضی اللہ عنہ  خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول تھے، جس ماحول میں آپؓ نے پرورش پائی، اس سے پاکیزہ اور اچھے ماحول کا تصور ممکن ہی نہیں ہے، چنانچہ آپؓ اخلاق، اعمال، صوم و صلاۃ، حج و زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، اُمورِ خیر اور عبادات میں اپنی مثال آپ ـتھے۔ 
آپ کے صاحبزادے حضرت علی زین العابدین  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ:
’’ حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  دن رات میں ایک ہزار نفل پڑھا کرتے ـتھے۔‘‘ (سیرالصحابہؓ: ۴/۲۰۷)
وقار، شائستگی، تواضع اور استقلالِ رائے میں اپنی مثال آپ تھے۔

 صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے مراسم اور تعلق

مؤرخ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہم  آپ کی تکریم و تعظیم کیا کرتے تھے، (باوجودیکہ اس وقت تک حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  صغیر السن تھے، مگر یہ جانثارانِ رسول قرابتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیوں کر لحاظ نہ کرتے؟) پھر آپ اپنے والدگرامی قدر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، مشاجرہ ٔ جمل اور صفین میں بھی شرکت کی، والد ماجد کی بہت توقیر کرتے تھے، ان کی شہادت تک اطاعت گزاری کی، پھر مصالحتِ سیدنا حسن با سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہما  کو بھی تسلیم کیا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  ان دونوں صاحبزادوں کا خصوصی اکرام کرتے، انہیں خوش آمدید اور مرحبا کہتے، عطایا دیتے، دو لاکھ درہم تک ان کی خدمت میں پیش کرتے۔ حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  وفات پاگئے تو حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  ہر سال وفد کے ساـتھ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے پاس آـتے تو حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  ان کی خوب خدمت اور عزت کرـتے، خلافتِ معاویہؓ میں ہونے والے غزوہ ٔ قسطنطنیہ میں بھی آپ شریک تھے۔‘‘                                        (البدایۃ والنہایۃ: ۸/۱۶۲)
حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کا یہ فرمان صحیح بخاری میں موجود ہے:
’’ارْقُبُوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ أَہْلِ بَیْتِہٖ۔‘‘ (صحیح البخاری: رقم۳۷۵۱)
ترجمہ: ’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہلِ بیت میں آپ کی قرابت کا لحاظ رکھو۔‘‘
علامہ ڈاکٹر خالد محمود  رحمہ اللہ  تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  کی خلافت تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ  اور امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے تعلقات اچھے تھے۔ حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  کی پوری کوشش تھی کہ وہ روابط جو انہوں نے حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ نہایت بہترین انداز میں قائم کررکھے ہیں ٹوٹنے نہ پائیں۔ شیخ ابن بابویہ قمی حضرت زین العابدین  رحمہ اللہ  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  نے آخری وقت میں یزید کو جو نصیحتیں کیں، ان میںسے ایک یہ تھی:
’’حقِ حرمتِ اورا بشناس و منزلت و قرابتِ او را باپیغمبر بیاد آورد، باکردہ ہائے او مواخذہ مکن و روابطی کہ من با او دریں مدت محکم کردہ ام قطع مکن۔‘‘  (جلاء العیون، ص:۳۸۸، ایران)
ترجمہ: ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے حقِ احترام کو پہچاننا اور انہیں جو قرب اور درجہ حضور ِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں حاصل ہے اُسے یاد رکھنا، ان کے کسی عمل پر ان سے مواخذہ نہ کرنا اور وہ تعلقات جو میں نے اب تک ان سے نہایت مضبوط کر رکھے ہیں انہیں ہرگز قطع نہ کرنا۔‘‘  (عبقات: ۱/۱۸۵)

ازواج و اولاد

آپ کی ازواجِ طاہرات ؒ میں لیلیٰ ، حباب، حرار اور غزالہ شامل ہیں۔ اولاد درج ذیل ہے: صاحبزادیوں میں سکینہ، فاطمہ اور زینب۔(سیرالصحابہؓ) بیٹوں میں: علی اکبر، علی اصغر، زید، ابراہیم، محمد، حمزہ، ابوبکر، جعفر، عمر، یزید۔ (تاریخ الائمہ، للرافضۃ، ص:۸۳)

شہادت 

آپ  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کا المناک اور دردناک واقعہ ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعہ یزید کے دور ِ جور و جفا میں پیش آیا، جس کی تفصیلات مفتی اعظم مولانا محمد شفیع عثمانی اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی  رحمۃ اللہ علیہم  کی کتب ’’شہید ِ کربلا‘‘ اور مولانا محمد نافع رحمہ اللہ کی کتاب ’’فوائد ِ نافعہ‘‘ جلد دوم میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت حسین  رضی اللہ عنہ ، جملہ اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہ عنہم  اور خاندانِ نبوت کے تمام افراد کی محبت و اُلفت عطا فرمائے اور اُن کے نقوشِ پا پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین