بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نواسۂ رسول،جگرگوشۂبتول  سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کے فضائل ومناقب

نواسۂ رسول،جگرگوشۂبتول  سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کے فضائل ومناقب


قرآن مجید میں حضرت موسیٰ اورحضرت خضر علیہما السلام کے مبارک سفر کے تذکرے میں ایک قصہ ایک بستی کے یتیموں کی دیوار کے متعلق بھی ہے، جس کو درست کرنے کی وجہ حضرت خضر علیہ السلام  نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کو یہ بیان کی کہ ’’وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا‘‘ کہ ان کے ماں باپ نیک تھے اور اس دیوار کے نیچے خزانہ تھا، اگر دیوار درست نہ کی جاتی تو وہ بستی کے ان لوگوں کے ہاتھ لگ جاتا جو مہمان نوازی کے نام سے بھی نابلد اور آداب سے ناآشنا تھے۔ شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانیؒ اپنی مختصر مگر جامع تفسیر عثمانی میں نقل فرماتے ہیں کہ یہ ساتویں پشت تھی، جن کے آباء واجداد کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خزانے کی حفاظت اور ان تک پہنچانے کے لیے حضرت خضر  علیہ السلام کے ذریعہ انتظام کروایا، حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے ذریعے اس واقعہ کی حقیقت کو لسانِ خضر سے واضح کیا اور پھر اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل کر کے اس کی تفصیل کو بیان فرمایا، تاکہ محبوب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبوب اُمت جان سکے کہ نیک اعمال اور پاکیزہ زندگی کی کتنی برکات ہوتی ہیں اور اس کے کتنے ثمرات ہوتے ہیں کہ نسلاً بعدنسلٍ بھی ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس واقعہ سے جہاں بہت سے اسرار وحِکم سمجھ میں آتے ہیں، جن کو مفسرین نے تفصیل کے ساتھ تفاسیر میں نقل کیا ہے، وہیں ایک ایمان افروز نکتہ بھی ایمان والوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے اولیاء کی اولاد کو اُن کے نیک اعمال کی وجہ سے اتنا شرف حاصل ہو سکتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام  کے ذریعے تکوینی طور پر خزانے کی حفاظت کا کام لیا جائے تو امام الانبیاء، خاتم النبیین والمعصومین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  جو سب کے سردار ہیں، وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں، جن کا دامن اتنا پاک ہے کہ اگر نچوڑا جائے تو فرشتے وضو کریں، ان کی اولاد جو اُن کی لاڈلی بیٹی سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا  سے چلی، اُن کا کیا مقام ہوگا؟! 
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں، سب سے چھوٹی مگر مرتبے میں اولاد میں سب سے بڑی حضرت فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  تھیں، ابن عبد البرؒ کے مطابق آپؓ بعثت کے پہلے سال پیدا ہوئیں، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نےآپ کا نام فاطمہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نانیوں اور دادیوں میں فاطمہ نام کی کثرت پائی جاتی ہے، اسی نسبت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے باقی رکھا، فاطمہ کا لفظ ’’فطم‘‘ سے ہے، جس کا معنی ہے قطع کرنا، چھڑانا یعنی وہ دنیا سے الگ کر دی گئی تھیں، اُن کی تخلیق آخرت کے لیے ہوئی، آپ کے دو لقب تھے: بتول اور زہراء بتول کا معنی جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے یکسو ہوجائے اور زہراء کا معنی ’’وہ جن کا ظاہر وباطن مجلّٰی ومصفّٰی ہو۔‘‘ (سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ) 
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت وتربیت نے آپ کو کمالات کی انتہا پر پہنچادیا، آپ اخلاق وعادات میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مکمل شبیہ تھیں ، آپؓ کا نکاح ساڑھے پندرہ سال کی عمر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا۔ معجم طبرانی میں ہے کہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔‘‘
زرقانی ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔ وہ زرہ جو بدر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو ملی تھی، مہر قرار پائی، عقدِ نکاح کے بعد حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ زرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو دی کہ بیچ کر لاؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے وہ ۴۸۰ دراہم میں خریدی اور پھر قیمت دے کر زرہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو ہدیہ کردی اور بدلے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  اور اُن کے گھرانے کی دعائیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے اپنے دامن میں سمیٹ لیں، نکاح کے موقع پر خلفاء ثلاثہؓ اور دیگر کبار صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ حضرت حارثہ بن نعمانؓ نے تھوڑے عرصے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے حجرۂ مبارک کے قریب ہی ایک مکان حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے رہنے کے لیے ہدیہ کردیا اور اس کے بدلے جنت میں مکان خرید لیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت فاطمہؓ وحضرت علیؓ کو تین لڑکے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ اور دو لڑکیاں حضرت زینبؓ، حضرت امِ کلثومؓ( رضی اللہ عنہم ) عطا فرمائے۔
 حضرت حسین رضی اللہ عنہ   ۵شعبان المعظم ۴ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش مبارکہ سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی چچی ام الفضلؓ زوجہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ  نے ایک خواب دیکھا کہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم مبارک سے گوشت کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اُن کی جھولی میں گرا ہے۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: غم نہ کریں، خواب مبارک ہے، عنقریب میری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوگی، جس کی پرورش آپ کے ذمہ ہوگی، چنانچہ اس خواب کے کچھ عرصہ بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے اور یوں جنت کےشہزادوں حسنؓ وحسینؓ کی خوبصورت جوڑی مکمل ہوگئی، خبر ملتے ہی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور برکت کے لیے اپنی زبان مبارک نومولود کے منہ میں ڈالی، دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ یہ خوش قسمت شہزادہ جس کے وجود میں سب سے پہلے مبارک لعاب پہنچی اور کانوں میں اعلیٰ و ارفع آواز گونجی، اس کا نام نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حسینؓ رکھا۔
حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  اپنے نام کی مانند حسین و جمیل، شکل و صورت میں کائنات کے سب سے خوبصورت انسان محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہؓ کی آنکھ کا تارہ تھے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما  کے متعلق زبانِ نبوت سے کیا خوبصورت الفاظ ادا ہوئے: ’’الٰہ العالمین! جس طرح میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت رکھ، اور جو اِن دونوں کو محبوب رکھے، تو بھی اسے محبوب بنا لے۔‘‘(جامع الترمذی)
اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ایک آسان نسخہ ان شہزادوں سے قلبی محبت بھی ہے، کیونکہ یہ رسولِ مقبول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مقبول دعا ہے، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی ان شہزادوں سے بے حد محبت تھی، ایک بار حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کے رونے کی آواز سن کر سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  سے فرمایا: ’’کیا تو نہیں جانتی اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے؟‘‘ 
 ایک دفعہ تو اس محبت کی حد ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’حسینؓ مجھ سے ہے، میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے: ’’حسنؓ وحسینؓ توجنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔‘‘
 کبھی ان کی اُلفت میں ممبر سے اتر آئے، کبھی سجدے طویل ہوگئے، کیونکہ پشت پر جنت کے نوجوانوں کے سردار سوار ہیں ، کبھی ارکانِ نماز یوں ادا کیے جا رہے ہیں کہ شہزادۂ رسول وجودِ اطہر کے ساتھ چمٹے ہیں۔ کبھی ان بچوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں ، اور کبھی کندھوں پر سواری کرائی جا رہی ہے۔ دیکھنے والوں نے کہا: سواری کتنی اعلیٰ ہے؟ تو فوراً زبانِ نبوت سے نکلا: سوار بھی تو کتنا اعلیٰ ہے۔
ایک روز نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُنہیں کئی لڑکوں کو کشتی میں پچھاڑتے دیکھا، تو فرمایا: ’’یہ شجاع ابن شجاع ہے۔‘‘ اپنے والد سے قرآن پاک پڑھتے ہوئے آیاتِ جہاد پر جنگ کے طریقے اور گُر پوچھتے، اور صرف زبانی نہیں، عملی تربیت کی درخواست کرتے۔ پھر حضرت علی  رضی اللہ عنہ  انہیں مشقیں کراتے، حتیٰ کہ اس فن میں کامل ہوگئے اور آگے جا کر نواسۂ رسول نے بہت سی جنگوں اور میدانِ کربلا میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ حضرات صحابہ کرامؓ بھی خاندانِ نبوت کے ان شہزادوں پر جان چھڑکتے اور ان کا پورا خیال رکھتے۔ 
حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم ! اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کی نسبت مجھے یہ بات کہیں زیادہ عزیز ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقرباء سے صلہ رحمی کروں۔‘‘(صحیح البخاری) 
حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے دور میں حیرہ علاقہ فتح ہوا تو ایک بہت خوبصورت اور قیمتی چادر مالِ غنیمت میں آئی، آپ نے وہ چادر حضرت حسینؓ کو دی کہ شہزادے کے ساتھ اچھی لگتی ہے۔ 
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے بدری اصحاب کے برابر دونوں بھائیوں کے وظائف مقرر کیے، دین نے جس چیز سے نہیں روکا اور اجازت دی، خلفاءثلاثہؓ نے اس مقدس گھرانے کے ایک ایک فرد بالخصوص ان شہزادوں کے ساتھ محبت ومودت ،جود وسخاوت میں انتہا کردی اور جس سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمادیا تو پھر اس مقدس گھرانے کے تقدُّس کو دھبہ لگنا بھی گوارا نہ کیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں یمن سے کپڑے آئے تو کوئی حسنین کریمینؓ کے ناپ کے مطابق پورا نہیں آیا، آپ غمگین ہوگئے اور فوراً ناپ یمن بھجوا کر نئے جوڑے تیار کروائے، اور جب انہوں نے پہنے تو فرمایا: ’’شکر ہے اس اللہ کا جس نے میرا دل ٹھنڈا کیا ہے۔‘‘         (سیر اعلام النبلاء) 
حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  ایک روز خطبہ دے رہے تھے تو حدیث پڑھ کر آپ نے دونوں صاحبزادوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت رکھتا ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ ان سے بھی محبت رکھے اور ان کے درجات پہچانے۔‘‘                               (سیرۃ الخلفاءؓ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  سے محبت کا حق بھی حسنؓ و حسینؓ نے ادا کیا، باغیوں نے جب خلیفۂ رسول کے گھر کا محاصرہ کیا تو دروازے پر پہرہ دیا، حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  ایک تیر سے زخمی بھی ہوئے، پر باغیوں کوسامنے سے اندر نہ جانے دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  ‘ حضرت حسنین رضی اللہ عنہما  کے گھوڑے کی رکاب پکڑتے تھے، کسی نے کہا: آپ علم و عمل میں زیادہ اور بزرگ ہیں؟ کہا: میرے لیے تو یہ سعادت کی بات ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما  تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی خاطر لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ  نے صرف حسنین کریمینؓ کی فرمائش پر ہی بعد از وصالِ نبوی اذان دی۔
اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے دورِ خلافت میں حکومتی معاملات میں ہاتھ بٹایا کرتے اور اُن کے ساتھ جنگوں میں بھی حصہ لیتے، ان کے بعد اپنے چہیتے بھائی حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ بھی معاون رہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کے دور میں بھی عنایات سے نوازے جاتے رہے۔ الغرض ہمیشہ سب کے منظورِ نظر رہے اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے رہے۔ ایک دفعہ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کو کسی امیرِ سلطنت کی طرف سے بھیجا جانے والا سامان مدینے کے پاس سے گزرا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ  نے دس اونٹوں سے سامان اُتروا کر پاس رکھ لیا اور پیغام بھجوایا کہ اپنا حق وصول کرلیا ، البتہ کچھ باقی ہے۔ 
مال کے حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جمع کرتے تھے، بلکہ مدینے کے سب سے زیادہ سخی کا پوچھا جاتا تو لوگ آپ کا ہی نام لیتے، اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے کہ اکثر مقروض ہو جاتے۔حسنِ سلوک ایسا کہ بے مثال ! ایک دفعہ ایک خادمہ سے کچھ خطا ہوگئی تو اس نے گھبرا کر یہ آیت پڑھی کہ غصہ کو پینے والے اللہ کو پسند ہیں، آپؓ نے فوراً معاف کر دیا، اس نے درگزر اور حسنِ سلوک کا آگے ذکر کیا تو اُسے آزاد کردیا۔ 
یتیموں اور بیواؤں کا اتنا خیال رکھتے کہ بوقتِ شہادت آپ کی پشت مبارک پر بہت زیادہ نشان تھے، حضرت زین العابدینؒ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ: یہ اس سامان کو اُٹھانے کے نشان ہیں جو آپ اپنی پشت پر لاد کر بیوہ، یتیم بچوں اور فقراء و مساکین کو پہنچاتے تھے۔
عبادت گزار اتنے کہ بعض اوقات سینکڑوں نوافل ادا کرتے، یہ اُس اذانِ محمدی کا اثر تھا جو پیدائش کے وقت آپ کے کانوں میں دی گئی ۔ تلاوتِ قرآن مجید کا یہ حال کہ چلتے پھرتے زبان پر تلاوت جاری رہتی، یہ لسانِ نبوت چوسنے کی برکت تھی، اسی وجہ سے خوش الحان تھے ۔ جو آپ کی تلاوت سنتا تو پھر ’’ھل من مزید‘‘ کی تمنا کرتا، عاشقانہ عبادتِ حج کا یہ عالم کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک پیدل چل کے پینتیس حج کیے۔ سخاوت کا یہ حال تھا کہ اپنے تو اپنے دروازے سے دشمن بھی خالی نہیں گئے، قرض لے لیا، پر کسی سائل کو مایوس نہ کیا۔ نماز سے اتنی محبت کہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر نکلے اور اسی راستے میں سجدہ کی حالت میں میدانِ کربلا میں ۱۰ محرم ۶۱ھ کو  ۵۷ برس کی عمر میں شہید کردئیے گئے۔ 
ہمارا ایک المیہ ہے کہ ہم صرف دس محرم الحرام کو ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ   کا ذکر کرتے ہیں، جبکہ چاہیے تو یہ کہ محراب ومنبر ہو یا صحافت کی دنیا‘ تسلسل کے ساتھ اِن مقدس ہستیوں کا ذکرِ خیر ہونا چاہیے۔ شہادت کے ساتھ آپ کی روشن زندگی کے مثالی کارناموں کو بھی قوی حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا جائے، تاکہ اُمتِ مسلمہ اپنے بڑوں کی زندگی سے بخوبی آگاہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو -جن کی وجہ سے دین ہم تک پہنچا- بہترین جزا سے نوازے اور کل ہمارا حشر اُن کے قدموں میں فرمائے، آمین 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین