بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

نماز میں اشارہ بالسبابہ (شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے)  کا راجح طریقہ اور کیفیت کیا ہے؟

نماز میں اشارہ بالسبابہ (شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے)  کا راجح طریقہ اور کیفیت کیا ہے؟


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
1- عند الاحناف اشارۃ بالسبابہ کا راجح طریقہ کیا ہے؟ اور ’’إلا اللہ‘‘ کہتے وقت انگلی جھکانے کا راجح طریقہ کیا ہے؟ مکمل جھکا کر انگلی ران پر رکھ دینا یا انگلی تھوڑی سی جھکانا اور ران پر نہیں رکھنا؟
2- تشہد میں ’’إلا اللہ‘‘ کہتے وقت اشارہ بالسبابہ (انگلی جھکانے) کی کیفیت کے متعلق حکیم الامتؒ کا آخری موقف کیا تھا؟
الف: انگلی کو تھوڑا سا جھکا دینا، بالکل نہ گرادینا (مطلب ران سے تھوڑا اوپر ہوا میں جھکانے کی حالت میں رکھنا) عام طور پر حکیم الامتؒ کے اس موقف کوحضرتؒ کی آخری رائے سمجھا جاتاہے، مثلاً: احسن الفتاویٰ:۳/۳۰-۳۱، فتاویٰ دارالعلوم زکریا:۲/۱۴۱، وغیرہ۔
ب: انگلی کو پوری طرح ران پر جھکادینا، جیساکہ مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ (تحفۃ الالمعی:۳۴۵، امداد الفتاویٰ جدید مطول، حاشیہ:۱/۴۹۵-۵۰۴) اور مفتی شبیر احمد قاسمی مدظلہ (امداد الفتاویٰ جدید مطول، حاشیہ:۱/۴۹۵-۵۰۴) کی آراء ہیں۔
3- سنن ابو داود کی حدیث نمبر :۹۹۱
’’حدثنا عثمان، یعنی ابن عبد الرحمٰن حدثنا عصام بن دامۃ، من بني بجیلۃ عن مالک بن نمیر الخزاعي، عن أبیہ، قال: رأیت النبي ﷺ واضعاً ذراعہ الیمنی علٰی فخذہ الیمنٰی رافعاً اصبعہ السبابۃ قد حناہا شیئاً۔‘‘
سنن نسائی، حدیث نمبر: ۱۲۷۴
’’أخبرني أحمد بن یحیی الصوفي قال حدثنا أبو نعیم، قال حدثنا عصام بن قدامۃ الجدلي، قال حدثنی مالک بن نمیر الخزاعي، من أہل البصرۃ أن أباہ، حدثہٗ أنہ رأی رسول اللہ ﷺ قاعداً في الصلاۃ واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعاً اصبعہ السبابۃ قد أحناہا شیئاً وہو یدعو۔‘‘
ان کی اسنادی حیثیت بشمول الفاظ ’’أحناہا شیئاً‘‘ کی کیا ہے؟ اور ان مذکورہ الفاظ کے معنی میں جو ’’جھکنا‘‘ آیا ہے، محدثین یا متقدمین فقہاء نے ان الفاظ کی تشریح کی ہے کہ آیا ان الفاظ سے مراد پورا جھکاناہے یا قدرے جھکانا اور بالکل نہ گرانا؟                        مستفتی:شوکت علی (صوابی)

الجواب باسم ملہم الصواب

منسلکہ سوال نامہ میں مذکور تین سوالوں میں سے ہر ایک سوال کا جواب بالترتیب ذکر کیا جاتا ہے:
1-التحیات میں أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ کہتے وقت مسبحہ انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے، احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور ائمہ اربعہ سب اس پر متفق ہیں، جس کی مختلف ہیئتیں ہیں، مگر احناف کے نزدیک مختار طریقہ وہ ہے جو وائل ابن حجر  رضی اللہ عنہ  کی روایت میں مذکور ہے کہ وسطیٰ اور ابہام سے حلقہ بنایا جائے اور خِنصر وبِنصر کو ہتھیلی سے ملا کر مسبحہ سے اشارہ کیا جائے، چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں ہے:
’’وعن وائل بن حجر عن رسول اللہ ﷺ قال: ثم جلس فافترش رجلہ الیسری ووضع یدہ الیسری علٰی فخذہ الیسری وحد مرفقہ الیمنی علٰی فخذہ الیمنی وقبض ثنتین وحلق حلقۃ، ثم رفع اصبعہٗ، فرأیتہٗ یحرکہا یدعو بہا۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، باب التشہد، الفصل الثانی:۱/۲۸۷، ط: المکتب الاسلامی، بیروت)
ملا علی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے جملہ طریقوں کو نقل کرکے مذکورہ طریقے کو راجح قرار دیاہے، چنانچہ ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’قال الطیبي: وللفقہاء في کیفیۃ عقدہا وجوہ، أحدہا: ماذکرنا (في الطریق الأولی وہو عقد ثلٰثۃ وخمسین)، والثاني: أن یضم الإبہام إلی الوسطی المقبوضۃ کالقابض ثلاثًا وعشرین، فإن ابن الزبیر رواہ کذٰلک۔ والثالث: أن یقبض الخنصر والبنصر، ویرسل المسبحۃ، ویحلق الإبہام والوسطی، کما رواہ وائل بن حجرؓ اھ، والأخیر ہو المختار عندنا۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب التشہد:۲/۷۲۹، ط:دار الفکر، بیروت، لبنان)
محققین کے نزدیک ’’لا إلٰہ‘‘ پر انگشتِ شہادت کو اُٹھائے اور ’’إلا اللہ‘‘ پر ذرا جھکادے، یعنی انگلی کے اشارہ کو ختم کر کے کچھ نیچے کو رخ کردیا جائے، لیکن بالکل ران پر نہ رکھے، بلکہ جھکانے کے بعد بھی انگشتِ شہادت ران سے قدرے اُٹھی ہوئی رہنی چاہیے اور یہ ہیئت اخیر تک باقی رہے، سب انگلیاں کھول کر نہ پھیلائی جائیں، چنانچہ مولانا عبد الحی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’التعلیق الممجّد علی المؤطا محمد‘‘ میں اسی کو ملا علی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے نقل کیا ہے:
’’والصحیح المختار عند جمہور أصحابنا أن یضع کفیہ علی فخذیہ، ثم عند وصولہٖ إلٰی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبہام، ویشیر بالمسبّحۃ رافعاً لہا عند النفي واضعاً عند الإثبات، ثم یستمرّ ذٰلک، لأنہٗ ثبت العقد عند ذٰلک بلا خلاف ولم یوجد أمر بتغییرہٖ۔ فالأصل بقاء الشیئ علٰی ما ہو علیہ۔‘‘ (أبواب الصلاۃ، باب العبث بالحصی في الصلاۃ وما یکرہ من تسویتہٖ:۱/۴۶۳، ط:دار القلم، دمشق)
اسی طرح علامہ شامی  رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں:
’’وفي المحیط أنہا سنۃ، یرفعہا عند النفي، ویضعہا عند الإثبات، وہو قول أبي حنیفۃ ومحمد، وکثرت بہ الآثار والأخبار، فالعمل بہٖ أولٰی۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل في بیان تالیف الصلاۃ إلی انتہائہا، فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ أو الإنجیل، ج:۱، ص:۵۰۸، ط:سعید)
اسی طرح علامہ عینی  رحمۃ اللہ علیہ  شرح ابی داود میں تحریر فرماتے ہیں:
’’نا عبد اللہ بن محمد النفیلي: نا عثمان یعنی: ابن عبد الرحمٰن نا عصام بن قدامۃ من بني بجلۃ، عن مالک بن نمیر الخزاعي، عن أبیہ قال: رأیت النبی علیہ السلام واضعا ذراعہ الیمنی علٰی فخذہ الیمنی رافعا اصبعہ السبابۃ قد حناہا شیئا۔ قولہ: ’’حناہا‘‘ بفتح الحاء المہملۃ والنون أي: أمالہا شیئا۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، باب: الإشارۃ في التشہد، ج:۴، ص:۲۷۵، ط:مکتبۃ الرشد، الریاض)
2- اشارہ بالسبابۃ کی کیفیت کے متعلق حضرت حکیم الامت  رحمۃ اللہ علیہ  کا پہلا موقف وہ تھا جس کو حضرت ؒ نے بہشتی زیور حصہ دوم میں لکھا ہے کہ تشہد پڑھتے وقت جب کلمہ پر پہنچے تو بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بناکر کلمہ کی انگلی کو اُٹھا دیوے اور سلام پھیرنے تک اسی طرح اُٹھائے رہے۔ لیکن بعد میں حضرت ؒ سے ایک سائل نے مفصل سوال کیا،جس کے بعد حضرتؒ نے سابقہ موقف (جو بہشتی زیور حصہ دوم میں اشارہ بالسبابۃ کی کیفیت سے متعلق تھا) سے رجوع کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ: تشہد میں ’’لا إلٰہ‘‘ کے وقت انگلی اُٹھادے اور ’’إلا اللہ‘‘ پر جھکادے، مگر عقد اور حلقہ کی ہیئت کو آخری نماز تک باقی رکھے، چنانچہ حضرتؒ سائل کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’الجواب: واقعی بقاء اشارہ میں روایت ترمذی کی صریح نہیں، گو محتمل ہے اور ملا علی قاریؒ کی عبارت کا مدلول بھی واقعی قبضِ اصابع وبسطِ سبابہ ہی کا بقاء ہے، نہ کہ اشارہ کا۔ پس بہشتی زیور کے مضمون سے رجوع کرتا ہوں اور اس کو اس طرح بدلتاہوں تشہد میں ’’لا إلٰہ‘‘ کے وقت انگلی اُٹھاوے اور ’’إلا اللہ‘‘ پر جھکاوے، مگر عقد اور حلقہ کی ہیئت کو آخر نماز تک باقی رکھے۔ وجزاکم اللہ علٰی ہٰذا التنبیہ۔ ‘‘(امداد الفتاوی، کتاب الصلاۃ، تشہد کے وقت رفع سبابہ کی حکمت، ج:۱، ص:۱۸۷، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
باقی رہا یہ کہ انگلی کس قدر جھکائی جائے؟ تو اس بارے میں حضرت حکیم الامت  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک ہی موقف ہماری نظروں سے گزرا ہے کہ انگلی قدرے جھکائی جائے، بالکلیہ اس طرح نہ گرائی جائے کہ ران پر رکھا جائے، چنانچہ حضرتؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ذرا جھکا دے، یہ معنی ہے گرانے کے اور حلقہ بنائے رکھے اور بالکلیہ نہ گرادے، ’’صرح بہٖ ملا علي قاري في رسالۃ تزئین العبارۃ بتحسین الإشارۃ۔‘‘    (امداد الفتاوی: ۱/ ۱۴۲)
3- ابوداؤد اور نسائی شریف کی مذکورہ روایت میں سند کے اندر ’’مالک بن نمیر الخزاعي‘‘ متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کے بارے میں محدثین کی آراء باہم مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان تمام اقوال کے پیش نظر ان کو مقبول قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی روایت احکام کے باب میں قابلِ قبول ہے، اور اس سے اس باب میں استدلال بھی کیا جاسکتا ہے، جیساکہ علامہ عینی ؒ اور ملا علی قاریؒ نے اس روایت سے اشارہ کے بعد کی کیفیت کے متعلق استدلال کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  ’’تقریب التہذیب‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’مالک بن نمیر الخزاعي مقبول۔‘‘ (ج:۲، ص:۴۷۴، باب ذکر حروف المیم)
اشارہ کے بعد کی کیفیت کے متعلق فقہائے کرام کی عبارات میں ’’یضعہا‘‘ کے الفاظ ہیں، اس میں شہادت کی انگلی ران پر رکھی جائے یا اُٹھا کر رکھی جائے، اس کی تصریح موجود نہیں۔
البتہ ’’وقد حناہا شیئا‘‘ کے جملے سے قدرے جھکانے کا مطلب نکلتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ران سے قدرے اُٹھاکر رکھنا بہتر ہے، جیساکہ ملا علی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’تزیین العبارۃ بتحسین الإشارۃ‘‘، ص:۸، اور علامہ عینی  رحمۃ اللہ علیہ  نے شرح ابی داؤد، جلد:۴/۲۷۸، میں ابوداؤد اور نسائی شریف کی روایت: ’’رافعا اصبعہ السبابۃ وقد حناھا شیئا‘‘ ذکر کرنے کے بعد ’’أي أمالھا‘‘ سے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ تشہد والی انگلی کو قدرے جھکایا جائے، اس روایت میں ران پر رکھنے یا نہ رکھنے کی کوئی تصریح نہیں، اس لیے ران پر رکھنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ بعض اہلِ علم کی رائے ہے، تاہم حضرت حکیم الامت  رحمۃ اللہ علیہ  کی آخری رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے۔ فقط واللہ اعلم
 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعید الرحمٰن

محمد عبدالقادر

محمد خالد

  

تخصصِ فقہِ اسلامی

 

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین