بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نقدونظر رجب 1442ھ

نقدونظر رجب 1442ھ

 

تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت (۱۹۳۱ء - ۱۹۴۶ء) [جلداول]
تالیف: ڈاکٹر محمد عمر فاروق۔ صفحات: ۵۷۲۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔ ناشر: مکتبہ مجلس احرارِ اسلام، پاکستان۔ ملنے کا پتہ: بخاری اکیڈمی، داربنی ہاشم، مہربان کالونی، ملتان
قرآن کریم ، سنت نبویہ اور صحابہ کرام ]  کے اجماع سے ثابت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کے آخری نبی، آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب اور امت مسلمہ آخری امت ہے۔سب سے پہلے نبی حضرت آدم  علیہ السلام  اور آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔ اس عقیدہ کو عقیدۂ ختم نبوت کہا جاتا ہے اور یہ عقیدہ قرآن کریم کی سو آیات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی دو سو دس احادیث سے ثابت ہے۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فیروز دیلمی  رضی اللہ عنہ  کے ذریعہ اسے جہنم واصل کرایا، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فیروز دیلمی  رضی اللہ عنہ  کے بارہ میں فرمایا: ’’فَازَ فَیْرُوْزُ ‘‘ فیروز کامیاب ہوگیا، اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا وصال ہوگیا، ادھر یمن میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے ارد گرد ایک بڑی جمعیت اکٹھی کرلی، خلیفہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے ان کے خلاف جہاد کے لیے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا ایک لشکر تشکیل کیا، حضرت عکرمہ، اس کے بعد حضرت شرحبیل بن حسنہ، پھر حضرت خالدبن ولید  رضی اللہ عنہم  کی امارت میں یہ جہاد لڑا گیا، جس میں بارہ سو صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ شہید ہوئے اور مسیلمہ کذاب کی پارٹی کے بیس ہزار سے زائد لوگ مردار ہوئے۔ خود مسیلمہ کذاب بھی حضرت وحشی  رضی اللہ عنہ  کے وار سے مردار ہوا، اس کے بعد جو بھی مدعی نبوت کہیں کھڑا ہوا، مسلمانوں نے اس کا علاج وہی کیا جو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسود عنسی کا اور آپ کے خلیفہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے مسیلمہ کذاب کی پارٹی کا کیا۔ 
انگریز نے جب برصغیر پر قبضہ کیا، مسلمان اس کے خلاف جہاد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تو مسلمانوں کا جذبۂ جہاد سرد کرنے کے لیے انہوں نے اپنے پرانے وفادار خاندان سے ایک آدمی مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا،اس کو مناظر اسلام، مبلغ اسلام، مثیل مسیح، مسیح موعود، ظلی نبی، بروزی نبی، تشریعی نبی اور آگے چل کر نعوذ باللہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی اعلیٰ اور افضل باور کرایا، تو سب سے پہلے لدھیانہ کے علماء ان کے خلاف صف آراء ہوئے، اس کے بعد دوسرے علماء واکابرین میدان میں آئے، لیکن ہر ایک نے انفرادی طور پر کام کیا، جماعتی اور منظم طور پر قادیانیوں کے خلاف اس وقت کام شروع ہوا جب علامہ سید انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ نے حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہ کو امیر شریعت کا لقب دے کر خود بھی اور پانچ سو علمائے کرام بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کراکر ان کو اور ان کی جماعت مجلس احرار کو میدان میں اتارا، حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نور اللہ مرقدہ ان ہستیوں میں سے ہیں، جنہوں نے آزادی کے میدان میں صف اول کا کردار ادا کیا، حضرت سید انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ نے فرمایا: ’’ ہماری ہزاروں صفحات کی تصانیف ایک طرف اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی ایک تقریر ایک طرف۔‘‘ مجلسِ احرار کا قیام ۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں ہوا، مجلس احرار نے سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دینی راہنمائی کے لیے مارچ ۱۹۳۴ء میں ایک مستقل شعبہ قائم کیا، جس کے تین کام تھے:۱:-غیرمسلموں کو دین کی دعوت۔ ۲:-عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ، مرزائیوں کا تعاقب اور مسلمانوں کے ایمانوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھنا۔ ۳:- نومسلموں کی خدمت وکفالت اور تعلیم وتربیت۔
مجلس احرارِ اسلام کے امیر ابن امیر شریعت سید عطاء المہیمن شاہ بخاری رحمہ اللہ اس کتاب کی تقریظ میں مجلس احرار اسلام کا مختصر مگر پر اثر تعارف یوں کراتے ہیں:
’’احرار اور تحفظ ختم نبوت یک جان اور دو قالب ہیں۔مجلس احرار اسلام کی بقا تحفظ ختم نبوت کی مقدس جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔ اکابر و کارکنان احرار نے اس عظیم مشن کے لیےوقت، مال اور جان کی قربانیاں دی ہیں۔ مجلس احرار اسلام کی پکار پر دس ہزار سے زائد مسلمانوں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے جان کی شہادت قبول کی اور قادیانی کفر وارتداد کو پوری ایمانی قوت سے شکست دے کر خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق دار بن گئے ۔
عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے محاسبہ و تعاقب کے سلسلے میں مجلس احرار اسلام کی جدوجہد تاریخ کا سنہری باب ہے۔ اکابر احرار خصوصاً حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری ، چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، شیخ حسام الدین، مولانا مظہرعلی اظہر، محترم تاج الدین انصاری ، مولانا لال حسین اختر، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا عنایت اللہ چشتی، مولانا محمد حیات، مولانا عبدالکریم مباہلہ اور ان کے دیگر رفقاء رحمہم اللہ نے بڑی جرأت و بہادری کے ساتھ فتنۂ ارتدادِ قادیانیت کا مقابلہ کیا۔ ان کے مجاہدانہ کارناموں اور عظیم الشان جدوجہد کی تاریخ سے نئی نسل کو آگاہ کرنا ہماری دینی وقومی ذمے داری ہے۔ عزیز مکرم ڈاکٹر عمر فاروق کو اللہ تعالیٰ جزاء عطا فرمائے جنہوں نے اس ذمے داری کو نہایت احسن طریقے سے پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تحریر کی عمدہ صلاحیت سے نوازا ہے اور انہوں نے اس صلاحیت کو ایک عالی مقصد کی نشرواشاعت کے لیے وقف کردیا ہے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کی پہلی جلد کی اشاعت پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتاہوں اور ان کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تادمِ آخر اس کارِ خیر میں مشغول ومصروف رکھے، ان کی اس خدمت کوقبول فرماکر آخرت میں مغفرت ونجات اور شفاعت خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کا مستحق بنائے، آمین۔‘‘
بہرحال تحفظ ختم نبوت کی تاریخ ۱۹۳۱ء تا ۱۹۴۶ء اس کتاب میں اپنے مخصوص انداز میں جمع کی گئی ہے۔ اس سے پہلے حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب نے بھی تحریک ختم نبوت دس جلدوں میں مرتب کی ہے ، جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے شائع کی ہے، مگر ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است‘‘کے مصداق یہ کتاب بہت سے فوائد وخصوصیات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا کاغذ اعلیٰ ہے، طباعت اور جلد بھی مضبوط اور خوبصورت ہے۔ امید ہے باذوق حضرات اس کی خوب قدر افزائی فرمائیں گے۔
محبتِ نبوی (l)کے تقاضے
تالیف: مجاہدِ ختم نبوت حضرت مولانا حافظ محمد اکرم طوفانی مدظلہ۔ تحقیق وتخریج: حضرت مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مدظلہ۔ صفحات: ۱۴۰۔ رعایتی قیمت: ۱۳۰۔ ناشر: مکتبہ ختم نبوت، کراچی۔ کتاب ملنے کا پتہ: مولانا محمد کلیم اللہ نعمان، امام مسجد الحبیب، سپریم کورٹ آف پاکستان، کراچی۔ اسلامی کتب خانہ ، بالمقابل جامعہ بنوری ٹاؤن ، کراچی
حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی صاحب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما اور خاتم النبیین ٹرسٹ (رجسٹرڈ) کے چیئرمین ہیں۔ آپ کو اگر فنا فی ختم النبوۃ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا، آپ تحفظ ختم نبوت کے عظیم مجاہد ہیں۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کا تحفظ، منکرینِ ختم نبوت اور قادیانیوں کا علمی و عملی تعاقب آپ کی زندگی کا نصب العین ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت اور عشق کے تقاضوں کو بیان کرنے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختم نبوت اور اس کے لیے مطلوب ایمانی غیرت و حمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی صاحب نے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت و عقیدت کے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں، جن کے پڑھنے سے حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت و تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔بقول متین خالد صاحب کے: ’’محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے تقاضے‘‘ ہر مسلمان کی روح کے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘ اُمید ہے کہ ہر مسلمان اس کتاب کو پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرے گا۔ 
کتاب کا یہ تیرہواں ایڈیشن ہے۔ یہ ایڈیشن باطنی خوبیوں کے ساتھ ظاہری خوبصورتی سے بھی مزین ہے۔ طباعت دورنگی ہے۔ کاغذ، سیٹنگ ، طباعت، جلد بندی سب اعلیٰ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائے اور مؤلف، محقق ، ناشر اور ہر قسم کے معاونین کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین