بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

نقدونظر ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ

نقدونظر ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ

 

کامیاب انسان

مؤلف: مولوی محمد صدیق وارث صاحب۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مولانا محمد وارث عمر، مدرس جامعہ دارالعلوم اسلامی مشن بہاولپور۔ رابطہ نمبر: 03077799442 
زیرِ تبصرہ کتاب انسان سازی، تعمیرِ شخصیت، دینی ودنیاوی کامیابی کے راہنما اصولوں، اور زرّیں اقوال پر مشتمل مجموعہ ہے، جو ایک طالب علم کے مختلف کتب کے مطالعہ اور فہم کا ماحصل ، نتیجہ اور نچوڑ ہے۔ اپنے مطالعہ اور فہم کے مطابق انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک کامیاب انسان کیسا ہوناچاہیے؟ اس میں کیا کیا صفات ہونی چاہئیں؟ اسے دینی اور دنیاوی اعتبار سے کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟کتاب چار بڑے عناوین اور حصوں میں تقسیم ہے: ۱- حصہ اول:تعیینِ منزل۔ حصہ دوم: تعمیرِ شخصیت۔ حصہ سوم:کامیابی۔ حصہ چہارم: تعیینِ منزل میں معاون چیزیں۔ پھر ہر حصہ میں مزید بنیادی ، مرکزی اور ذیلی عنوانات ہیں۔
کتاب کا بیشتر مواد اور مندرجات دینی سوچ کے عکاس اور مثبت دینی رہنمائی پر مشتمل ہیں اور کتاب کا موضوع بھی بایں طور دلچسپ ہے کہ یہ ایک حوصلہ افزا اور موٹیویشنل کتاب ہے، جس کا آج کے معاشرے میں بڑا چلن اور رواج ہے، بایں ہمہ واضح رہے کہ اس کتاب میں ذکر کردہ اقوال وافکار اورنتائج ایک طالب علم کے اپنے مطالعہ اور فہم کا انتخاب اور نتیجہ ہیں، جو بہت سوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا سبب بھی بن سکتے ہیں، مگر کتاب پڑھتے ہوئے احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے ایک دو گزارشات ہیں:
صفحہ :۱۳۷ پر نپولین ہل کی کتاب ’’سوچیے اور دولت کمائیے‘‘ کو تعمیرِ شخصیت کی بہترین کتابوں میں شامل کیا گیاہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ نپولین ہل یا اس جیسے بے دین اور دہری موٹیویشنل مصنفین کی کتابوں اور نظریات سے مادیت اور دہریت کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے، دین یا آخرت کی کامیابی ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہے یا بالکل بے حیثیت ہوجاتی ہے۔ یہ مصنفین اپنی کتابوں میں میٹھا زہر خوبصورت برتنوں میں پیش کرتے ہیں، اس طرح کی مادہ پرست موٹیویشنل کتابوں سے ’’خذ ما صفا و دع ماکدر‘‘ کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کامیابی سے کوئی بات لینا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اس کو پڑھنے کا عمومی مشورہ دیا جائے۔ مغرب میں ایسےہی مصنفین اور اسپیکر مادیت اور دہریت کی تبلیغ وترویج کا بڑا سبب ہیں ۔ مسلمان موٹیویشنل مصنفین اور اسپیکر حقیقی کامیابی تو اسلامی تعلیمات میں ہی سمجھتے اور باور کراتے ہیں، مگر شاید دانستہ یا نادانستہ خلطِ مبحث کا شکار ہوجاتے ہیں، اور بعض اوقات بجائے رہنمائی کرنے کے مزید گنجلک اور مشکل پیدا کردیتے ہیں اور مادیت پرستی کو دینی اور اسلامی چولا اور لباس پہنانے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اسی کتاب کے صفحہ :۵۴ پر نپولین ہل کا قول ہے: ’’میں نے دنیا کے اکثر لیڈروں کو جھونپڑیوں سے نکلتے دیکھا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس کی تشریح یوں کی گئی ہے: ’’یعنی غربت ایک ایسا استاذ ہے جو ہر وقت انسان کو سبق پڑھاتا رہتا ہے، جب بھی کوئی غریب کسی مالدار کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں کڑھن پیدا ہوتی ہے میں غریب کیوں ہوں؟ سو وہ مالدار ہونے کے طریقے سوچتا رہتا ہے، حتیٰ کہ وہ دن آجاتا ہے جب وہ بھی مالداروں کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔‘‘ نپولین ہل کے مذکورہ قول اور اس کی تشریح سے قاری کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ مادیت اور مالداری سے محبت ورغبت، غربت سے نفرت اور کڑھن اور اس سے نجات کے لیے مسلسل کوشش اور طریقے سوچتے رہنا ، غربت میں خود کو ناکام سمجھنا اور مالداری میں خود کو کامیاب سمجھنا، وغیرہ جیسے کچھ نتائج اور اسباق اس قول اور تشریح سے سمجھ میں آتے ہیں۔ اور آج کی مادیت زدہ موٹیویشن کا محور یہی سوچ اور فکر ہے۔ 
بہرحال ہمارا مقصد مؤلف کی محنت اور کاوش پر ان کی حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہے، بلکہ ہماری نیک تمنائیں اور دعائیں مؤلف کے ساتھ ہیں ۔ ہم اس گزارش کے ساتھ انہیں حوصلہ افزائی کا مستحق سمجھتے ہیں کہ اس پُرخطر موضوع میں مزید نکھار پیدا کریں اور نظر ثانی کرکے ہر اس موضوع، قول اور فکر کو کتاب سے نکال دیں جس کی بنیاد خالص مادیت پر ہو اور جس سے دینی فکر اور سوچ کی تغلیط یا بے وقعتی کا اندیشہ ہو۔ 
ایک گزارش اور بھی کہ ایک طالب علم جو خود ابھی تعلیم وتربیت اور سیکھنے سکھانے کے مرحلے میں ہے، اسے عصرِ حاضر کے اس پرخطر ، ثقیل اور گہرے موضوع پر کتاب لکھنے کی شاید ضرورت نہیں تھی، وہ تو خود ابھی تک ’’او خویشتن گم است کرا رہبری کند‘‘ کا مصداق ہے۔ اس طرح کی رہنمائی کے لیے پختہ علمی استعداد، گہرا مطالعہ، تجربہ اور دینی عقائد وافکار اور مزاج سے گہری شناسائی، نیز پختہ کار علماء کرام اوربزرگانِ دین کی زیرِ نگرانی تربیت اور ان کی طویل مصاحبت درکار ہے۔ہماری مذکورہ بالا گزارش کا مخاطب ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی موضوع پر لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
 ایسے ہی موضوعات اور مواقع کے لیے شاید کسی شاعر نے کہا ہے اور کیا ہی خوب کہا ہے:

نہ ہر جائے مَرکب تواں تاختن

کہ جاہا سپر باید انداختن

مفہوم یہ ہے کہ:’’ہر جگہ سواری نہیں دوڑانی چاہیے، کچھ جگہیں ہتھیار ڈال دینے کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ 
بہرحال اُمید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں مذکورہ بالا گزارشات کے مطابق بہتری لائی جائے گی۔ کتاب کا کاغذ متوسط ، سیٹنگ اور کمپوزنگ بہتر، ٹائٹل دیدہ زیب اور جلد بندی مضبوط ہے۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین