بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نقدونظر ربیع الاول 1440ھ

نقدونظر

 

برکاتِ تحفظِ ختم نبوت مع اقوالِ تحفظِ ختم نبوت
محمد رضوان قاسمی۔ صفحات:۲۵۶۔ قیمت:۳۰۰ روپے۔ ناشر:مکتبہ فیض القرآن، جامع مسجد عائشہ صدیقہ، سیکٹر بی، منظور کالونی، کراچی۔
عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا وہ عقیدہ ہے جس پر پورے اسلام کی بنیاد کھڑی ہے۔ اگر یہ عقیدہ کسی مسلم فرد کا نہ رہے تو اس کے اسلام کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے، پھر اس کی نہ نماز‘ نماز ہے اور نہ روزہ‘ روزہ ہے، نہ زکوٰۃ قبول ہے، نہ حج قبول ہے اور نہ ہی کوئی عام سی نیکی قبول ہے۔ یہ عقیدہ قرآن کریم کی ایک سو آیات ، حضور اکرم a کی دو سو دس سے زیادہ احادیث اور صحابہ کرام sکے اجماع سے مبرہن ومدلل ہے اور چودہ سو سال سے زائد عرصہ سے پوری اُمتِ مسلمہ اس عقیدہ کی حفاظت کرتی آئی ہے، اس عقیدہ کی حفاظت کرنے والوں نے کس طرح اس کی حفاظت کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی مدد کی، کیا انعامات ملے، انہیں کیا بشارت ہوئیں، علمائے امت نے اس عقیدہ کے تحفظ کرنے والوں کے بارہ میں کیا کہا؟ یہ سب کچھ اس کتاب میں آپ کو ملے گا۔ اسی طرح برصغیر میں یہ فتنۂ قادیانیت کس طرح وجود میں آیا؟ اس کے کیا مقاصد ہیں؟ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام، ان کے بانیین کا تعارف اور اس جماعت کا منہج اور نصب العین کیا ہے؟ یہ سب مختصر اور دل نشیں انداز میں اس کتاب میں درج کردیا گیا ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ: ’’ واقعات سے نظریہ بنتا ہے اور دلائل سے عقیدہ بنتا ہے ۔‘‘ اس لحاظ سے اس کتاب میں واقعات بھی ہیں تاکہ نظریہ بنے، اور دلائل بھی ہیں تاکہ عقیدہ مضبوط ہو۔ کتاب کو عمدہ انداز میں ترتیب دیاگیاہے، جی چاہتاہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہی رہیں۔ یہ کتاب کا دوسراایڈیشن ہے۔ بہرحال میں مبارک باد دیتا ہوں اس کے مرتب ، ناشر اور جملہ معاونین کو جنہوں نے اس کتاب کی تیاری میں اپنا حصہ ڈالا۔ کتاب اس لائق ہے کہ ہرگھر میں ہو اور اس کے پڑھنے کو روزانہ کا معمول بنایا جائے۔
نفحۃ الابرار
افاداتِ ناصح الامت حضرت مولانا حافظ ابرار الحق صاحب کلیانویv۔ صفحات:۳۸۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: خانقاہ عارفی، بی ۷۰، بلاک: ۱۱ ،نزد شاداب مسجد، گلبرگ کراچی۔
حضرت مولانا حافظ ابرار الحق کلیانوی نور اللہ مرقدہٗ، عارف باللہ حضرت ڈاکٹر محمد عبد الحی قدس سرہ کے خلیفہ مجاز تھے، جنہوں نے اپنے مواعظِ حسنہ اور اخلاقِ فاضلہ سے بہت سارے گم راہوں کو راہ یاب اور روحانی مریضوں کو شفایاب کیا۔ رشد واصلاح اور فوز وفلاح کے طلبگار آپ کے چشمۂ فیض سے اپنے دامن بھربھر کر لے گئے، بے نمازی نمازی بن گئے، حرام کی راہوں پر چلنے والے حلال کی طلب میں لگ گئے، بے پردہ خواتین پردہ نشین بن گئیں، گھر فحاشی اور عریانیت سے پاک ہوگئے او ر یہ سب کچھ اللہ والوں کی تاثیر سے ہوتا ہے۔
میرے مربی وشیخ حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ: آدمی جب کامل انسانوں میں بیٹھتا ہے تو انسان بنتا ہے۔ آج ہم نے اہل اللہ کی مجالس کو چھوڑا ہوا ہے، نہ ہمیں انسانیت کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی انسانی اخلاق ہمارے اندر ہیں، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کریں، جس کا حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ان آیات میں دیا ہے: ’’یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ۔‘‘ ۔۔۔۔ ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘ اور سچے لوگوں کی معیت میں جہاں یہ شامل ہے کہ ان کی مجلس اختیار کریں، وہاں یہ بھی ہے کہ ان کے مواعظ اور ان کے ملفوظات کو پڑھیں اور ان پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے آپ کے متوسلین کو جنہوں نے آپ کے مواعظ کو بڑے سلیقہ اور عمدہ انداز میں جمع کیا ہے۔
یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ کاغذ عمدہ اور دوکلر میں ہے۔ کتابت، طباعت اور جلدی بندی اعلیٰ معیار پر ہے، کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مکی دور میں رسول اللہa کے تعلیمی کارنامے
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی دامت برکاتہم۔ صفحات: ۲۱۰۔ قیمت:درج نہیں۔ ناشر: مکتبۃ الکوثر، بلاک بی، سیکٹر: ۱۱، مکان ۱۲۱، جامعۃ الرشید، احسن آباد کراچی۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے مؤلف جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصصِ علومِ حدیث کے رئیس ہیں، آپ کو علوم احادیث میں سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ آپ نے جامع ترمذی کے بارہ میں بتایا کہ اس میں کم وبیش ۷۷ حضرات کے اقوال وآراء اور مذاہب نقل کیے گئے ہیں، جس میں ۲۶ فقہاء صحابہ کرامؓ، اس میں ۲۶ فقہاء تابعینؒ، ۱۸ فقہاء تبع تابعینؒ اور ۷ تبع تبع تابعین ہیں، پھر ہر ایک کا نام، تاریخ وفات اور ان کے فتاویٰ کی تعداد لکھی ہے، صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ کی تعداد ۱۶۲ ، تابعین کے فتاویٰ کی تعداد ۹۴، تبع تابعین کے فتاویٰ کی تعداد ۸۰۷، تبع تبع تابعین کے فتاویٰ کی تعداد ۶۹۹ ہے، گویا جامع ترمذی میں کل فتاویٰ کی تعداد ۱۷۶۲ ہے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جس کی کتاب پر گہری نظر ہو۔ اور پھر آپ لکھتے ہیں:یہ مذاہب امام ترمذیؒ نے اس لیے نقل کیے ہیں کہ ان میں سے جس مذہب پر کوئی عمل کرے گا، وہ نجات پائے گا، اگرچہ جس امام اور مجتہد کا اس نے مذہب اختیار کیا ہے، وہ خطا پر ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ حدیث شریف ہی میں آتا ہے کہ جب کوئی حاکم ومجتہد کسی مسئلہ میں اجتہاد کرے، اگر وہ درست ہو تو اُسے دو اجر ملیںگے اور اگر اجتہاد میں خطا ہو گئی پھر بھی اُسے ایک اجر ملے گا۔ اگر اسے خطا پر اجر نہ ملتا تو پھر اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا اور شریعت دائمی نہ رہتی۔ 
اس کتاب کے بارہ میں حضرت خود ’’پیشِ لفظ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مکی زندگی میں رسول اللہ a کا نصاب ونظام تعلیم کیا تھا؟ اندازِ تربیت کیسا تھا؟ تعلیم وکتابت کی کیا شکلیں تھیں؟ ان موضوعات کو (جو عام سیرت نگاروں کی نظروں سے اوجھل رہے) کتاب میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ نیز وہ صحابہ کرام s جو اس نصابِ تعلیم سے فیض یاب ہوئے اور مکی دور میں ان کی تربیت ہوئی، ان کے تراجم بھی شاملِ کتاب کیے گئے ہیں۔‘‘
بہرحال کتاب اتنا عمدہ اور سہل انداز میں لکھی گئی ہے کہ پڑھنے کو جی چاہتاہے۔ مختصر لفظوں میں بڑے طویل طویل موضوعات سمو دیئے گئے ہیں، گویا یہ کتاب دریا بکوزہ کا مصداق ہے۔ میرے خیال میں درسِ نظامی خصوصاً دورہ حدیث کے تمام طلبہ، احادیث سے شغف رکھنے والے علمائے کرام اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والے تمام احباب کو یہ کتاب ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیے۔
راہنمائے تعلیم
مفتی ذاکر حسن نعمانی صاحب۔ صفحات: ۲۰۲۔ قیمت: درج نہیں۔ ملنے کا پتہ: مکتبۃ العصر، جامعہ عثمانیہ، نوتھیہ روڈ، پشاور صدر۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے مصنف حضرت مولانا مفتی ذاکر حسن نعمانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل اور جامعہ عثمانیہ پشاور کے استاذ ومفتی ہیں، ا س سے پہلے بھی آپ کی کئی کتب طبع ہوکر منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ آپ کو ایک نئے انداز سے کتاب مرتب کرنے کا اللہ تعالیٰ نے سلیقہ ودیعت فرمایاہے، آپ ایک آیت یا حدیث نقل کرتے ہیں، پھر اس کا ترجمہ اور اس کے بعد آیت یا حدیث کے ایک ایک لفظ سے کئی کئی مسائل کا استنباط اور تخریج کرتے ہیں، مثلاً آپ نے عنوان قائم کیا: ’’وسیع العلم استاذ‘‘ اس کے تحت آیت نقل کی ’’وَ أَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ۔‘‘(بقرہ:۳۰) حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایاکہ:’’ میں جانتاہوں اس بات کو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ استاذ شاگرد کو کہہ سکتا ہے کہ مجھے ایسی بات کا علم ہے، جس کا تم کو علم نہیں اور تم نہیں جانتے، اس لیے کہ استاذ کا علم شاگرد کے علم سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استاذ کا علم شاگرد سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استاذ اُن باتوں کی خبر دیتا ہے جن سے شاگرد بے خبر ہوتا ہے، الخ۔ 
پوری کتاب میں خوبصورت عنوانات جو علم کے متعلق ہیں اور ان کے تحت آیت یا حدیث اور پھر ان سے مسائل کا استخراج، آدمی ایک مرتبہ کتاب شروع کردے تو کتاب رکھنے کا جی نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے علم وعمل میں اور عمر میں برکت فرمائے اور اس طرح اور کتابیں بھی لکھنے کی توفیق وسعادت نصیب فرمائے۔ اہل قلم حضرات کے لیے یہ ایک نیا اور خوبصورت انداز ہے، اس طرح کی اگر کتابیں تصنیف وتالیف ہونا شروع ہوجائیں تو عوام الناس کو قرآن وحدیث کے قریب لانا بہت حد تک آسان ہوجائے گا۔ گویا تعلیمی اُمور کی شرعی رہنمائی کے لیے قرآن سے براہِ راست اخذ کردہ آداب، احکام اور قواعد کا بہترین اور بیش بہا مجموعہ ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین