بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نقدو نظر

نقدو نظر

 

تبصرے کے لیے ہر کتاب کے دونسخوں کا آنا ضروری ہےِ ۔ (ادارہ)
المصنفات فی الحدیث
حضرت مولانا محمد زمان کلاچوی‘ صفحات: ۴۹۵‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ہریرہ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد‘ ضلع نوشہرہ۔ قدرت الٰہیہ کا دستور ہے کہ جب بھی کسی باطل نے سر اٹھایا تو اس کی سرکوبی کے لئے کسی ہادی و راہبر کو کھڑا کردیا گیا‘ اور جب کسی فتنہ کے تانے بانے شروع ہوئے‘ تکوین نے اس کے تارپود بکھیرنے کے لئے کسی فرد‘ جماعت یا قوم کو اس کے خلاف میدان میں اتار دیا۔ ٹھیک اسی طرح جب ہندوپاک میں انکارِ حدیث یا انکارِ دین کے فتنے نے پر پُرزے نکالنے شروع کئے تو اللہ تعالیٰ نے حجة الاسلام اور محدث العصر حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوری قدس سرہ کو اس کی سرکوبی کے لئے منتخب فرمایا‘ چنانچہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری کی تاریخ اور اس کے کارنامے اس کے شاہد ہیں کہ اس نے ہر اٹھنے والے فتنہ اور فتنہ گر کے مقابلہ میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ پیش نظر کتاب بھی حضرت بنوری اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے انہیں کارہائے نمایاں کی ایک کڑی ہے‘ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ فتنہ انکارِ حدیث نے جب پر پُرزے نکالنا شروع کئے تو حضرت بنوری قدس سرہ نے اس کے خلاف ایک فوج تیار کرنے کا منصوبہ بنایا‘ چنانچہ اس کے لئے تخصص فی الحدیث کا شعبہ قائم کرکے ملک بھر کے لائق و فاضل طلبہ کو منتخب فرمایا‘ انہیں خوش قسمتوں میں سے ایک نام حضرت مولانا محمد زمان کلاچوی مدظلہ کا بھی ہے‘ جنہوں نے دو سال تک حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری قدس سرہ اور حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی قدس سرہ کی تربیت و نگرانی میں رہ کر فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف بھرپور تیاری کی اور فن حدیث میں اختصاص حاصل کیا‘ دوسرے سال کے آخر میں آپ کو ”الکتب المدونة فی الحدیث و خصائصا و اصنافہا“ کے عنوان سے عربی میں مقالہ سپرد قلم کرنے کا کام سپرد کیا گیا‘ چنانچہ آپ نے نہایت محنت‘ عرق ریزی اور دقیقہ رسی سے یہ شاندار مقالہ سپرد قلم کرکے اپنے شیخ حضرت بنوری قدس سرہ سے تحسین و شاباش کے ساتھ ساتھ اول درجہ میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ۱۹۶۵ء کا سال تھا‘ جب آپ نے یہ یغمان علم مرتب فرمایا‘ چاہیے تو یہ تھا کہ مقالہ اپنے اہمیت و عظمت کے پیش نظر انہیں دنوں آب و تاب سے منصہ شہود پر آجاتا‘ مگر ”کل امر مرھون باوقاتہا“ کے پیش نظر شاید اس طرف کسی کی نظر نہ گئی۔ بلاشبہ یہ مقالہ اگر کسی عرب یونیورسٹی کے کسی طالب علم نے لکھا ہوتا تو اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ لگا ہوتا اور نہایت شاندار انداز سے طبع ہوکر علمی دنیا سے خراج تحسین وصول کرچکا ہوتا‘ مگر اے کاش کہ! اس کا مصنف پاکستان اور اس کے ایک پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتا ہے ‘بہرحال اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا عبدالقیوم حقانی کو جنہوں نے ۴۲ سال کے بعد اس گمشدہ خزانہ کو منصہ شہود پر لانے کا قصد کیا۔ پیش نظر کتاب اپنی جگہ نہایت جامع‘ مفید اور قابل قدر ہے‘ پروف کی چند فروگزاشتوں سے قطع نظر یہ کتاب دراصل اسی مقالا کا اردو ترجمہ ہے جو مصنف ہی کے قلم سے ہے‘ جس میں ایک ہزار سال تک فنِّ حدیث کے عنوان پر لکھی گئی عربی‘ فارسی اور اردو کتبِ حدیث‘ ان کا مرتبہ و مقام‘ خصوصیات‘ شرائط اور ان کے مصنفین کے تفصیلی احوال کا تذکرہ ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب اس قابل ہے کہ ہر کتب خانہ میں ہونی چاہئے‘ نیز اس بات کی ضرورت ہے کہ جدید تحقیق و تخریج کے بعد اہل عربی مقالہ کو نہایت خوبصورت کمپوزنگ کے ساتھ شائع کرکے اسے دنیا بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے،امید ہے کہ اہل ذوق علماء‘ طلبہ اور باذوق قارئین اس کی قدر افزائی میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔
دروس القرآن فی شہر رمضان
حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید‘ ترتیب: مولانا محمد اصغر کرنالوی‘ صفحات:۷۱۶‘ قیمت: ۲۰۰ روپے‘ پتہ: زمزم پبلشرز‘ شاہ زیب سینٹر‘ نزد مقدس مسجد اردو بازار کراچی۔ قرآن کریم کتاب ہدایت‘ دستور حیات اور نسخہ شفاء ہے‘ یہ انسانی ہدایت و راہنمائی اور رشد و ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے‘ اس کی تلاوت باعث اجر‘ اس پر عمل ذریعہ نجات اور اس کا فہم و تدبر موجب ہدایت‘ اور وسیلہ قرب الٰہی ہے‘ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس نسخہ کیمیا‘ کو پس پشت ڈال دیا اور اس سے ہدایت و راہ نمائی کی جگہ اغیار اور ان کی جھوٹی تعلیمات کے پیچھے دوڑنے لگے‘ بھلا وہ جو خود راہ پر نہیں‘ وہ دوسروں کو کیا راہ دکھلائیں گے؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ اور ”خسر الدنیا والآخرة“ کا مصداق قرار پائے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ان حضرات کو جنہوں نے امت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور ان کو کتاب ہدایت سے جوڑنے کی محنت فرمائی اور ضلال و گمراہی کی دلدل سے نکال کر صراطِ مستقیم پر لاکھڑا کرنے کی کوشش فرمائی‘ ان ہی خوش نصیب‘ بلند اقبال‘ جواں ہمت اور جواں عزم حضرات میں سے ہمارے ممدوح حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید بھی تھے‘ جنہوں نے اپنی پوری زندگی دعوت قرآن میں صرف فرمائی اور داعی قرآن کے عنوان سے مشہور ہوئے‘ ان کا یہی جرم دشمنانِ اسلام کے لئے ناقابل برداشت قرار پایا کہ انہیں بھرے بازار میں شہید کردیا گیا،مگر شاید ان کو معلوم نہیں کہ ان کے اس گھناؤنے عمل سے بے شک وہ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور امت ان کے رخ دیدہ زیب کی زیارت سے محروم ہوگئی مگر ان کا پیغام اور دعوت آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ پیش نظر کتاب ان کے اسی پیغام اور دعوت کی ایک شکل ہے ‘ جو انہوں نے اپنی زندگی میں رمضان کی راتوں اور تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کریم کی مختصر تفسیر و تشریح کے عنوان سے دی تھی‘ جسے کیسٹ میں محفوظ کرنے کے بعد کیسٹ سے نقل کرکے ان کے خدام نے امت کے لئے پیش کیا ہے۔ دروس القرآن کریم کیا ہے؟ دراصل یہ قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ ہے جو ایک مسلمان کی ہدایت و راہ نمائی اور اس کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اکسیر اعظم کا درجہ رکھتا ہے۔ بلاشبہ ”دروس القرآن“ علوم و معارف اور تفسیر و تشریح قرآن کریم کا لازوال خزانہ ہے‘ جن حضرات نے حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید کو سنا ہے وہ اس کو پڑھ کر ایسا محسوس کریں گے جیسے حضرت مولانا ان کے سامنے اپنی اسی فصاحت‘ بلاغت اور گھن گرج سے بول رہے ہیں اور ہم سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شہید کو بلا کا حافظہ‘ زکاوت‘ ذہانت اور استحضار دیا تھا‘ وہ جس موضوع پر بولتے بلا تکان بولتے چلے جاتے‘ ایسا محسوس ہوتا جیسے مضامین و حروف ان کے سامنے پرا باندھے کھڑے ہیں‘ وہ مشکل سے مشکل مضمون کو بھی نہایت آسان انداز میں سمجھانا بلکہ سامعین کے ذہنوں میں اتارنا جانتے تھے‘ وہ حق گوئی و بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے‘ قرآن و سنت کی دعوت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ‘اور امت مسلمہ کی ہدایت و راہ نمائی ان کا محبوب مشغلہ تھا‘ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایک رات میں خود قرآن کریم سنانے کے باوجود دو دو مساجد میں خلاصہ تفسیر بیان کرنے سے بھی نہیں اکتاتے تھے‘ وہ ایک ایک دن میں تین تین ا ور چار چار دروس و بیانات کرکے بھی ترو تازہ نظر آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مرتب موصوف کو جنہوں نے اس خوان یغما کو امت کے سامنے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ پیش نظر کتاب ۲۷ دروس پر مشتمل ہے‘ جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوگا کہ بظاہر اس خلاصہ تفسیر میں ایک فرد اور قوم کی اصلاح کے لئے قرآن کریم کے بنیادی مضامین نہایت خوبصورتی سے آگئے ہیں‘ امید ہے کہ اہل ذوق‘ خصوصاً علماء اور طلبہ اس خزانہ عامرہ سے محروم نہیں رہیں گے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین