بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نقد ونظر

اشاعتِ خاص بیاد: حضرت مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ (سہ ماہی ’’المظاہر‘‘ کوہاٹ ) مدیر: مولانا محمد طفیل کوہاٹی صاحب۔ صفحات: ۱۲۲۳۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: ندوۃ التحقیق الاسلامی، کوہاٹ۔  زیرِ نظر اشاعتِ خاص محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے شاگردِ رشید، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق استاذ، محققِ کبیر، شہیدِ مظلوم، امین الملۃ حضرت مولانا محمد امین اورکزئی شہید  رحمۃ اللہ علیہ   کی پر عزم زندگی، علمی وتدریسی کارنامے، محدثانہ جلالتِ قدر ، فروغِ علم کی لازوال جد وجہد، قومی وملی خدمات، انفرادی واجتماعی اَن گنت کارہائے نمایاں، سیرت واعمال کے ہمہ جہتی پہلؤوں پر مشتمل ایک دستاویز ہے۔ اس خصوصی اشاعت کو چھ اَبواب پر تقسیم کیاگیاہے: بابِ اول: ’’احوالِ امین‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں سوانحی خاکہ، احوال وآثار، مولانا محمد امین اورکزئی رحمۃ اللہ علیہ   کا سماجی کردار بیان کیا گیا ہے۔ بابِ دوم: ’’آثارِ امین ‘‘کے نام سے ہے جو حضرتؒ کے علمی کارناموں کے تذکرہ،تصانیف کے تعارف اور بعض منتخب افادات کے لیے مختص کیاگیاہے۔ بابِ سوم: ’’تذکارِ امین‘‘ میں حضرتؒ کے اہلِ خانہ، تلامذہ، متعلقین، سماجی دانشوروں اور احباب کے تأثراتی ومشاہداتی مضامین شامل ہیں۔  بابِ چہارم: ’’نقشِ امین‘‘ کے عنوان سے حضرت شہیدؒ کی خود نوشت علمی، تحقیقی اور تاریخی تحریرات پر مشتمل ہے۔ بابِ پنجم: ’’مکاتیبِ امین‘‘ میں آپؒ کے اہم علمی، اصلاحی اور سماجی مکاتیب کا گراں قدر ذخیرہ پیش کیاگیا ہے۔ اس باب میں آپؒ کے نام بعض مشاہیر کے مکاتیب شامل ہیں۔ بابِ ششم: ’’یادِ امین‘‘ منظوم تأثرات پر مشتمل ہے۔ آخر میں آپ کی نشست، رہائشی کمرہ، آپ کی چار پائی، آپ کی لائبریری اور ادارے کی چند تصاویر بھی شاملِ اشاعت کی گئی ہیں۔ اس خصوصی اشاعت کا سہرا آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب طول عمرہٗ اور حضرت مولانا محمد طفیل کوہاٹی زید مجدہٗ (مدیر:سہ ماہی ’’المظاہر‘‘ کوہاٹ)کے سرہے، جوبے سروسامانی کے عالم میںنہایت محنتِ شاقہ کے بعد اتنا خوبصورت گلدستہ منصۂ شہود پر لائے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا محمد امین اورکزئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے صاحبزادہ مولانا محمد یوسف صاحب کو اُن کا صحیح علمی جانشین بنائے۔ آمین! میانِ دو کریم محمد احمد حافظ۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: سنابل پبلشرز، کراچی۔ حرمین شریفین کی محبوبیت اتنی ہے کہ اس کی زیارت ہر مؤمن مسلمان مرد اور عورت کی زندگی کی قیمتی آرزو ہوتی ہے، زندگی بھر اس کے لیے وہ تڑپتے اور مچلتے رہتے ہیں، جب اُنہیں یہ زیارت نصیب ہوتی ہے تو اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب آدمی سمجھتے ہیں۔ اس کتاب کے مؤلف بھی اُنہی خوش نصیب حضرات میں سے ہیں، جنہیں حرمین شریفین کی زیارت اور سعادت نصیب ہوئی، تو انہوں نے اپنے اس سفر کی دلآویز روئیداد اور ہر متبرک مقام کے دیکھنے اور وہاں عبادت اور دعاؤں میں جو کیفیات اور قلبی واردات منکشف اور محسوس ہوئے، اُنہیں بہت ہی ادبی انداز میں اس کتاب کا حصہ بنایاہے۔ کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے گویا آدمی خود وہاں موجود ہے۔ کتاب کو بہت ہی اعلیٰ کاغذ، عمدہ کتابت اور اعلیٰ پیرائے میں طباعت کیاگیا ہے۔ متبرک مقامات کی پرانی تصاویر کو بھی اس کتاب میں شامل کیاگیاہے۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔ مذاہبِ اربعہ میں توہینِ رسالت اورتوہینِ صحابہؓ   کا تحقیقی جائزہ مفتی ثناء اللہ صاحب۔ صفحات: ۳۶۳۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مرکز البحوث الاسلامیہ، مردان۔ دشمنانِ اسلام اور اُن کے آلہ کاروں نے مسلمانوں کو تڑپانے اور ان کے قلوب کو مجروح کرنے کی غرض سے نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور دوسرے انبیائے کرام B کی شانِ اقدس میں گستاخیوں کا وطیرہ اپنایا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالت کی رو سے سزا دی جانے لگی تو بعض حلقوں کی طرف سے یہ آوازیں اُٹھنے لگیں اور شور ہونے لگا کہ یہ قانون آزادیِ رائے کے خلاف ہے اور اس دعوے کے ثبوت کے لیے علامہ ابن عابدینؒ کے رسالہ کا سہارا لیا جانے لگا کہ اس رسالہ میں بھی گستاخِ رسول کی سزا قتل نہیں، بلکہ توبہ طلبی ہے اور رسائل وجرائد میں اس کی تائید میں مضامین شائع ہونے لگے تو موصوف نے اس کتاب میں علامہ ابن عابدینؒ کے اس رسالہ کے مطالعہ کی روشنی میں واضح کیا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مؤلف نے علامہ ابن عابدینؒ کے اس رسالہ کا اُردو میں ترجمہ کیا اور روانی کے لیے اس کتاب میں تشریحی انداز اپنایا۔ گویا یہ کتاب علامہ ابن عابدین شامیؒ کے رسالہ ’’تنبیہ الولاۃ والحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام‘‘ کا اردو ترجمہ ہے، یعنی اس کتاب میں علامہ ابن عابدینؒ کے رسالہ کو اصل مقصد کے ساتھ وضاحتی اُردو لبادہ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر اس کا تعارف یوں کرایاگیاہے: ’’گستاخِ رسول کی سزا کے بارے میں ائمہ اربعہؒ کے مذاہب کا مدلل بیان، توہینِ انبیائے کرام o، توہینِ اہلِ بیتs اور توہینِ صحابہ s کا حکم، متقدمین ومتاخرین حضراتِ فقہائے احناف کے آراء کا تجزیہ، گستاخِ رسول کی سزا پر لکھی گئی عربی مطبوع ومخطوط کتبِ حنفیہ کا علامہ ابن عابدینؒ کی رائے سے مقارنہ، عصرِ حاضر میں توہینِ رسالت کی سزا کے حوالے سے علامہ ابن عابدینؒ کے مذہب سمجھنے میں بعض تسامحات کا ازالہ، گستاخِ رسول کے بارے میں متجددین کی آراء کا تحقیقی جائزہ، ملکی وبین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں گستاخِ رسول کی سزا اور مذاہبِ عالم کی رو سے گستاخ کا حکم، یہ سب اس کتاب کا مرکزی نقطۂ نظر ہے۔‘‘ رسالہ کے شروع میں محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے ہونہار شاگرد، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق استاذ، مفتی اعظم ساؤتھ افریقہ حضرت مولانا مفتی رضاء اللہ صاحب دامت برکاتہم کی تقریظ اس کتاب کی ثقاہت کی بین دلیل ہے اور کتاب کے شروع میں حضرت مولانا سجاد الحجابی صاحب حفظہٗ اللہ کی تقدیم بہت ہی علمی اور معلوماتی ہے۔ بہرحال یہ کتاب ظاہری وباطنی خوبیوں سے مزین اور مالا مال ہے۔ علمائے کرام اور اہلِ علم حضرات کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ امید ہے کہ اس کی قدر افزائی کی جائے گی۔    ذکرُ إجازاتِ الحدیث فی القدیم والحدیث تالیف : شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  ۔ تقدیم وتحقیق:مولانا اسد اللہ خان پشاوری۔ قیمت: درج نہیں۔ صفحات: ۵۶۵۔ ناشر:مکتبۃ الأسدیۃ العلمیۃ ، شیخ آباد ، پشاور۔  سند‘ اسلامی علمی تاریخی کی ایک ایسی خصوصیت ہے کہ انسانی دنیا کی علمی تاریخ میں اس پیمانے پر اس کی کوئی اور نظیر نہیں۔ عاشقانِ گیسوئے رسالت (l)  نے اقوال وافعال اور تقاریر کے ساتھ ساتھ دہنِ مبارک سے جھڑتے پھولوں جیسے کلمات کی ادائیگی کے موقع کی خاص کیفیات کو محفوظ رکھنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ محدثین کے ہاں احادیثِ مسلسلہ کا مجموعہ اس دعوے کا بین ثبوت ہے، اور محض اس ایک عنوان پر بھی کئی مستقل کتب ترتیب دی گئی ہیں۔ دورِ تدوینِ حدیث وترتیبِ کتبِ حدیث سے ہی ان ائمہ محدثین سے اپنے سلسلۂ سند کو مربوط رکھنے اور علوِ اسناد کی خاطر دور دراز کے اسفار کرکے مشائخ ومحدثین سے اجازات حاصل کرنے اور پھر اپنے شیوخ کی اسانید کو یکجا ترتیب دینے کی علمی روایت بھی تسلسل سے چلی آرہی ہے۔ یہی مجموعہائے اسانید ’’المشیخات‘‘، ’’المعاجم‘‘ ، ’’الأثبات‘‘ ، ’’الفہارس‘‘ اور ’’البرنامج‘‘ کے متنوع عناوین کے تحت ہمارے حدیثی ذخیرے کا ایک اہم جزء ہیں۔ ابتدا میں اسمائے شیوخ کے اعتبار سے مرتب ہونے کی بنا پر ایسے مجموعوں کو ’’المشیخۃ‘‘ یا ’’المعجم‘‘ کا نام دیا گیا، اہلِ اندلس کے ہاں انہیں ’’البرنامج‘‘ کہا جانے لگا، اور آخر کار اہلِ مشرق کے ہاں ’’ثبت‘‘ اور اہلِ مغرب کے ہاں ’’الفہرسۃ’’ کے عنوانات رواج پاگئے۔  ا سی روایت کے تحت ہمارے اس خطۂ پاک وہند میں بھی بیسیوں ’’أثبات‘‘ ترتیب دیئے گئے ہیں، جن کی تعداد ایک سرسری وتقریبی اندازہ کے مطابق ڈھائی سو سے زائد ہے، اور ان میں اولیت کا شرف برصغیر کے نامور سپوت اور ان دیار میں علم حدیث کی اشاعت میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ   (۹۵۸ھ- ۱۰۵۲ھ) کے پیشِ نظر ’’ثبت‘‘ کو حاصل ہے، جو تاحال زاویۂ خمول میں رہا اور اب ہماری جامعہ کے متخصص اور زمانہ طالب علمی سے عمدہ علمی ذوق کے حامل جواں سال فاضل مولانا اسد اللہ خان پشاوری اپنے قابل قدر استاذ اور نامور محقق عالم حضرت مولانا محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہٗ (فاضل دارالعلوم دیوبند وتلمیذ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  ، مشرف شعبہ تخصص فی علوم الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن) کے حکم اور پھر ذاتی ذخیرۂ کتب سے کتاب کا مخطوط مہیا کرنے پر اُنہی کے اِشراف میں کئی سالہ تحقیقی جہدِ مسلسل کے بعد منظر عام پر لائے ہیں۔ ۵۶۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب عمدہ کاغذ، معیاری کتابت اور خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔  محقق نے ابتدا میں تین فصول پر مشتمل طویل مقدمہ لکھا ہے، جس میں علم اسناد واثبات کے مبادیات، صاحبِ ثبت کے حالات وکارہائے علمی اور کتاب کے منہج ومخطوط کے متعلق مبسوط کلام کیا ہے۔ نیز جابجا تعلیقات سے پوری کتاب اَٹی پڑی ہے، جن سے ضخامت میں تو کافی اضافہ ہوگیا، ممکن ہے بعض اختصار پسند طبائع پر گراں گزرے، لیکن ان حواشی میں متن کے اندر درآمدہ احادیث وآثار اور عبارات کی تخریج اور شخصیات کے مختصر احوال سمیت اَن گنت مفید علمی فوائد بکھرے موتیوں کی مانند قاری کی دسترس میں آگئے ہیں۔ نیز فنی پہلو سے بھی ملکی سطح پر بہت بہتر طباعت ہے۔  ہماری نظر میں نوجوان محققین کی ایسی کاوشیں قابلِ ستائش ولائقِ تشجیع ہیں۔ محقق موصوف اس عمدہ کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں، اور امید ہے کہ وہ اس میدان میں اَب پیچھے ہٹنے کے بجائے قدم آگے بڑھاتے جائیں گے۔  مطبوعاتِ ’’القاسم اکیڈمی‘‘ نمبر علامہ عبد الرشید عراقی صاحب۔ صفحات: ۴۸۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ۔ زیرِ تبصرہ کتاب ماہنامہ ’’القاسم‘‘ کی ۲۱ ویں خصوصی اشاعت ہے جو القاسم اکیڈمی سے طبع شدہ تقریباً ۱۶۵ کتابوں کے تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس اکیڈمی نے اپنے مختصر وقت اور مختصر سفر میں کثیر کتابیں شائع کرلی ہیں۔ شہیدِ ناموسِ رسالت حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید قدس سرہٗ نے ’’القاسم اکیڈمی‘‘ سے طبع شدہ ایک کتاب کے تبصرہ کے شروع میں لکھا کہ: ’’مولانا عبد القیوم حقانی ماشاء اللہ! موفق من اللہ ہیں کہ ہم ابھی سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ ان کی ایک اور کتاب وتالیف منظر عام پر آجاتی ہے۔ کتاب لکھنا، مرتب کرنا اور اسے طباعتی مراحل سے گزار کر منظر عام پر لانا کس قدر مشکل ہے؟ یہ وہی جانتا ہے جو اس میدان سے کچھ علاقہ رکھتا ہو۔‘‘ زیرِ تبصرہ کتاب کے مؤلف جناب عبد الرشید عراقی صاحب کے قلم سے تقریباً ۶۸ کتب منظر پر آچکی ہیں۔ مؤلف کی حضرت حقانی صاحب کے ساتھ بڑی عقیدت اور مناسبت ہے، اسی لیے القاسم اکیڈمی سے جو کتاب چھپ کر اُن تک پہنچتی ہے، موصوف اس پر ضرور اپنا تبصرہ اور رائے گرامی لکھ لیتے ہیں، آپ کے قلم سے نکلے ہوئے ’’القاسم اکیڈمی‘‘ کی مطبوعات پر تبصرے اس کتاب میں جمع کیے گئے ہیں۔ کتاب کے ٹائٹل پر اس کتاب کا تعارف یوں کرایا گیاہے: ’’اپنے موضوع کے حوالے سے اردو زبان میں سب سے پہلی اَنوکھی اور اَلبیلی کتاب، القاسم اکیڈمی بالخصوص شیخ الحدیث مولانا عبد القیوم حقانی کے تفسیر، حدیث، سیرت، فقہ، سیاست ونظمِ ریاست، تصوف وسلوک، عقائد، اخلاقیات، سوانحات، ادب، مواعظ وخطبات، ’’ماہنامہ القاسم‘‘ کی خصوصی اشاعتیں اور فرقِ باطلہ کے تعاقب پر مشتمل شہ کار کتابوں کا تعارف وخلاصہ، اندازِ تحریر ادیبانہ، طرزِ تحریر محققانہ اور پیش کش مخلصانہ ۔۔۔۔۔۔۔ معروف سکالر بزرگ عالمِ دین، ۶۸ سے زائد کتابوں کے مصنف، علامہ عبد الرشید عراقی کے رشحاتِ قلم کا علمی، ادبی اور عظیم تاریخی مرقع۔‘‘ گویا یہ ایک کتاب اپنے اندر پوری القاسم اکیڈمی کو لیے ہوئے ہے، جو اپنے اختصار کے باوجود بہت سارے علمی موضوعات پر محیط ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مرتب، مؤلف اور مبصر کی اس محنتِ شاقہ کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو سب کے لیے ذریعۂ نجات بنائے۔ ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین