بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نقد ونظر

ڈیجیٹل تصویر (فنی وشرعی تجزیہ) تالیف: مفتی شعیب عالم صاحب۔ صفحات: ١٢٠۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مکتبۃ السنان، کراچی منظر بندی کا عمل قدیم ہے،ہرزمانے میں زندہ رہاہے ، مگر طور طریقے اسباب وآلات بدلتے رہے ہیں،کبھی حجر ومدر کی مورتی بنا کر ،کبھی پارچہ وقرام پر نقش ونگار کے ذریعہ یہ مقصد حاصل ہوتارہا۔ اسلام کے آغاز پر حجر ومدر کے علاوہ پارچہ قرام پرنقش کا رواج تھا، اگلے عرصہ میں کاغذ پر تصویر بننے لگی اور اس عمل کے لیے کیمرا وجود میں آیا، جس کی بدولت ہاتھ کی محنت کم، مشین کی کارکردگی بڑھ گئی۔اس سے بعض لوگوں کوغلط فہمی ہوئی کہ تصویر سازی انسانی کارکردگی وصنعت سے نکل کر مشینی عمل کا نتیجہ بن چکی ہے، اس لیے اب تصویر کی حرمت کا قصہ تمام ہوچکاہے ۔اس پر کتابیں لکھی گئیں کہ تصویر کی یہ نئی شکل عکس ہے، اس پر اکابر نے خوب رد کیا، جن میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہv اور حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبv کی تحریرات اس موضوع کی زبردست ترجمانی کرتی ہیں۔ الغرض!تصویری مقاصد کے حصول کی نئی شکل کو تصویر کی بجائے عکس کہنے کی غلط فہمی آج کی نئی بات نہیں بلکہ پون صدی پرانی بات ہے،جسے اکابر نے قبول کرنے کے بجائے رد کردیا تھا، مفتی محمد شفیع صاحب v نے نئی شکل کو عکس کہنے والوں کی تردید میں اور اس عکسی وہم کو تصویر قرار دینے کے لیے یہ ارشاد فرمایا :     ''دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ فوٹو گرافی درحقیقت عکاسی ہے ، جس طرح آئینہ، پانی اور دوسری شفاف چیزوں پر صورت کا عکس اتر آتاہے اور اس کو کوئی گناہ نہیں سمجھتا، اسی طرح فوٹو کے شیشہ پر مقابل کا عکس اتر آتا ہے اور فرق صرف یہ ہے کہ آئینہ وغیرہ کاعکس پائیدار نہیں رہتا اور فوٹو کاعکس مسالہ لگاکر قائم کرلیا جاتا ہے ،ورنہ فوٹوگرافر اعضاء کی تخلیق وتکوین نہیں کرتا۔     ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات نے فوٹو کی تصویر کو آئینہ ،پانی وغیرہ کے عکس پر قیاس کیا ہے ،یعنی جس طرح آئینہ کے عکس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ایسے ہی فوٹو کی تصویر بھی ایک عکس ہے ،پھر اس کو کیوں حرام کیا جائے؟لیکن اگر ذرا تامل سے کام لیاجائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ قیام اصولِ قیاس کے قطعاً خلاف ہے ، اور ایک عالم کی شان ا س سے بہت اعلیٰ ہونی چاہیے کہ وہ ایسی ظاہر الفرق چیزوں میں فرق نہ کرے اور ایک دوسرے کا حکم نافذ کردے............. الخ۔'' (جواہر الفقہ، آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام، ج:٧،ص:٤٢٧-٤٣٠،ط : مکتبہ دارالعلوم کراچی) ہمارے بعض اہل علم نے اس عکسی وہم کے رد کے لیے ارشاد فرمائے ہوئے کلمات سے خود ساختہ یہ کلیہ نکالا کہ ڈیجیٹل تصویر شیشے اور اسکرین پر ہونے کے باوجود چونکہ قائم اور پائیدار نہیں ہوتی اس لیے یہ تصویر نہیں ہے، اس کلیہ پر ڈیجیٹل تصویر کے جواز کا اباحی نظریہ قائم کردیاگیا، اور ہر عالم ، مولوی ، طالب علم ، مرد اور عورت کے ہاتھ میں بلاتفریق بیک جنبش قلم کیمرا تھمادیا گیا، کوئی تقریب ہو یا محفل ،مجلس ہو یا ملاقات موبائل کیمراڈیجیٹل تصویرکے جوازی فتوے کی تعمیل میں مصروف نظر آتاہے۔ اس بے ہنگم تصویر سازی کو کون سی ضرورت کہیں گے؟یہ کونسی دینی خدمت اور تبلیغی مشن کے زمرے میں آئے گاجس کے بہانے سے تصویر کی حرمت کو مطلق پامال کیا گیاتھا؟ بہرحال یہ تصویر سازی اور تصویر بینی کا مشغلہ ایک نفسانی دلچسپی سے نکل کر علمی فتنہ بنادیاگیاہے، اور تصویر سازی کی نئی شکل سے متعلق ہمارے معاصر مجوزین نے نصف صدی قبل کے علمائے مصر کو توپیچھے چھوڑ اہی تھا، بلکہ ان کے رد میں لکھی گئی اکابر کی بعض تحریروں سے ان کے تردیدی منشا کے برعکس علماء مصر کی مسترد شدہ فکر کی تائید میں لگے ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ مسجد ومدرسہ کی تقریبات ومحافل بھی اس بے لذت گناہ سے محفوظ نہیں رہیں، ایسے موقع پر اس علمی فتنہ کے سدباب کے لیے متدین اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ میدانِ عمل میں آئیں اور تصویر سازی سے متعلق فکری وعملی کوتاہی کی اصلاح وفہمائش کے لیے اپنا علمی کردار اداکریں۔ الحمدللہ! متعدد اہل علم نے اس موضوع پر کام کیا ہے ، اللہ جزائے خیردے ہمارے دارالافتاء کے مفتی اور نوجوان عالم دین مولانامفتی محمد شعیب عالم حفظہ، اللہ کو جنہوں نے تصویر کی حرمت کے بارے میں ڈیجیٹل اور نان ڈیجیٹل کی تفریق پر قائم ہونے والے اباحی نظریئے کی بھرپور علمی وفقہی تردید فرمائی ہے ، مفتی صاحب موصوف نے موضوع کی فنی اور فقہی دونوں حیثیتوں سے بحث کرتے ہوئے مجوزین پر حجت تمام کردی ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو ڈیجیٹل تصویر کے ترکیبی وعملی مراحل کی باریکیوں میں اُلجھا کر تصویر سازی کے نئے عمل کو تصویر کے پرانے شرعی وفقہی حکم سے خارج نہیں کیاجاسکتا، اس لیے کہ تصویر کے مقاصد اس نئی شکل میں بدرجہ اتم پورہے ہورہے ہیں، اس مقصودی پہلو کو نظر انداز کرکے فنی بحث کے ذریعہ ڈیجیٹل تصویر سے تصویر کی حرمت وممانعت کاحکم ٹالنے کی ناکام کوشش درست نہیں ہے۔ کتاب کے صفحہ: ٣٨ پر فنی بحث کااختتامیہ ان الفاظ میں درج ہے: ''الغرض فنی ترقی کاسلسلہ جاری ہے،نت نئے آلات وجود پاتے رہیں گے، مگرہمیںشکل وصورت اورروح وحقیقت کے درمیان فرق روارکھناہوگا،کیونکہ شکلیں اور صورتیں بدلتی رہتی ہیں، مگرروح اور حقیقت ہر زمانے میںیکساںرہتی ہے۔مقصدکے حصول کے لیے مختلف ذرائع اوروسائل اختیار کیے جاتے ہیں،مگرحکم کاتعین ذریعے اور وسیلے سے نہیں، بلکہ مآل اور نتیجے سے ہوتا ہے۔ ذریعے کو غیرمقصودہونے کی بنا پرنظر اندازکردیناچاہیے، مگر نتیجے سے صرفِ نظر نہیںچاہیے۔اگرفکر اتنی گہری ، فہم اتنامستقیم اورنگاہ اتنی تیزہوکہ وہ صورت سے گزر کر روح اورحقیقت تک اتر سکتی ہو توپھر برائی جس رنگ وروپ میں آجائے، اُسے پہچاننامشکل نہیںرہتا ہے۔'' (ڈیجیٹل تصویر،ڈیجیٹل تیکنیک پر آخری نظر،ص:٣٨) کتاب کے آخر میں ابحاث کا خلاصہ سلیقہ مندی سے سمیٹتے ہوئے حکم کی تلخیص یوں درج ہے: ''ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے مناظر کو تصاویر کہاجائے گا جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:....... ..............۔'' یہ وجوہات نو تک مذکورہیں، اور بعض وجوہ، ذیلی وضمنی اجزاء پر مشتمل ہیں، آخر میں لکھاہے: ''خلاصہ بحث یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائی گئی شبیہ بھی تصویر ہے ، اور اس پر تصویر کے احکام جاری ہوں گے۔'' (ص:١١٦) الغرض مفتی شعیب عالم صاحب کی یہ علمی کاوش ڈیجیٹل تصویر کی فنی وفقہی حیثیت کے تعین میں انتہائی ٹھوس،مدلل ،وقیع اور سنجیدہ تحریر ہے ، جو اہل علم تحقیقاً یا تقلیداً ڈیجیٹل تصویر کو تصویر کی سابقہ شکلوں سے ممتاز ومنفرد قراردینے پر مصر ہیں، اگر وہ بنظر انصاف اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو امید ہے کہ ان کا علم وتدین اس کتاب کے مندرجات سے اتفاق کرے گا، اور انہیں اپنی رائے پر نظر ثانی اور رجوع کا ایسا دینی جذبہ نصیب ہوگا جس طرح ہمارے بعض علمائے ہند' علمائے مصر کی آراء سے متاثر ہوکر تصویر کے جواز کی طرف جاکر واپس اپنے روایتی دائرے میں آگئے تھے ، اور ان کے اس طرزِ عمل نے ان کے علمی ومعاشرتی مقام کو مزید بلند اور روشن کیاتھا۔ یہ کتاب بنیادی طور پر اہل علم کے لیے دعوت فکر وعمل ہے ، مگر لکھے پڑھے ذی استعداد عوام کے لیے بھی فائدے سے خالی نہیں ہے۔ امید ہے عوام وخواص اسے خوب پذیرائی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مستفید ہونے کی توفیق دے اور اسے مفید عام بنائے، آمین۔  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین