بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نقد ونظر

ججججججعنایۃ الباری لطلبۃ البخاری شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری محمد ادریس ہوشیارپوری مدظلہٗ۔ صفحات: ۵۸۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، ملتان علمائے امت کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ ہے۔ اور جتنا اس کتاب کی متنوع انداز سے خدمت کی گئی ہے، وہ کسی اور کتاب کا حصہ نہیں۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی خدمت کے لیے جس قدر اللہ تبارک وتعالیٰ نے علمائے دیوبند کو نوازا اور توفیق دی ہے، میرے خیال میں وہ کسی اور کا مقدر نہیں بنی۔ہرگلے را رنگ وبوئے دیگر است کے مصداق ہر ایک عالم اور محدث کی تحقیق وتوضیح اور تشریح وتفصیل دوسرے سے مختلف ہے۔ صاحب کتاب نے کئی کتب کی غواصی کرکے ان سے احادیث نبویہ کی تفہیم وتسہیل میں معاون جواہر وموتی نکال کر ’’عنایۃ الباری لطلبۃ البخاری‘‘ جیسی دل چسپ ودل نواز مالا تیار کرکے طلابِ حدیث کے لیے تیار کردی ہے۔ مثلاً : مدارِ تحقیق میں ’’کشف الباری‘‘ معیارِ تفقہ میں ’’انعام الباری‘‘، طرزِ تدریس میں ’’الخیر الساری‘‘، اندازِ تسہیل میں ’’نصر الباری‘‘ اور ربط بین الابواب میں ’’دلیل القاری‘‘ کا انتخاب والتزام کیا گیا ہے۔ یوں یہ ایک کتاب قاری کو کئی کتابوں سے مستغنی وبے پروا کردیتی ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری محمد ادریس ہوشیارپوری دامت برکاتہم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی ایک صفات اور خوبیوں سے نواز ہے، جہاں آپ قرآن کریم کے بہترین قاری، مجود اور کامیاب مدرس ہیں، وہاں آپ بہترین مصنف، مدرس اور محدث بھی ہیں۔ خصوصاًاکابر کی تصنیفات کو کئی مرتبہ پڑھنے اور انہیں دل ودماغ میں بٹھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، جس کا اظہار آپ کے درس وبیان اور آپ کی تصنیف وتالیف سے خوب نمایاں ہے، مثلاً لمبی بحث کو چند جملوں میں سمیٹنا، انداز وبیان سہل ہونا، مخاطب کے معیار کو مد نظر رکھنا، طویل، خلط مبحث اور الجھاؤ پیدا کرنے والی گفتگو سے کلی طور پر اجتناب کرنا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی کتاب : ۱:…حشووزوائد سے مبرا اور تدریسی ضرورت کے ضروری مواد سے مزین ہے۔ ۲:…بقدرِ ضرورت رواتِ حدیث کا تعارف اور متن حدیث کی عمدہ تشریح ہے۔۳:…تشریح حدیث کے ضمن میں حدیث پر وارد ہونے والے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔۴:…طویل عبارت کی بجائے مختصر، سہل اور جامع تعبیر کا انداز ہے۔۵:…ربطِ ابواب اور احادیثِ باب کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مطابقت کو خوب بیان کیا گیا ہے۔ ۶:… حسبِ موقع بقدرِ ضرورت عقائدِ اہل سنت والجماعت اور فقہی اختلافی مسائل کو بھی مدلل طور پر واضح کیا گیا ہے۔یہ تمام امور اور خوبیاں اس کتاب کی زینت ہیں۔ صحیح البخاری کی یہ شرح باب بدء الوحی ، کتاب الایمان اور کتاب العلم پر مشتمل ہے۔ امید ہے کہ اس معیار اور انداز کو صحیح بخاری کی تکمیل تک برابر قائم رکھا جائے گا۔ علمائے کرام اور طلبۂ حدیث کے لیے یہ کتاب نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ علمائے کرام اور محدثین عظام کی تقریظات اس کتاب کی عمدگی ، پسندیدگی اور ثقاہت پر کافی شاہد ہیں۔ مروجہ تکافل اور شرعی وقف حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہٗ۔ صفحات: ۲۰۸ ۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر:تعمیر معاشرہ جامعہ خلفائے راشدینؓ، مدنی کالونی، ہاکس بے روڈ، گریکس، ماڑی پور، کراچی زیرنظر کتاب ’’مروجہ تکافل اور شرعی وقف‘‘ حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہم کی تکافل کے موضوع پر وقیع علمی تحریر ہے۔  حضرت مفتی صاحب نے اصولی وفروعی دونوں پہلوؤں سے مروجہ تکافل کی اسلام کی طرف نسبت کو غلط ثابت فرمایاہے اور مروجہ تکافل کے ناجائز ہونے کی اٹھارہ وجوہات نقل فرمائی ہیں ۔ مفتی صاحب موصوف کے اندازِ بیان میں تدریسی وترکیزی انداز غالب رہتا ہے، اس کتاب میں بھی انہوں نے یہی اسلوب اختیار فرمایا ہے، اس تحریر کی اگلی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر مختلف اہل فقہ وفتویٰ کی تقریظات وتائیدات بھی ثبت ہیں۔نیز موضوع کو بآسانی سمجھنے کے لیے اصطلاحات کا تعارف بھی کرادیاگیا ہے اور تکافل کا بنیادی ڈھانچہ بھی پیش فرمایا ہے۔ اسی طرح وقف کی اقسام اور ان کے احکام سے تعرض بھی شروع میں شامل ہے، تاکہ وقف پر مبنی تکافل کی فقہی تکییف میں ’’مغالطات‘‘ سمجھنے میں دشواری نہ ہو، نیز مروجہ تکافل کی بنیادوں کا جائزہ بھی اس تحریرمیں احسن انداز سے شامل ہے۔ مزید برآں تکافل کے جوازی دلائل کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح پاک قطر تکافل شریعہ کمپلائنس ڈپارٹمنٹ کی ایک تحریرکا جواب بھی شامل اشاعت ہے اور بھر پور علمی طاقت سے ثابت کیاگیا ہے کہ مروجہ تکافل کمپنیاں انشورنس کا شرعی نہیں بلکہ غیر شرعی متبادل ہیں۔ انشورنس اور مروجہ تکافل میں جو فروق ذکر کیے جاتے ہیں وہ محض تکلف بارد ہیں،اس بناپر مسلمانوں کو مروجہ تکافل کمپنیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیاگیا ہے اور دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی بھی یہی رائے ہے۔ مروجہ تکافل کا فقہی جائزہ مفتی محمد راشد ڈسکوی صاحب مدظلہٗ۔ صفحات: ۲۲۰ ۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مکتبہ عمرفاروقؓ، شاہ فیصل کالونی ، کراچی زیرتبصرہ کتاب ’’مروجہ تکافل کا فقہی جائزہ‘‘ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے رکن ‘محترم مولانا مفتی محمد راشد ڈسکوی مدظلہم کی تحقیقی کاوش ہے، اس تحریر کے درج ذیل امتیازات ہیں: ۱:…تحریر کا مدار خاطر خواہ تلاش وجستجو پرہے، متعدد اہل فتویٰ اور ماہر ین فن سے مذاکرہ واستفادہ کے ذریعہ تبادلہ خیال کیاگیا اور مختلف اہل علم کی آراء کی روشنی میں اپنا مؤقف ترتیب دیاگیا ہے۔ ۲:…بابِ اول کے شروع میں اپنے تحقیقی نچوڑ کو مناسب انداز میں باحوالہ پیش فرمایا ہے، جس کی اُصولی بحث کا خلاصہ کلام یوں بیان کیاگیاہے: ’’انشورنس عقدِ معاوضہ تھا جس کی وجہ سے ربا قمار اور غرر سب خرابیاں تھیں اور اب بقول مجوزین‘ تکافل میں وقف ماڈل کی وجہ سے عقد معاوضہ نہ رہا، کیونکہ یہاں کمپنی کے مالکان چندوں کے مالک نہیں بنتے، بلکہ فنڈ (شخص قانونی) اس کا مالک بنتا ہے۔‘‘ مجوزین کے اس مدعا کو ’’قابل غور امور‘‘ کے زیر عنوان خلافِ واقعہ ثابت کیاگیا ہے اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ جب شخص قانونی کی فقہی حیثیت ہی مسلم نہیں تو وہ چندہ کا مالک کہاں سے بنا؟ پھر پالیسی ہولڈر وہ ہرحال میں، چندہ دینے کی بنیاد پر فنڈ سے استفادہ کا حق دار بن گیا تو اس کا استحقاق چندہ کے عوض اور بدل کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟! نیز غرر کی نفی کے لیے تکافل کو عقد تبرع قرار دیاگیا ہے، حالانکہ یہ بداہت کے خلاف ہے، کوئی بھی چندہ دینے والا اور لینے والا کبھی تبرع کی نیت کرتا ہے نہ کرسکتا ہے، اگر یہ بات شروع میں واضح کی جائے تو یقینا کوئی بھی پالیسی نہیںخریدے گا۔ نیز فنڈ میں کمی کی صورت میں آپریٹر فنڈ کو قرض حسنہ دے گا جو درحقیقت خسارے کی تلافی کا ذریعہ ہے، یہ بھی عقد معاوضہ ہونے کی دلیل ہے۔ الغرض تکافل کو زبردستی عقد معاوضہ سے خارج کرنے کے لیے مجوزین کی طرف سے جتنے جتن کیے گئے تھے ان سب کو مدلل ومعقول انداز میں رد کیا گیا ہے۔ ۳:…کتاب کے محتویات کی اجمالی فہرست ص:۷ پر یوں درج ہے: ’’باب اول: انشورنس کے متبادل ’’نظام تکافل پر ایک نظر‘‘، بابِ دوم: اسلام کا نظام کفالتِ عامہ، بابِ سوم: کیا تکافل کا نظام اسلامی ہے؟ ، بابِ چہارم: شرعی اور مروجہ تکافل کا تقابلی جائزہ، بابِ پنجم: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ۔‘‘ ۴:…یہ کتاب حسن ترتیب، موضوعات کی تقسیم اور مباحث کی تعوین اور املاء وترقیم کے عصری اسلوب سے بھی ماشاء اللہ آراستہ ہے۔ ۵:…زیادہ حصہ مولانا ڈاکٹر عبد الواحد صاحب مدظلہم کی تحریر پر مشتمل ہے جو مبینہ طور پر ان کی اجازت سے کتاب کا حصہ بناہے، اس کے علاوہ حافظ ذوالفقار علی مدظلہٗ کی ایک تحریر بھی اس مجموعہ میں شامل ہے اور آخر میں ہمارے دار الافتاء کا ایک تفصیلی فتویٰ بھی کتاب کا جز بنایاگیا ہے، ان تحریروں سے جہاں کتاب کے ظاہری حجم میں اضافہ ہوا ہے، اس سے بڑھ کر اس کتاب کا علمی وتحقیقی استناد بھی دوبالا ہوا ہے، ابتدائی تقریظات اور ان اضافات وضمیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مروجہ تکافل کمپنیوں کو انشورنس کی طرح ربا، قمار اور غرر کا مجموعہ قرار دینا محض مؤلف کی تحقیق وتخریج نہیں بلکہ یہ ملک کے محقق روایت بردار اہل فتویٰ کی رائے ہے، انشورنس کی اسلام کاری کے لیے جن لوگوں نے تکافل کے نام سے محنت فرمائی ہے وہ محنت حقیقت سے دور محض مفروضہ وافسانہ ہے۔ ہماری رائے میں سنجیدہ اہل علم نے مروجہ تمافل کمپنیوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایاہے، اس کے بعد کسی صاحب علم کو انشورنس کی اسلام کاری سے اتفاق کی گنجائش نہیں مل سکتی اور کوئی فقہی طالب علم کسی قسم کے علمی مغالطے کا شکار بھی نہیں ہوسکتا۔ ہدیۂ حجاج ابوعامر قاری عبدالرؤف مدنی مدظلہٗ۔ صفحات: ۱۰۲۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مدرسہ ودودیہ، جامع مسجد انگور والی، ڈھکی نعلبندی، قصہ خوانی، پشاور۔ زیرنظر کتابچہ کے مؤلف محترم جناب قاری عبدالرؤف مدنی صاحب پشاور کے معروف خانوادہ کے چشم وچراغ اور قائدِ جمعیت حضرت مولانا مفتی محمود v کے دامادہیں ۔ مشاق ومجود قاری ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کے مؤلف ہیں۔ مؤلف موصوف نے حجاج کرام کو پیش آنے والے مسائل ‘ آسان، مختصر اور عام فہم طریقہ سے سمجھانے کے لیے یہ کتابچہ ترتیب دیا ہے، جس میں سفر حج کے تمام مراحل ترتیب وار بیان کیے گئے ہیں۔ حج کے طویل ، مصروف اور کسی قدر پرمشقت سفر میں یہ مختصر جیبی سائز کا کتابچہ زادِ سفر اور رفیق سفر کی حیثیت رکھتا ہے۔  حجاج کرام کی خدمت وسہولت کے پیش نظر لکھے گئے اس کتابچہ پر اللہ تعالیٰ مؤلف موصوف کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، اور اس کتابچہ کو حجاج کے لیے مفید و معاون بنائے۔آمین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

بسم اللہ عنایۃ الباری لطلبۃ البخاری شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری محمد ادریس ہوشیارپوری مدظلہٗ۔ صفحات: ۵۸۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، ملتان علمائے امت کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ ہے۔ اور جتنا اس کتاب کی متنوع انداز سے خدمت کی گئی ہے، وہ کسی اور کتاب کا حصہ نہیں۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی خدمت کے لیے جس قدر اللہ تبارک وتعالیٰ نے علمائے دیوبند کو نوازا اور توفیق دی ہے، میرے خیال میں وہ کسی اور کا مقدر نہیں بنی۔ہرگلے را رنگ وبوئے دیگر است کے مصداق ہر ایک عالم اور محدث کی تحقیق وتوضیح اور تشریح وتفصیل دوسرے سے مختلف ہے۔ صاحب کتاب نے کئی کتب کی غواصی کرکے ان سے احادیث نبویہ کی تفہیم وتسہیل میں معاون جواہر وموتی نکال کر ’’عنایۃ الباری لطلبۃ البخاری‘‘ جیسی دل چسپ ودل نواز مالا تیار کرکے طلابِ حدیث کے لیے تیار کردی ہے۔ مثلاً : مدارِ تحقیق میں ’’کشف الباری‘‘ معیارِ تفقہ میں ’’انعام الباری‘‘، طرزِ تدریس میں ’’الخیر الساری‘‘، اندازِ تسہیل میں ’’نصر الباری‘‘ اور ربط بین الابواب میں ’’دلیل القاری‘‘ کا انتخاب والتزام کیا گیا ہے۔ یوں یہ ایک کتاب قاری کو کئی کتابوں سے مستغنی وبے پروا کردیتی ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری محمد ادریس ہوشیارپوری دامت برکاتہم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی ایک صفات اور خوبیوں سے نواز ہے، جہاں آپ قرآن کریم کے بہترین قاری، مجود اور کامیاب مدرس ہیں، وہاں آپ بہترین مصنف، مدرس اور محدث بھی ہیں۔ خصوصاًاکابر کی تصنیفات کو کئی مرتبہ پڑھنے اور انہیں دل ودماغ میں بٹھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، جس کا اظہار آپ کے درس وبیان اور آپ کی تصنیف وتالیف سے خوب نمایاں ہے، مثلاً لمبی بحث کو چند جملوں میں سمیٹنا، انداز وبیان سہل ہونا، مخاطب کے معیار کو مد نظر رکھنا، طویل، خلط مبحث اور الجھاؤ پیدا کرنے والی گفتگو سے کلی طور پر اجتناب کرنا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی کتاب : ۱:…حشووزوائد سے مبرا اور تدریسی ضرورت کے ضروری مواد سے مزین ہے۔ ۲:…بقدرِ ضرورت رواتِ حدیث کا تعارف اور متن حدیث کی عمدہ تشریح ہے۔۳:…تشریح حدیث کے ضمن میں حدیث پر وارد ہونے والے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔۴:…طویل عبارت کی بجائے مختصر، سہل اور جامع تعبیر کا انداز ہے۔۵:…ربطِ ابواب اور احادیثِ باب کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مطابقت کو خوب بیان کیا گیا ہے۔ ۶:… حسبِ موقع بقدرِ ضرورت عقائدِ اہل سنت والجماعت اور فقہی اختلافی مسائل کو بھی مدلل طور پر واضح کیا گیا ہے۔یہ تمام امور اور خوبیاں اس کتاب کی زینت ہیں۔ صحیح البخاری کی یہ شرح باب بدء الوحی ، کتاب الایمان اور کتاب العلم پر مشتمل ہے۔ امید ہے کہ اس معیار اور انداز کو صحیح بخاری کی تکمیل تک برابر قائم رکھا جائے گا۔ علمائے کرام اور طلبۂ حدیث کے لیے یہ کتاب نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ علمائے کرام اور محدثین عظام کی تقریظات اس کتاب کی عمدگی ، پسندیدگی اور ثقاہت پر کافی شاہد ہیں۔ مروجہ تکافل اور شرعی وقف حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہٗ۔ صفحات: ۲۰۸ ۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر:تعمیر معاشرہ جامعہ خلفائے راشدینؓ، مدنی کالونی، ہاکس بے روڈ، گریکس، ماڑی پور، کراچی زیرنظر کتاب ’’مروجہ تکافل اور شرعی وقف‘‘ حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہم کی تکافل کے موضوع پر وقیع علمی تحریر ہے۔  حضرت مفتی صاحب نے اصولی وفروعی دونوں پہلوؤں سے مروجہ تکافل کی اسلام کی طرف نسبت کو غلط ثابت فرمایاہے اور مروجہ تکافل کے ناجائز ہونے کی اٹھارہ وجوہات نقل فرمائی ہیں ۔ مفتی صاحب موصوف کے اندازِ بیان میں تدریسی وترکیزی انداز غالب رہتا ہے، اس کتاب میں بھی انہوں نے یہی اسلوب اختیار فرمایا ہے، اس تحریر کی اگلی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر مختلف اہل فقہ وفتویٰ کی تقریظات وتائیدات بھی ثبت ہیں۔نیز موضوع کو بآسانی سمجھنے کے لیے اصطلاحات کا تعارف بھی کرادیاگیا ہے اور تکافل کا بنیادی ڈھانچہ بھی پیش فرمایا ہے۔ اسی طرح وقف کی اقسام اور ان کے احکام سے تعرض بھی شروع میں شامل ہے، تاکہ وقف پر مبنی تکافل کی فقہی تکییف میں ’’مغالطات‘‘ سمجھنے میں دشواری نہ ہو، نیز مروجہ تکافل کی بنیادوں کا جائزہ بھی اس تحریرمیں احسن انداز سے شامل ہے۔ مزید برآں تکافل کے جوازی دلائل کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح پاک قطر تکافل شریعہ کمپلائنس ڈپارٹمنٹ کی ایک تحریرکا جواب بھی شامل اشاعت ہے اور بھر پور علمی طاقت سے ثابت کیاگیا ہے کہ مروجہ تکافل کمپنیاں انشورنس کا شرعی نہیں بلکہ غیر شرعی متبادل ہیں۔ انشورنس اور مروجہ تکافل میں جو فروق ذکر کیے جاتے ہیں وہ محض تکلف بارد ہیں،اس بناپر مسلمانوں کو مروجہ تکافل کمپنیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیاگیا ہے اور دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی بھی یہی رائے ہے۔ مروجہ تکافل کا فقہی جائزہ مفتی محمد راشد ڈسکوی صاحب مدظلہٗ۔ صفحات: ۲۲۰ ۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مکتبہ عمرفاروقؓ، شاہ فیصل کالونی ، کراچی زیرتبصرہ کتاب ’’مروجہ تکافل کا فقہی جائزہ‘‘ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے رکن ‘محترم مولانا مفتی محمد راشد ڈسکوی مدظلہم کی تحقیقی کاوش ہے، اس تحریر کے درج ذیل امتیازات ہیں: ۱:…تحریر کا مدار خاطر خواہ تلاش وجستجو پرہے، متعدد اہل فتویٰ اور ماہر ین فن سے مذاکرہ واستفادہ کے ذریعہ تبادلہ خیال کیاگیا اور مختلف اہل علم کی آراء کی روشنی میں اپنا مؤقف ترتیب دیاگیا ہے۔ ۲:…بابِ اول کے شروع میں اپنے تحقیقی نچوڑ کو مناسب انداز میں باحوالہ پیش فرمایا ہے، جس کی اُصولی بحث کا خلاصہ کلام یوں بیان کیاگیاہے: ’’انشورنس عقدِ معاوضہ تھا جس کی وجہ سے ربا قمار اور غرر سب خرابیاں تھیں اور اب بقول مجوزین‘ تکافل میں وقف ماڈل کی وجہ سے عقد معاوضہ نہ رہا، کیونکہ یہاں کمپنی کے مالکان چندوں کے مالک نہیں بنتے، بلکہ فنڈ (شخص قانونی) اس کا مالک بنتا ہے۔‘‘ مجوزین کے اس مدعا کو ’’قابل غور امور‘‘ کے زیر عنوان خلافِ واقعہ ثابت کیاگیا ہے اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ جب شخص قانونی کی فقہی حیثیت ہی مسلم نہیں تو وہ چندہ کا مالک کہاں سے بنا؟ پھر پالیسی ہولڈر وہ ہرحال میں، چندہ دینے کی بنیاد پر فنڈ سے استفادہ کا حق دار بن گیا تو اس کا استحقاق چندہ کے عوض اور بدل کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟! نیز غرر کی نفی کے لیے تکافل کو عقد تبرع قرار دیاگیا ہے، حالانکہ یہ بداہت کے خلاف ہے، کوئی بھی چندہ دینے والا اور لینے والا کبھی تبرع کی نیت کرتا ہے نہ کرسکتا ہے، اگر یہ بات شروع میں واضح کی جائے تو یقینا کوئی بھی پالیسی نہیںخریدے گا۔ نیز فنڈ میں کمی کی صورت میں آپریٹر فنڈ کو قرض حسنہ دے گا جو درحقیقت خسارے کی تلافی کا ذریعہ ہے، یہ بھی عقد معاوضہ ہونے کی دلیل ہے۔ الغرض تکافل کو زبردستی عقد معاوضہ سے خارج کرنے کے لیے مجوزین کی طرف سے جتنے جتن کیے گئے تھے ان سب کو مدلل ومعقول انداز میں رد کیا گیا ہے۔ ۳:…کتاب کے محتویات کی اجمالی فہرست ص:۷ پر یوں درج ہے: ’’باب اول: انشورنس کے متبادل ’’نظام تکافل پر ایک نظر‘‘، بابِ دوم: اسلام کا نظام کفالتِ عامہ، بابِ سوم: کیا تکافل کا نظام اسلامی ہے؟ ، بابِ چہارم: شرعی اور مروجہ تکافل کا تقابلی جائزہ، بابِ پنجم: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ۔‘‘ ۴:…یہ کتاب حسن ترتیب، موضوعات کی تقسیم اور مباحث کی تعوین اور املاء وترقیم کے عصری اسلوب سے بھی ماشاء اللہ آراستہ ہے۔ ۵:…زیادہ حصہ مولانا ڈاکٹر عبد الواحد صاحب مدظلہم کی تحریر پر مشتمل ہے جو مبینہ طور پر ان کی اجازت سے کتاب کا حصہ بناہے، اس کے علاوہ حافظ ذوالفقار علی مدظلہٗ کی ایک تحریر بھی اس مجموعہ میں شامل ہے اور آخر میں ہمارے دار الافتاء کا ایک تفصیلی فتویٰ بھی کتاب کا جز بنایاگیا ہے، ان تحریروں سے جہاں کتاب کے ظاہری حجم میں اضافہ ہوا ہے، اس سے بڑھ کر اس کتاب کا علمی وتحقیقی استناد بھی دوبالا ہوا ہے، ابتدائی تقریظات اور ان اضافات وضمیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مروجہ تکافل کمپنیوں کو انشورنس کی طرح ربا، قمار اور غرر کا مجموعہ قرار دینا محض مؤلف کی تحقیق وتخریج نہیں بلکہ یہ ملک کے محقق روایت بردار اہل فتویٰ کی رائے ہے، انشورنس کی اسلام کاری کے لیے جن لوگوں نے تکافل کے نام سے محنت فرمائی ہے وہ محنت حقیقت سے دور محض مفروضہ وافسانہ ہے۔ ہماری رائے میں سنجیدہ اہل علم نے مروجہ تمافل کمپنیوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایاہے، اس کے بعد کسی صاحب علم کو انشورنس کی اسلام کاری سے اتفاق کی گنجائش نہیں مل سکتی اور کوئی فقہی طالب علم کسی قسم کے علمی مغالطے کا شکار بھی نہیں ہوسکتا۔ ہدیۂ حجاج ابوعامر قاری عبدالرؤف مدنی مدظلہٗ۔ صفحات: ۱۰۲۔ قیمت: درج نہیں۔ ناشر: مدرسہ ودودیہ، جامع مسجد انگور والی، ڈھکی نعلبندی، قصہ خوانی، پشاور۔ زیرنظر کتابچہ کے مؤلف محترم جناب قاری عبدالرؤف مدنی صاحب پشاور کے معروف خانوادہ کے چشم وچراغ اور قائدِ جمعیت حضرت مولانا مفتی محمود v کے دامادہیں ۔ مشاق ومجود قاری ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کے مؤلف ہیں۔ مؤلف موصوف نے حجاج کرام کو پیش آنے والے مسائل ‘ آسان، مختصر اور عام فہم طریقہ سے سمجھانے کے لیے یہ کتابچہ ترتیب دیا ہے، جس میں سفر حج کے تمام مراحل ترتیب وار بیان کیے گئے ہیں۔ حج کے طویل ، مصروف اور کسی قدر پرمشقت سفر میں یہ مختصر جیبی سائز کا کتابچہ زادِ سفر اور رفیق سفر کی حیثیت رکھتا ہے۔  حجاج کرام کی خدمت وسہولت کے پیش نظر لکھے گئے اس کتابچہ پر اللہ تعالیٰ مؤلف موصوف کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، اور اس کتابچہ کو حجاج کے لیے مفید و معاون بنائے۔آمین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین