بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نظریۂ پاکستان اور آئین پاکستان سے بغاوت کیوں؟!

نظریۂ پاکستان اور آئین پاکستان سے بغاوت کیوں؟!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

گزشتہ چند عشروں سے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے اربابِ اقتدار اور عدل وانصاف کی کرسی پر فائز بعض جج صاحبان کے بیانات اور ریمارکس اس طرح کے رپورٹ کیے گئے جن سے یوں معلوم ومحسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ حضرات ملک پاکستان کے باشندے اور نمائندے نہیں، بلکہ کسی سیکولر ملک کے ترجمان وراہنما ہیں، جو اہالیانِ پاکستان سے مخاطب ہیں،قارئین بینات بھی ان بیانات سے مستفید ہوں: ۱:۔۔۔۔۔ سپریم کورٹ کے جسٹس جناب سرمد جلال عثمانی صاحب نے سود کے خاتمہ کے متعلق دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے وقت ریمارکس دیتے ہوئے فرمایاکہ: ’’جس نے سود نہیں لینا، وہ نہ لے اور جو سود لیتا ہے، اس سے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی آخرت میں پوچھے گا، سپریم کورٹ سے باہر مدرسہ کھول کر لوگوں کو سود کی حرمت کا درس نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ ۲:۔۔۔۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر عزت مآب جناب صدر ممنون حسین صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہاؤس بلڈنگ فنانس سے جولوگ قرضہ لیتے اور اس پر سود دیتے ہیں، میں علماء سے گزارش کرتا ہوں کہ اس پر غور کریں، چونکہ مجبوری ہے اور کوئی اور راستہ نہیں ہے ان کے لیے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے سود کی ادائیگی کو جائز قرار دیا جائے، اس پر بحث کریں۔‘‘ ۳:۔۔۔۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب امریکی دورے سے واپسی پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان ہے۔‘‘ ۴:۔۔۔۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم صاحب نے مسلم لیگ (ن) منارٹی ونگ کے تحت ہندوؤں کے مذہبی تہواردیوالی میں شریک ہوکر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے جہاں یہ فرمایا کہ: ’’میں سب کا وزیر اعظم ہوں، ظالم مسلمان ہے تو مظلوم ہندو کا ساتھ دوں گا۔‘‘ وہاں یہ بھی فرمایا کہ: ’’میںاپنے ہندو دوستوں سے گلہ کرتا تھا کہ مجھے بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ہولی میں بھی بلائیں اور مجھ پر رنگ پھینکیں۔‘‘ قطع نظر اس کے کہ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ (a) کی اس بارہ میں کیا ہدایات، تعلیمات اور تصریحات ہیں، جس آئین کا حلف اٹھاتے ہوئے یہ حضرات ان عہدوں پر متمکن ہوئے،  یہاں صرف اس آئین کے چند حوالہ جات نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے: آرٹیکل:۱ کی دفعہ نمبر:۱ میں لکھا ہے کہ: ’’مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی، جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا، جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا۔‘‘ اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ: ’’آئین میں پاکستان کو جمہوری ریاست قرار دیا گیا ہے۔ جمہوری ریاست میں کسی مخصوص جماعت، فرقے یا فرد کی بجائے اقتدار بحیثیت مجموعی عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ جمہوریت میں خواہ وہ معاشرتی ہو یا اقتصادی انسانی اداروں کا انتظام عوام خود اپنی بہتری کے لیے چلاتے ہیں۔پاکستان کو نہ صرف آئین میں جمہوری ریاست قرار دیا گیا ہے، بلکہ اسے اسلامی جمہوریہ کا نام بھی دیا گیا ہے، اس اعتبار سے ریاست کا کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بنایا جاسکتا۔ پاکستان چونکہ اسلامی جمہوری مملکت ہے، اس لیے اقتدار اعلیٰ خدائے بزرگ وبرتر کو حاصل ہے، اس اقتدار اعلیٰ کے تحت پاکستان کے عوام کو حکمرانی کا اختیار ایک مقدس امانت کے طور پر عطا کیا گیا ہے۔ سورۃ النساء آیت: ۵۸ میں اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَہْلِہَا۔‘‘ ترجمہ:’’بے شک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو پہنچادیا کرو۔‘‘آئین کے دیباچے میں بھی واضح الفاظ میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ حکمرانی کے اختیار کی یہ مقدس امانت عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لائیں گے۔ اس اعتبار سے یہ ذمہ داری عوام کو سونپ دی گئی ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں وہ ایسے نمائندوں کا انتخاب تو نہیں کررہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی اقتدار کی امانت میں خیانت ہو۔ دوسرا فرض ان نمائندوں پر بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں اس امانت کی حفاظت کریں جو ان کے سپرد کی گئی ہے۔اس کا مطمح نظر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان کے مطابق ہے کہ پاکستان سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی۔‘‘                             (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان، ۱۹۷۳ئ،ص:۲۲، ط:منصور بک ہاؤس لاہور) اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل:۲ میں لکھا ہے: ’’ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔‘‘ اور اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ:’’ اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کو مملکت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس کے لیے کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تمام قوانین اسلام کے سانچے میں ڈھالے جائیں گے جو اسلامی قوانین سے متصادم ہوں گے، تاکہ صحیح معنوں میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جاسکے۔ شریعت کورٹ‘ اسلامی نظریاتی کونسل کو خصوصی طور پر یہ کام سونپا گیاہے کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے اور اگر کوئی قانون ان کی نظر میں اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کی تنسیخ کے لیے سفارش کی جائے، تاکہ پارلیمنٹ اس کی تنسیخ کے لیے قانون وضع کرے۔‘‘                             (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان،۱۹۷۳ئ، ص:۲۲-۲۳، ط:منصور بک ہاؤس لاہور) آرٹیکل :۳۱ ، دفعہ نمبر:۱ ہے کہ :’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔‘‘      (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان،۱۹۷۳ء ، ص:۶۱، ط:منصور بک ہاؤس لاہور) اور اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ:’’اس تحتی دفعہ میں حکومت پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق بسر کرنے کے قابل بنائے اور انہیں ایسی سہولتیں میسر کرے، جن کی مدد سے وہ قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھال سکیں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ تمام نافذ العمل قوانین جو قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہیں، انہیں قرآن وسنت کے مطابق بناکر ان پر عمل درآمد بھی کرایا جائے، یہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کی ہر ممکنہ سعی کریں، تاکہ ایک مثالی معاشرہ وجود میں آسکے۔‘‘  (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان،۱۹۷۳ء ، ص:۶۱، ط:منصور بک ہاؤس لاہور) آرٹیکل :۳۸ کی دفعہ ’’و‘‘ ہے کہ:’’ ربا کو جتنا جلد ممکن ہو (حکومت)ختم کرے گی۔‘‘ (ایضاً،ص:۷۲) آئین پاکستان کے ان آرٹیکل اور دفعات کو بھی دیکھتے جائیے اور ان بیانات کو بھی پڑھتے جائیے تو ہر باشعور شخص یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوگا کہ لگتا ہے کہ شاید نظریۂ پاکستان سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نظریۂ پاکستان اور آئین پاکستان کو طاقِ نسیاں کی زینت بنایا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ باتیں صرف ان خواتین وحضرات کی زبان پر ہوتی تھیں جن کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کے نام سے چڑ تھی، جو مغربی تہذیب کے دل دادہ تھے یا وہ نام نہاد اسکالر تھے جو مغربی تعلیم گاہوں کے تعلیم یافتہ اور مستشرقین اساتذہ کے تربیت یافتہ تھے اور آج حال یہ ہے کہ یہ بیانات ان معزز اور مقتدر شخصیات کی زبانوں سے ادا ہورہے ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک پاکستان کی زمام اقتدار ہے، کیا کہا جائے کہ دین اسلام کی تعلیمات کی کمی کی بنا پر یہ باتیں کہی جارہی ہیں یا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کے لیے دھیرے دھیرے اس جانب سفر کیا جارہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے زمانہ میں بھی ایسے نام نہاد اسکالروں کی وجہ سے اسلامی تعلیمات واحکام کا حلیہ بگاڑا گیا اور عائلی قوانین کے نام سے خلافِ اسلام باتیں مسلمانوں پر مسلط کی گئیں، جن کا خمیازہ آج تک پاکستانی مسلمان بھگت رہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ سود کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صریح طور پر نہ صرف یہ کہ حرام قرار دیا ہے، بلکہ سودی معاملہ برقرار رکھنے کو اللہ تعالیٰ اور رسول a سے جنگ کے مترادف بھی قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔‘‘                          (البقرۃ:۲۷۸-۲۷۹) ’’اے ایمان والو! ڈرواللہ سے اور چھوڑدو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا، پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے۔‘‘ حضور اکرم a نے سود کی حرمت کے متعلق فرمایا: ۱:۔۔۔’’ عن جابر q قال: لعن رسول اللّٰہ a آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ’’ہم سوائ۔‘‘ رواہ مسلم۔‘‘                            (مشکوٰۃ،ص:۲۴۴، ط:قدیمی) ترجمہ:’’ حضرت جابر q سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ a نے ربا کھانے والے، کھلانے والے، (اس کا حساب کتاب) لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی ہے، اور فرمایا کہ: یہ سب (سود کے گناہ میں)برابر ہیں۔‘‘ ۲:۔۔۔۔۔’’ وعن عبد اللّٰہ بن حنظلۃ غسیل الملائکۃ q  قال:قال رسول اللّٰہ a: درہم ربا یأکلہ الرجل وہو یعلم أشد من ستۃ وثلاثین زنیۃ۔‘‘ رواہ أحمد والدراقطنی، وروی البیہقی فی شعب الإیمان عن ابن عباسؓ وزاد:وقال:من نبت لحمہ من السحت فالنار أولی بہ۔‘‘                                   (مشکوٰۃ،ص:۲۴۵، ط:قدیمی) ترجمہ:’’ حضرت حذیفہ q- جو غسیل الملائکہ ہیں - سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ a نے فرمایا: سود کا ایک درہم جسے آدمی جانتے بوجھتے کھاتا ہے چھتیس(۳۶) مرتبہ زنا کرنے کے برابر ہے۔۔۔۔۔ اور حضرت ابن عباسr سے روایت ہے، انہوں نے یہ جملہ زائد کیا ہے کہ: ’’جس کا گوشت حرام سے پیدا ہوا ہو تو وہ آگ کے زیادہ لائق ہے۔‘‘ ۳:۔۔۔۔۔’’ وعن أبی ہریرۃq قال:قال رسول اللّٰہ a:الربا سبعون جزئً  أیسرہا أن الرجل أمہ۔‘‘                                            (مشکوٰۃ،ص:۲۴۶، ط:قدیمی) ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہq فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ a نے فرمایا: سود کے ستر حصے ہیں، ان میں سب سے کم یہ ہے کہ جیسے آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘ ۴:۔۔۔۔۔’’ وعن ابن مسعودq قال:قال رسول اللّٰہ a: إن الربا وإن کثر فإن عاقبتہٗ تصیر إلٰی قل، رواہما ابن ماجۃ والبیہقی فی شعب الإیمان۔ وروی أحمد الأخیر۔‘‘                                                  (مشکوٰۃ،ص:۲۴۶، ط:قدیمی) ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن مسعودq فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ a نے فرمایا: ربا اگرچہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائے، اس کا انجام کمی (کی صورت میں ہی نکلتا)ہے۔‘‘ ۵:۔۔۔۔۔’’ وعن أبی ہریرۃ q قال:قال رسول اللّٰہ a :أتیت لیلۃ أسری بی علی قوم بطونہم کالبیوت فیہا الحیات تری من خارج بطونہم فقلت:من ہؤلاء یا جبریل؟ قال: ہؤلاء أکلۃ الربا۔ رواہ أحمد وابن ماجۃ۔‘‘                    (مشکوٰۃ،ص:۲۴۶، ط:قدیمی) ترجمہ:’’  حضرت ابوہریرہq فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ a نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند تھے جن میں سانپ تھے، جو پیٹ کے باہر سے ہی نظر آرہے تھے، میں نے کہا: اے جبریل!یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ: یہ سود کھانے والے ہیں۔‘‘ ۶:۔۔۔۔۔’’ وعن علی q  أنہ سمع رسول اللّٰہ a لعن آکل الربا وموکلہ وکاتبہ ومانع الصدقۃ وکان ینہی عن النوح۔ رواہ النسائی۔‘‘    (مشکوٰۃ،ص:۲۴۶، ط:قدیمی) ترجمہ:’’  حضرت علیq فرماتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ a سے سنا کہ آپaسود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور صدقہ روکنے والے پر لعنت فرمارہے تھے اور نوحہ سے منع فرمارہے تھے ۔‘‘ یہ دو آیات اور چند احادیث مبارکہ وہ ہیں جو نوکِ قلم پر آگئیں ہیں جن میں سود کھانے کی اتنا سخت وعیدات ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے کون مسلمان ایسا ہوگا جو پھر بھی سودی معاملہ کرے گا یا سود کی حلت کے متعلق لب کشائی کی جسارت کرے گا۔ جناب صدر! اجتہاد اور بحث کی گنجائش اور ضرورت تو ان معاملات میں ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ a کی طرف سے کوئی نص یا ہدایت موجود نہ ہو، جہاں اللہ تعالیٰ اور رسول a کے واضح ارشادات اور احکام موجود ہوں، وہاں کسی بحث وتمحیص اور غور وخوض کی چنداں ضرورت نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب وزیراعظم صاحب! یہ خطۂ ارضی اس لیے حاصل کیا گیا تھااور مسلم قوم سے وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا اور اسلامی نظام کو اپنایا جائے گا اور یہ کہا گیا تھا کہ ان شاء اللہ! پاکستان میں اسلامی نظام کی برکات اور انوارات دیکھ کر نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کا ہر ملک اس سے مستفیض ہوگا، بلکہ غیر مسلم ممالک کو اسلام کے قریب لانے اور ان کو مسلمان بنانے کے لیے یہ معاشرہ محرک ثابت ہوگا، اس لیے بجاطور پر کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے، پاکستان محض اسلام کی خاطر وجود میں آیا اور عوام کو یہ نعرہ دیا گیا: ’’پاکستان کا مطلب کیا: لاإلٰہ إلا اللّٰہ۔‘‘ وزیر اعظم صاحب! جب پاکستان کی اساس اور بنیاد ہی اسلام پر ہے تو اسلام میں کسی ازم کی گنجائش نہیں، آج ہمارے ملک میں جو مشکلات در آئی ہیں، وہ ہرگز ہرگز اسلام کی پیدا کردہ نہیں، بلکہ حکمرانوں نے اسلامی نظام -جس کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا- کو پس پشت ڈال کر اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو اپنانے کی بناپریہ مشکلات پیدا کی ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دور بدل گیا ہے اور جدید دور کے جدید تقاضے ہیں، اس لیے ہمیں نئے نظام اور نئے ازم کی ضرورت ہے تو ایسا آدمی بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہے، اس لیے کہ جدیدیت مادی چیزوں میں ہوتی ہے، معنوی چیزوں میں جدیدیت نہیں ہوتی، دنیوی ضروریات مثلاً: سواری، مکان، جنگی آلات وغیرہ ان میں تو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق جدت لائی جائے گی، لیکن اسلام، مذہب، اسلامی فکر، اسلامی احکام، اسلامی اقدار، حیا کرنا، سچ بولنا، وعدہ خلافی نہ کرنااس طرح کے تمام اسلامی احکام ان میں کسی دور میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، جو حکم اسلام کا چودہ سو سال پہلے تھا آج بھی وہی ہوگا، جو اخلاقیات صدیوں سے چلی آرہی تھیں آج بھی انہیں اخلاقیات میں ترقی اور کامیابی ہوگی، اس لیے کہ یہ نظام اللہ تبارک وتعالیٰ -جو علیم وخبیر ہے- کا بنایا ہوا ہے، جو قیامت تک آنے والی نسلوں، ان کے امراض وعوارض، ان کی حاجات وضروریات کو جانتا ہے، اس کا علم گزشتہ اور آئندہ سب پر محیط ہے، اس کی قدرت کامل ومکمل ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے یہ کہہ کر کہ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ہولی میں بھی بلائیں اور مجھ پر رنگ پھینکیں‘‘ نہ اسلام کی پرواہ کی ہے ، نہ ملک اور ملت کے نظریہ کی۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے رواداری کی بنا پر یہ باتیں ارشاد فرمائی ہوں، لیکن رواداری کی بھی کچھ حدود اور قیود ہوتی ہیں۔ حضورa نے ہمیشہ غیر قوموں کے افعال واعمال کو اپنانے کی ممانعت فرمائی ہے، چاہے ان کا تعلق عام عادات سے کیوں نہ ہو، چہ جائیکہ غیر مسلم اقوام کی مذہبی رسومات میں شمولیت اختیار کی جائے اور ان کو اپنانے کی تمنائیں کی جائیں۔ جناب وزیراعظم صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ ہندوؤں میں جاکر اسلامی اقدار اور اخلاقیات کو اجاگر کرتے، ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے، جس سے ان کو اسلام کے بارہ میں اچھا تأثر ملتا اور ہوسکتا ہے کہ بعض شرکاء کو اسلام کو اپنانے اور مسلمان ہونے کی توفیق ہوجاتی۔ بہرحال اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین اور کامل ومکمل دین ہے جو انسانیت کی فلاح وبہبود، کامیابی وکامرانی کے لیے نازل کیا گیا، اسلام ہی مرد وعورت، بوڑھے وجوان، امیروغریب، حاکم ومحکوم، مسلم وکافر ہر ایک کے حقوق وآداب کا محافظ ونگران ہے،اور دین اسلام میں ہر ایک کی مصلحت ورعایت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اب دین بحیثیت دین صرف دین اسلام ہی ہے، اس کے علاوہ تمام ادیان ومذاہب منسوخ ومتروک قرار دیئے گئے، اب کوئی دانشور یا منصب دار دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا یا اسے اپنائے گا تو بارگاہِ رب العزت میں وہ ہرگز ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ ’’عقل مند‘‘ اور ’’صاحب ارجمند‘‘ آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خسارے اور نقصان کا سزاوار ہوگا۔ نیز جن قوموں نے اسلام سے بے اعتنائی اور روگردانی برت کر ارتقاء کی منزلیں طے کیں وہ آج تک راحت وآرام کے تمام اسباب جمع کرلینے کے باوجود حقیقی آرام وسکون سے کوسوں دور اور بے سکونی وبے آرامی کے سبب ’’عذاب الیم ‘‘ میں گرفتار نظرآتی ہیں۔ اہل اسلام کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہیے تھا اور اس نظام کو اپنانا چاہیے تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسلام کی دولت سے نوازا اور انہیں صاف ستھرا اور اعلیٰ اخلاق وکردار سے مرصع دین ومذہب عطا کیا، لیکن طویل غلامی نے مسلمانوں کو اس نعمت عظمیٰ کی قدردانی سے محروم کردیا، جس کی بنا پر وہ قرآن وسنت کے احکام کی بجاآوری کے بجائے غیر مسلم اقوام کے اوضاع واطوار اور طرزِ زندگی کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، یاحسرتاہ۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین