بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نظامِ عالم اور عدل و انصاف 

نظامِ عالم اور عدل و انصاف 

قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب

 


صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سر فہر ست امام عادل کا نام آتا ہے:
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’سبعۃ یظلھم اللّٰہ في ظلہٖ یوم لا ظل إلا ظلہ، إمام عادل ، وشاب نشأ في عبادۃ اللّٰہ ، ورجل معلق قلبہٗ في المساجد، ورجلان تحابا في اللّٰہ اجتمعا علیہ وتفرقاعلیہ، ورجل دعتہ امرأۃ ذات منصب وجمال فقال: إني أخاف اللّٰہ، ورجل تصد ق بصد قۃٍ فأخفاھا حتی لا تعلم شمالہٗ ما تنفق یمینہٗ، ورجل ذکر اللّٰہ خالیاً ففاضت عیناہ۔‘‘  (صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجدینتظرالصلوۃوفضل المساجد، ج:۱، ص:۹۱،ط: قدیمی)
’’حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل بادشاہ ۔ وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے۔ ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا: مجھے خدا کا خوف ہے۔ وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں۔‘‘
 عدل درحقیقت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَأُولُوْا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔‘‘                                                    (آلِ عمران:۱۸)
’’ اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوااور فر شتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے۔ کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے، زبردست ہے حکمت والا ۔‘‘
حق تعالیٰ شانہٗ خود عادل ہے، اس کا نازل کر دہ قانون ( شریعتِ محمدیہ) سراپا عدل ہے، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ قرابت کے مو قع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے:
’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا أَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوْا الْھَوٰی أَنْ تَعْدِلُوْا۔‘‘      (النساء:۱۳۵)
’’ اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کی طرف کی، اگر چہ نقصان ہو تمہارا، یا ماں باپ کا، یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں۔‘‘
اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز وناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل وانصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں:
’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔‘‘            (المائدۃ:۸)
’’ اے ایمان والو! کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کر تے ہو ۔‘‘

نظامِ عالم اور عدل و انصاف 

دراصل کا ئنات کا نظام ہی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے :

شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت

 کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہ کوسِ ’’ لِمَنِ الْمُلْکُ‘‘ بجاتے تھے اور آئین وقانون ان کے اشاروں پر رقص کر تا تھا، لیکن دورِ جد ید نے ملو کیت کو جمہور یت میں بدل ڈالا ،آئین ودستور وضع کیے گئے، بادشاہت کی جگہ کہیں صدارتی نظام رائج ہوا اور کہیں وزراتی نظام نا فذ کیا گیا، گویا دورِ قدیم کے شہنشاہ کا منصب دورِ جدید کے صدرِ مملکت یا وز یر اعظم کو تفویض ہوا۔ فرق یہ پڑا کہ دورِ قدیم میں بادشاہ اوپر سے آتے تھے اور دورِ جدید میں نیچے سے جاتے ہیں، لیکن عدل و انصاف محض ملوکیت یا آج کی جمہوریت کا نام نہیں، بلکہ اس کا مدار خدا ترس اور عدل پرور اربابِ اقتدار پر ہے۔ حاکم اعلیٰ عدل و انصاف کے جوہر سے مالامال ہو تو ملوکیت بھی رحمت ہے، یہ نہ ہو تو جمہوریت بھی چنگیزی کا روپ دھار لیتی ہے، جس طرح مملکت کی آبادی و شادابی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، اسی طرح اشخاص کی بقاء وفلاح عدل وانصاف کی رہینِ منت ہے۔

قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب

کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کا جائزہ لیجئے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی، قوم کا فسق وفجور اور حکمرانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر وظالم حاکم مسلَّط کردیئے جاتے ہیں۔ قرآن کر یم میں کسی قوم کی تباہی وبر بادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے :
’’وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا۔‘‘                                                   (بنی اسرائیل:۱۶)
’’ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر نا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچا تے ہیں، تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے ،پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں۔‘‘
قوم کا فسق وفجور اور ملوک وسلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی وبر بادی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ظلم واستبداد کی چکی میں پہلے سر کش قوم پستی ہے، بالآ خر یہی چکی ظالم وجا بر کو بھی پیس ڈالتی ہے۔ اہلِ دانش کا قول ہے کہ:’’ کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے، مگر ظلم واستبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔‘‘
 درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف واقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہا مان اور شداد ونمرود کو جانے دو، ماضی قریب میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے۔ خود ہماری مملکتِ خدا داد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکمرانوں کی بے بسی کے عبرت ناک مظا ہر سامنے آتے رہے ہیں، کیا سکندر مر زا، غلام محمد ،ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے قصوں کو دنیا بھول جائے گی ۔

حکومت کی بقاء کے لیے عدل وانصاف ضروری ہے

بہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل وانصاف کو قائم کریں اور قوم فسق ومعصیت کا راستہ ترک کرکے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ نوش، فسق وفجور اورفحاشی وبدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہو لناک ہوا۔پاکستان کی پاک سر زمین جوحق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل وانصاف کا دور دورہ ہوتا، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا، تقویٰ وطہارت کی فضا قائم ہوتی، راعی اور رعایا اسلام کا سچا نمونہ پیش کرتے اور یہ مملکتِ خداداد دورِ جد ید میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی علمبر دار ہوتی، لیکن افسوس صدا فسوس کہ:

خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم

 یہاں نہ صرف یہ کہ دورِ غلامی کے تمام آثارِ کفر کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا، بلکہ آزادی کے بعد یہ فرض کر لیا گیا کہ ہم خدا ورر سول سے بھی آزاد ہیں۔ سو د، قمار اور دیگر صریح محر مات کو حلال کر نے کی کوشش کی گئی۔فواحش ومنکرات کی ترویج کی گئی۔ سینما ،ریڈیو، ٹیلی ویژن کو بے حیائی کا مناد بنا دیا گیا۔ رہی سہی کسر اخبارات نے پوری کردی۔ شعائرِ دین کا مذاق اُڑایا گیا، اسلامی قوانین کو مسخ کیا گیا، دین کے قزاقوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا۔بے خدا قوموں کی تقلید میں آزادیِ نسواں کا پرچار کیا گیا۔ اسلام کے مقابلہ میں نئے نئے ازموں کے نعرے لگائے گئے اور اب تو خدا فر اموشی کی حالت ایسی نا گفتہ بہ صورت اختیار کر چکی کہ اس کے انجام کا تصور کر کے بھی رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
 یہ ایک فطری اصول ہے کہ جرم انفرادی ہو تو اس کی سز ابھی افراد تک محدودرہتی ہے اور جب قوم کی قوم ہی جرم وبغاوت کا راستہ اختیار کر ے تو اس کی سزا بھی عام ہوتی ہے۔ یہ سزا ہمیں ایک بار سقوطِ مشرق کی صورت میں مل چکی اور ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہو پایا تھاکہ سزا کی دوسری قسط کے خطرات سر پر منڈلانے لگے۔

 مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکلنے کا نتیجہ

جس طرح روح نکل جانے کے بعد لاشۂ بے جان اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، بلکہ اس کے اعضاء میں انحلال وانفصال کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور بالآخر سڑ گل کر منتشر ہوجاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکل جائے تو نتیجہ انحلال وانتشار کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ شدید خطرہ پیداہوگیا ہے کہ جس طرح امر یکہ ،روس اور ہند وستان کی سازش سے ہم اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو بیٹھے ہیں، اسی طرح خاکم بد ہن مز ید تباہی وبر بادی سے دو چار نہ ہوجائیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقلوں پر کیسے پردے آجاتے ہیں اور ان حقائق سے کیوں عبرت نہیں لی جاتی؟! ایک طرف پورا ملک بے چینی وبے قراری کا شکار ہے، بیم ویاس کی کیفیت طاری ہے، ہوشربا گرانی سے کمر ٹوٹ رہی ہے، خیر وبرکت اُٹھ چکی ہے۔ یہی خطۂ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کر تا تھا خود دانے دانے کے لیے دریوزہ گر ہے۔ ہر چیز کا قحط ہے، باہمی اُلفت و محبت اور اتحاد و اعتماد نصیبِ دشمناں ہے۔ رشوت ،لا لچ ،چور بازاری، سٹہ بازی جیسے امراض دَق کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ چوری اور ڈاکے کی وار داتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ کیا یہ سب عذابِ الٰہی کی شکلیں نہیں؟ صد حیف کہ ان تنبیہات سے سبق نہیں لیا جاتا، بلکہ فواحش ومنکرات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ کلبوں اور ناچ گھروں میں عریانی بے حیائی کے دردناک مظاہر ہیں۔ ظلم وبر بر یت کی آخری حدوں کو چھویا جارہا ہے۔ غفلت وخدافراموشی کا نشہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ آخر حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی زندگی کب تک برداشت کی جائے گی ؟ اور انتقامِ الٰہی کی بے آواز لاٹھی کب تک تھمی رہے گی؟ گزشتہ بے خدا قوموں کے بارے میں فرمایا ہے:
’’الَّذِیْنَ طَغَوْا فِيْ الْبِلَادِ فَأَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ۔‘‘               (الفجر: ۱۱ تا ۱۴)
’’ یہ سب وہ تھے جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، پس اس میں بہت اودھم مچا یا،پھر بر سایا ان پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا، بلاشبہ تیرا رب گھات میں ہے۔‘‘
ان تمام دردناک صورت حال سے نجات حاصل کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے کہ راعی اور رعایا بارگاہِ ربوبیت میں توبہ وانابت اختیار کریں، اجتماعی معاصی سے یکسر پرہیز کریں اور گزشتہ گناہوں پر بارگاہِ رحمت میں توبہ واستغفار کریں، اسلامی شعائر کو بلند کریں اور غیر اسلامی نشانات کو پامال کریں۔ سورۂ نوح میں اس قسم کے معاصی کی کثرت سے قحط وتنگ سالی جیسے عذاب کا نازل ہونا اور اس کا علاج توبہ واستغفار بتایا گیا ہے :
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْھٰرًا۔‘‘                 (نوح:۱۰تا۱۲)
’’( نوح  علیہ السلام  بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں قوم سے خطاب کرتے ہوئے) میں نے کہا : گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ ہے بخشنے والا، چھوڑ دے گا تم پر آسمان کی دھاریں اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں۔‘‘
 مقصد یہ کہ تو بہ وانابت کی برکت سے نہ صرف آخرت کی کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی، بلکہ دنیا کے عیش وآرام کی صورتیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل واحسان سے مہیا فرمادیں گے۔ دلوں کو سکون واطمینان نصیب ہوگا،اموال میں خیروبرکت ہو گی، اولاد صالح اور خدمت گار ہوگی۔ آسمان سے ابرِ رحمت کا نزول ہوگا، پھلوں اور غلوں کی کثرت اور بہتات ہوگی۔ فرصت کے لمحات بہت مختصر ہیں اور فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے، اس لیے ہمیں موجودہ حالات کا صحیح علاج فورًا کرلینا چاہیے، ورنہ ہماری ظاہری اور سطحی تدبیریں سب ناکام ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرمائے، ہماری قوم کو فسق وفجور اور حکمرانوں کو ظلم وعدوان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔


ربنا اغفرلنا ذنوبنا وإسرافنا فی أمرنا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین۔ ربنا ظلمنا انفسنا و إن لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخاسر ین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ سیدنا محمدٍ و علٰی آلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ إلٰی یوم الدین ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین