بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نصابی کتب سے دینی مواد کا اِخراج ۔۔۔۔۔ خطرناک مضمرات

نصابی کتب سے دینی مواد کا اِخراج 

 خطرناک مضمرات


ملک کے تعلیمی نصاب سے اسلامیات کو بے دخل کرنے کے مختلف واقعات پاکستان میںرو نما ہوتے رہے ہیں۔ سیکولر سوچ رکھنے والی حکومتیں بھی اس میں استعمال ہوتی رہی ہیں۔ بیرونی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اُوز اور اُن کے بیرونی آقائو ں کی مدد سے پاکستان کے تعلیمی نظام کو اس کی اصل ’’اسلام‘‘ سے ہٹا کر سیکولرزم کی طرف پھیرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ عدلیہ کے مقرر کردہ ایک کمیشن کی رپورٹ سے تعلیمی نظام کے متعلق ایک پریشانی سامنے آئی ہے۔ ہمارے دانشور‘ موجودہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس نازک مسئلے کو کوئی درست سمت دیں۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب نے ایک تجزیہ پیش کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ 

 

ڈالر دینے والے ممالک اور ادارے اپنی پالتو این جی او، ان کے خوشہ چینوں اور دیگر چہیتے ’’ریاستی افراد‘‘ کو گھیرگھار کر اس نقطے پر لے آئے ہیں، جس کا نتیجہ رہی سہی، مذہبی ہم آہنگی کے انہدام کی شکل میں نکل سکتا ہے، جسے کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔ کیا مقتدر حضرات یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ معصوم اقلیتی آبادیوں کے جان ومال کو دائو پر لگانے کی تیاریاں مکمل ہیں؟

سپریم کورٹ کا گزشتہ فیصلہ اور موجودہ صورتِ حال

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اپنے فیصلے کے ذریعے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی راہ میں جوکانٹے بوگئے ہیں وہ تو ہمیں اپنی پلکوں سے چننا پڑیں گے، لیکن دل سے دُعائیں موجودہ جسٹس صاحب کے لیے نکلتی ہیں، جنھوں نے مسلمانوں اور اقلیتی آبادی دونوں کے لیے کوئی قابلِ قبول راہ نکالنی ہے۔ یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے، اس مضمون سے انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ جو یک طرفہ منظرکشی ۲۰۱۴ء کے فیصلے میں ملتی ہے ، حقائق سے اس کا معمولی سا تعلق نہیں ہے۔ جسٹس جیلانی اَزخودنوٹس کے تمام فریقوں کو دل جمعی سے سن لیتے تو آج موجودہ محترم چیف جسٹس کو وہ افراتفری نہ دیکھناپڑتی اور نہ ان کے لیے وہ مشکلات کھڑی ہوتیں جوآج چندسماعتوں کے بعد ملک بھرمیں نظرآرہی ہیں۔ 
 ۲۰۱۴ء کے فیصلے نے ریاستی اداروں میں بغاوت کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ سڈل کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کے متعلقہ ادارے کو بھیجی کہ نصاب سے ’’اسلام‘‘ نکالا جائے تو پنجاب ہی نہیں، ملک بھر میں کھلبلی مچ گئی۔یہ ’’حکم نامہ‘‘ ریاستی اندازِ کار سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ نصاب میں تبدیلی کی منظوری کابینہ دے سکتی ہے جس کی مددکے لیے علماء کا بورڈ ہے ۔ ادھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سڈل کمیشن کو یکسر مسترد کردیا۔ سماجی رابطے پر تو الامان والحفیظ ایک وڈیو کلپ دیکھا، مقرر فنِ خطابت سے سامعین کو مسحور کرکے کہتا ہے :’’سوچئے کہ اب ہم ۹۹ فی صدمسلمانوں کی زندگی کے فیصلے ایک فی صد اقلیتیں کریں گی؟‘‘ علیٰ ہذاالقیاس۔ ملک بھر میں آگ سی لگی ہوئی ہے ۔

سپریم کورٹ کے کرنے کا پہلاکام

لیکن عنوان کے مفہوم میں درخواست پنہاں ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تعلیم جیسے اہم موضوع پر جسٹس جیلانی نے وہ فیصلہ دیا جس میں مسلمانوں کاکوئی ماہرِتعلیم یا مذہبی راہنما شریک نہیں تھا؟ فیصلے کا محاکمہ توآئندہ سطورمیں ہے، لیکن اولیں درخواست یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب اس گزشتہ فیصلے پرنظرثانی کے لیے دوتین ججوں پر مشتمل بنچ نہ بنائیں، بلکہ کم از کم دس ججوں پر مشتمل بنچ اس ہولناک فیصلے کو بغور دیکھے۔ یہ کوئی ایسا معمولی فیصلہ نہیں ہے جسے مسلمان ٹھنڈے پیٹوں سہ لیں گے، ہرگز نہیں۔
 نصاب میں کیا رکھا جاتا ہے اور کیا نکالاجائے گا؟ یہ اہم نہیں۔ سپریم کورٹ محترم و مقدس ادارہ ہے، جس کا فیصلہ تمام ملک کے لیے واجب الاطاعت ہے۔ درخواست یہ ہے کہ سپریم کورٹ تعلیم اور مذہب سے متعلق تمام متعلقہ فریقوں کو بلاکر سن لے۔ کیا یہ کام ۲۰۱۴ء میں ہوا تھا؟ نہیں، چیف صاحب! یہ کام نہیں ہوا ،لہٰذا بنچ بنا کر اخبارات، ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی اور بذریعہ اشتہار تعلیم سے متعلق افراد اوراداروں کواپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کو کہا جائے۔ ان میں ایچ ای سی، جامعات کے وائس چانسلر، اساتذہ تنظیمیں، والدین کی انجمنیں، صوبائی اور وفاقی تعلیمی محکمے اور دیگرمتعلقین شامل ہیں۔ اقلیتوں کے ٰ نمائندہ افراد بھی اپنا موقف پیش کریں، پھرفیصلہ ہو۔
آئندہ سطور میں وہ شواہد پیش خدمت ہیںجو اس بات کا ثبوت ہیں کہ نصاب میں اسلام کاوجود یاعدم وجود کوئی مسئلہ نہیں تھا،نہ ہے۔ اقلیتی نمائندوں کا نقطۂ نظر پڑھنے کے بعد آپ پر واضح ہوجائے گا کہ انہیں نصاب پر اعتراض نہیں، بلکہ اس مہم کی پشت پر غیرملکی سرمائے سے چلنے والے ادارے اور اُن کے افرادِکار ہیں، جو ملک میں افراتفری کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کوشاں رہتے ہیں۔ یہ عالم فاضل لوگ اپنی ان لامحدود نفسانی خواہشات کے اسیر ہیں، جنھیں مضبوط کرنسی ڈالر پورا کرسکتی ہے، لاغر پاکستانی روپے میں اتنی جان نہیں کہ وہ ان کی خواہشات کا ساتھ دے سکے۔ لیکن پہلے جسٹس جیلانی کے فیصلے کا محاکمہ!

جسٹس جیلانی کے فیصلے کے اہم نکات

جسٹس جیلانی کے اس فیصلے کے نمایاں فریقوں اور ان کی استدعا کا مختصر بیان یوں ہے : نمایاں افراد میں ہندو، مسیحی اور سکھ مذاہب کے سائلان اور نمائندہ افراد، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، یا ان کے نمائندے تھے ۔ مسلمانوں کے کسی نمائندے کا ذکر فیصلے میں نہیں ملتا۔ قضیے کا آغاز پشاور میں مسیحی چرچ پر حملے سے ہوا۔ جسٹس ہیلپ لائن نامی این جی او نے چیف جسٹس سے اَزخود نوٹس کی اپیل کی، جو لیا گیا۔ کچھ ہندو درخواستوں کو بھی شامل کیاگیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جائے۔ ڈان کے ادارئیے کی بنیاد پر کیلاش کا ذکر ہوا کہ انھیں مذہب بدلنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ ہندوشادیوں کی رجسٹریشن کا مسئلہ تھا۔ اقلیتی آبادیوں کے لیے ملازمتوں میں کوٹے کا ذکر بھی آیا۔
چند اُمور انتظامی افسران کی وضاحتوں سے نمٹا دیئے گئے۔ اس اَزخود نوٹس میں نہ تو نصابِ تعلیم کا ذکر تھا، نہ محکمۂ تعلیم کاکوئی نمائندہ پیش ہوا۔ یہ امر باعث ِتعجب ہے کہ فیصلے میں جسٹس جیلانی اقلیتی آبادیوں یامسلمانوں سے اندھا انصاف کرنے کے بجائے این جی او اور ان کے نمائندوں کے وکیل کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں، لہذا لازم ہے کہ فیصلے میں سے ایک ایک نکتہ لے کرفیصلے کا محاکمہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کی نسلوں کی بربادی کاسامان ہے ۔

اقلیتی عبادت گاہوں کاتحفظ

فاضل جسٹس جیلانی اس سلسلے میں اتنا آگے نکل گئے کہ پی پی سی کے سیکشن ۲۹۵- بی یا ۲۹۵-سی کو تو ایک طرف رکھیں، انگریزی عہد کے سیکشن ۲۹۵ پر بھی انھیں اطمینان نہیں تھا۔ ملاحظہ ہو: ’’عدالت کو حیرانی ہوئی جب فاضل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ اقلیتی عبادت گاہوں کی بے حُرمتی تعزیراتِ پاکستان کے تحت نہ تو بے حُرمتی ہے اور نہ جرم۔جب دفعہ ۲۹۵ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ نہ تھا کہ عبادت گاہوں کی بے حُرمتی چاہے غیرمسلموں کی کیوں نہ ہو، جرم ہے ۔‘‘ سوال کسی اور تناظر میں پوچھا جارہا تھا، لیکن آگے چل کر اسی تناظر میں حکم نامہ ملاحظہ ہو: ’’ایک مخصوص پولیس فورس تشکیل دی جائے، جسے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی پیشہ ورانہ تربیت دی گئی ہو۔‘‘
یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ پولیس فورس قائم کرنا وفاق کے ذمے ہے یا صوبوں کے؟ اور سیکشن ۲۹۵ میں کیا خرابی ہے جو بلاتفریقِ مذہب تمام عبادت گاہوں کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے؟ کیا چیف جسٹس جیلانی کو وہ سینکڑوں ہزاروں مساجد نظر نہیں آتیں جو اس جنگ میں برباد ہوئیں تو ان کے لیے کیوں نہ ایک الگ فورس بنائی جائے؟ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج میں ذرا غفلت ہوجائے تو لواحقین طبّی عملے کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں تو ہسپتالوں کے لیے کیوں الگ فورس نہ بنائی جائے؟ یہاںتمام عبادت گاہوں کے لیے عدالت کا اتنا حکم کافی تھا کہ صوبے اس پرگہری نظر رکھیں۔ معلوم نہیں اقلیتوں کے قرب کی خاطر مظلوم مسلمانوں کو چھوڑ کر جسٹس جیلانی عدالتی حدود سے نکل کر انتظامی حدود میں کیوں داخل ہوئے؟ اُمید ہے کسی جامعہ کا کوئی محقق اس نکتے کو موضوعِ تحقیق بنائے گا۔

اقلیتوں کا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق
 

جسٹس جیلانی اقلیتوں کو تبلیغ کا مطلق حق دیتے ہیں، ملاحظہ ہو: ’’یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ تبلیغ کا حق صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کہ وہی اپنے مذہب کی تبلیغ کریں، بلکہ یہ حق دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کو اس کی تبلیغ کریں، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تبلیغ کریں۔‘‘ 
دوسری طرف آئین کا آرٹیکل ۲۰ اس بارے میں واضح ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:

''Subject to law، public order and morality every citizen shall have the right to profess، practice and propogate his religion.''

’’قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے اندر رہ کر ہرشہری کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے ، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔‘‘
کیا جسٹس جیلانی واقعی اپنے اس فیصلے کے مضمرات سے واقف نہیں تھے ؟ آبِ زر میں لکھنے کے لائق اس فیصلے پر اگر اقلیتوں نے عمل شروع کر دیا تو انھیں یاد دلانا بے محل نہ ہوگا کہ آئین کے ان ہی الفاظ کے ساتھ ۱۹۷۴ء میں ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں نے اسی تبلیغی حق کے استعمال میں جب اپنے کتابچے تقسیم کیے تھے تو ملک میں کیا آگ لگی تھی؟ کتنے لوگ جان سے گئے تھے؟ اور آئین میں پاکستانی قوم نے کیا متفقہ ترمیم کی تھی؟ 
جسٹس جیلانی! دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جواپنی بنیاد کے خلاف تبلیغ کی اجازت دیتا ہو اور پاکستان کی بنیاد اسلام ہے ۔ مذہب، بنیاد، نظرئیے کو تو ایک طرف رکھیں، ہٹلرکے ہاتھوں یہودیوں کی اجتماعی نسل کشی(Holocaust) کے انکار کی تبلیغ پر اسرائیل ہی نہیں، ڈیڑھ درجن دیگرممالک میں بالفاظِ صراحت سزائیں دی جاتی ہیں۔ متعدد ممالک میں ڈراوے والے دیگر قوانین موجود ہیں۔ ۱۹۸۷ء تا ۲۰۱۵ء کے عرصے میں چوٹی کے سیاست دانوں، محققین اور پروفیسروں کوہولوکاسٹ کے خلاف صرف تحقیق (تبلیغ نہیں) کرنے کے جرم میں کڑی سزائیں دی گئیں۔ یہ سزائیں چھے ماہ سے چھے سال تک قید اور کروڑوں روپے جرمانے تھے ۔
فرانس کے چوٹی کے سیاست دان جین میری لی پین کو اس ایک جرم میں دو دفعہ فرانس اور جرمنی میں سزا سنائی گئی۔حد تو یہ ہے کہ جرمن نژاد آسٹریلوی محقق فریڈرک ٹوبان کو ہولوکاسٹ پرمحض سوال کرنے پر جرمنی، برطانیہ، پھر جرمنی اور آسٹریلیا میں متعدد بار عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا کہ وہ ہولوکاسٹ کے اصل حقائق کی تبلیغ کر رہے تھے جو مذہبی نہیں‘ تحقیقی عمل تھا۔ تحقیقی دنیا میں اتنی دہشت پھیلائی گئی کہ ۲۰۱۵ء سے اب تک کسی نے اس کوچے میں قدم نہیں رکھا۔

.............................

 

جسٹس جیلانی کے دلائل بحقِ اقلیات پر نظر

عدمِ برداشت، نفرت، معاشرتی تقسیم اور تشدد پر جج صاحب نے انگریزی اخبار ڈان کے اس چھوٹے سے سروے سے نتائج اخذ کیے، جس کے کل شرکاء ۶۰۰ کے لگ بھگ تھے ۔ 
کسی یونی ورسٹی میں بی ایس کا طالب علم متعین اہداف والے ایسے اخباری سروے سے نتائج نکالے تو استاذ اس کی اسائنمنٹ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اخبار اور متعین اہداف والے ادارے اور این جی اوز ذہن سازی کے لیے ایسے سروے کرتے ہیں، جن کی نہ کوئی علمی افادیت ہوتی ہے اور نہ اُنہیں کسی سنجیدہ فورم پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایسے سروے کو اخبار کا معاصر چٹکیوں میں اُڑا کر رکھ دیتا ہے ۔ اُدھر جسٹس جیلانی صاحب ۶۰۰ افرادکے سروے کو ۲۲کروڑ پر نافذ کر گزرے۔ کیا ہماری پارلیمنٹ اعلیٰ عدلیہ کے افراد کی اہلیت پر نظرثانی کرنا پسند کرے گی؟

آئین، قانون اور قرارداد کی قوت
 

حکومتوں کو احکام جاری کرتے وقت جسٹس جیلانی نے جن دلائل کا سہارا لیا، ان میں سے ایک اقوامِ متحدہ کی قرارداد مجریہ۱۹۶۶ہے: ’’ہرکسی کو فکر،اِدراک اور مذہب کی آزادی ہے ۔ اپنے مذہب یا عقیدے کی پیروی کرنے ، مشاہدے ، عمل اور فروغ دینے اور اُس کی تعلیمات عام کرنے کی آزادی ہے۔‘‘ پھر جج صاحب ۱۹۸۱ء کی اقوامِ متحدہ کی ایک اور قرارداد سے روشنی لیتے ہیں۔ قارئین اتنے بےبہرہ نہیں ہیں کہ وہ آئین، قانون اور قرارداد میں فرق نہ کرسکیں، لیکن اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو کل کوئی جج ۱۹۴۸ء کی اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قرارداد کی بنیاد پر حکومت کو مقبوضہ کشمیر پر چڑھ دوڑنے کا حکم دے دے گا۔ مجھے تو یہ کچھ پڑھ کر اختلاجِ قلب ہونے لگا ہے۔
جسٹس تصدُّق حسین جیلانی کے اس فیصلے پر ہماری جامعات کے صرف لا ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں، متعدد دیگر شعبے بھی اپنے طلبہ کو تحقیق پر لگاسکتے ہیں، لیکن فی الوقت موجودہ محترم چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کا کوئی ایسا قابلِ اطمینان بندوبست کریں، جس سے مسلمان اور اقلیتیں دونوں مطمئن ہوں۔ان دونوں کو نصابِ تعلیم سے کوئی شکایت نہیں ہے ، یہ آپ آئندہ سطور میں پڑھیں گے ۔ شکایت ہے تو ڈالر خوروں کو اپنے ڈیڑھ پائو گوشت کی خاطر ۲۲کروڑ عوام کی بھینس ذبح کردینے والوں کو اور ملک میں کسی نہ کسی بہانے افراتفری بپا رکھنے والوں کو ہے۔

موجودہ نصاب پر اقلیتی آراء

راقم اور دیگر بہت سے لوگوں پر دَمکتے سورج کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ نصاب میں موجود اسلام اور اسلامی تعلیمات اقلیتوں کو نہ صرف قبول ہیں، بلکہ وہ اس حق میں ہیں کہ نصاب علیٰ حالہ رہنا چاہیے۔ اس دعوے کی بنیاد اقلیتوں کے نمائندہ ادارے ’’پاکستان مائنارٹی کمیشن‘‘ کے چیئرمین جناب چیلا رام کا وہ بیان ہے، جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں سڈل کمیشن کی سفارشات مسترد کردیں۔ اقلیتوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے اندر کھڑے ہوکر انہوں نے کہا کہ موجودہ نصابِ تعلیم بہت مناسب ہے اور ہمیں قبول ہے۔ 
اب اکیسویں صدی کے اس عہدِ جمہوریت میں کیا کسی برادری کے نمائندہ افراد کی بات قابلِ قبول ہوگی؟ یا ایک غیرمتعلق ریٹائرڈ شخص کی آراء قبول کرنے پراقلیتوں کو مجبور کیا جائے گا؟ ایسے شخص کی آراء جو اپنی پولیس کمیونٹی کا بھی وفادار نہیں ہے۔ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ کوئی چھ ماہ قبل سندھ پولیس کے آئی جی کے غائب ہونے پر ۳۰، ۳۵ افسران نے استعفے دے دیئے تو اپنی کمیونٹی کے بارے میں موصوف کے الفاظ ملاحظہ ہوں: 
’’ان سب افسران کے خلاف مقدمات کھولے جائیں، ان کو سائیڈ لائن پر کرکے رینجرز سے شو آف پاور کرایا جائے، یہ دو دن میں ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ رشوت کے بغیر دودن گزارا نہیں کرسکتے، ان کی ایسی کی تیسی۔‘‘ 
اب جس شخص کی وفاداری اپنے ادارے سے نہ ہو، اس سے آپ کچھ بھی توقع کرسکتے ہیں، لہٰذا ایک رکنی سڈل کمیشن کی سفارشات پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
جناب چیلارام کے بیان کے باوجود مجھے تسلی نہیں ہوئی کہ سرکاری ادارے میں شاید وہ لوگ ہوتے ہیں، جو سرکارکے قریب ہوں۔ یہ سوچ کر میں نے مذہبی اقلیتی آبادی کے قدآور رہنمائوں سے رابطہ کیا کہ وہ وفاقی وزارتِ تعلیم کے اس نصاب پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ ان افراد سے میرا سوال یوں تھا: ’’نئے متفقہ نصاب کے مضامین اُردو ، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور انگریزی میں نعت، حمد، اللہ، رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات پر مبنی نصاب پر کیا آپ کو بحیثیت اقلیتی راہنما کوئی اعتراض ہے؟ ‘‘ سوال کے جوابات جو حاصل ہوئے، وہ من و عن آپ کی نذر ہیں:

۱:- جناب ڈاکٹر سونو کھنگھارانی 

ڈاکٹر کھنگھارانی صوبہ سندھ کے معروف شہرمٹھی میں مقیم ہیں۔ پاکستان دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک کے کنوینر ہیں۔ موصوف جنوبی ایشیا کے معروف ادارے ’’ایشین دلت رائٹس فورم‘‘ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے پاکستان سے ممبر ہیں۔آپ ’’انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک‘‘ کے بورڈ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس بورڈ کے ممبر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ۳۰ لاکھ غیرمسلموں کے نمائندہ ہیں۔ انہیں ’’نشانِ امتیاز‘‘ بھی مل چکا ہے۔ میں نے اپنا سوال اُن کے سامنے رکھا،جس کا جواب انہوں نے تفصیل اور جامعیت کے ساتھ دیا۔ اس ایک سوال کے جواب میں انہوں نے پندرہ منٹ صرف کیے ۔ خلاصہ تین نکات میں تھا، جسے دُہرا کرکے میں نے اپنے الفاظ کی تصدیق کرائی، انہوں نے تین نکاتی نقطۂ نظر بیان کیا۔ ان کے فوری الفاظ یوں تھے: ’’یہ(سفارشات) تعصب پر مبنی ہیں۔‘‘ مذکورہ سوال پر ان کا جواب ملاحظہ ہو:
۱:-     پاکستان مسلمانوں نے بنایا تھا، لہٰذا اس کی ۹۷ فی صدآبادی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنا نظامِ تعلیم مرتب کرے ، ہم غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کے لیے نفرت انگیز مواد نہیں ہونا چاہیے ۔
۲:-     تقسیمِ ہند کے بعد اقلیتوں کو یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں یا ہندوستان میں، کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر مسلمانوں نے بنا یاتھا۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ہندوستان ہجرت کرگئے ۔ اب یہاں رہ جانے والے غیرمسلم یہ حقیقت قبول کرکے یہاں مقیم ہیں کہ ہم نے اکثریتی آبادی کے ساتھ رہنا ہے اور اکثریتی آبادی کو ملکی نظام اپنی خواہشات پر ترتیب دینے کا حق حاصل ہے ۔ ہمیں اور لاکھوں افراد پر مشتمل ہماری اقلیتی آبادی کو اس نصاب پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
۳:-    ہم تو ویسے بھی مسلمانوں کی طرح اپنے مُردے دفناتے ہیں۔ اللہ، رسول، ان شاء اللہ، اللہ حافظ اور ایسے متعدد الفاظ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ اسلام، اسلامی تعلیمات اور تاریخِ اسلام کا مطالعہ ہماری اپنی ضرورت ہے ۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس ملک کا نظام اگر ہماری اولادیں نہیں جانیں گی تو مسلمانوں کو سمجھیں گی کیسے؟ سائیں! اپنے بچوں کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ملازمتوں کے لیے بھیجنے سے پہلے ہم خود انہیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں، تاکہ دوسرے ملک میں انہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اسلامی تعلیمات سے آگاہی خود ہماری اپنی ضرورت ہے۔ موجودہ نصاب سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

۲:- جناب گنپت رائے بھیل (مدیر دلت ادب )
 

ڈاکٹرکھنگھارانی ۳۰ لاکھ شیڈولڈ کاسٹ آبادی کے سیاسی راہنما اور دانشور ہیں۔ سیاسی راہنما کا زاویۂ نگاہ یقیناً عوامی اُمنگوں کا آئینہ دار ہوتا ہے، لیکن اس رہنمائی کو اگر تعلیم و تعلّم کا پیوند لگ جائے تو اس میں بے پناہ وزن پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جس اگلے غیرمسلم راہنما سے رابطہ کیا، وہ جناب گنپت رائے بھیل تھے۔ موصوف اپنے زمانۂ طالب علمی میں میجر خورشیدقائم خانی سے متاثر ہوئے، جنہوں نے فوج سے مستعفی ہوکر اپنی زندگی دلت برادری کے لیے وقف کردی تھی۔ میجر صاحب نے ایک سندھی جریدہ دلت ادب جاری کیا تو گنپت رائے ان کے نائب مدیر رہے ۔ان کی وفا ت پر رائے صاحب مدیر ہیں، پیشے کے لحاظ سے استاذ ہیں اور مٹھی میں پڑھاتے ہیں۔ بھارتی دستور کے آرکیٹکٹ ’’ڈاکٹر امبیدکر‘‘ کی سوانح عمری ’’ڈاکٹر امبیدکر کی زندگی کی جدوجہد‘‘ از سعید شاہ غازی الدین کا آپ نے سندھی ترجمہ کیا۔ آپ قلم وکتاب تک محدود نہیں، بلکہ ۲۰۱۳ء -۲۰۱۹ء تک سندھی جریدے سندھ ایکسپریس میں باقاعدگی سے لکھتے رہے ۔
نصابِ تعلیم کے حوالے سے میں نے اپنا سوال ان کے سامنے رکھا تو انھوں نے تفصیل سے جواب دیا۔ ان کی گفتگو سوال کی حدبندی سے باہر تو ہوئی، لیکن سوال اور نصاب سے باہر وہ نہیں گئے ۔ نصاب کی نسبت سے تو انھوں نے شروع ہی میں دوٹوک کہہ دیا کہ ہم ۳۰ لاکھ غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اُردو، تاریخ، مطالعہ پاکستان، انگریزی کسی بھی مضمون میں اسلام اور اسلامی تاریخ کا نصاب میں ہوناضروری ہے ۔ ان کی گفتگو بھی تین نکات کا احاطہ کرتی تھی:
۱:-    ۹۷/۹۰ فی صد آبادی کے اس مسلمان ملک میں اسلام کسی بھی شکل میں پڑھایا جائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
۲:-     گنپت صاحب کو شکوہ تھا کہ شیدولڈ کاسٹ برادری کے راہنما اور شیدولڈ کاسٹ فیڈریشن کے صدر جوگندر ناتھ منڈل نے کانگریس کی ہندو قیادت کو چھوڑ کر اپنے ۲۱ساتھیوں اور چار سرکردہ اینگلوانڈین کے ہمراہ مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریکِ پاکستان میں شرکت کی، لیکن تاریخ میں صرف مسلم لیگ کابیانیہ پڑھایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے ان رہنمائوں کا ذکر بھی نصابی کتب میں کیا جائے کہ انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
۳:-    جناب گنپت رائے نے یہ کہہ کر مجھے حیران کردیاکہ اُردو، انگریزی، تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے نصاب میں اگر اللہ، رسول، نعت، حمد، اور تاریخ پاکستان آتے ہیں (جن سے غیرمسلم بچے ویسے بھی مستثنیٰ ہیں کہ وہ یہ چیزیں یاد کریں) تو اعلیٰ مسیحی تعلیمی اداروں میں کیا مسلمان بچے مسیحی مناجات اور مسیحی دُعائیہ کلمات میں شریک نہیں ہوتے؟دُور نہیں کراچی کے سینٹ پیٹرسن میں دیکھ لیں، میری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین