بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نسخۂ کیمیا: اُسوۂ اعترافِ خطا و قصور 


نسخۂ کیمیا: اُسوۂ اعترافِ خطا و قصور 


اعترافِ خطا و قصور کا اُسوۂ آدم  علیہ السلام 

نسلِ انسانی کا آغاز جس ہستی سے ہوا وہ ہستی انسانِ اول نبیِ اول تھی۔ آغازِ سفرِ نسلِ انسانی پوری روشنی اور نور میں (In Complete Light) ہوا۔
"This Human Voyage is from Light towards Darkness not otherwise ."
’’اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ‘‘ کے جواب میں جب سب سماوات اور ارض وجبال بھی ’’ناں‘‘ کہہ چکے تھے تو اسی ’’ظَلُوْمًا جَھُوْلًا‘‘ انسان نے اس امانت کا بار اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے کے لیے ’’ہاں‘‘ کہہ ڈالا تھا:

آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنامِ من دیوانہ زدند

انسان ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کی تخلیق اپنے ہاتھوں سے کی اور اس خاکی پتلے میں ’’وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ‘‘ سے حیات پھونکی۔ اسے ’’عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّھَا‘‘ سے مزیّن کرکے ملائکہ کے سامنے پیش کیا اور ملائکہ سے علمِ اسماء کے متعلق استفسار کیا۔ جواب سے عاجز ملائکہ ’’لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَاعَلَّمْتَنَا‘‘ کہہ کر عدمِ علم کے معترف ہوئے تو آدم  علیہ السلام  نے وہ بتایا جو انہیں ’’الْعَلِیْم‘‘ نے سکھایا تھا۔ ملائکہ کو سجدہ ریزی کا حکم صادر ہوا، سب سجدہ ریز ہوئے ’’إَلَّا إِبْلِیْسَ‘‘ خلافتِ ارضی کے لیے چُنیدہ آدم  علیہ السلام  سے خطائے اجتہادی ہوئی اور جنت سے خروج ہوا۔
حُکمِ ’’ھبط‘‘ آدم کو بھی ملا اور ابلیس کو بھی، لیکن آدم ؑ کو ملا ’’خَلِیْفَۃُ اللہِ فِیْ الْاَرْضِ‘‘ اور ’’کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ‘‘ جیسی عظمتوں کے ساتھ اور ابلیس کو ملا ’’لَعْنَتِیْ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ اور ’’اِنَّکَ رَجِیْمٌ‘‘ کی ذلتوں کے ساتھ، یعنی آدم اُترے ’’خلافتِ ارضی‘‘ اور ’’تکریم‘‘ کے ساتھ، اور ابلیس اُترا ’’لعنتِ ابدی‘‘ اور ’’رجیمیّت‘‘ کے ساتھ۔
ایک خطا آدم ؑکی اور ایک خطا ابلیس کی۔ صدورِ نفسِ خطا میں دونوں ظاہراً مشترک، نا کہ حقیقتاً۔ لیکن ایک کو اجتبائیت اور کرمیت سے نوازا گیا اور ایک کو لعنت کا مژدہ سنایا گیا۔ 
اُس کا سبب سوائے اس کے کیا تھا کہ ’’آدم‘‘ کا ’’آدمی طرزِ عمل‘‘ تھا یعنی اعترافِ قصور ، جس کا اظہار کیا ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا‘‘ کہہ کر اور ’’ابلیس‘‘ کا ’’ابلیسی طرزِ عمل‘‘ تھا، جس کا اظہار کیا ’’اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ‘‘ کہہ کر۔ ایک تو عدمِ اعترافِ قصور اور اس پر مستزاد یہ کہ ’’اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ‘‘ کے بعد مصداق بنا ’’ایک کریلا اور دوسرا نیم چڑھا‘‘ کا۔ ایک راہِ محبوبیتِ الٰہیہ ہے اور ایک راہِ مغضوبیتِ الٰہیہ۔
خطائے آدم پر تو انسان کی نگاہ جاتی ہے، لیکن اُس سے آگے نہیں بڑھ پاتی ، جہاں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ: ’’عَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی‘‘ اس سے اگلی آیت میں یہ بھی تو فرمایا ہے کہ ’’ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی۔‘‘ 
دیکھیے! حق تعالیٰ معصیتِ آدم کے بعد اجتبائیتِ آدم کا ذکر فرمارہے ہیں اور فسقِ ابلیس کے بعد رجیمیتِ ابلیس کا ذکر فرمارہے ہیں۔ ’’عَصٰی‘‘ اور ’’غَوٰی‘‘ تو بنی آدم کے خمیر میں ہے، لیکن اجتبائیت کی راہ ’’عَصٰی‘‘ اور ’’غَوٰی‘‘ کو کچلنے سے نہیں، بلکہ ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا‘‘ کے اعتراف سے کھلتی ہے، اور رجیمیت کی راہ ’’اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ‘‘ اور ’’اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ‘‘ سے ہموار ہوتی ہے۔
اگرچہ خطاً تو دونوں مشترک ہیں تو کون سی ایسی بات ہے جس کی بدولت دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے؟ وہ بات ہی اصلِ بندگی ہے۔ وہی کیمیا ہے قلوب کی ، وہی نسخۂ جراحتِ دل ہے۔
وہ ’’کیمیا‘‘ ، وہ ’’نسخہ‘‘ ہے اعترافِ قصور ، اعترافِ ذنوب ، اعترافِ نقص ، اعترافِ تقصیر اور اعترافِ خطا کا۔
دیکھیے! حق تعالیٰ نے فرعون کے لیے ’’اِنَّہٗ طَغٰی‘‘ فرمایا، اور آدم  علیہ السلام  کے لیے ’’فَغَوٰی‘‘۔وہاں ’’فَغَوٰی‘‘ کے بعد ’’اجتبائیت‘‘ ہے، لیکن اُس کے بیچ اعترافِ قصور و ذنوب بھی ہے، جو سبب ہے اجتبائیت کا۔ اور فرعون کے معاملہ میں ’’طَغٰی‘‘ ہی ’’طَغٰی‘‘ ہے، بیچ میں کہیں اعترافِ قصور و ذنوب نام کو بھی نہیں ہے، اسی لیے ’’اجتبائیت‘‘ کی جگہ ’’غرقیت‘‘ ہے۔جہاں تک معصیت کا تعلق ہے تو ذوقِ معصیت تو انسان کے خمیر میں ہے، جس کا اظہار ’’کُلُّھُمْ خَطَّاؤنَ‘‘ کہہ کر کردیا گیا، تو مسئلۂ بنی آدم ’’خطا‘‘ نہیں، ’’قصور‘‘ نہیں، بلکہ عدمِ اعترافِ خطا و قصور ہے۔ خطائیں تو ہم سے ہوتی ہی رہیں گی تو اعترافِ خطا و قصور کرکے ہم کیوں ناں حق تعالیٰ کے ہاں اجتبائیت اور محبوبیت کا درجہ پالیں؟!
آج بھی حق تعالیٰ وہی کے وہی ہیں، وہ بدلے نہیں ہیں: ’’لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا‘‘ کا وعدۂ الٰہی ہے، جس کا تخلُّف محال ہے۔ 

اعترافِ خطا و قصور کا اُسوۂ محمدی ( صلی اللہ علیہ وسلم )

اسی اعترافِ قصور اور مغفرت طلبی کا درسِ عملی حاملِ علم الاولین و الآخرین  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیا۔
رحمٰن کے سامنے دن میں ستر ستر مرتبہ، سو سو مرتبہ استغفار کا ، اعترافِ قصور و ذنوب کے ساتھ مغفرت طلبی کا جس ہستی نے مستقل وظیفہ رکھا، وہ وہی تو ہیں جن کے لیے ’’لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ کا  مُژدۂ راحت فزا اُتارا گیا، جو معصوم عن الخطا اور شفیع المذنبین ہیں۔
انسان کے سامنے اعترافِ خطا کا اسوۂ مُحمدی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ: ’’ آج بدلہ لے لو، کسی کا مالی یا بدنی جو بھی دَین میرے ذمہ ہے لے لو،میں اپنے اللہ کے پاس کوئی بوجھ لے کر نہیں جانا چاہتا۔‘‘ یہ کہنے والے وہ ہیں جو ’’وَمَا یَفْعَلُ عَنِ الْھَوٰی‘‘ تو درکنار ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی‘‘ کی سند پائے ہوئے ہیں۔ وہ ہستی جو قاسمِ نعمائے ظاہری و باطنی ہے ، برزخِ کُبریٰ ہے ، ’’وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ جیسے منصبِ جلیلہ و عظیمہ پر فائز ہے، اُس ’’سِرَاجًا مُّنِیْرًا‘‘ اور ’’نُوْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘ نے کیسا درسِ عملی دیا۔ محض درسِ قولی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ درسِ عملی سے اس عمل کی اہمیت کو قلوب میں کس قدر جاگزیں کردیا۔ اسی رنگِ مُحمدی کو صحابہؓ نے کیسا جذب کیا اور اُن کی حیاۃِ طیبہ و مطہرہ سے کس قدر یہ رنگِ اعترافِ قصور و ذنوب حق تعالیٰ کے سامنے بھی اور مخلوق کے سامنے بھی منعکس ہوا اور منعکس ہوتا چلا جارہا ہے۔ پہلے عملِ انجذاب ہوا اور پھر عملِ انعکاس جاری ہے۔

دلِ بیدار فاروقی دلِ بیدار کرّاری
مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دِل کی بیداری

’’وحیِ رب‘‘ یا ’’وحیِ مغرب‘‘ !

آج کا مسلمان بھی اگر اس روشِ آدم اور اُسوۂ محمدی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اختیار کرلے تو فلاحِ حقیقی ، طمانیت و بردِ قلبی، حیاۃِ طیبہ، حُریّتِ کاملہ (Total Freedom) ، اجتبائیتِ الٰہیہ اور محبوبیتِ الٰہیہ کو پالے گا، لیکن آج مسلمانوں نے جو راہ اختیار کرلی ہے، اُس راہ پر آگے بڑھنے والا ہر قدم اُنہیں راہِ صواب سے دُور کرنے والا ہے اور مغربیت کے غلبہ کی وجہ سے وہ ’’وحیِ رب‘‘ کی بجائے ’’وحیِ مغرب‘‘ کے منتظر رہتے ہیں اور ’’تجلیاتِ مغرب‘‘ نے ان کی آنکھوں کو اس قدر خیرہ کردیا ہے کہ ’’تجلیاتِ رب‘‘ ان سے اوجھل ہوگئی ہیں اور ہوتی چلی جارہی ہیں۔ 
اقبالی تشخیصِ مرض بھی سنیے:

ر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے 

اور علاجی تجویز ’’علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے تیرا‘‘ پر بھی کان دھریے، کیونکہ ’’مئے مغرب‘‘ نے ’’دل کے ہنگامے‘‘ خاموش کر دئیے ہیں۔ ان ہنگاموں کو پھر سے بیدار کرنے کے لیے ہم ساقیِ ازل سے ملتجی ہیں کہ ’’لا ساقی شرابِ خانہ ساز!‘‘

فلسفیوں اور سائنسدانوں کی تعلیمات پر ’’ایمان بالغیب‘‘ !

آج ان فلسفیوں اور سائنسدانوں کی جانب سے آنے والی باتوں پر ’’ایمان بالغیب‘‘ لانا ایک فخریہ طرزِ عمل ٹھہرایا جارہا ہے، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ’’ایمان بالغیب‘‘ کو دقیانوسیت اور Backwardness کہا جارہا ہے۔سوائے اس کے کیا کہوں کہ:

وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

رینے گینوں Rene Geunon نے تو ان مغرب زدہ فلسفیوں کو ، جن کے اوہامِ باطلہ پر صرف ’’ایمان بالغیب‘‘ ہی نہیں لایا جارہا ہے، بلکہ اُس کی برملا تبلیغ بھی کی جارہی ہے‘ عقلی چندھے پن Intellectual Myopia کا شکار کہا تھا اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ عقلی موتیا نہیں، بلکہ یہ Intellectual blindness کا شکار ہیں اور حق تعالیٰ نے ایسوں ہی کو ’’قَوْمًا عَمِیْن‘‘ فرمایا ہے۔
ایک طرف آج کے مسلمانوں کی حالت ہے، اور ایک وہ تھے جنہوں نے غلامیِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں کبھی قیصر و کسریٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں اور اپنی درویشی سے ان کی سلطانی کو خاک میں ملا دیا تھا ۔ اُن پاکیزہ نفوس اور انقلابیوں کو جو کچھ حاصل ہوا تھا‘ وہ متابعتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا اور ہم سے جو کچھ چھین لیا گیا وُہ عدمِ مُتابعتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وجہ سے چھین لیا گیا۔حق تعالیٰ تک جانے والے سارے راستے مسدود ہیں اور اگر کوئی راستہ جاتا ہے تو درِ مُحمدی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے گزر کر جاتا ہے۔

تُو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر
مِری دانش ہے افرنگی مِرا ایماں ہے زُناری

آئیے! ہم مل کر حق تعالیٰ سے حق کو حق اور باطل کو باطل دکھانے کی بھیک مانگیں ۔

اللّٰھم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلًا وارزقنا اجتنابہ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین