بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

بینات

 
 

نرم مزاجی اور رِفق کی اہمیت وفضیلت

نرم مزاجی اور رِفق کی اہمیت وفضیلت


اگر یہ کہا جائے کہ نرم مزاجی بظاہر ایک صفت ہے، لیکن درحقیقت یہ مجموعۂ صفات ہے، اور تمام اوصافِ حمیدہ اس میں پنہاں ہیں تو یقیناً مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسا عطیۂ خداوندی ہےجس پر دنیا وآخرت کا آرام وسکون موقوف ہے، رحم دلی ونرم مزاجی دوسروں کے لیے بھی باعثِ راحت رسانی ہے، اور خود اپنے کے لیے بھی فوائد ومنافع کا سبب ہے۔نرم دل شخص لوگوں کی نظر میں محبوب وپسندیدہ ہوتا ہے، لوگ اس کی مصاحبت کے مشتاق ہوتے ہیں، اس کی ہم نشینی کی چاہت رکھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کا ایک خاص مقام ہے، جبکہ تندخو و سخت گو شخص کے ساتھ بیٹھنا بھی لوگوں پر گراں گزرتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام میں رِفق ونرمی اپنانے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے، اور قرآن پاک واحادیثِ مبارکہ میں اس کی اہمیت وضرورت وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے، ذیل میں نرم مزاجی و رِفق کی اہمیت مع فضائل مختصراً بیان کی جارہی ہے:

رِفق و نرم مزاجی کی اہمیت قرآن کی روشنی میں

۱- قرآن پاک میں نرم مزاجی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کہا گیا ہے، اور تندخوئی کی مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ‘‘ (آل عمران: ۱۵۹)
ترجمہ: ’’پھر اللہ کی رحمت ہی کے سبب سے آپ ان کے لیے نرم ہوگئے، اور اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔‘‘
۲- مسلمانوں کے ساتھ نرمی وملاطفت سے پیش آنے کا حکم اپنی جگہ، قرآن میں تو غیر مسلموں، بلکہ کافروں کے سردار فرعون سے ساتھ بھی نرمی سے بات کرنے کا حضرت موسیٰ وہارون  علیہما الصلاۃ والسلام  کو حکم دیا گیا ہے، تاکہ دعوتِ دین اور حق بات نفع بخش اور بارآور ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ موسیٰ وہارون  علیہما الصلاۃ والسلام  سے فرماتے ہیں:
’’فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَعَلَّہٗ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰی‘‘   (طہ: ۴۴)
ترجمہ: ’’سو تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘

نرم خوئی اللہ تعالیٰ کو محبوب

سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے نرم مزاجی اپنانے کی خصوصی تاکید کی ہے، اور اپنے عمل کے ذریعے بھی اس کی اہمیت اُجاگر کی ہے، اور اس کے فضائل ذکر کیے ہیں۔ من جملہ ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ نرم خوئی اور رِفق کی صفت اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے، جیساکہ درجِ ذیل روایت سے یہ بات واضح ہورہی ہے۔ایک مرتبہ یہود کی ایک جماعت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آئی، اور سلام کرنے کے بجائے ’’السام عليکم‘‘ کہا، اور ’’سام‘‘ موت کو کہتے ہیں، یعنی خاکم بدہن آپ پر موت ہو۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے یہ سن لیا، وہ کہاں برداشت کرسکتی تھیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی شانِ اقدس میں ادنیٰ درجہ کی بھی ناگفتہ بہ بات کہی جائے، چنانچہ انہوں نے بھی جواب میں کہا: ’’وعليکم السام واللعنۃ‘‘ یعنی تم ہی پر ہلاکت اور لعنت ہو۔ اس پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان سے فرمایا:
’’مہلاً يا عائشۃ! عليک بالرفق، وإياک والعنف، أو الفحش۔ ‘‘ (۱) 
ترجمہ: ’’آرام سے اے عائشہ! نرمی اختیار کرو اور سختی وبدگوئی سے بچو۔‘‘
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی معاملات کے ساتھ دینی امور میں بھی رفق ونرمی کے ساتھ چلنا ضروری ہے، دین پر عمل پیرا ہونے، یا اس کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے سلسلے میں تشدّد اور سختی ناپسندیدہ ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
’’إن ہٰذا الدين متين، فأوغلوا فيہ برفق ۔‘‘ (۲) 
ترجمہ: ’’بیشک یہ دین بڑا سنجیدہ و مضبوط ہے، لہٰذا اس میں نرمی کو شامل رکھا کرو۔‘‘

حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نرم خوئی

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی اعلیٰ صفات واوصافِ حمیدہ میں سے ایک نمایاں صفت یہ تھی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   حلیم الطبع، نرم خو ونرم مزاج تھے، مخالفین کی طرف سے چاہے جتنی بھی ایذاء وتکالیف کا سامنا ہوتا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے حسنِ اخلاق ونرمی پر اس کا شائبہ بھی نہ پڑتا، اور نہ آپ کے چہرۂ مبارک پر تکدّر کے آثار ظاہر ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم    کی نرم خوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’خدمت النبي صلی اللہ عليہ وسلم عشر سنين، فما قال لي: أف، ولا: لم صنعت؟ ولا: ألا صنعت ۔‘‘ (۳)
ترجمہ: ’’میں نے دس سال نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت کی، پس آپ نے کبھی اُف تک نہیں کہا، اور نہ کبھی فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور نہ یہ فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘
یعنی بظاہر حضرت انس  رضی اللہ عنہ  سے بھی کسی کام میں کوئی غلطی اور خطا ہوجاتی ہوگی، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم   اس پر بلاوجہ زجر وتوبیخ نہیں کرتے تھے، بلکہ نرم خوئی ودرگزر کا معاملہ فرماتے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نرم خوئی کے سلسلے میں مندرجہ ذیل واقعہ فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں نماز میں کلام کرنا ممنوع نہیں تھا، بعد میں اس سے روکا گیا، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ایک صحابی حضرت معاویہ بن حکم سلمی  رضی اللہ عنہ  نو مسلم تھے، اس لیے ان کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ نماز میں باتیں کرنا منسوخ وممنوع ہے، چنانچہ ایک مرتبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم    کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی، حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ  نے ’’یرحمک اللہ‘‘ کہہ کر اس کا جواب دیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے انہیں گھورنا شروع کر دیا، اس پر حضرت معاویہؓ نے کہا: تم مجھے گھور کیوں رہے ہو؟ اب وہ لوگ اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے لگے؛ تاکہ معاویہ بن حکمؓ سمجھ جائیں، اور خاموش ہوجائیں، چنانچہ وہ خاموش ہوگئے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   نے انہیں بلایا، اور کسی قسم کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی، بلکہ آرام سے عمدہ انداز میں اُنہیں سمجھایا، حضرت معاویہ بن حکمؓ خود فرماتے ہیں:
’’بأبي ہو وأمي، ما رأيت معلمًا قبلہٗ ولا بعدہٗ أحسن تعليمًا منہ، فواللہ، ما کہرني ولا ضربني ولا شتمني، قال: إن ہٰذہ الصلاۃ لا يصلح فيہا شيء من کلام الناس، إنما ہو التسبيح والتکبير وقراءۃ القرآن۔‘‘(۴)
ترجمہ: ’’میرے ماں باپ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   پر قربان ہوں۔ میں نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   سے بہتر سکھانے والا نہ پہلے کبھی دیکھا، اور نہ بعد میں۔اللہ کی قسم! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے نہ مجھے جھڑکا، نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا، بس یہ فرمایا کہ نماز میں لوگوں سے باتیں کرنی درست نہیں، اس نماز میں تو تسبیح ، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔‘‘

نرمی پر عطایائے خداوندی

نرمی ایک ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے بندہ پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے، اور اس کثرت سے انعامات وعطایائے خداوندی ملتے ہیں کہ کسی دوسری صفت پر شاید ہی ایسے انعامات حاصل ہوتے ہوں،چنانچہ یہی مفہوم ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے:
’’إن اللہ رفيق يحب الرفق، ويعطي علی الرفق ما لا يعطي علی العنف، وما لا يعطي علی ما سواہ ۔‘‘(۵)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ تعالیٰ رفیق (نرمی کرنے والا) ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی اختیار کرنے کی بنا پر وہ اس قدر عطا فرماتا ہے کہ جو سختی یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے اس قدر عطا نہیں فرماتا۔‘‘
یعنی بسااوقات بظاہر سختی کرنے میں ہی نفع معلوم ہو رہا ہوگا، لیکن درحقیقت نرمی سے جتنا فائدہ ہوگا، سختی کرنے میں اتنا نہیں ہوگا۔

نرمی خوبصورتی کا سبب

احادیثِ مبارکہ میں نرمی کو حسن وخوبصورتی کا باعث قرار دیا گیا ہے کہ نرم مزاجی آدمی میں زینت کا سبب ہے، جبکہ ترش روئی وتندخوئی ایک قسم کا عیب ہے۔ اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جو افراد حلیم الطبع، ہنس مکھ اور نرم مزاج والے ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے پاس جانے اور ان سے باتیں کرنے کا ہر کسی کا دل چاہتا ہے، اس کے برخلاف غصیلے، درشت مزاج اور تندخو شخص سے ہر کوئی پہلو تہی کرتا ہے، کوشش کرتا ہے کہ ان حضرت کا سامنا نہ ہی ہو تو اچھا ہے۔اس بارے میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمان ہے:
’’إن الرفق لا يکون في شيء إلا زانہٗ، ولا ينزع من شيء إلا شانہٗ۔‘‘(۶)
ترجمہ: ’’بلاشبہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز میں سے نرمی نکال دی جاتی ہے تو اسے بدنما وعیب دار کردیتی ہے۔‘‘

نرمی سے محروم بھلائی سے محروم

نرم مزاجی سے انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دنیا میں بھی انسان کو اتنے فوائد مل سکتے ہیں جو سختی کرنے پر نہیں مل سکتے، نرم بات کا دوسرے پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے، جبکہ تیز لہجہ میں بات عموماً بے اثر ہوتی ہے، اور انسان بھلائیوں سے محروم رہتا ہے، اسی طرح آخرت کی بھلائیاں بھی نرم مزاجی سے حاصل ہوتی ہیں، چنانچہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   سے روایت ہے:
۱-’’من أعطي حظہٗ من الرفق فقد أعطي حظہٗ من الخير، ومن حرم حظہٗ من الرفق فقد حرم حظہٗ من الخير ۔‘‘(۷)
ترجمہ: ’’جس شخص کو نرمی سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی سے حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصہ سے محروم رکھا گیا تو وہ بھلائی سے محروم ہوا۔‘‘
۲-’’من يحرم الرفق، يحرم الخير ۔‘‘ (۸)
ترجمہ: ’’جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا۔‘‘
۳-’’إذا أراد اللہ عز وجل بأہل بيت خيرًا، أدخل عليہم الرفق ۔‘‘(۹)
ترجمہ: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی گھرانے سے خیر کا ارادہ فرمالیتا ہے تو ان میں نرمی پیدا فرما دیتا ہے۔‘‘

نرمی کا معاملہ کرنے والوں کے لیے نبوی دعا

لوگوں کے ساتھ رفق ونرمی کا معاملہ کرنے کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم   نے دعا فرمائی ہے، چنانچہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے:
’’سمعت من رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، يقول في بيتي ہذا: اللّٰہم، من ولي من أمر أمتي شيئًا فشق عليہم، فاشقق عليہ، ومن ولي من أمر أمتي شيئًا فرفق بہم، فارفق بہ ۔‘‘(۱۰)
ترجمہ: ’’میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے میرے اس گھر میں فرماتے سنا: اے اللہ! جس شخص کو میری اُمت کے کسی معاملہ کا والی وحاکم بنایا جائے، پھر وہ ان پر سختی کرے تو آپ بھی اس پر سختی کریں، اور میری امت میں سے جس کو کسی معاملہ کا والی بنایا جائے اور وہ ان سے نرمی کرے تو آپ بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائیں۔‘‘

خلاصۂ کلام

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن وسنت میں لوگوں کے ساتھ نرم خوئی ونرم مزاجی سے پیش آنے کی بہت اہمیت وفضلیت بیان کی گئی ہے، اور بلاوجہ سخت برتاؤ کرنے، پُرتشدد لہجہ اپنانے اور دوسروں کے ساتھ تندخوئی سے پیش آنے کی ممانعت آئی ہے، لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   پر عمل کرتے ہوئے نرم مزاجی کی اعلیٰ صفت کو اپنائیں۔

حواشی وحوالہ جات

۱- صحيح البخاري، (۸/۸۵)، کتاب الدعوات، رقم الحديث: ۶۴۰۱، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط: ۱۴۲۲ھ
۲- مسند أحمد، (۲۰/۳۴۶)، مسند أنس بن مالک رضي اللہ عنہ، رقم الحديث: ۱۳۰۵۲، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط: ۱۴۲۱ہ- ۲۰۰۱ م
۳- صحيح البخاري، (۸/۱۴)، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء، رقم الحديث: ۶۰۳۸
۴- صحيح مسلم، (۱/۳۸۱)، کتاب المساجد، باب تحريم الکلام في الصلاۃ، رقم الحديث: ۵۳۷، الناشر: دار إحياء التراث العربي- بيروت
۵- صحيح مسلم، (۴/۲۰۰۳)، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، رقم الحديث: ۲۵۹۳
۶- صحيح مسلم، (۴/۲۰۰۴)، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، رقم: ۲۵۹۴
۷- سنن الترمذي، (۳/۴۳۵)، أبواب البر والصلۃ، باب ما جاء في الرفق، رقم الحديث: ۲۰۱۳، الناشر: دار الغرب الإسلامي- بيروت، ط: ۱۹۹۸م
۸- صحيح مسلم، (۴/۲۰۰۳)، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، رقم الحديث: ۲۵۹۲
۹- مسند أحمد، (۴۰/۴۸۸)، مسند النساء، رقم الحديث: ۲۴۴۲۷
۱۰- صحيح مسلم، (۳/۱۴۵۸)، کتاب الإمارۃ، باب فضيلۃ الإمام العادل، رقم الحديث: ۱۸۲۸

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین