بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخاطَبت اور گفتگو کے آداب! اور سورۂ حجرات میں علمی وتفسیری نکات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخاطَبت اور گفتگو کے آداب!

اور سورۂ حجرات میں علمی وتفسیری نکات

قَالَ تَعَالٰی:
’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔‘‘ 

l جس کا تعلق تقدیم سے ہے، اللہ جل شانہٗ بھی اُسے مقدم لے کر آئے: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ۔‘‘ 
l ابتدائی آیات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب کی رعایت کرنے کا حکم ہے۔ مسجدِ نبوی میں اس ادب کی بجاآوری ضروری ہے۔ نیز اس بات کا بھی خیال کرنا ضروری ہے کہ اپنی رائے کو قرآن وسنت پر مقدم نہ کرے(۱)، جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ: پیش آمدہ مسائل کا حل کیسے دریافت کروگے؟ تو انہوں نے اجتہاد بالرائے کو قرآن و حدیث سے مؤخر کیا۔(۲) حتیٰ کہ علماء کرام نے روضۂ اقدس ( علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ) پر بلند آواز سے سلام عرض کرنے کو بھی مکروہ لکھا ہے۔ (۳) 
l پہلی آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں بیان ہوئیں: ’’ سَمِیْعٌ‘‘ اور ’’عَلِیْمٌ‘‘ جو سورت کے مضمونِ جملہ سے حد درجہ مناسبت رکھتی ہیں، بایں طور کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے، لہٰذا اپنی آواز کو بلند مت کرو، بلکہ پست رکھو، اللہ تعالیٰ علیم ہے، لہٰذا کوئی شخص کسی دوسرے پر ہنسی نہ کرے، اور اللہ تعالیٰ سمیع ہے، لہٰذا ’’وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا‘‘ کوئی شخص کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت نہ کرے۔ 
اسی طرح لوگوں میں سے کون مفسد اور کون مصلح ہے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، لہٰذا ’’فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ‘‘ اور برا گمان کرنے والوں کے گمان پر بھی اللہ تعالیٰ مطلع ہے، لہٰذا ’’اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ‘‘ اس لیے کہ وہ صفتِ علم سے متصف ہے۔
l وعید: ’’ لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ 
اور وعدہ: ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔‘‘ (۴) 
وعید: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ أَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۔‘‘ 
اور وعدہ : ’’وَلَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ إِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔‘‘ 
l وعید کو مقدم کیا، چونکہ دفعِ مضرت‘ جلبِ منفعت پر مقدم ہے، اسی بنیاد پراگلی آیت میں مغفرت کو اجرِ عظیم پر مقدم کیا ہے: ’’التخلّي ثم التحلّي‘‘
l آیت: ’’ لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ‘‘ میں آواز بلند کرنے سے منع کیا اور ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ میں پست آواز کی ترغیب دی گئی، اس میں معنی و مفہوم اگرچہ متحد ہے، مگر اسلوبِ کلام مختلف ہے کہ مثبت اور منفی دونوں طریقہ سے بات سمجھا کر اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا، اور اس میں ایک فقہی قاعدے کی طرف اشارہ ہوگیا کہ ترکِ حرام و مکروہ پر انسان ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
l سورت میں جو آیاتِ مبارکہ رجاء وامید سے وابستہ ہیں، مثلاً: ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘ (۵) یہ وہ تحبیب ہے جس کی طرف ’’حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِکُمْ۔‘‘ میں اشارہ کیا گیا۔ 
اور جن آیات میں نہی اور وعید آئی ہے، جیسے:’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ ‘‘ ، ’’لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ‘‘ ، ’’وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا‘‘ یہ وہ تکریہ ہے جس کی طرف ’’ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ‘‘ میں اشارہ کیا گیا، گویا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک پسند ونا پسند کا معیار اللہ کا امر اور نہی ہے ، لہٰذا تحبیب اور تکریہ‘ تشریعی اور تکوینی دونوں ہوسکتی ہیں۔
l بظاہر دوسری آیت میں ’’لَاتَرْفَعُوْا‘‘ اور ’’لَا تَجْھَرُوْا‘‘ دونوں مترادف المعنی معلوم ہوتے ہیں، چونکہ نہی عن رفع الصوت اور نہی عن الجہر برابر ہیں، البتہ نظر و فکر کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلی آیت خاص ہے، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے ہوں، اور دوسری آیت عام اور مطلق ہے، خواہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائے ہوئے ہوں، خواہ کلام کی ابتداء ہو یا وسطِ کلام ہو۔ (۶) 
l واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام انبیاء کرامعلیہم السلام کو ان کے نام سے مخاطب کیا ، مثلاً: ’’یَازَکَرِیَّا‘‘، ’’یَا یَحْیٰی‘‘، ’’یَا عِیْسٰی ‘‘، ’’یَا مُوْسٰی ‘‘، لیکن اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نام سے مخاطب نہیں کیا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے القاب : ’’نبی‘‘، ’’ رسول‘‘، ’’مزمل‘‘، ’’مدثر‘‘ وغیرہ سے خطاب فرمایا، جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام ومرتبہ کے ساتھ اُمت کے لیے رہنمائی بھی ہے۔ 
l اوامرو نواہی کے ساتھ ساتھ ان کی دلیل و علت کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، مثلاً: ’’لَاتَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ‘‘ کی علت ’’ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ ذکر فرمائی، (۷) 
آیت: ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا إِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا‘‘ کو ’’ أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ‘‘ سے معلل کیا۔ (۸) 
آیت: ’’فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْا‘‘ کی وجہ ’’ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ‘‘ بیان فرمائی: ’’ لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ‘‘ کی علت ’’عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ‘‘ بیان فرمائی۔ (۹) 
اسی طرح ’’اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ‘‘ حکم /امر کی آگے خود علت بیان کی: ’’ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ‘‘ (۱۰) 
اس طرح کے اسلوب میں ایک دقیق اشارہ بھی ہے کہ داعی کو اپنی گفتگو میں اس اسلوبِ خاص کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
l آیت :’لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم کلامی اور گفتگو کا طریقہ وسلیقہ سکھلایا گیا ہے، یہ ادب الحوار ہے، اور آیت ’’ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ‘‘ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑوس میں رہنے کے آداب بیان کیے، یہ ادب الجوار ہے۔
l عقلِ سلیم قرآن و حدیث کے عین موافق ہے۔ انسانی عقل بھی خلافِ ادب امور سے مانع ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ أَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۔‘‘ 
l ’’ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا‘‘ سے اشارہ ملتا ہے کہ میڈیا کے حوالے سے انسان کو ہمہ تن بیدار مغزی و ہوشیاری سے کام لینا چاہیے (۱۱) ، اور ان کی توثیق و تصدیق میں احتیاط برتنی چاہیے، کیونکہ ذرائع ابلاغ جھوٹ، شر وفساد کی نشریات کو معاشرے میں اتنا عام کر چکے ہیں کہ الامان والحفیظ، جہاں پر تجارتی یا سیاسی فوائد یا پھر اسلام دشمنی کی بنا پر اسلام، مسلمان، اور علماء کے خلاف زبان درازی عام ہے، میڈیا جب چاہے معمولی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے، اور جب چاہے بڑی سے بڑی چیز سے صرفِ نظر کرکے اس کو معمولی بنادے ۔ (۱۲)
l اللہ جل شانہٗ اپنے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پسند ناپسند کا خیال فرماتا ہے، جیسا کہ سورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام سے متعلق اوامر ونواہی سے معلوم ہوتا ہے۔
l حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی متواضع ہونا اور صبر و استقامت سے کام لینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حق میں بھی خاموش رہے تو اللہ جل شانہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و کمال بیان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا حکم دیا۔ 
l ’’ أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان غلط فہمی میں کسی کو تکلیف دے سکتا ہے، البتہ جان بوجھ کر نہیں۔ نیز یہ کہ وہ اپنی غلطی پرنادم ہوتا ہے، اور جلد بازی پشیمانی کا سبب ہے۔نیز اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ گواہ کے لیے عادل ہونا شرط ہے اور فاسق کی گواہی قبول نہیں۔
l صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اعمال کی حفاظت کے حریص تھے، مال و دولت کے مشتاق نہیں تھے ،اسی لیے اُن کو حبطِ اعمال سے ڈرایا گیا: ’’ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۔‘‘ 
l ’’وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ‘‘ آیاتِ قرآنی سے دعا کا استنباط، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْإِیْمَانَ وَزَیِّنْہُ فِيْ قُلُوْبِنَا وَکَرِّہْ إِلَیْنَا الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ۔‘‘ (۱۳) 
l مذکورہ بالا آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،نیز ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ سے عمومی طور پر صحابہؓ اور خاص طور پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے نزولِ آیات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخاطب کے موقع پر اپنی آوازیں نہایت پست رکھیں۔ 
l قرآن مجید میں اکثر ’’ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ أٰمَنُوْا‘‘ سے خطاب کرکے تعمیلِ حکم یا اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ اس خطاب میں جو نصیحت ہے اس کاتقاضا ایمان کررہا ہے، اس لیے فرمایا: ’’بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ‘‘ اس کی مثال حدیث میں ہے کہ: ’’ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ‘‘، یہ امر کی مثال ہے اور نہی کی مثال: ’’مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہٗ‘‘ہے۔
l جملہ انشائیہ کی’’ ابتدا‘‘، ’’ندا‘‘ اور ’’تنبیہ‘‘ سے ہے، جیسے: ’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا‘‘ (۱۴) اور جملہ خبریہ کی ابتدا تاکید سے آئی ہے، جیسے: ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ‘‘، ’’ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘ وغیرہ۔
l ’’فَقَاتِلُوْا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰی تَفِيْٓئَ إِلٰٓی أَمْرِ اللّٰہِ‘‘ اس آیت میں اصلاح کی غرض سے قتال کا حکم فرمایا (اگر چہ معمولی تادیبی لڑائی مراد ہے) تاہم اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کا بنیادی مقصد بھی اصلاح ہے، اِفساد فی الارض نہیں ہے، جیسا کہ بعض لو گ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔
l پہلے مؤمنین کو بدگمانی سے اجتناب کا حکم دیا، پھر فرمایا: ’’ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ‘‘ اس لیے کہ بسااوقات وہ گمان سچا ہوتا ہے، لہٰذا ہمیشہ حسنِ ظن رکھتے ہوئے انسان کو غافل نہیں رہنا چاہیے، اسی کی طرف حدیث شریف میں اشارہ ہے: ’’لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَّاحِدٍ مَّرَّتَیْنِ ۔ ‘‘ 
تفسیر القرآن بالقرآن 
l ’’ إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ أَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ‘‘ اسی مفہوم سے متعلق سورۂ براء ۃ میں آیت ہے: ’’اَلْأَعْرَابُ أَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّأَجْدَرُ أَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ ۔‘‘ 
اس سورت میں فرمایا: ’’ لَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا :’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَائَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَائِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا‘‘ (۱۵) 
l ’’وَلَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ إِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ۔‘‘ دوسری جگہ ذکر ہے: ’’وَکَانَ الْإِنْسَانُ عَجُوْلًا۔‘‘ اور ’’وَ عَسٰٓی أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۔‘‘
l ’’ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ أَنْ ھَدٰکُمْ لِلْاِیْمَانِ‘‘ اس کا مرکزی مضمون یہ آیت ہے: ’’ إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ ۔‘‘ 
l ’’لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِيْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ‘‘ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری ہر دل چاہی بات کی اطاعت کرنے لگ جائیں تو تم مشقت میں پڑجاؤگے۔ اسی بات کو اللہ جل شانہٗ نے دوسرے اسلوب سے یوں بیان کیا کہ :’’ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَہْوَائَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ‘‘ (۱۶) 
 قرآنی آیات کی تشریح حدیث سے
l ’’ فَقَاتِلُوْا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰی تَفِيْئَ إِلٰٓی أَمْرِ اللّٰہِ‘‘ اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، تو ایک شخص نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! میں اپنے بھائی کی مدد کرتا ہوں، جب کہ وہ مظلوم ہو، ذرا بتلائیے کہ جب میرا بھائی ظالم ہو تو اس کی بھلا کیسے مدد کروں؟ تو فرمایا کہ: اسے اس ظلم سے روک کر، یہی اس کی مدد ہے۔ (۱۷) 
l ’’ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘ حدیث میں ہے کہ:’ ’ إَیَّاکُمْ وَالظَّنَّ ،فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ، وَلَاتَحَسَّسُوْا، وَلَاتَجَسَّسُوْا، وَلَاتَنَاجَشُوْا، وَلَاتَحَاسَدُوْا، وَلَاتَبَاغَضُوْا، وَلَاتَدَابَرُوْا، وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا۔‘‘ (۱۸) 
l ’’ وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا‘‘ ، غیبت کی تشریح یا تعریف حدیث میں یوں وارد ہوئی ہے کہ : ’’ أَتَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَۃُ ؟ قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ ، قَالَ: أَنْ تَذْکُرَ أَخَاکَ بِمَا فِیْہِ، قَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ فِيْ أَخِيْ مَا ذَکَرْتُ؟ قَالَ: إِنْ ذَکَرْتَ مَا فِیْہِ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ مَاذَکَرْتَ فَقَدْ بَہَتَّہٗ۔‘‘
l ’’ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا أَسْلَمْنَا ‘‘ حدیث میں ہے کہ : ’’بے شک اللہ جل شانہ تمہاری صورتوں اور اموال و دولت کی طرف التفات نہیں کرتا، بلکہ وہ تمہارے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (۱۹) 
l ’’وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘ ، ’’ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘ ماقبل میں مذکور تمام معاصی کا تعلق حقوق العباد سے ہے، جن میں توبہ کی قبولیت کے لیے چوتھی شرط کا تحقُّق بھی ضروری ہے اور وہ ہے تحلُّل یا تحالُل۔ حدیث میں ہے: ’’ مَنْ کَانَتْ عِنْدَہٗ مَظْلَمَۃٌ مِنْ أَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ أَوْ مَالِہٖ فَلْیَتَحَلَّلْہُ الْیَوْمَ۔‘‘
l ’’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی‘‘، حدیث میں ہے کہ: ’’ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَأَبَاکُمْ وَاحِدٌ وَلَافَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰی أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلٰی عَرَبِيٍّ وَلَا أَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ وَلَاأَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوٰی۔‘‘ (۲۰) 
l تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے: ’’وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ‘‘ کے ذیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور قول آپس کی اُخوت اور محبت کے لیے بہترین رہنمائی ہے، فرمایا: ’’ثَلاَثَۃٌ تَجْلِبُ الْمَوَدَّۃَ فِيْ قَلْبِ أَخِیْکَ، أَنْ تَبْدَئَہٗ بِالسَّلَامِ، وَأَنْ تُوْسِعَ لَہٗ فِيْ الْمَجْلِسِ، وَأَنْ تُنَادِیَہٗ بِأَحَبِّ الْأَسْمَائِ إِلَیْہِ۔‘‘ ورنہ کسی کو برے القاب سے پکارا جائے تو دشمنی پیدا ہوتی ہے۔
l ’’لَا تُقَدِّمُوْا‘‘ عام ہے، ’’لَا تَرْفَعُوْٓا‘ ‘ اور ’’لَا تَجْھَرُوْا‘‘ اس سے خاص ہے۔نبی عام ہے، رسول خاص ہے، ’’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ‘‘ کے ذریعے خطاب عام ہے، ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کے ذریعے خطاب خاص ہے، اسی طرح ’’شُعُوْبًا‘‘ عام اور قبیلہ خاص، اسلام عام اور ایمان خاص، نعمت عام اور فضل خاص، معصیت و فسق عام ہے اور کفر خاص ہے۔ (۲۱) 
l بلیغ انداز میں بیان کردہ اضداد
l علم وجہالت، طاعت ومعصیت، اسلام وکفر، حرب وصلح ، جہر وخفض، ظلم وعدل، ذَکر واُنثیٰ۔
l توبہ کی اہمیت بذریعہ دعوت و ترغیب: ’’وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘ ، ’’ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔‘‘ اس لیے کہ صرف ترہیب اور وعید مایوسی کاسبب بنتی ہے۔ (۲۲) 
l چونکہ آیت:’’ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا‘‘ میں جب اَعراب کے ایمان کی نفی کی گئی تو ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ پھر مومن صادق کون ہے؟ تو ارشاد فرمایا گیا: ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ مؤمن وہ ہے جو ایمان لا ئے اور ایمان کی دلیل یہ ہے کہ ’’لَمْ یَرْتَابُوْا‘‘ شک نہ کرے اور شک نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ’’جَاھَدُوْا بِأَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کیونکہ منافق اور شاک آدمی جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے کتراتا ہے ۔
l ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘ آیت میں مذکور چاروں الفاظ یعنی ایمان، اُخوت، اصلاح، اور تقویٰ آپس میں کمال درجے کی مناسبت رکھتے ہیں، اس طرح کہ ایمان اُخوت کا داعی ہے، اُخوت اصلاح کا تقاضا کرتی ہے، اصلاح تقویٰ کی متقاضی ہے، اور یہ سب رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہیں ۔ 
l پھر اس آیت کے بعد متصل اگلی آیاتِ مبارکہ میں وہ عاداتِ شنیعہ ذکر کیں جو بالکلیہ ان چاروں کے منافی ہیں، چنانچہ ’’ سُخْرِیَّۃ، تَنَابُز، لَمْز، سُوْء الظَّن، تجسُّس، غیبۃ‘‘ یہ چیزیں جس طرح اُخوت و اصلاح کے منافی ہیں، اسی طرح ایمان اور تقویٰ کے بھی منافی ہیں۔
ثلاثیات 
اس سورت میں غور و خوض کرنے سے الحمدللہ! پچاس کے قریب ثلاثیات سامنے آئیں، یعنی وہ کلمات جوسورت میں لفظی یا معنوی طور پر تین بار مکرر آئے ہیں۔
واضح رہے کہ تین کا عدد طاق ہونے کے ساتھ ساتھ شریعتِ مطہرہ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دعا، ذکر واذکار، نماز کی تسبیحات، اور رقیہ وغیرہ کئی مواقع پر اس عدد کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مواقع پر استنباط کا یہ عمل ممکن ہے، جس سے ایک طرف قرآن کے اعجازِ عددی کا ایک پہلو سامنے آتاہے، تو دوسری طرف کسی بھی سورت یا آیت کے مضمون کاایک لطیف انداز سے احاطہ ممکن ہوتا ہے، جس سے مضمون کا خلاصہ آسانی سے ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ 
آیات میں موجود کلمات یا جملوں کے تعدد وتکرار کی بنیاد پر اُن کے درمیان تقابل اور مقارنت کی صورت میں نکات اور فوائد سامنے آتے ہیں، نیز طلبہ اور مدرسین کے لیے نصوص میں غور و فکر اور طریقۂ تشریح کے حوالے سے کچھ رہنمائی بھی حاصل ہوجاتی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ!
 رضی اللہ عنہ :-سورۃ الحجرات کا ماقبل والی سورۃ القتال اور سورۃ الفتح سے ربط یہ ہے کہ: سورۃ القتال میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو جہاد کا حکم دیا، نیز اپنی مدد و نصرت کا وعدہ فرمایا :’’ إِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ‘‘ اس کا لازمی نتیجہ فتح و نصرت تھا، جس کا وعدہ سورۃ الفتح میں یوں فرمایا: ’’إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامیابی سے نوازا اور شان و شوکت اورقوت سے سرفراز کیا ،جیسا کہ فرمایا: ’’کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ‘‘ ان سب کے بعد مسلمانوں کو ایک ایسی سوسائٹی و اسلامی معاشرے کی ضرورت درپیش ہوئی جو اُخوت اور بھائی چارگی کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو، جس میں ہر شخص کے حقوق کی رعایت ہو، جہاں ہرشخص کی جان و مال اورعزت وآبرو کا تحفظ ہو، نیز اس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نشست وبرخواست، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طرزِ تخاطب اور حوار وجوار کے آداب کا لحاظ رکھا جائے، مذکورہ سورت میں انہی اصول و قواعد کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں سورتوں کی ترتیب اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’إِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجًا‘‘ کی طرح ہے۔
w:-واضح رہے کہ قرآن کے مضامین تین ہیں: ۱ :- توحید، ۲ :- رسالت ،۳ :- قیامت۔ اس سورت میں تینوں کا بیان ہے، پہلے دونوں واضح ہیں، البتہ تیسرا وعد وعید ’’لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘ سے ثابت ہے۔
آیت: ’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔‘‘ میں سات ثلاثیات ہیں: 
e:- ’’أٰمَنُوْا‘‘ : ’’إیمان‘‘ کا مادہ تین صیغوں کے ساتھ آیا ہے: الف: فعل جیسے: ’’أٰمَنُوْا‘‘۔ ب: مصدر جیسے: ’’الإیمان‘‘۔ ج: اسم مشتق، اسم فاعل جیسے:’’المؤمنون ‘‘
 رضی اللہ عنہما :- کلمۂ اسلام بھی تین مرتبہ وارد ہوا ہے: ۱ :- ’’وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا أَسْلَمْنَا‘‘ ۔۲ :- ’ یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ أَنْ أَسْلَمُوْا‘‘، ۳ :- ’’ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَکُمْ‘‘ مطلق ایمان یعنی ’’آمن‘‘ کا مادہ مجموعی طور پر پندرہ دفعہ آیا ہے، تین کو پانچ سے ضرب دیں تو پندرہ ہی بنتا ہے، گویا کہ یہاں بھی تین کا عدد ملحوظ ہے، اس طرح اسلام کے مقابلے میںیہاں ایمان کا تکرار لفظاً بھی زیادہ ہوا اور معنوی لحاظ سے بھی ایمان اسلام سے اوپر درجہ کا تقاضا کرتا ہے۔
 البتہ مصدر ’’الإیمان ‘‘چار دفعہ تکرار سے آیا ہے:۱ :- نعمت کے طور پر: ’’حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ‘‘۔۔۔ ’’فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً ‘‘، ۲ :- تقاضے کے طور پر: ’’بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ‘‘ ، ۳ :- ابطالِ دعویٰ کے طور پر: ’’وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ‘‘ ۴ :- احسان کے طور پر : ’’بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ أَنْ ھَدٰکُمْ لِلْإِیْمَانِ ‘‘
t:- ’’لَا تُقَدِّمُوْا‘‘: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام سے متعلق نہی کے صیغہ کے ساتھ تین کلمات آئے ہیں: ۱:-’’لَا تُقَدِّمُوْا‘‘ ، ۲ :- ’’لَا تَرْفَعُوْٓا‘‘ ، ۳ :- ’’لَا تَجْھَرُوْا‘‘ 
y:- پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا نام نامی تین دفعہ مذکور ہے: ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔‘‘
u:-’’بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ‘‘: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا لقبِ رسالت لفظ ’’رَسُوْلِہٖ‘‘ اسم جلالہ پر عطف کے ساتھ تین جگہوں پر آیا ہے: ۱ :- ’’لَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘، ۲ :- ’’وَإِنْ تُطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْئًا‘‘، ۳ :- ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔‘‘
i:- ان آیات سے ایک ثلاثی فائدہ سامنے آیا، اللہ اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان اطاعتِ باری تعالیٰ اور اطاعتِ رسول کا تقاضا کرتا ہے، اور اطاعت‘ عدمِ تقدم یعنی احترام کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میں تینوں جملوں کا آپس میں ربط آگیا۔
:- پوری سورت میں صفتِ علم تین طرح سے آیا ہے: ۱ :- متاخر: ’’سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ‘‘، ۲:-متقدم: ’’عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘، ۳ :- منفرد: ’’بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ‘‘
 :-’’وَاتَّقُوْا اللّٰہَ‘‘: یہ جملہ بھی سورت میں تین مرتبہ وارد ہوا ہے، کیونکہ گناہوں سے بچنے اور فرمانبرداری کا مدار تقویٰ ہی پر ہے، عربوں کا مقولہ ہے: ’’اتَّقِ اللّٰہَ اِفْعَلْ کَذَا ، وَلَا تَفْعَلْ کَذَا‘‘ اور چونکہ سورت میں جگہ جگہ معصیت سے رکنے کا حکم ہے، اسی لیے تقویٰ کا حکم بھی سورت کے اول، درمیان، اور آخر میں مکرر آیا ہے: ۱ :- سورت کے شروع میں: ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ۔‘‘ ۲ :- سورت کے درمیان میں: ’’وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘، اور ۳:-نواہی کے آخر میں: ’’أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘
:- چونکہ تقویٰ کا محل ’’قلب‘‘ ہے، اس کے مدِ مقابل ’’قُلُوْب‘‘ کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے: ۱:-’’أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی‘‘ ، ۲ :- ’’وَزَیَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِکُمْ ‘‘ ، ۳ :- ’’وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ‘‘
d:-’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ‘‘ آیتِ مذکورہ کے چار کلمات : ۱:-’’الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘، ۲ :- ’’إِخْوَۃٌ‘‘ ،۳:- ’’أَصْلِحُوْا‘‘ ، ۴ :- ’’اتَّقُوْا اللّٰہَ‘‘ پوری سورت میں تین تین بار مکرر آئے ہیں۔
f:-’’الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘: ۱ :- ’’وَإِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا‘‘، ۲ :- ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘، ۳ :- ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔‘‘ 
g:-مادۂ ’’إخوۃ‘‘ دو مرتبہ اسی آیت ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ‘‘ میں اور تیسری دفعہ ’’أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ۔‘‘
h:-’’بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ‘‘ میں تین قراء تیں منقول ہیں: ۱ :- ایک یہی جمہور کی مشہور قراء ت ’’أَخَوَیْکُمْ‘‘ ہے۔ ۲:-ابنِ مسعودؓ اور حسنؒ کی قراء ت ’’إِخْوَانِکُمْ‘‘ اور ۳:- ابن سیرینؒ کی قراء ت: ’’إِخْوَتِکُمْ‘‘ (۲۳) 
j:-پھر لفظ ’’ أخ‘‘ کو تینوں صیغوں یعنی ۱ :- مفرد، ۲ :- تثنیہ،۳ :- جمع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے: ’’أخ‘‘ ، ’’إخوۃ‘‘، ’’أخویکم‘‘۔
فائدہ: ۔۔۔۔ ۔گویا کہ صرف لفظِ ’’ أخ‘‘ سے متعلق ثلاثیات تین ہوگئیں۔
k:-’’فَأَصْلِحُوْا‘‘، ۱:-’’وَإِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا‘‘ ۔۔۔۔ ۲:-’’فَإِنْ فَآئَتْ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ‘‘ ۔۔۔۔ اور ۳ :- ’’فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ‘‘ ۔
اور ’’اتَّقُوْا‘‘ ماقبل میں گزرچکا ہے۔
l:- ’’ظاہر ہے کہ رحمت‘ اللہ ہی کی طرف سے ہوگی، اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ کا صفتی نام ’’رَحِیْمٌ‘‘ تین مرتبہ سورت میں آیا ہے۔
:-آیت: ’’لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ‘‘ ، ’’ وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ‘‘ میں تین بری خصلتوں سے رُکنے کا بیان ہے۔ واضح رہے کہ تینوں جہری ہیں، آمنے سامنے ہوتے ہیں۔
2):- اور اس کے مابعد والی آیت میں بقیہ تین بری عادات (یعنی سوء ظن، تجسس،اور غیبت) سے اجتناب کا حکم ہے۔ واضح رہے کہ یہ تینوں سری (پیٹھ پیچھے) ہیں۔
2!:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک سورت میں تین طریقوں سے کیا گیا، خطاب کے صیغے سے: ۱:-’’إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ‘‘ ، ۲ :- غائب کے صیغے سے: ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ ۳ :- صیغۂ متکلم سے: ’’قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَکُمْ ‘‘
2@:- سورت میں اَعراب کی تین ایسی عادات کا تذکرہ ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے، جو درج ذیل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام سے پکارنا: ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ‘‘ ، ایمان کا دعویٰ کرنا: ’’قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان جتلانا: ’’قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَکُمْ‘‘
2#:- اس سورت کے باریک اور لطیف نکات میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جس طرح لفظِ فسق کا مادہ تین مرتبہ مکرر آیا، تو اس کے مقابلہ میں اللہ کی صفتِ رحمت کا تین مرتبہ ذکر ہوا، دو بار صفتِ مغفرت کے ساتھ، اور ایک بار صفتِ توبہ کے ساتھ، جو کہ اس طرح ہے: ’’إِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا‘‘ ، ’’وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ‘‘، ’’بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ‘‘، ’’وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘، ’’إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ ، ’’إِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘
2$:- اسی طرح مغفرت کا مادہ بھی تین مرتبہ آیا ہے: ۱:- ’’لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌعَظِیْمٌ‘‘ ، ۲:-’’وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘، ۳ :- ’’إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ نیز ’’رَحِیْمٌ‘ ‘کا لفظ بھی تین مرتبہ آیا ہے،جیسا کہ ذکر ہوچکا۔
2%:- لفظِ صوت کا مادہ تین بار استعمال ہوا ہے: ’’لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ‘‘، ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‘‘۔
2^:-پوری سورت میں کلمۂ خیر تین بار وارد ہوا ہے: ۱ :- ’’وَلَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ إِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ‘‘، ۲ :- ’’عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ ‘‘، ۳ :- ’’عَسٰٓی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ‘‘۔
فائدہ: ۔۔۔۔۔ ’’وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِکُمْ‘‘، ’’وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ‘‘ اس آیت میں تین ثلاثیات ہیں:
2&:-۱ :- تحبیب : ’’حَبَّبَ‘‘ ۲ :- تزیین: ’’زَیَّنَ‘‘ اور ۳ :- تکریہ: ’’کَرَّہَ‘ ‘
2*:- تین چیزوں کو اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں مکروہ بنادیا: ۱:- کفر،۲:- فسوق اور ۳:-عصیان۔
2(:- آیت میں تین انتقالات ہیں: اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف: ۱ :- کفر، ۲ :- فسوق اور ۳:-عصیان۔(۲۴) خاص سے عام کی طرف: کفر خاص ، معصیت عام ہے۔(۲۵) اور مخاطب سے غائب کی طرف انتقال ہے، پہلے ’’إِلَیْکُمْ‘‘ اور آخر میں ’’أُولٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ‘‘ فرمایا۔
3):-ابتدائی تین آیات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوقِ احترام اور ادب سے متعلق ہیں ۔ 
3!:- سورت میں تین آیات مؤمنین سے متعلق ہیں:۱ :-’’ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘ ، ۲ :- ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ‘‘ ، ۳ :- ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ۔‘‘ 
3@:-تین آیات اَعراب کے احوال اور ان کی تأدیب وتربیت سے متعلق ہیں: ۱ :- ’’قَالَتِ الْأَعْرَابُ أٰمَنَّا‘‘ ، ۲ :- ’’قُلْ أَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰہَ بِدِیْنِکُمْ‘‘ ، ۳ :- ’’یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ أَنْ أَسْلَمُوْا۔‘‘ 
3#:- مؤمنین کو خطاب کرنے میں یعنی’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا‘‘ کے بعد تین جگہوں پر صیغۂ نہی وارد ہوا ہے: ۱ :- ’’لَا تُقَدِّمُوْا‘‘ ، ۲ :- ’’لَا تَرْفَعُوْٓا‘‘، ۳ :- ’’لَا یَسْخَرْقَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ‘‘ جس طرح دوجگہوں پر امر کا صیغہ آیا ہے، کل پانچ مرتبہ سورت میں یہ خطاب آیا ہے۔
3$:- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے تین اوصاف ’’ أُولٰٓئِکَ‘‘ کے ذریعہ سے ۱ :- ’’ أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی‘‘ جو بمنزلہ ’’أُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ ہے، پھر فرمایا: ۲ :- ’’ أُولٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ‘‘ اور ۳ :- آخر میں فرمایا: ’’أُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ 
3%:- اس سورتِ مبارکہ میں سچے مومن کی تین صفات بیان کی فرمائی گئی ہیں: ۱ :- ’’اٰمَنُوْا‘‘، ۲:-’’لَمْ یَرْتَابُوْا‘‘، ۳ :- ’’جَاہَدُوْا۔‘‘ 
3^:- پوری سورت کا مدار تین چیزوں پر ہے: ۱ :- حق اللہ، ۲ :- حق الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور ۳ :- حق العباد ۔
3&:- انواعِ معاصی کی تینوں قسمیں :۱:- معصیۃ اللسان : ’’لَایَسْخَرْ، ’’لَایَغْتَبْ، وغیرہ ، ۲:-معصیۃ الجوارح،: ’’أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ ‘‘ ، ’’وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا‘‘۔ ۳:-معصیۃ القلب : ’’إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘‘۔
3*:- قوم کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے:۱ :- ’’أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ‘‘، ۲،۳ :- ’’لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ۔ ‘‘
3(:- قوم کا لفظ تینوں اِعرابوں رفع، نصب، جر کے ساتھ آیا ہے: ۱ :- ’’أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ‘‘، ۲،۳ :- ’’لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ۔‘‘
4):- سورت میں مجموعی طور پر اصل اور نسل سے متعلق تین چیزوں کا ذکر آیا ہے: ۱:- قوم، ۲:- شعب ، ۳ :- قبیلہ۔
4!:- کلمۂ علم مذکورہ آیت میں تین مرتبہ آیا ہے: ۱ :- ’’قُلْ أَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰہَ بِدِیْنِکُمْ‘‘ ، ۲،۳ :- ’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِيْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِيْ الْأَرْضِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ‘‘ 
4@:-’’حبب‘‘ کا مادۃ تین مرتبہ آیا ہے: ۱ :- ’’وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ‘‘، ۲ :- ’’إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ‘‘، ۳ :- ’’أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ‘‘
4#:- عدل وانصاف معنی کے لحاظ سے تین دفعہ مذکور ہے: ۱ :- ’’فَإِنْ فَآئَتْ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ‘‘، ۲ :- ’’وَأَقْسِطُوْا‘‘ ، ۳ :- ’ ’إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ‘‘۔
4$:-’’الْمَنّ‘‘ کا مادہ بھی اس آیت میں تین دفعہ آیا ہے: ۱ :- ’’یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ أَنْ أَسْلَمُوْا‘‘، ۲:- ’’ قُلْ لَّاتَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَکُمْ‘‘، ۳ :- ’’بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ أَنْ ھَدٰکُمْ لِلْإِیْمَانِ‘‘
4%:-’’کثر‘‘ کا مادہ بھی تین دفعہ آیا ہے: ۱ :- ’’ أَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ‘‘ ، ۲ :- ’’لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِيْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ‘‘، ۳ :- ’’اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ‘‘
4^:-’’قَالَتِ الْأَعْرَابُ أٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ‘‘ اس آیت میں تین مرتبہ قول کا مادہ اور تین مرتبہ ایمان کا مادہ مذکور ہے۔
4&:-’’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ إِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی‘‘: انسانی پیدائش کے تین طریقے ہیں: ۱:-بغیر باپ کے جیسے حضرت حواء، ۲ :- بغیر ماں کے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، ۳ :- باقی ساری انسانیت ماں باپ سے۔
4*:- عمل کا مادہ تین جگہ پر مذکور ہے: ۱ :- ’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ‘‘، ۲ :- ’’لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْئًا‘‘ ، ۳ :- ’’وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔‘‘
l سورۂ حجرات میں غور وفکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری سورت اُخوۃِ اسلامی اور وحدتِ ایمانی کے اِردگر د گھومتی ہے، اوریہ آیت تقریباً سورت کے بیچ میں وارد ہے، اس سے پہلے اور اس کے بعد والی آیات بھی اُخوت و وحدت سے متعلق ہیں، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: ابتدا میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور حسنِ تعامل کا ذکر ہے ، ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے لیے وحدت کی علامت ہیں ، جیسے کہا جاتا ہے : ہمارا رب بھی ایک، نبی بھی ایک، تو پھر اختلاف کیونکر؟ اور اس سے بڑوں کے احترام کا درس ملتا ہے، جیسے: اُمراء ، خلفاء، عظماء، علماء ، اس لیے کہ کوئی بھی اسلامی معاشرہ ان سے خالی نہیں، اور یہی باہمی احترام اسلامی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
l آگے فرما یا: ’’ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا‘‘ اس میں وحدتِ اسلامی کو قائم رکھنے کے لیے اس کو لاحق خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا ہے، اس کے سدِ باب کے لیے ایسی خبروں کی تحقیق کا حکم دیا، تاکہ کسی وقت یہ اُمت کے نزاع اور آپس کے جھگڑوں کا سبب نہ بنے۔(۲۶) 
l اب اللہ نہ کرے، اگر کسی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی آگ لگ گئی، اب اس آگ کو کیسے بجھا یا جائے، تاکہ وحدت برقرار رہے، تو اگلی آیت میں فوری اصلاح کا حکم دیا، فرمایا: ’’وَإِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا۔‘‘(۲۷) 
l اور اس صلح اور امن کو پا ئیدار کھنے کے لیے ’’أَقْسِطُوْا‘‘ کا حکم فرمایا، اس لیے کہ اگر اس صلح میں عدل وانصاف نہیں ہوگا تو برقرار نہیں رہے گا۔
 یہ ساری ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘ والی آیت سے پہلی والی آیتوں کا بیان تھا، اب آگے اس کے بعد والی آیتوں کی طرف جاتے ہیں۔
l اب آگے ان باتوں سے منع فرمایا جو کسی بھی وقت دشمنی، عداوت اور بالآخر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہیں، جیسے: ’’لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ‘‘ آگے اللہ نے خاص طور پر عورتوں کو مخاطب کیا، ارشاد فرمایا: ’’وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ‘‘ باوجود یہ کہ قوم کے لفظ میں وہ داخل ہیں، اس لیے کہ آدمیوں کے درمیان جھگڑے اور اختلاف کے پیچھے عام طور پر عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
l اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ’’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ إِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی‘‘ اس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اس بات پر تمام لوگ اپنی اصل میں برابر ہیں، تاکہ لوگ نسلی امتیازات پر فخر نہ کریں، علاقائی اور لسانی تعصب میں مبتلا ہوں، اس لیے کہ یہ سب اُمتِ اسلامیہ اور وحدتِ ایمانی کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہے، نیز اس آیت میں ذمیوں کے حقوق کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ عام طور پر وہ بھی اسلامی معاشرہ اور مجتمع میں وجود رکھتے ہیں، تو انسانیت کی بنیاد پر اُن کے بھی حقوق ہیں اور ’’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ‘‘ کا خطاب اُن کو شامل ہے۔
l پھر اس کے بعد ایمان ویقین پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، کیونکہ کہ دل کی پاکیز گی اور باطنی طہارت مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور وحدت میں کیمیا اثر رکھتی ہے، اس لیے لوگوں کے ساتھ میل جول میں آنے والی ناگواریوں کو وہ صاحبِ ایمان ہی برداشت کر سکتا ہے ، جو اپنے اقرارِ ظاہری وباطنی کا جامع ہو، اسی وجہ سے اللہ نے ایمان کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے: ’’قَالَتِ الْأَعْرَابُ أٰمَنَّا‘‘
l اب ہم اس کے بعد والی آیت کی طرف آتے ہیں: ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان پر جہاد کا اضافہ فرمایا ہے، کیونکہ وحدتِ ایمانی اور اسلامی جمعیت کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیاراو رذریعہ جہاد ہی ہے، اس لیے کہ جب مسلمان غیروں سے بر سرِپیکار رہے گا، تو آپس کی لڑائیوں سے فرصت ہی نہیں ملے گی، اس طرح ایمانی بھائی چارگی مضبوط ہوگی اور آپس کے انتشار سے حفاظت ہوگی۔ 
l اس پوری تفصیل میں معنوی طور پرمذکورہ آیت کے مفہوم کو پوری سورت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظی اعتبار سے آیت میں موجود کلمات پور ی سورت میں پھیلے ہوئے ہیں ، ثلاثیات میں غور فکر کرنے کے بعد اس آیت کا لفظی طور پر پوری سورت کو احاطہ کرنا واضح طور پر سمجھ میں آجاتا ہے، خاص طور پر وہ پانچ ثلاثیات جو اسی آیت کے اندر موجودہیں ۔
حوالہ جات
۱:-التفسیر المنیر،ج:۲۶، ص:۲۱۹                 ۲:-تفسیر ابن کثیر، ج:۵، ص:۵۷۸ 
۳:-تفسیر ابن کثیر، ج: ۷، ص: ۳۴۳                 ۴:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۲۸۷-۲۹۰
۵:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۲۸۸                ۶:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۲۸۷
۷:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۲۸۸                 ۸:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۲۹۹
۹:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۳۰۴۔                 ۱۰:-روح المعانی،ج:۱۳،ص:۳۰۸
۱۱:-زاد المسیر،ج:۶،ص:۴۶۱                 ۱۲:- روح المعانی،ج:۱۳
۱۳:-تفسیر ابن کثیر،ج:۵،ص:۵۷۹                ۱۴:-تفسیر ابن کثیر، ج:۵،ص:۵۸۸ 
۱۵:-تفسیر ابن کثیر،ج:۱۳،ص:۲۸۷-۲۹۰            ۱۶:-تفسیر ابن کثیر
۱۷:-صحیح البخاری ، ج: ۹، ص: ۲۲                 ۱۸:-صحیح البخاری ،ج:۸، ص:۱۹ 
۱۹:-صحیح مسلم للنیسابوری ،ج:۸، ص:۱۱                 ۲۰:-المعجم الاوسط،ج:۵،ص:۸۶
۲۱:-تفسیر ابن کثیر                    ۲۲:-تفسیر ابن کثیر
۲۳:-تفسیر القرطبی، ج:۹، ص:۳۰۳                ۲۴:-تفسیر ابن کثیر، ج:۵، ص:۵۷۹ 
۲۵:-تفسیر القرطبی، ج:۱۹، ص:۳۸۵                ۲۶:-التفسیر المنیر
۲۷:-التفسیر المنیر

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین