بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بشری تقاضے اورخصائص

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بشری تقاضے اورخصائص


سمجھ لینا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریتِ کاملہ میں جو بشری تقاضے اور آثار وخصائص ہیں، وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے انسان اور ذی مرتبت شخصیت کے آثار و مظاہر سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں، مثلاً دیکھیں :

پسینہ

ہر آدمی کو پسینہ آتا ہے اور یہ پسینہ آنا کوئی عیب و نقص نہیں، بلکہ صحت کے لیے ضروری ہے۔ تاہم پسینہ کی کثرت ناگواریِ طبع اور ناپسندیدگی کا باعث ضرور ہوتی ہے، بلکہ بعض افراد کے پسینہ سے جلد ہی بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بہرنوع بدبو نہ بھی آئے تو پسینہ میں کون سی کشش اور دلچسپی کا عنصر ہوتا ہے، پسینہ آتے ہی گھٹن اور کوفت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اب ذرا رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بدنِ اطہرکے پسینے کا تصور فرمائیں، جس پسینے کی مہک سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بآسانی تلاش کرلیتے کہ جس گلی، کوچے، چٹان، درخت کے پاس سے گزر ہوا، معطر و منور فضائیں پتہ دے رہی ہیں کہ عطر بیز جسد ِاطہر والے گزرے ہیں۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ: حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار دوپہر کا قیلولہ میرے ہاں فرماتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ کثرت سے آتا تھا، دورانِ استراحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل ڈالے بغیرچپکے سے مَیں آپ کا پسینہ ایک شیشی میں اکٹھا کر لیتی تھی۔ ایک مرتبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اکٹھا کر رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ: کیا کررہی ہو؟ میں نے عرض کیا: آپ کا پسینہ جمع کررہی ہوں۔ یہاں عجیب جملہ ارشاد فرمایا: ’’نُصْلِحُ بِہَا عُطُوْرَنَا‘‘ کہ ’’ہم اس پسینۂ مبارک سے اپنے پاس والے عطریات و خوشبویات کی اصلاح کرلیتے ہیں‘‘ یعنی آپ کا پسینہ ہمارے پاس جو خوشبوئیں اور عطر ہیں ان کو اعلیٰ و عمدہ بنا دیتا ہے، گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ خوشبو گر ہے، خوشبو ساز ہے۔ قارئین! آپ نے غور کیا؟بشری تقاضے اپنی جگہ کہ پسینہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آتا تھا، مگر کسی سے تقابل یا موازنہ ممکن نہیں، فرق وتفاوت بھی سوچ وفکر سے وراء ہے۔ 

جسم کے بال

عام لوگوں کے جسم کے بال جب تک تناسب سے حدِ اعتدال پہ ہوں تو جسم پہ بھلے لگتے ہیں، مگر جسم سے الگ کرنے کے بعد وہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پہ پھینک دئیے جاتے ہیں۔ سر کے بال، مونچھیں زیادہ بڑھ جائیں تو بد صورتی کے علاوہ میل پکڑ لیتے ہیں، جوئیں بھی پڑ جاتی ہیں، خارش ہونے لگتی ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ ذرا سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر سے اُترے بالوں پر غور کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حجامت بنواتے تو خود بال اُتارنے والے کی قسمت جاگ اُٹھتی، اپنی سعادت پہ وہ نازاں و فرحاں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہد کی مکھیوں کی طرح اُن پر جھپٹتے، ایک ایک بال کے طلبگار ہوتے، جسے براہ ِ راست نہ مل سکتا وہ اپنے دیگر ساتھیوں سے لے لیتا۔ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر چونکہ احرام کھولا گیا تھا تو سر منڈانے کے باعث کافی مقدار میں بال تھے، جو خود تقسیم فرمائے۔ روایات میں یہ بھی موجود ہے ایک صحابیہؓ نے حضور کریم رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے چند بال مبارک ایک نلکی میں محفوظ کر رکھے تھے۔ جہاں کسی بچے کی آنکھ دکھنے لگتی، پھنسی نکل آتی یا کوئی عارضہ لاحق ہوتا تو متعلقہ حضرات بڑی اماں کے پاس جا کر عرضِ احوال کرتے۔ اماں جی پانی کا گھونٹ لے کر اس نلکی میں ڈال کر ہلاتیں اور وہ محلول سائل کو دے دیتیں، وہ جامِ صحت بچے کی آنکھ پر مل لیا جاتا یا پانی پلا دیا جاتا۔ سبحان اللہ! مشہور واقعہ ہے جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی کہ حضرت سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے ایک صحابی سے جن کے پاس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد بال مبارک تھے، بڑی لجاجت و منت سماجت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند بال عطا کرنے کی درخواست کی اور جب صحابی رضی اللہ عنہ نے تمنا و چاہت پوری کردی اور بال مبارک عطیہ کر دیئے تو وہ ان کے بڑے مرہونِ منت ہوئے اور بہت سا مال و زر اُن کی نذر کیا۔ حضرت سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وقتِ وصال سے قبل اپنے لواحقین کو یہ وصیت فرمائی کہ میری میت کی تجہیز وتکفین کے بعد یہ بال مبارک میری میت کی آنکھوں میں رکھ دئیے جائیںاور پھر مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سپرد کر دیا جائے۔ قارئین! یہاں بھی بشریتِ رسول کا تقاضا اور اس کے آثار کا ظہور اپنی جگہ، مگر موازنہ یا مماثلت کا دعویٰ کیوں کر کیا جاسکے گا؟

بہ بیں تفاوت از کجا تا کجا است

حشرات کے بارے میں 

مکھی مچھر وغیرہ ہر جسم پہ بیٹھتے ہیں، یہ کسی کے لیے پسندیدہ اور خوش کن صورت حال نہیں ہوتی، بلکہ آدمی ان موذی چیزوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ گندگی سے پیدا ہونے والے جانور ہیں اور قابلِ نفور بھی ہیں۔ رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر و طیب پر کبھی بھی مکھی نہیں بیٹھی اور نہ ہی جسدِ اطہر سے ٹکرائی، نہ ہی آپ کے اوپر سے گزری، نہ ہی آپ کو کبھی مچھر نے کاٹا۔ البتہ بچھو کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ بچھو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پہ کاٹنے کی کوشش کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنی نعلین مبارک سے اسے کچل دیا اور یہ ارشاد بھی فرمایا: ’’یہ عقرب (بچھو) لعنتی جانور ہے، یہ انبیاء پر بھی حملہ کرنے سے نہیں ٹلتا۔‘‘ قارئین: آپ نے دیکھا! یہاں بھی یہ انفرادیت صرف اورصرف جسدِ  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے، کوئی اور آپ کاشریک نہیں۔ 

قد کاٹھ

انسانی قد کاٹھ کی بھی یکسانیت نہیں ہوتی، کوئی بلند قامت تو کوئی پست قد، کوئی نہایت لاغر و اکہرے بدن کے، تو کوئی اچھے خاصے مُتبدِّن (بھاری جسم والے) ہوتے ہیں، یہاں تک کہ حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دراز قد اور وجیہ تھے، جبکہ حضرت سیدنا حیدرِ کرار رضی اللہ عنہ کا قد مبارک اونچا نہیں تھا۔ حضرت سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک نہ لمبا تھا، نہ ٹھگنا اور نہ ہی اکہرا، نہ چوڑا چکلا (ظاہرہے جس ذات کی تراش وخراش، تزئین و تحسین خود خلاّقِ کائنات نے براہِ راست اپنے طور پر فرمائی، اس کا ثانی ہونا ممکن نہیں) یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی، یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصاحبین اور فداکاروں میں محوِسفر ہوتے یا جلوہ افروز ہوتے تو سب سے اونچے اور بلند نظر آتے، حالانکہ بلند قامتی نہ تھی، مگر خلاقِ عالم نے ’’وَرَفَعْنَا لَکَ‘‘ کا جلوہ یہاں بھی قائم رکھا ہوا تھا، یعنی رفعت اور بلندی قد کاٹھ کی نہ تھی، شان وآن کی تھی۔ قد مبارک متوازن وحسین تھا: ’’ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ‘‘ سفر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اونچے نظر آتے تھے اور ہم رکاب صحابہؓ سے نکلا ہوا بلند وبالا اور واضح جسم صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہوتا تھا۔ 

ماء مستعمل

انسانی بدن ناپاک گرچہ نہ بھی ہو، پھر بھی اس سے ٹپکتا گرتا پانی اصطلاحِ فقہ میں ماءِ مستعمل کہلاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ طاہر غیر مطہر ہے، یہ پانی ناپاک یا حرام نہیں کہلائے گا، مگر استعمال شدہ پانی سے آئندہ نہ غسل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وضو کیا جاسکتا ہے اور نہ کھانا پکانے، آٹاگوندھنے میں استعمال درست ہے، ہاں! ناپاک کپڑا اس سے پاک ہو جائے گا، پیا جاسکتا ہے، زمین پر گرا ہو تو اُس پر نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 
نوٹ: حضرت امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستعمل پانی ناپاک ہے، کیونکہ اس میں گناہوں کی نجاست شامل ہو جاتی ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ایسے ہی وارد ہے، مگر دیگر اکابرِ اُمت کی رائے وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ بہر حال یہ بات آپ کے علم میں آگئی کہ استعمال شدہ پانی ایک گونہ ناپسندیدہ شئے ہے، ناقص ضرور ہے، اعلیٰ نہیں۔ 
حدیبیہ کے میدان میں مشرکینِ مکہ نے محمدی قافلہ کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ یہ داستانِ فدائیت اپنی جگہ اہلِ ایمان کے ا یقان کو پختہ اور توانا کرنے والی تواریخ اسلام کا حصہ ہے۔ طائف کے بنو ثقیفہ کے رئیس و سردارمسعود ثقفی نامی قریش کی طرف سے سفیر بن کر آئے ہوئے تھے، جہاں وہ مصالحتی کردار ادا کررہے تھے، وہاں وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ محمدی رضاکاروں، جانثاروں کی کیا کیفیت ہے اور وہ کس حد تک جا سکتے ہیں، ان میں کتنا دم خم ہے؟! یہ صاحب جب مکہ مکرمہ واپس گئے تو قریشِ مکہ کے سامنے انہوں نے جو منظر دیکھا تھا، اس کی منظر کشی کچھ اس طرح کی: 
’’میں بڑے بڑے رؤسا، امراء اور شاہی درباروں میں گیا ہوں اور ان کے حاضر باش درباریوں کے آداب، رکھ رکھاؤ اور ٹھاٹھ باٹھ بھی اچھی طرح دیکھے ہیں، ان کے جذبوں اور اظہار ِ محبت و الفت کے انداز بھی ملاحظہ کیے ہیں، مگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )  اور اس کے جا ں نثاروں کی جو صورتِ حال میں نے دیکھی ہے وہ نرالی ہے، نہایت محیر العقول ہے۔ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب لعاب پھینکتے ہیں تو وہ لوگ اسے زمین پہ نہیں گرنے دیتے، بلکہ ہاتھوں پہ لے لیتے ہیں، اپنے منہ اور جسم پہ مل لیتے ہیں، جب وہ وضو کرتے ہیں تو پانی اپنے ہاتھوں پہ لے لیتے ہیں اور حاضرین میں سے جسے وہ پانی رش کے باعث نہ مل سکے تو وہ دوسرے ساتھی سے تھوڑی سی نمی لے کر اپنے اوپر مل لیتا ہے۔‘‘ 
غور کیجئے! یہ شخص اس وقت ایمان نہیں لایا ہوا تھااور دشمن کیمپ کا نمائندہ بن کر آیا ہوا تھا، مگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حسنِ عقیدت و وارفتگی اور دل بستگی کی روح پرور روئیداد کی منظر کشی کس بے ساختگی سے کر رہا ہے، گویا کہ اس نے قریشِ مکہ کو اپنے طور پر یہ حقیقت بتلادی کہ جس شخص کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہوں کہ اس کے استعمال شدہ پانی اور لعاب کو ضائع نہیں ہونے دیتے، بھلا وہ لوگ ان کی ذات پر کوئی آنچ آنے دیں گے؟ قارئین! یہ صرف ایک واقعہ بطور استشہار ذکر کیا گیا، ورنہ دیگر کتنے استدلال پیش کیے جا سکتے ہیں، یہاں بھی موازنہ یا مطابقت کیسے متصور ہو سکتی ہے ؟ ’’تو کجا مَن کجا ‘‘

نیند

 ویسے تو نیند انسانوں کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور انسانی ضروریات میں سے ایک اہم عنصر ہے۔ تاہم ایک غفلت، بے خبری، ایک گونہ بے بسی کا ظہور نیند سے سامنے آتا ہے۔ نیند میں آدمی اپنے آپ سے اپنے ماحول سے کٹ جا تا ہے، حالانکہ وہیں موجود ہو تا ہے۔ آج کے ہیجان خیز ماحول نے بعض لوگوں کو بے خوابی کا مریض بنا ڈالا ہے، چنانچہ وہ نیند لانے کے لیے خواب آور ادویہ استعمال کرتے ہیں، نیند نہ آتی ہو تو دیگر کئی قسم کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تاکہ نیند آئے اور جسم کو سکون میسر ہو۔ 
انبیاء کرام علیہم السلام کی نیندعام انسانوں کے برعکس خدا تعالیٰ کے برگزیدہ ترین صالحین اور کاملین کی مقبول عبادت کے لمحات سے بھی کہیں بہتر ہوتی ہے۔ دیکھئے! حضرت سیدنا ابراہیم  علیہ السلام  کا خواب ہی تو تھا جس کی بنا پر انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل  علیہ السلام  کو ذبح کرنے کا عظیم اقدام کیا اور مقبولیت کا مقام پاگئے، جبکہ اسلام میں فریضۂ حج میں مقامِ منیٰ کے سب اعمال، قربانی، رمیِ جمار، وغیرہ انہی کی سنت ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے :’’وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِيْ الْآخِرِیْنَ‘‘یعنی ہم نے ان کی اس قربانی کے عظیم عمل کو آنے والی نسلوں کے لیے جاری کر دیا۔ ظاہر ہے خواب کا تعلق نیند سے ہے اور یہ اس کی ہی فرع ہے، نیز معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام  کی نیند میں دیکھی گئی چیز بھی وحیِ الٰہی کہلاتی ہے اور احکامِ شریعت کا حصہ بنتی ہے، بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ وحی شروع ہونے سے قبل رؤیائے صالحہ کا سلسلہ جاری ہوا تھا۔ ارشاد فرمایا: جو اس وقت خواب میں دکھایا جاتا نصف النہار کی طرح اس کا ظہور ہوتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے :’’تَنَامُ عَیْنَايَ وَلَا یَنَامُ قَلْبِيْ أَوْکَمَاقَالَ‘‘یعنی میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سونے سے ہر آدمی کا وضو جاتا رہتا ہے، مگر انبیاء کرام علیہم السلام کا وضو قائم رہتا تھا۔ قارئین کرام! آپ نے مذکورہ معروضات سے بخوبی اندازہ کر لیا ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ سب انبیاء کرام علیہم السلام اور دیگر اُمتیوں کی نیند اورخوابو ں میں کتنا تفاوت اور عظیم فرق ہے۔ 

خون

خون جسدِ انسانی کاایک ناگزیر حصہ ہے اور ہر جسم میں خون لازماً ہوتا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا خروج بھی ہو ہی جاتا ہے۔ خون جسم انسانی کی بقاء وصحت کا ضامن ہے، مگر خون خواہ انسان کا ہو یا جانور کا، پھر جانور خواہ حلال ہو یا حرام، خون بہرحال ناپاک بھی ہے اور حرام بھی۔ بدن کپڑے یا زمین جس جگہ جہاں لگ جائے وہ نجس کہلائے گی، اسے پاک کرنے کے لیے دھونا یا دور کرنا ضروری ہوگا۔ 
جسدِ اقدس کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ کروایا، بدنِ اقدس سے نکلا ہو ا لہو ایک برتن میں پڑا تھا، سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کے بھانجے آئے تو حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: عبداللہ! یہ خون لے جاؤ، کہیں دبادو۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وہ پیالہ اُٹھا کر لے گئے۔ اب ضمیر کی خلش نے عجیب مخمصے میں ڈا ل دیا کہ مفخرِ موجودات، سید الاولین والآخرین کے جسدِ اطہر و اطیب، ارفع اعلیٰ سے نکلا ہوا یہ خون ہو اور یہ نعمتِ بے بہا میسر بھی ہو، میں اُسے پھینک دوں؟ دبادوں؟ ضائع کردوں؟ دماغ یہ وزن نہ اُٹھا سکا، احساساتِ قلبی کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے چپکے سے وہ پی لیا۔ جی ہاں! اپنے من کا یہ فیصلہ ان کو صحیح محسوس ہوا اور پھر خاموشی سے لا کر برتن رکھ دیا۔ حضور اکرم رحمتِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کے چہرہ پر نگاہ ڈالی جو اُن کی اندرونی کیفیت اور عرقِ بشاشت کا پتہ دے رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پھینک آئے؟ سر ہلا کر عرض کی: جی چھپا، دبا آیا۔ حضور کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ لَعَلَّکَ شَرِبْتَ‘‘ یعنی ’’شاید تو نے پی لیا‘‘۔۔۔۔۔۔ یہاں انکار یا تاویل کی گنجائش نہ تھی اور نہ کوئی معذرت کی ضرورت۔ سبحان اللہ! اس پر ارشادِ نبوی کا حاصل کچھ اس طرح ہے کہ تمہارے دشمنوں کے لیے بربادی و ہلاکت ہے۔ گویا کہ فرمان یہ تھا کہ: میرے جسم سے کشید کردہ خون جس جسم کاحصہ بن گیا اس جسم کے کیا کہنے! اس کی جرأ ت و بسالت، ہمت و حوصلے کے کیا کہنے! اس شخص سے ٹکرانے والے کی بدقسمتی پر بھی تف ہے، اس کی شامت آئے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس حرکت پر تنبیہ نہیں کی، ٹوکا نہیں کہ یہ کیا حرکت ہے؟! تم نے پی کیوں لیا؟! چہرۂ انور پر کوئی ناگواری کا اثر بھی ظاہر نہیں ہوا۔ قارئین کرام! یہاں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ بتقاضا ئے بشریت بطورِ علاج خون نکلوایا گیا، یہ بات بس یہاں تک محدود رہے گی، آگے خون کے احکامات یا موازنہ یا تقابل یا کچھ مزید کہنا تو یہ بے ادبی اور گستاخی کے زمرے میں آئے گا، أعاذنا اللہ منھا۔
نوٹ: سطورِ بالا اور گزشتہ معروضات سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ جسدِ اطہر سے نکلی دیگر رطوبات بھی اسی نسبت سے اعلیٰ و ارفع ہوں گی اور یہ تفاوت مبنی بر حقیقت ہوگا، مجاز یا صرف حسنِ عقیدت و محبت ہی نہ ہوگا۔ 

فضلہ جات

آدمی جو خوراک کھا تا ہے اس کا کچھ حصہ جزوِ بدن بن جاتا ہے، باقی اس کا فضلہ بنتا ہے اور وہ اپنے فطری راستہ و طریق سے خارج ہوتا ہے، جسے ہم پیشاب پاخانہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا خروج بھی ناگزیر اور امورِ طبعیہ سے ہے، یہ سلسلہ زندگی کا لازمہ ہونے کے باوجود دلچسپی یا دل بستگی کا عنوان نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی خوبی و کمال یا مقامِ مدح بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہ تقاضائے بشریت یہ عمل بھی جسدِ محمدی سے صادر ہونا تھا، سو ہوا۔ آخر اُمت کے لیے اس میں بھی ہدایت و راہنمائی چاہیے تھی۔ بعض اُمور امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے پیدا کرکے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر کروائے، تاکہ ان کی اُمت کے لیے راہنمائی کا سامان ہو سکے۔ ایک یہودی نے ایک صحابیؓ    کو بطورِ طعن کہا: تمہارے نبی نے تو تمہیں پیشاب کرنے کے بھی آداب سکھائے ہیں؟! اس پر صحابیؓ نے مرعوب ہونے کی بجائے پورے شرح صدر سے جواب دیا: ہاں! میرے نبی نے ہمیں بتلایا کہ رو بقبلہ ہو کر پیشاب مت کرو، نیچی جگہ سے اونچی طرف نہ کرو، پیشاب سے بچو، وغیرہ۔

واقعۂ موچ

ایک مرتبہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آگئی (یاکمر میں تکلیف کے باعث اور بعض روایات کے مطابق گھوڑے سے اُترتے گر کر چوٹ لگ گئی (کوئی بھی وجہ ہوئی تھی) جس کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم چلنے پھرنے سے قاصر تھے، چنانچہ گھر میں ہی ایک کُپی میں پیشاب کرنا پڑا۔ وہ برتن ایک کونے میں رکھا تھا، سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کی باندی بریرہؓ آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا: بریرہ! یہ لے جاؤ اور اورباہر پھینک آؤ۔ باندی وہ برتن اُٹھا کر لے گئیں، مگراگلا مرحلہ بریرہ  رضی اللہ عنہا کے امتحان کا تھا، وہ اپنے ضمیر اور حکم نبوی کے سامنے کشمکش میں مبتلاہوگئیں۔ بالآخر اس کے ضمیر اور جذبۂ عقیدتِ نبوی کے سامنے ہتھیار ڈال کر وہ فضلہ جو جسدِ محمدی سے نکلا تھا، نوش کرلیا، وہ برتن صاف کرکے گھر میں رکھ دیا۔ جب حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہو ا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ ہی لیا، پھینک آئی ہو؟ یہ اس کے لیے نیا امتحان سر پہ آن کھڑا ہوا، سچ کہتی تو پھر بظاہر حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ عمل نہ کرنے کی مجرمہ بنتی اور غلط بیانی سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اور وہ بھی ایک صحابیہؓ سے ۔۔۔ یہ بھی ممکن نہ تھا، خاموش رہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فراستِ نبوی کی بنا پر فرمایا : ’’لَعَلَّکِ شَرِبْتِ‘‘ ۔۔۔ ’’بریرہ! تم نے وہ پی لیا۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اس کا حاصل کچھ اس طرح ہے کہ :’’اے بریرہ! تجھے آج کے بعد پیٹ کی کوئی بیماری نہیں لگے گی۔‘‘ گو یا کہ حضرت بریرہ  رضی اللہ عنہا اس مشروب کے باعث معدہ اور اندرون کی تمام بیماریوں سے محفوظ ہو گئیں۔ 
 نوٹ: اس موقع پر حضرت بریرہ  رضی اللہ عنہاکو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری یاناراضگی کا خدشہ تھا، وہ تو نہ ہوا، بلکہ اس حرکت سے قسمت جاگ گئی۔ دواءِ  معدہ و ممیرہ میسر آئی،   اللہ أکبر کبیرا۔

قضائے حاجت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے، یہاں تک کہ بعض مرتبہ نظروں سے اوجھل ہو جاتے۔ ویسے بھی ضرورت ہی کم پڑتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قضائے حاجت سے فراغت کے بعد کوئی اثر یا نشان نہیں پایا گیا۔ ایک سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قضاءِ حاجت کی ضرورت تھی، وہاں آس پاس کوئی اوٹ یا ٹیلا نہ تھا۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی فاصلے پر ایک درخت کو اشارہ کیا، درخت تعمیلِ ارشاد میں حاضر ہو گیا، پھر دوسرے درخت کو بلایا اور دونوں کی اوٹ میں فراغت کی، پھر ان دونوں درختوں کو واپس اپنی اپنی جگہ پر چلے جانے کا حکم ہوا اور وہ چلے گئے۔ 
قارئین باتمکین! سطورِ بالا میں مذکور بعض ان اعراض کا ذکر ہوا جو جسدِ نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام سے صادر ہوئے اور یہ معروضات جسدِ نبوی سے خارج شدہ ناقص، انقص اور ادنیٰ سے ادنیٰ کے احوال تھے۔ سوچیں ! ناقص کا یہ عالم ہے تو اعلیٰ و ارفع کی بالاتری کا عالم کیا ہوگا؟! 

قلم ایں جا رسید و سر بشکست 

اللّٰھم صل وسلم علٰی نبیک وعلٰی آلہٖ وأصحابہ أجمعین 
محمد بشر و لیس کالبشر
ھو في الناس کالیاقوت في الحجر

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین