بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ تاجر

 

نبی اکرم a بحیثیتِ تاجر

کائنات میں بسنے والے افراد انسانی کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے انبیاء کرام o کو بھیجا جاتا، سب سے آخر میں سردار الانبیائ، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ a کو مبعوث کیا گیا، سب سے آخر میں بھیج کر، قیامت تک کے لیے آنجنابa کے سر پر تمام جہانوںکی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیاکہ: ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔‘‘(الأحزاب:۲۱) یعنی اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہ aکی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے، ان سے راہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناؤ، گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی راہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل راہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہونی چاہیے، چنانچہ! تاجر ہو یا کاشتکار، شریک ہو یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا  بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، اگر وہ چاہے کہ میرے لیے میرے شعبے میں راہنمائی ملے، تو اس کے لیے جنابِ رسول اللہ a کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے۔ مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے سامنے جنابِ رسول اللہ a کو نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی، اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب بن جاؤ۔ تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیرv لکھتے ہیں: ’’ھٰذہ الآیۃ الکریمۃ أصلٌ کبیرٌ فی التأسّی برسول اللّٰہ a فی أقوالہ، وأفعالہ، وأحوالہ۔‘‘                                     (تفسیر ابن کثیر، سورۃ الأحزاب:۳۱، ۶/۳۹۱) ’’ یہ آیت کریمہ نبی اکرم a کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ ان سطور سے مقصود نبی اکرم a کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا نہیں ہے، بلکہ صرف آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے۔آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزق حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ استوار رکھا، نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم a کی حیات ِ مبارکہ کے دو حصے ہیں، ایک: نبوت ملنے سے قبل کا اور دوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا۔ اول الذکر کا دورانیہ چالیس سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ تئیس سال۔ اس دوسرے حصے کے پھر دو حصے ہیں، ایک: مکی دور ، اور دوسرا: مدنی دور۔ نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت نبی اکرم a کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے بہت زیادہ خوش حال دور نہیں تھا، لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ a بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسر کر رہے تھے، البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجنابa بچپن سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔ والد کی طرف سے ملنے والی میراث  جب آپ a کی پیدائش ہوئی تو آپa کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، ان کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپa کی طرف منتقل نہیںہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ a کو میراث میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ’’ام ایمن‘‘ تھا، (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ a نے حضرت خدیجہt سے شادی کے وقت یعنی: پچیس سال کی عمر میں آزاد کر دیا تھا) اس کے علاوہ مزید کوئی چیز میراث میں نہ ملی تھی۔(۱) میراث میں ملنے والی یہ اشیاء اس قابل نہ تھیں کہ آپa کی کفالت کے لیے کافی ہو جاتیں، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف ان میں سے کسی کا بھی رجحان آپa کی طرف نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا، اور حضرت حلیمہ سعدیہt نے جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا انتخاب کیا تھا، وہ بھی ابتدائً   نہیں کیا تھا، بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ بچا ، تو پھر ان کو خیال آیا چلو! خالی ہاتھ واپس جانے کی بجائے اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے، مال تو نہیں ، لیکن اللہ تو راضی ہو گا ۔ دادا اور چچا کی کفالت میں ان ابتدائی دو سالوں میں آپ a کی کفالت آپa کے دادا عبد المطلب کرتے رہے، دو سال کے بعد آپa کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، دادا کے انتقال کے بعد آپa کے چچا ابو طالب نے آپa کی کفالت اپنے ذمہ لے لی، ابو طالب آپa کے حقیقی چچا تھے، جو بہت ہی ذوق وشوق اور محبت سے آپa کی پرورش کرتے رہے اور آپa کی ضروریات پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے، چنانچہ ! آپa کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہمراہ لے جاتے۔ بکریاں چرانا مکہ مکرمہ میں حصول معاش کے لیے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی، چنانچہ آپ a نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی ابتداء میں ہی اپنی معاش کے بارے میں از خود فکر کی، ابتداء ً اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیںتھی، بلکہ یہ تو آپ a  کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے، اس لیے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں ہے، بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے، اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیزی اور پھرتی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا، انہیں قابو میں رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جانور پر قابو سے باہر ہونے کی صورت میں غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں ہوتا، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتے، کیونکہ بوجہ ان کے چھوٹا، دبلا پتلا اور کمزور ہونے کے ان کی ہڈیاں وغیرہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس بنا پر بکریاں چرانے والے میں خوب تحمل وغیرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم a نے فرمایا: ’’ما بعث اللّٰہ نبیا إلا رعی الغنم، فقال أصحابہ: وأنت ؟ فقال: نعم! کنت أرعاھا علیٰ قراریط لأھل مکۃ۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم علی قراریط، رقم الحدیث: ۲۲۶۲) ’’نبی اکرم a نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں، صحابہ sنے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے بھی؟ آپ a نے جواب دیا کہ ہاں! میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔‘‘ ’’قراریط‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار کے ایک ٹکڑے کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط کے عوض بکریاں چرائیں، اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک محلہ ’’جیاد‘‘کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط میں بکریاں چرائیں۔ علامہ ابن ملقن v نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے۔                  (التوضیح لشرح الجامع الصحیح ، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم، رقم الحدیث: ۲۲۶۲، ۱۵/ ۳۵، ۳۶) اسی طرح ایک بار نبی اکرم a صحابہ s کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے، صحابہؓ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ a نے ارشاد فرمایا: جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاؤ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں، یہ میرا اس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (۲) ملک ِ شام کی طرف پہلا سفر نبی اکرم a نے شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا: اپنے چچا کے ہمراہ، لیکن اس سفر میں آپa بطورِ تاجر شریک نہ تھے،بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپa کے چچا نے آپ aکو ساتھ لیا تھا، اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپ a کے چچا نے آپ a کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔(۳) ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر  دوسرا سفر آپ a نے بطور تاجر حضرت خدیجہt کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ a پچیس برس کے ہوگئے تو آپa کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جاؤ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا۔ یہ گفتگو حضرت خدیجہt کو معلوم ہوئی تو انہوں نے خود آپ a کو پیغام بھیج کے بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی۔ اس پر ابو طالب نے آپ a کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کے بھیجا ہے، اس کے بعد آپ a قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپa کے ہمراہ حضرت خدیجہt کا غلام ’’میسرہ ‘‘بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ a میں نبوت کی علامات پہچان کر آپa کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشن گوئی کی۔ دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ a نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاؤ، تو آنحضرت a نے فرمایا: ’’ما حلفت بھما قط، وإنی لأمر فأعرض عنھما‘‘۔۔۔۔’’میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان سے منہ موڑ لیا کرتا تھا۔‘‘اس شخص نے یہ بات سن کر کہا: حق بات تو وہی ہے جو تم نے کہی، پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ھٰذا واللّٰہ نبی، تجدہ أحبارنا منعوتاً فی کتبھم‘‘۔ خدا کی قسم! یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔ تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تودو فرشتے نبی اکرم a پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپ a سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہؓ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرم a اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپa پر سایہ کیا ہوا تھا۔ حضرت خدیجہt اور ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفع کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ متأثر ہوئیں، حضرت خدیجہt بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انہوں نے آپ a کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا، اس وقت نبی اکرم a کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ t کی عمر چالیس سال تھی۔ (ملخّص وبتغیر یسیر من الطبقات الکبریٰ، ذکر خروج رسول اللہ a إلی الشام فی المرۃ الثانیۃ، ذکر تزویج رسول اللہ a خدیجۃ بنت خویلد: ۱/ ۱۰۷-۱۰۹) یمن کی طرف دو سفر جو تجارتی اسفار نبی اکرم a نے حضرت خدیجہ tکی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم v نے ’’المستدرک‘‘ میں نقل کیا ہے: ’’استأجرت خدیجۃ رضوان اللّٰہ علیھا رسول اللّٰہ a سفرتین إلٰی جُرَشَ، کل سفرۃٍ بقَلوصٍ۔‘‘ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃؓ، ومنھم خدیجۃ بنت خویلد، رقم الحدیث: ۴۸۳۴، ۳/۲۰۰) ’’ حضرت خدیجہ t نے نبی اکرم a کو جرش (یمن کے ایک مقام) کی طرف دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔ ‘‘ بحرین کی طرف سفر نبوت سے قبل آپ a کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جس طرح آپ a کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انہی وفود میں بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا تو آپ a نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ a نے جواب میں ارشاد فرمایاکہ: ہاں! میں تمہارے ملک میں خوب گھوما ہوں۔(۴) تجارتی اسفار میں آپ a کے خصائل حمیدہ نبی اکرم a اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسن معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کے وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپa ’’صادق وامین ‘‘کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، لوگ کھلے اعتماد کے ساتھ آپa کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے، انہی خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بنت خویلدt کی رغبت نبی اکرم a کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا تجارتی معاملات کی کامیابی کے لیے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز اہم ترین کردار ادا کرتا ہے، اور یہ صفات نبی اکرم a میں بدرجہ اتم موجود تھیں، چنانچہ حضرت قیسؓ فرماتے ہیں کہ: نبی اکرم a زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ a شرکاء میں سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔(۵) بحث وتکرار سے اجتناب مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے بچنا بھی ہے، اور آپ a کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سائب q فرماتے ہیں، میں نبی اکرم a کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپa کے اصحاب s آپ a کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے، آنحضرت a نے ارشاد فرمایا: میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں، میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! آپ سچ فرماتے ہیں، آپ زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔(۶) ایفائے وعدہ وعدوں کی پاسداری تجار کی بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے، آنحضرت a کے اندر یہ وصف کیسا تھا؟! اس بارے میں ’’حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآء q ‘‘ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپa سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شئے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں نے آپ a سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا، اور مجھے تین روز بعد یاد آیا، میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ a اسی جگہ تشریف فرما ہیں، آپ a نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی، میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔(۷) نبوت کے بعد معاشی صورت حال جناب ِ رسول اللہ a نے نبوت مل جانے کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں بالاتفاق قول فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ a نے اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول کر دی تھی۔ بعثت کے بعد آپ a سے کسی بھی قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاہے، البتہ ! دین کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح اس شعبے کی بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی کی، اس میدان سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے والوں کو جہاںبہت بڑی بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکوؤں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انہیں لوٹ آنے کی طرف بھی متوجہ کیا، نبی اکرم a کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں گے، چنانچہ! کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب’’ ہدایہ ‘‘کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی چار ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات کے بارے میں ہے اور تین جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں، اسی سے شعبہ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا جائے۔ حوالہ جات ۱:…’’ترک عبد اللّٰہ بن عبد المطلب أم أیمن وخمسۃ أجمال أوارک، یعنی: تأکل الأراک، وقطعۃ غنم، فورث ذٰلک رسول اللّٰہ a۔‘‘                                                                                                           (الطبقات الکبریٰ لابن سعد: ۱/۸۰) ۲:…’’عن جابر رضی اللّٰہ عنہ قال: کنا مع النبی a ونحن نَجتَنِی الکَبَاث، فقال النبی a: ’’علیکنّ بالأسودَ منہ، فإنہ أطیب، وإنی کنت آکلہ زَمَنَ کنت أرعیٰ‘‘، قالوا: یا رسول اللّٰہ ! أو کنتَ ترعیٰ؟ فقال: ’’وھل بُعِث نبیٌ إلا وھو راعٍ۔‘‘   (صحیح ابن حبان، کتاب الإجارۃ، ذکر العلۃ التی من أجلھا قال a للکباث الأسود: إنہ أطیب من غیرہ، رقم الحدیث: ۵۱۴۴، ۱۱/۵۴۴) ۳:…’’لما بلغ رسول اللّٰہa اثنتی عشرۃ سنۃ، خرج بہ أبو طالب إلی الشام فی العیر التی خرج فیھا للتجارۃ ونزلوا بالراھب بحیرا، فقال لأبی طالب فی النبیa ما قال، وأمرہ أن یحتفظ بہ، فردہ أبو طالب معہ إلی مکۃ۔‘‘                    (الطبقات الکبریٰ، ذکر أبی طالب وضمہ رسول اللہa إلیہ، وخروجہ معہ إلی الشام فی المرۃ الأولی: ۱/۹۹) ۴:…’’حدثنا شھاب بن عباد أنہ سمع بعض وفد عبد القیس وھم یقولون: قدمنا علی رسول اللّٰہ a، فلما دنا منہ الأشج أوسع القوم لہ، وقالوا: ھا ھنا یا أشج! فقال النبی a واستویٰ قاعدا، وقبض رجلہ: ’’ھا ھنا یا أشج!‘‘ فقعد عن یمین النبی a، فرحب بہ، وألطفہ، وسألہ عن بلادہٖ، وسمّی لہ قریۃ قریۃ، الصفا والمشقر وغیر ذٰلک من قری ھجر، فقال: بأبی وأمی یا رسول اللّٰہ! لأنت أعلم بأسمآء قرانا منّا، فقال: ’’إنی قد وطئت بلادکم، وفسح لی فیھا۔‘‘                                             (مسند أحمد بن حنبل، بقیۃ حدیث وفد عبد القیس، رقم الحدیث: ۱۵۵۵۹، ۲۴/۳۲۷) ۵:…’’قال قیسؓ: ’’وکان رسول اللّٰہ a شریکی فی الجاھلیۃ، فکان خیر شریک،  لا یماری ولا یشاری۔‘‘                                                                  (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃؓ، القاف بعدھا الیائ، ۵/۴۷۱) ۶:…’’عن السائب، قال أتیت النبی a، فجعلوا یُثنُونَ علیّ ویذکرونی، فقال رسول اللّٰہa:’’أنا أعلمکم‘‘، یعنی: بہ، قلت: صدقت بأبی أنت وأمی، کنت شریکی، فنعم الشریک، کنت لا تُداری ولا تُماری۔‘‘ (سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، رقم الحدیث: ۴۸۳۸) ۷:…’’عن عبد اللّٰہ بن أبی الحمساء قال بایعتُ النبیَّ a بِبَیْعٍ قَبلَ أنْ یُبعَث، وبَقِیَتْ لہ بقیۃٌ، فوعدتُّہ أنْ أٰتیَہ بھا فی مکانِہ، فنسیتُ، ثم ذکرتُ بعد ثلاثٍ، فجئتُ، فإذا ھو فی مکانِہ، فقال: ’’یا فتیً! لقد شققتَ علیَّ، أنا ھا ھُنا منذُ ثلاثٍ، أنتظِرُک۔‘‘                                                           (سنن أبی داؤد، کتاب الأدب،  باب فی العدۃ، رقم الحدیث: ۴۹۹۸)  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین