بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

بینات

 
 

نامور محدث مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی ؒ  کا اسلوبِ تدریس

نامور محدث مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی ؒ      کا اسلوبِ تدریس

 

اسلام نے شروع دن سے ہی تعلیم وتعلم پر زور دیا ہے، ’’اقراٴٔ وعلم بالقلم‘‘ سے شروع ہونے والا وحی کا سلسلہ جو تقریباً ۲۳ سال پر محیط رہا، اس میں وقتاً فوقتاً مختلف انداز سے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا، یہ تعلیم ہی کی برکات تھیں کہ وہ صحرا نشینِ عرب جن کی زندگی آپس کے جنگ و جدل، انساب و احساب پر فخر، اور تجارت کے لیے مختلف ممالک کے سفر کے گرد گھومتی تھی، وہی لوگ جب اسلام کی آغوش میں آئے تو عالمِ انسانیت کوامن و امان کا درس دیا، تعلیم کو عام کیا، جگہ جگہ ماہرینِ فن اساتذہ نے درس وتدریس کے حلقے لگائے، تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم کے دروس اسلامی ممالک میں مختلف مقامات پر شروع ہوئے، تعلیم کا عمومی رواج مسلم معاشرہ میں عام ہوا، جہالت کے اندھیرے رفتہ رفتہ معاشرے سے ختم ہونا شروع ہوئے۔
شرعی تعلیمات کے بنیادی مآخذ میں سے دوسرا ماخذ احادیثِ مبارکہ اور سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اس ذخیرہ کی حفاظت اور صیانت کی خاطر جو محدثین نے محنتیں اور ریاضتیں کی ہیں تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے، قرآن کریم کی طرح احادیث کی تدوین میں بھی انتہائی احتیاط کو ملحوظ رکھا گیا، تحقیق کے جو معیارات انسانی ذہن کے سامنے آسکتے تھے، ان سب کو سامنے رکھا گیا ہے، یہ کیوں نہ ہوتا؟! جبکہ اس کی دعوت اور تعلیم خود قرآن مجید سے ملتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’يَاأَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوْا أَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِيْنَ‘‘(۱) 
’’ (بغیر تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو، بلکہ اگر عمل کرنا مقصود ہو تو )خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو، پھر اپنےکیے پر پچھتانا پڑے۔‘‘(۲) 
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس کے متعلق تعلیمات ملتی ہیں، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما  کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک جنگ میں صبح کے وقت حملہ کیا، دشمن نے ڈر کے مارے پسپائی اختیار کی، صحابہ رضی اللہ عنہم  نے ان کی جماعت کا پیچھا کیا، اسی دوران حضرت اسامہ بن زیدؓ کے ہاتھ ایک آدمی آیا، جس نے لا إلہ إلا اللہ کہا، ان کا گمان تھا کہ اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھا ہے، اس لیے انہوں نے اسے قتل کردیا، جب یہ واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہو کر سنایا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا :کیاکلمہ پڑھنے کے باوجود بھی اس کو قتل کردیا؟!! حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ  ﭬنے عرض کیا کہ اس نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا، دل سے نہیں پڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’کیا تم نے لا إلٰہ إلا اللہ پڑھنے کے باوجود اس کو قتل کردیا؟!کیا تم نے اس کے دل کو چیر کر نہیں دیکھا؟ (معلوم ہوجاتا کہ خوف سے کہا ہے یادل سے کلمہ پڑھاہے)۔ (۳)
قرآن و حدیث اس قدر تحقیق کے بعد امت تک پہنچے، بلکہ وہ رجالِ کار جنہوں نے اس علم کے ساتھ اشتغال رکھا ، ان کی زندگی کے حالات بھی امت تک پہنچے۔
تدریس دیگر فنون کی طرح ایک فن ہے، جس کا سیکھنا ازبس ضروری ہے کہ کس طرح طالب علم کے ذہن میں آسانی سے فن کی باتوں کو اُتارا جائے، مختلف درجے کی ذہنیتوں کا لحاظ رکھا جائے، اسلوبِ بیان کا خیال رکھا جائے، فنی مباحث کے حل پر توجہ دی جائے، طلبہ کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیئے جائیں اور فن کی اہم کتب کا تعارف کرایا جائے۔
مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی ؒ برصغیر کی انہی شخصیات میں سے ہیں، جنھوں نے اپنے طرزِ تدریس میں تحقیقی اسلوب کو اختیار کیا، تحقیقی طرزِ اسلوب سے حاصل فوائد مندرجہ ذیل ہیں:

تدریس میں تحقیقی طرز کے فوائد

۱: علم کا شوق اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔
۲: استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
۳: تلاش و جستجو کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
۴:فن میں رسوخ حاصل کرنے میں معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔
۵: فن سے متعلقہ کتب کا خصوصاً اور دیگر فنون کی کتابوں کا عموماً تعارف ہو جاتا ہے۔
۶: کتابوں سے اُنسیت ہوجاتی ہے۔
۷: متنوع کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے مختلف گوشے دماغ میں آتے ہیں۔
۸: مختلف کتابوں کی مراجعت سے مباحث کی گوناگوں جہات سامنے آتی ہیں، نیز بکھرے مباحث کو یکجا کرنا اور ان سےدرست نتیجہ نکالنا آسان ہوجاتا ہے۔
۹: مشکل مباحث کے حل کرنے سے لذت و سرور حاصل ہوتا ہے، جو انسان کو علمی زندگی میں آگے سے آگے بڑھنے پر آمادہ کرتا ہے۔
۱۰: علمی مباحث میں مشغولیت، فکری انتشار سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی  ؒ کا خاندانی پس منظر

مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی  ؒ نے ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۸۶۴ء ریاست ٹونک (راجپوتانہ) میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ (۴)  مولانا حیدر حسن خاںؒ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے، آپؒ کے والد صاحب کا نام مولانا احمد حسن خاںؒ تھا، جن کے بزرگ ’’بونیر‘‘ (خیبر پختونخواہ، پاکستان) سے نجیب آباد (انڈیا) میں آکر رہ گئے تھے، مولانا احمد حسن خاںؒ کے دو بڑے بھائی مولانا محمد حسن خاںؒ اور مولانا محمود حسن خاںؒ تھے، مولانا محمد حسن خاںؒ کو فقہ میں انتہائی کمال حاصل تھا، موصوف ریاست ٹونک کے مفتی مقرر ہوئے، مفتی ولی حسن خاں ٹونکیؒ جو پاکستان کے مفتی اعظم اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں شیخ الحدیث بھی رہے، وہ انہی مولانا محمد حسن خاںؒ کے پوتے تھے۔ جبکہ مولانا محمود حسن خاںؒ بھی غیر معمولی قابلیت کے حامل تھے، انہوں نے ’’معجم المصنفین‘‘ تصنیف کی، جس میں آغازِ اسلام سے لے کر مصنف کے زمانہ تک مسلمان مصنفین کے حالات قلمبند کیے ہیں، جس کے متعلق بعض محققین کا اندازہ ہے کہ وہ ۶۰جلدوں اور ۲۰۰۰۰ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں تقریباً ۴۰۰۰۰ علماء کے حالاتِ زندگی کو قلمبند کیا گیاہے، اس کی ۴ جلدیں مملکتِ آصفیہ (حیدرآباد، دکن، انڈیا)سے شائع ہوچکی ہیں، اسی طرح ’’اصولِ توارث‘‘ پر ایک پرمغز رسالہ بھی زیبِ قرطاس کیا۔(۵) 
مولانا حیدر حسن خاںؒ     کابھائیوں میں تیسرا نمبر تھا، جو ہمارے اس عنوان کی زینت ورونق ہیں، چوتھے بھائی مولانا مظہر حسن خاںؒ تھے، جو علمِ اَلسنہ اور عربی ادب میں یدِطولیٰ رکھتے تھے، عرصہ تک میسور کے ایک کالج میں پروفیسر رہے۔ پانچویں بھائی مولانا حکیم مسعود حسن خاںؒ تھے، موصوف بھی عالم فاضل اور طبیب تھے۔ 
مولانا حیدر حسن خاںؒ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم کے حصول اور استفادہ کے لیے پیدا کیا تھا۔ نوعمری سے جوانی تک خوب محنت سے علم حاصل کیا، زندگی کے شب و روز علمی مصروفیتوں میں صرف ہوتے، اس غرض سے لاہور، دہلی، بھوپال غیرہ مختلف شہروں کی خاک چھانی، علوم میں محض رسمی تکمیل پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مروجہ علوم میں کمال درجہ کی مہارت پیدا کی۔

تدریسی زندگی کی ابتدا

اسلامی تاریخ میں ہمیشہ صاحبِ فن کی قدر کی جاتی رہی ہے، اُمت نے ہمیشہ ایسے اہلِ علم کی صلاحیتوں کا لوہا مانا ہے جنہوں نے کسی بھی فن میں اختصاصی صلاحیتیں حاصل کی ہوں، اور اُس فن میں مہارتوں کے مالک ہوں۔ ریاستِ ٹونک کے سرپرست صاحبزادہ عبدالرحیم کے دینی جذبہ نے علومِ دینیہ اور فنونِ عقلیہ میں مدرسہ ناصریہ کو یکتائے روزگار بنادیا تھا، ان کی اسی قدر دانی کی بدولت ماہرینِ فنون، ذی استعداد مدرسین کشاں کشاں یہاں آنے لگے۔
مولانا حیدر حسن خاںؒ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز اسی مدرسہ سے کیا، مولانا اگر چہ نوآموز تھے، لیکن بہت جلد ہی ان کی صلاحیت اور استعداد کے جوہر کھل کر سامنے آنے لگے: ’’مشک آں باشد کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ (خوشبو وہ ہے جو سر چڑھ کر اپنا وجود منوائے، عطرفروش کو اس کے گیت گانے کی ضرورت نہ ہو)۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان کی فنی مہارت اور قوتِ تدریس کی دھوم مچ گئی، ٹونک اگرچہ اہلِ کمال کا مرکز تھا، بڑے بڑے جید علماء مسندِ تدریس پر جلوہ افروز تھے تو دوسری طرف خود مدرسہ ناصریہ بھی اہلِ کمال کا مرکز تھا، ایسے کسی نئے آدمی کی دال گلنا مشکل تھی، مگر چند ہی دنوں میں سربرآوردہ اور برسوں کے منجھے ہوئے اساتذہ ان کی استعداد کے قائل ہوگئے، نتیجۃً اطراف و اکناف سے طلبہ کھنچ کھنچ کر آنے لگے۔

ندوۃ العلماء سے وابستگی

دارالعلوم ندوۃ العلماء عرصہ سے کسی مشہور استاذ ِحدیث اور ماہرِ فن استاذ کا متلاشی تھا، ۱۹۲۱ء میں شیخ محمد عرب (خلف الرشید شیخ حسین ابن محسن انصاریؒ) کے استعفیٰ کے بعد سےشیخ الحدیث کی جگہ خالی تھی، مولانا حکیم سید عبدالحئی  ؒ کا دورِ نظامت چل رہا تھا، وہ خود شیخ حسین کے شاگردِ رشید تھے، ان کی نظر اپنے استاذ بھائی مولانا حیدر حسن خاںؒ کی طرف گئی، جن سے وہ ٹونک سے واقف تھے، اور ان کے کئی عزیز بھی ان کے شاگرد رہ چکے تھے۔ حکیم صاحب مولانا کے علم وفضل، تقویٰ اور مہارتِ فن سےخوب واقف تھے، انہوں نے مولانا کو ان کے شاگردِ عزیز مولانا سید طلحہ حسنیؒ کی وساطت سے ندوہ آنے اور شیخ الحدیث کا عہدہ قبول کرنے کی دعوت دی، لیکن صاحبزادہ عبدالرحیم خاں جیسے عالی حوصلہ رئیس اور قدر داں کے دل کو تکلیف پہنچانا ان کے مذہب میں رَوا نہ تھا، عرصہ سے اُدھر سے اصرار، اِدھر سے انکار جاری رہا، بالآخر صاحبزادہ عبد الرحیمؒ کے انتقال کے بعد مولانا نے ماہِ ذی الحجہ۱۳۳۹ھ مطابق اگست ۱۹۲۱ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کی پیشکش کو قبول فرمایا اور حدیث کی بڑی کتابیں مولانا کے سپرد ہوئیں۔
ندوۃ العلماء میں تدریس کی ابتداء ۱۹۲۱ء سے ہوئی، جس میں درمیان میں کچھ حالات کی ناسازی کی وجہ سے ندوۃ العلماء سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی، پھر ۱۹۲۳ء میں دوبارہ ندوہ سے متعلق ہوئے، یوں یہ سلسلۂ تدریس ۱۹۴۰ء تک ۱۷ سالوں پر مشتمل رہا۔
حضرتؒ کے تلامذہ میں سے مشہور مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی، مولانا عمران خان ندوی، مولانا احمد جعفری ندوی رحمہم اللہ شمار ہوتے ہیں، اور ہمارے اساتذہ کے استاذ مولانا عبدالرشید نعمانیؒ بھی حضرت کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے حضرتؒ سے خوب استفادہ کیا اور ان کے اسلوبِ تحقیق اور منہج کو اپنایااور اپنے تلامذہ کے ذریعے اس کے احیاء کا ذریعہ بنے۔

اندازِ تدریس

مولانا نے حدیث کی کتابیں شیخ محسن یمانیؒ سے پڑھی تھیں، اور ان کے اسلوبِ تدریس سے انتہائی متاثر تھے ۔ آپ نے بھی اسی اسلوب کو اپنی تدریس میں اپنایا، اس اسلوب کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جاسکتا ہے:

۱:مآخذ کی آگاہی

کسی بھی فن میں گہرائی اور گیرائی حاصل کرنے کے لیے اس کے مآخذ سےواقفیت ناگزیر امر ہے، خصوصاً اس فن کے بنیادی مآخذ جنہیں (Primary Sources) کہا جاتا ہے، اسی طرح طالب علم کی نظر اس فن کے ثانوی مآخذ پر بھی ہو۔ مولانا کو مآخذ کی آگاہی اور ان کے مراتب کی ذہن نشینی پر کمال حاصل تھا، طلبہ کو ان سے شناسا کرادیتے تھے۔

۲: آدابِ مطالعہ

طلبہ کو جہاں مصادرِ اصلیہ اور فرعیہ سے متعارف کراتے، وہیں انہیں مطالعہ کا طریقہ بھی بتلاتے، مثلاً: مطالعہ کس طرح کیا جائے؟ اسے کس طرح محفوظ کیا جائے؟ کس طرح کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے؟ مطالعہ کے وقت کن آداب کو پیشِ نظر رکھا جائے؟ وغیرہ۔

۳:اندازِ بیان

مولانا فقہی مسائل میں مذہبِ حنفیت کے دلائل کے لیےمحض کتبِ فقہ پر اکتفاءکے بجائے کتبِ حدیث کا بھی انتخاب کرتے، اس سے جہاں ایک طرف طلبہ کے دل میں حنفیت کی عظمت میں اضافہ ہوتا تو دوسری طرف حنفیت پر جو آثار سے انحراف اور قیاس و اجتہاد پر اکتفاءکی تہمت لگائی جاتی رہی ہے، نفی ہوتی، دیگر طبقات ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ احناف‘ احادیثِ ضعیفہ سے استدلال کرتے ہیں، جبکہ دیگر فقہاء اسی باب میں احادیثِ صحیحہ کو اپنا مستدل بناتے ہیں، ایسے مقامات میں مولانا کتبِ حدیث سے ہی ان کا جواب دیتے، جو تحقیقی اصولوں پر مبنی ہوتا۔

۴:وسعتِ مطالعہ

کسی بھی فن میں اختصاص حاصل کرنے کے لیے مسلسل بنیادوں پر اس کا مطالعہ ضروری ہے، شب و روز اس کے مذاکرہ و مطالعہ میں بسر ہوں، مولاناؒ نے چونکہ اپنی ذات کو شروع ہی سے علمی مصروفیات کے لیے وقف کر رکھا تھا، زندگی کا اوڑھنا بچھونا، علم اور مدرسہ کی چہار دیواری تھی، اس کا اثر تھا کہ مولانا کا مطالعہ اتنا وسیع وعمیق ہوتا کہ جن ابواب میں موافق دلائل ملنے کا گمان بھی نہیں ہوتا، ان سے اپنے مسلک کی تا ئید میں روایات نکال لیتے تھے، مثلاً: اوقاتِ نماز، تراویح کی رکعات کی تعداد، صاع کی مقدار وغیرہ اور اس طرح کے بیسیوں مسائل میں ان کی تحقیق و تلاش اُن کی وسعتِ نظر کا پتہ دیتی تھی۔

۵:حقیقت اور عقیدت

طلبہ کرام میں عام طور پر اساتذہ کی عقیدت و احترام کا عنصر کبھی افراط و تفریط کا شکار ہوجاتاہے، اسی وجہ سے اگر کسی استاذ سے عقیدت و محبت ہوتو اس کی ہر بات حرفِ آخر سمجھنے لگتے ہیں، طرہ یہ کہ بعض اوقات عقیدت کے جوش میں ان کی کسی غلط بات کو بھی صحیح بات کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مولانا کا مزاج اس کے برخلاف تھا، وہ ’’حقیقت، عقیدت سے بالاتر‘‘ کے اصول پر عمل پیرا تھے، تحقیق کے میدان میں کسی بھی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، اور نہ ہی عقیدت کی بنیاد پر کسی کا دعویٰ بے دلیل تسلیم کرتے تھے۔

۶:اصولِ حدیث سے اعتناء

سلسلۂ بحث میں اصولِ حدیث کے مباحث زیرِ بحث آجاتے، اس بارے میں ان کا ذوق بہت بلند تھا، اصولِ حدیث کی متداول کتابوں کے علاوہ نادر نسخے بھی ان کے پیش نظر ہوتے۔ 

۷:طلبہ کو اہم نصیحت

طلبہ سے کہا کرتے تھے :’’ مخالف کے دلائل، مخالف کی زبان سے سن کر سمجھ لو، جو لوگ ثانوی ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں، بسا اوقات انہیں دھوکہ ہوجاتا ہے، اور وہ مخالفین کی طرف ایسے خیالات منسوب کردیتے ہیں، جنہیں وہ بھی تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

۸:حنفیت کے دلائل اکٹھے کرنا

مولاناکا شمار متصلب حنفیہ میں ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف عقیدت کی بنیاد پر وہ پکے حنفی تھے، بلکہ ان کا تصلب دلائل و شواہد کی بنیاد پر تھا۔ وہ موافق ومخالف ہر نوع کی تصانیف سے جس قدر ممکن ہوتا، دلائل جمع کرتے، اور طلبہ کو اُن دلائل سے آگاہ کرتے۔

۹: فقہاء کے مناہج کی جان کاری کرانا

میدانِ تحقیق میں کتابوں کا تعارف جس قدر وسیع ہوگا، محقق کی تحقیق میں اسی قدر توسُّع و تنوُّع ہوگا، جس طرح کتب کا تعارف ضروری ہے، اسی طرح ان کے مناہج کی واقفیت بھی بے حد ضروری ہے۔ علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کی طرح مولانا کے اسلوبِ تدریس میں ہمیں یہ پہلو نظر آتا ہے کہ وہ اپنے درس میں حدیث کے بڑے بڑے ائمہ اور فقہاء کے خیالات سامنے لاتے، اُن کی اہم تصانیف ذکر کرتے، ان کے طرزِ استدلال سے واقف کراتے، ان کے نہج کا طریقہ اور انداز بناتے۔

۱۰:تحقیقِ رواۃ کا منہج

احادیث کے راویوں کے حالات کے لیے میزان الاعتدال، تذکرۃ الحفاظ، تہذیب التہذیب اور لسان المیزان کو تنقیدی نظر سے پڑھتے تھے، متقدمین کی کتابوں میں ان کی سند تلاش کرتے تھے، فرماتے تھے: ’’راوی کی توثیق و تضعیف ایک اجتہادی معاملہ ہے، ہوسکتا ہے کہ ایک راوی ایک محدث کے یہاں ضعیف ہو، جبکہ دوسرے کے یہاں وہ وجہ باعثِ ضعف نہ ہو، غرضیکہ جرح و تعدیل میں راوی کے حالات کے لیے تفصیلی مطالعہ ضروری ہے، صرف نقلِ اقوال پر اکتفا کرنا درست نہیں۔‘‘

۱۱:اسلوبِ تحقیق میں تنوُّع

مولانا کا طرزِ تحقیق صرف حدیثی اور فقہی مباحث کے ساتھ خاص نہ ہوتا، بلکہ اگر کسی لفظ کے سمجھنے کی نوبت آتی تو ائمہ لغت اور علمائے معانی و بیان کی اہم تصانیف کھلتیں، کلام عرب سے استشہاد ہوتا، الفاظ کی حقیقت اور مختلف زبانوں میں اس کی تاریخ پر روشنی ڈالی جاتی، بڑی تحقیق اور تفتیش کے بعد کوئی رائے قائم کی جاتی۔

۱۲:مختلف مسالک کے طلبہ کی شرکت

مولانا کے درس کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے درس میں چاروں فقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور غیر مقلد طلبہ بھی شریکِ درس ہوتے۔ آپ سطحی سوچ رکھنے والے طلبہ کے بجائے ان طلبہ کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جو غوروخوض، بحث و تحقیق کے عادی تھے، اس کا نتیجہ تھا کہ ان کے طلبہ میں زورِ تحقیق موجزن نظر آتا ہے۔ بزرگوں کی تعظیم، اسلاف کا احترام، محدثین کی عزت اور فقہاء کاادب ہمیشہ ملحوظ رہا۔ یہ بات ان کے ذہن و دماغ میں بس چکی تھی کہ اکابر ہوں یا اصاغر، متقدمین ہوں یا متأخرین، سب کی تعظیم کرنی چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون مولانا عبدالسلام قدوائی ندویؒ کی کتاب: ’’مولانا حیدر حسن خاں ٹونکی  ؒ ‘‘اور مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’پرانے چراغ‘‘(جلد اول، ص:۱۵۹-۱۷۷) سے تیار کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

۱: الحجرات:۶
۲: مولانا اشرف علی تھانویؒ، بیان القرآن ۔
۳: أبو بکر عبد اللہ بن محمد بن أبي شيبۃ العبسي الکوفي (ت:۲۳۵ھـ)، المصنف، الرياض السعوديۃ، دار کنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، تحقیق: سعد بن ناصر بن عبد العزيز أبو حبيب الشثري: ۳۶۷/۱۸، رقم: ۳۳۱۱، باب: ’’فیما یمتنع بہ من (من القتل) وما ھو؟ وما یحقن الدم؟۔‘‘
۴: محمد عامر الصدیقي الطونکي، ’’حیاۃ العلامۃ المحدّث حیدر حسن خان الطونکي‘‘، طونک، الہند۔ ۱۹۹۹ء، معہد مولانا أبي الکلام آزاد للبحوث العربيۃ والفارسيۃ، راجستان، ص:۹۳۔
۵: محمد عامر الطونکي، ’’حیاۃ العلامۃ المحدّث حیدر حسن خان الطونکي‘‘، ص:۹۵ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین