بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نامور محدّث ومحقّق شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ  کا تالیفی وتحقیقی منہج اور چند نمایاں آراء وافکار 


نامور محدّث ومحقّق شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ 

کا تالیفی وتحقیقی منہج اور چند نمایاں آراء وافکار 


شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ کی شخصیت وتعارف

شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ، موجودہ دور کے ایک وسیع النظر محقّق اور بلند درجہ محدّث ہیں۔ وہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ اور شیخ عبد اللہ سراج الدین رحمہما اللہ جیسے ناموَر محققین کے دامنِ تربیت سے وابستہ رہے ہیں اور ان بلند پایہ ہستیوں کی سالہا سال کی محنتوں سے تراشیدہ ہیرہ ہیں۔ لگ بھگ پینتیس برس شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ  سے فیض یاب ہوتے رہے، شیخ موصوف انہیں عنفوانِ شباب میں ہی ’’تلمیذُ الأمس وزمیلُ الیوم‘‘ (کل کے شاگرد اور آج کے رفیق) جیسے بلند الفاظ سے یاد کرتے اور ان کی علمی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے تھے۔ علومِ اسلامیہ کی متعدد جہتیں شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ کی تحقیق وتالیف کی جولان گاہ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم کی بدولت انہیں عقلِ سلیم، ذکاوت وذہانت، دور اندیشی، آزمودہ کاری اور تاریخ وزمانہ سے آگہی کے ساتھ علمی ذوق اور تنقیدی حِس جیسی گراں قدر دولتیں عطا فرما رکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کا قاری اور ان کی مجلسوں کا حاضر باش ان اوصاف وکمالات کی گواہی دے گا۔ ان کی گفتگو مستحکم و مدلّل اور علم و تربیت و فکر سے مزیّن ہوتی ہے، کبھی کبھار ادبی تنقید بھی کرتے ہیں، اور کوئی معاصر، علمی میدان میں حدود سے تجاوز کرے اور شذوذ وتفرُّد کو کامیابی کی سیڑھی بنانے لگے تو غیرتِ ایمانی کے تئیں ایسے لوگوں پر کڑی تنقید بھی کرجاتے ہیں۔ 
شیخ موصوف کے صاحب زادے ڈاکٹر محی الدین محمد عوامہ حفظہ اللہ’’الولدُ سرٌّ لأبيہ‘‘ (بیٹا، باپ کا پَرتو ہوتا ہے) کا مصداق ہیں۔ والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر گامزن اور متعدد علمی وتحقیقی کاوشوں کے حامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنے والدِ معظّم کے احوال وافکار کے متعلق’’صَفحاتٌ مُضيئۃٌ من حياۃ سيدي الوالد العلّامۃ محمد عوّامۃ‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ اس رسالہ کے ایک حصہ میں لائق فرزند نے فائق پدر کے تالیفی وتحقیقی منہج پر روشنی ڈالی اور ان کے نمایاں آراء ونظریات کو سپردِ قلم وقرطاس کیا ہے۔ پیشِ نگاہ مضمون میں رسالہ کے اسی حصے کو طلبہ واہلِ علم کے استفادہ کی غرض سے کسی قدر اختصار کے ساتھ ’’اُردوایا‘‘ جارہا ہے، اور بوجوہ حرفی ترجمہ کے بجائے رواں ترجمانی کو ترجیح دی گئی ہے۔ 

شیخ حفظہ اللہ کے چند نمایاں آراء وافکار

شیخ حفظہ اللہ کی حیاتِ مستعار کے بعض اہم علمی وتربیتی آراء وافکار درج ذیل نکات کی صورت میں ملاحظہ فرمائیے: 

1: جمہورعلمائے امت پر اعتماد

شیخ موصوف، لوگوں کو جمہور علماء امت کے منہج پر ثابت قدم رکھنے اور ائمہ متقدمین (خاص طور پر ائمہ اربعہ) پر ان کا اعتماد برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کا نام لے کر ان ائمہ کو غیر مستحکم کرنے یا ان پر بلاجواز طعن وتشنیع کے سخت ناقد ہیں، ایسے لوگوں کی علمی کمزوریوں کو واشگاف کرتے اور ان کی جہالت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ شیخ‘ مذاہبِ اربعہ سے خروج کے قائل نہیں، اور نہ ہی تلفیق اور رخصتوں کی جستجو کو رَوا جانتے ہیں، بلکہ ان کی نظر میں تتبعِ رُخص‘ خواہشاتِ نفسانیہ کی پیروی اور قلبی مرض ہے۔ شیخ موصوف اس طرزِ فکر کے سخت ناقد ہیں۔ شیخ نے اپنی دو کتابوں ’’أثر الحدیث الشریف في اختلاف الأئمۃ الفقہاء‘‘ اور ’’أدب الاختلاف في مسائل العلم والدين‘‘ میں مذاہبِ اربعہ کی اتباع کی ضرورت کو واضح کیا ہے۔ ان دونوں کتابوں میں شیخ کا وہ فکری منہج عیاں ہے، جس کی ترویج کی خاطر وہ شب وروز کوشاں ہیں۔ 
  شیخ موصوف‘ تمام علمائے امت کا احترام کرتے، اور ان کی عیب جوئی کو ناروا سمجھتے ہیں، شیخ ان ائمہ کو اسلام کے لہراتے پھریرے اور دمکتی قندیلیں قرار دیتے ہیں، بھلا کوئی عقل مند انسان ان پھریروں کو سرنگوں کرنے اور ان قندیلوں کو بجھانے کی جرأت کر سکتا ہے؟! 

2:   طلبۂ علم کے لیے تربیتی منہج

شیخ حفظہ اللہ نے اپنا علمی وتربیتی منہج اپنی کتاب ’’معالم إرشاديۃ لصِناعۃ طالب العلم‘‘ میں تفصیل سے واضح کردیا ہے۔ اس کتاب کے عنوانات ان کی تربیتی آراء کا حاصل ہیں، جن پر وہ طلبۂ علم کو رواں دواں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ائمہ سلف اور باعمل علماء کی مانند ایک طالب علم کی چال پُراعتماد ہو، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، اور وہ علم کی راہ میں تدریج کا لحاظ رکھتے ہوئے گامزن ہو۔ یوں وہ فکری بے راہ روی اور ذہنی انتشار سے محفوظ رہے گا، اور اس کی آراء میں تضاد نہ ہوگا۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر طالب علم کی بنیادی تربیت عمدہ ہو تو وہ فکری اعتبار سے درست راہ پر قائم رہتا ہے، اس کے علمی منصوبے‘ صحیح سمت میں ہوتے ہیں، معاصر اہلِ علم اس سے مطمئن رہتے ہیں، اور انہیں اس کے شاذ افکار ونظریات کی تردید کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایسا طالب علم مستقبل میں معاشرے کی تعمیر وترقی اور اگلی نسلوں کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ فی زمانہ ایسے باتوفیق علماء نادر وکمیاب ہیں۔ 

3: تخریجِ احادیث کا مثالی اسلوب
 

شیخ موصوف‘ طلبۂ علم کے ذہنوں میں یہ خیال جاگزیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تخریجِ احادیث کا مقصد کسی حدیث کے ثبوت کا پتہ لگانا اور اس کے وجود کی تحقیق کرنا ہے، بلا وجہ حدیث کا رد یا نفی مقصود نہیں ہونا چاہیے۔ معاصر اہلِ تخریج (تخریجی فہرستوں کے مرتبین، جن کی تخریج کی ابتدا ’’صحیح بخاری‘‘ سے اور انتہا ’’مسندِ فردوس دیلمی‘‘ اور ’’تہذيب الکمال‘‘ پر ہوتی ہے) کو جب حدیث کی سند کے کسی راوی میں کوئی اشکال (خواہ مضبوط ہو یا کمزور) دکھائی دیتا ہے تو اس حدیث کے متعلق کلام میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ضعیف قرار دے دیتے ہیں، حدیث کی معاضد اور متابع روایات کی چنداں جستجو نہیں کرتے، اور نہ ہی متعلقہ راوی کے بارے کہے گئے الفاظِ جرح کی تحقیق کی زحمت کرتے ہیں، تاکہ حدیث کو تقویت مل سکے اور اس کا معنی ثابت ہوسکے۔ یہ لوگ تحقیق کی راہ کے ان جاں گسل مراحل سے کوسوں دور اور ان کی اہمیت وضرورت سے نابلد ہیں۔ 

4: علمِ جرح وتعدیل کے داخلی مسائل سے آگاہی
 

شیخ حفظہ اللہ اپنے طلبۂ علم میں علمِ جرح وتعدیل کے داخلی مسائل سے آگہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جرح وتعدیل کے متعلق ہر قول‘ قابلِ قبول نہیں ہوتا، نہ ہر رائے قابلِ اعتماد ہوتی ہے، بلکہ طالب علم کے ذمہ ہے کہ جرح وتعدیل کے مراتب اور اقوال (خاص طور پر جرح کے اقوال) کے پس منظر کی تحقیق ومراجعت اور کھود کرید کرے؛ کیونکہ ان اقوال کے پسِ پشت بہت سے داخلی اسباب اور مخفی وجوہات ہوتی ہیں، جن سے واقفیت‘ طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ کتبِ حدیث ورجال سے متعلق شیخ موصوف کی تحقیقات (خصوصًا ’’مصنف ابن أبي شيبۃ‘‘ اور ’’الکاشف للذھبي‘‘ کے حواشی) سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے۔ 

5: امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  کی توثیق پر اعتماد
 

شیخ موصوف کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ رجالِ حدیث کے تعلق سے امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  کی توثیق (ثقہ قرار دینے) پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔ معاصر اہلِ علم کے ہاں عام طور پر امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  کے متعلق اس مشہور رائے کو مِن وعَن تسلیم کیا جاتا ہے کہ امام موصوف‘ رجال کی توثیق میں متساہل ہیں، اور وہ (کتاب ’’الثقات‘‘ میں) معروف وغیر معروف راویوں کا ذکر کر جاتے ہیں، لہٰذا ان کی توثیق قابلِ اعتماد نہیں اور ان کی آراء قابلِ قبول نہیں۔ لیکن شیخ حفظہ اللہ امام ابنِ حبان  رحمۃ اللہ علیہ  کا شدت سے دفاع کرتے ہیں، انہوں نے ’’مقدمۃ المصنف‘‘ اور ’’مقدمۃ الکاشف‘‘ میں دلائل کے ساتھ اپنی رائے واضح کی ہے، اور اس مسئلے کے متعلق ایک مستقل رسالہ بھی مرتب کیا ہے، جو ان کے سلسلۂ رسائل ’’أبحاثٌ حديثيۃٌ ہادفۃٌ لتصحيح المسار العلمي‘‘ کا حصہ ہے۔ 

6: اہلِ علم کے پانچ درجات
 

شیخ حفظہ اللہ اپنی مجلسوں میں اکثر یہ تاکید کرتے رہتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کو پانچ درجات کے طلبۂ علم درکار ہیں: 
1  -  پہلا درجہ: جو منبر ومحراب کو سنبھال سکیں، اور ایک محلے کے باسیوں کے رہبر بن سکیں۔ 
2   - دوسرا درجہ: ایک شہر کی ضروریات کو پورا کرنے والے اہلِ علم۔
3     - تیسرا درجہ: ملکی سطح کے علماء، جو اس ملک کی دینی مشکلات اور جدید معاملات کا حل پیش کرسکیں۔
4-     چوتھا درجہ: عالمِ اسلام کے پائے کے مشائخ۔
5-     پانچواں درجہ: دینِ اسلام کے متعلق پھیلائے گئے شبہات کی تردیدی صلاحیت کے حامل ہر علم کے متخصص اہلِ علم، بلکہ ہر علم کی متنوع انواع میں جزوی تخصص کے حامل علماء۔

کتب ورسائل میں موصوف کا عمومی منہج

شیخ حفظہ اللہ کے علمی منہج کی اساس وبنیاد درج ذیل تین امور ہیں:
1-   مضبوط علمی استعداد 
2-   ٹھوس علمی منہج 
3-   گہرا نقطہ نظر علمی 
علمی مضبوطی کے تحت درجِ ذیل امور داخل ہیں:
کسی موضوع کے تمام پہلؤوں کا وسیع مطالعہ، نصوص کے معانی ومفاہیم کی معرفت وصحیح فہم، اور ان سے استدلال واستشہاد کی کیفیت سے آگاہی، ادبی طرزِ بیان اور اعلیٰ اسلوب۔ 
ٹھوس علمی منہج کی تربیت انہوں نے اپنے بلند پایہ اساتذہ ومشائخ سے پائی ہے، اور درس وتدریس، فہم وترکیز، بعد ازاں تخریج وتحقیق، نکتہ رسی و دقت آفرینی میں وہ اسی منہج پر گامزن ہیں۔ 
مذکورہ امور کے ساتھ ساتھ اُمتِ مسلمہ کے احوال وحقائق اور طلبۂ علم کی ضروریات کے تعلق سے ان کا نقطۂ نظر بیدار مغزی پر مبنی ہے اور انہیں اُمت کے تمام طبقات اور گروہوں میں عام ہوتے علمی، فکری اور تربیتی انتشار کا گہرا ادراک ہے۔ نیز توفیقِ خداوندی کا کرشمہ ہے کہ وہ مرض کی تشخیص کے ساتھ دوا بھی تجویز کرتے ہیں، وہ ایک آزمودہ کار طبیب اور ماہر وتجربہ کار شخصیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور ان کی آراء ونظریات کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ 
شیخ موصوف کی تمام تحریروں (تالیفی ہوں یا تحقیقی) میں ان کا عمومی علمی منہج انتہائی دشوار ہونے کے باوجود یکساں طور پر منظّم، واضح منصوبہ بندی اور حد درجہ باریک بینی کا نمونہ ہے۔ ان کی صحبت کا ہر فیض یاب اس کی گواہی دے گا۔ شیخ کے عمومی منہج کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:
1-  شیخ کی گفتگو اور تحریر دقت رسی پر مبنی ہوتی ہے، حسبِ ضرورت اختصار یا طوالت کو اختیار کرتے ہیں، ان کا اسلوبِ بیان‘ قوی اور ان کا منہج‘ واضح ہے، ایک ایک لفظ بلکہ حرف کو برتنے کا لحاظ رکھتے ہیں؛ کیونکہ ان کے نزدیک ایک حرف بھی دلیل کی حیثیت اور مستقل معنی ومفہوم رکھتا ہے، ان کے ہاں کسی لفظ کی تقدیم وتاخیر کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔
2-  اپنے آراء وافکار کو علماء سابقین اور ائمہ متقدمین کے اقوال سے مدلّل کرتے ہیں، اس موقع پر جس دلیل کو پہلے ذکر کرتے ہیں، وہی مقدم ہونے کی حق دار ہوتی ہے۔ متقدمین کے ہاں کوئی بات مل جائے تو اسے متاخرین سے نقل نہیں کرتے؛ گویا متقدمین کا کلام‘ شیخ موصوف کی زرہ اور ان کا فہم‘ شیخ کا قلعہ ہے۔ 
3-  مصادرِ اصلیہ سے نقل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، نیز عبارت کا اچھی طرح تقابل کرتے ہیں، اور اپنے طلبہ کو بھی اس کی بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں، اپنی ذات اور متعلقین کی حد تک اسے لازم کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر محی الدین محمد عوامہ حفظہ اللہ کا بیان ہے کہ ایک بار مجھ سے فرمانے لگے:
 ’’ناقل اگر امام الائمہ بھی ہو تو سر آنکھوں پر، لیکن میرے لیے ان کی نقل کردہ عبارت کی مراجعت ضروری ہے، میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ 
یہ تو تب ہوگا کہ متعلقہ کتاب شائع ہوچکی ہو، اگر وہ کتاب مخطوط ہو، تب بھی اس کی مراجعت کی کوشش کو ضروری سمجھتے ہیں، اس مخطوط کا حصول آسان ہو تو اسے حاصل کرکے مراجعت اور تقابل کرتے ہیں، اور عبارت کی تصدیق کرکے اس کے مطابق نقل کرتے ہیں؛ تاکہ عبارت صحیح سالم ہو اور کتاب کی جانب اس کی نسبت درست ہوجائے۔ 
4-  شیخ موصوف‘ منقولہ عبارتوں کی ان کے قدیم واصلی مصادر کی جانب نسبت کرتے ہیں، یوں وہ اپنی ذات اور اپنی کتب کے قارئین کو ائمہ سے جوڑ دیتے ہیں؛ کیونکہ یہی ائمہ ہمارے لیے قابلِ اعتماد ہستیاں ہیں اور مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی معاصر عالم سے کوئی عبارت ملے جو انہوں نے کسی متقدم سے نقل کی ہو اور وہ عبارت شیخ کے مقصود کے موافق ہو، تب بھی شیخ موصوف اصل ماخذ میں اس عبارت کی مراجعت کرتے، اور یہ اطمینان کرتے ہیں کہ عبارت صحیح سالم نقل ہوئی ہے یا نہیں، پھر براہِ راست اصل ماخذ کی جانب اس کی نسبت کرتے ہیں۔ 
5-  عبارتوں کے مآخذ کی جانب نسبت کرتے ہوئے قدیم باسند کتاب کی طرف نسبت کو قدیم بےسند کتاب پر مقدم رکھتے ہیں، بلکہ باسند کتاب کو ہی ترجیح دیتے ہیں، بے سند کتاب کا ذکر کسی خاص نکتہ کی بنا پر ہی کرتے ہیں۔ 
6-  مآخذ ومصادر کی جانب نسبت کرتے ہوئے پہلے درجہ میں کتاب کے صحیح تر ایڈیشن کو ترجیح دیتے ہیں، دوسرے درجہ میں متداول اور مشہور ایڈیشن کو اختیار کرتے ہیں، تاہم ایسے صحیح طبعات کا حوالہ نہیں دیتے جو مفقود یا نادر ہوں، اگرچہ وہ شیخ کے کتب خانہ میں موجود بھی ہوں؛ کیونکہ اس ایڈیشن تک عام قاری کی رسائی دشوار ہوتی ہے۔ 
7-  شیخ کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا حوالہ اس انداز کا ہو جو اکثر طبعات کے موافق ہوجائے، تاکہ قاری کو بوقتِ ضرورت مراجعت میں سہولت ہو، اور اسے کتاب کا ایسا ایڈیشن خریدنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے جو اس کی دسترس میں نہ ہو۔ 
8-  ہر حوالہ اس فن کی کتابوں سے ذکر کرتے ہیں، چنانچہ کسی لغوی کلمہ کی تحقیق کے لیے کتبِ لغت کی مراجعت کرتے ہیں، اور اصولی مسئلہ کے لیے کتبِ اصول کی جانب رجوع کرتے ہیں، بلکہ مزید باریک بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر شوافع کے کوئی فقہی یا اصولی مسئلہ کی تحقیق مقصود ہو تو شافعیہ کی کتبِ فقہ واصول کی مراجعت کرتے ہیں۔ یہی طریقۂ تحقیق مالکیہ وغیرہ کے مسائل میں بھی ہوتا ہے۔ فقہِ مقارن (مذاہبِ اربعہ کی تقابلی فقہ) سے متعلق کتب (مذاہبِ اربعہ کی تقابلی کتب) کا حوالہ ذکر کرنا پسند نہیں کرتے؛ کیونکہ ہر فقہی مذہب کی مستقل کتابیں اور مآخذ موجود ہیں۔ 
9-   حسبِ ضرورت دیگر فنون کے متخصصین سے بھی رجوع کرتے اور ان سے مشاورت کرتے ہیں، کبھی ان سے خط وکتابت کرتے ہیں۔ جب فقہ شافعی میں شیخ باقشیر حَضْرَمِی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب ’’قلائد الخرائد‘‘ کی تحقیق کر رہے تھے تو مسئلہ تدخین (سگریٹ نوشی) کی تحقیق کے لیے ڈاکٹر عبد اللہ کتانی سے خط وکتابت کی اور کتاب میں ان کی جانب اس کی نسبت بھی کی۔ اس اہتمام کی بنا پر شیخ حفظہ اللہ کی کتابوں اور آراء پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ 
10-  جس عبارت میں قاری کو اشکالات پیش آسکتے ہیں، ان کے متعلق اسے راحت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، عبارت کی پیچیدگی کو حل کرتے اور اس کی توضیح کرتے ہیں، حسبِ ضرورت اعراب لگا دیتے ہیں، اور عبارت کے فہم میں دشواری محسوس ہو تو قاری کو حیرت وپریشانی میں مبتلا نہیں کرتے۔ اپنے طلبہ کو اکثر فرمایا کرتے ہیں: ’’المحقّقُ خادمُ القارئ‘‘ (محقق، قاری کا خادم ہوا کرتا ہے)۔ 
11-   شیخ موصوف علاماتِ ترقیم کا حد درجہ اہتمام کرتے اور انہیں ’’علاماتِ تفہیم‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’إن صحّۃَ وضعِہا وسلامۃَ استخدامہا ہي نصفُ التحقيق‘‘ (علاماتِ ترقیم کے درست استعمال سے تحقیق کا آدھا کام ہو جاتا ہے)۔ 
12- تحقیق کے مآخذ لکھتے ہوئے بھی الفاظ کے انتخاب میں دقت رسی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مثلًا: کسی متعین کتاب کے کسی ایڈیشن کا ذکر کرنا ہو، لیکن اس کی تحقیق شیخ کو پسند نہ ہو تو یوں نہیں لکھتے: ’’حقّقہٗ فلانٌ‘‘ (فلاں نے اس کی تحقیق کی ہے)، بلکہ یوں لکھتے ہیں: ’’طبعۃُ فلانٍ‘‘ (فلاں کا ایڈیشن)۔
13-   کتاب کے آخر میں علمی فہرستیں مرتب کرنے کا بہت اہتمام کرتے اور ان میں تنوّع کو پسند کرتے ہیں، تاکہ محقق کو سہولت ہو اور اسے اپنے مقصود تک جلد رسائی ہو۔ 
14-  کچھ کتابیں، شیخ کے پہلو میں دَھری رہتی ہیں، اور تالیفی یا تحقیقی عمل کے دوران ان سے جدا نہیں ہوتیں، مثلًا: کتبِ لغت، ابن اثیر  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’النہايۃ‘‘ اور راغب اصفہانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’المفردات‘‘
15-   شیخ موصوف اپنی ہر تحریر میں بیک وقت عقل اور روح دونوں سے مخاطب ہوتے ہیں، اس بنا پر عقل ان کی آواز پر لبیک کہتی، دل ان سے مانوس ہوتا اور روح اُن کی فرمان بردار ہوجاتی ہے۔

تالیف میں علمی منہج 

تالیف کے تعلق سے شیخ موصوف کے منہج کو درج ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے:
1- لکھنے کے لیے ایسے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں، جس کے متعلق لکھنے کی حاجت و ضرورت محسوس ہو، خواہ علمی واختصاصی موضوع ہو، جیسے: ’’حجّيّۃُ أفعالِ النبيِّ صلی اللہ عليہ وسلّم‘‘، اور ’’دراسۃٌ حديثيۃٌ مقارنۃٌ لنصب الرايۃ وفتح القدير ومُنيۃ الألمعي‘‘۔ یا فکری موضوع ہو، مثلًا: ’’أثر الحديث الشريف‘‘، اور ’’أدب الاختلاف‘‘ یا اصلاحی وتربیتی موضوع ہو، جیسے: ’’معالم إرشاديۃ لصِناعۃ طالب العلم‘‘، یا عوام کے لیے تہذیبی موضوع، مثلاً: ’’شرحُ الأحاديثِ القدسيۃ‘‘۔
2- موضوع کے تعلق سے مآخذ ومراجع اور ایسی کتابیں جمع کرلیتے ہیں، جن میں اس موضوع سے متعلق مواد ملنے کا گمان ہو۔ وسعتِ مطالعہ کی بنا پر ان کی تحقیقات میں ایسی کتابوں کا مواد بھی ملتا ہے، جن میں متعلقہ موضوع سے متعلق مواد کا گمان نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ موصوف اپنے معمول کے مطالعہ کے دوران حاصل شدہ فوائد بھی مختلف رقعوں یا کتاب کی ابتدا میں خالی صفحات پر تحریر کر لیتے ہیں، یوں بوقتِ ضرورت ان تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ 
3- کسی موضوع پر لکھنے سے قبل اس موضوع کا ممکنہ حد تک بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہیں، اور اس سے متعلق جمع کیے گئے مآخذ ومراجع کا بھی استیعاب کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں، حافظے میں موجود سابقہ مطالعہ مزید براں، یوں اس موضوع کے تمام پہلؤوں کا احاطہ ہو جاتا ہے۔ 
4- شیخ کی عادت ہے کہ تحریر کے آغاز سے قبل اس کا خاکہ تیار کرتے ہیں، اس کے اصولی وفروعی مباحث اور مقدمات ومسائل کو متعین کرلیتے ہیں، اور منطقی ترتیب کے مطابق تحریر کی خاکہ سازی کرلیتے ہیں؛ تاکہ تحریر کے تمام پہلؤوں کا احاطہ آسان ہو اور وہ تمام متعلقہ موضوعات پر مشتمل ہو۔ 
5- آیاتِ کریمہ اور احادیثِ نبویہ سے بکثرت استدلال کرتے ہیں؛ کیونکہ یہی دو مآخذ تمام مراجع کی اساس اور جملہ منقولی دلائل کی بنیاد ہیں۔ مزید براں ان کا استدلال حسن وخوبی سے آراستہ، سلامتیِ فہم کا پیکر اور عمدہ اسلوبِ بیان کا نمونہ ہوتا ہے۔ 
6- قاری کو اپنے عہد کے ساتھ جوڑتے ہیں، اس غرض سے خود اپنی ذات یا اپنے اساتذہ پر گزرے ایسے حقیقی واقعات بکثرت ذکر کرتے ہیں، جن کا زیرِ بحث موضوع سے گہرا تعلق ہو؛ تاکہ تحریر زیادہ مفید ثابت ہو اور روح کے ساتھ اس کا تعلق، مسرت انگیز ہو۔ 

تحقیقِ مخطوطات کا علمی منہج 

تحقیق وتدقیق کے میدان میں شیخ حفظہ اللہ کا منہج نہایت دشوار ہے، ان کی راہ پر وہی گامزن ہوسکتا ہے جو وسعتِ علم، گہرے غور وتدبر، اور صبر وہمت جیسے بلند اوصاف کا حامل ہو، جس کا صبر اس کے علم سے بڑھا ہوا ہو، اور جہدِ مسلسل اس کی اکتاہٹ کو دور کردے۔ شیخ موصوف نے امہاتِ کتب کی تحقیق وتعلیق کا کام کیا ہے اور ان کی تحقیقات، شہرہ آفاق ہیں، کیونکہ انہوں نے تحقیق کے کڑوے گھونٹ اور مراجعت وتدقیق کی مٹھاس پر صبر وتحمل سے کام لیا ہے۔ چند روز تک ان کی زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ کسی قول کی تحقیق یا کسی عبارت کی تدقیق کرتے نظر آئیں گے، یا پھر مآخذ ومراجع کی مراجعت کرتے اور انہیں اُلٹتے پلٹتے دکھائی دیں گے۔ ان کے متعلق علامہ محمد سعید طنطاوی حفظہ اللہ کا مقولہ مشہور ہے: ’’لا أعلمُ علی وجہ الأرض أعلمَ منہ في علم التحقيق‘‘ (میری نگاہ میں روئے زمین پر علمِ تحقیق کا ان سے بڑا عالم کوئی نہیں)۔ 
فنِ تحقیقِ  مخطوطات کے تئیں شیخ حفظہ اللہ کے علمی منہج سے متعلق کچھ نکات تو ان کے عمومی منہج کے ضمن میں گزر چکے، مزید چند امور ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: 
1-   شیخ موصوف جس کتاب کی تحقیق کا عزم کرلیں تو ان کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ خود مؤلف کا نسخہ (خاص طور پر مؤلف کی حیاتِ مستعار کا آخری نسخہ) انہیں حاصل ہوجائے، چنانچہ اس کے لیے خوب کھود کرید، پوچھ گچھ، اور تلاش وجستجو کرتے ہیں، اگر مؤلف کا نسخہ دریافت ہوجائے تو وہی ان کی مطلوبہ آرزو ہوتی ہے، اس حوالے سے کئی تحقیقات میں اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا، چنانچہ ’’تقريب التہذيب‘‘، ’’الکاشف‘‘، ’’مجالس ابن ناصر الدين‘‘ اور ’’القول البديع‘‘ کی تحقیق میں انہیں ان کتابوں کے مؤلفین کے نسخے حاصل ہوئے۔ ڈاکٹر محی الدین محمد عوامہ حفظہ اللہ کا کہنا ہے:
’’والدِ محترم کو مؤلف کے جس نسخے کی حرص ہوتی ہے، اور جس پر وہ اعتماد کرتے ہیں، اس سے مراد وہ نسخہ ہے جو مؤلف کی دسترس میں رہا ہو، مؤلف نے اس میں کمی بیشی اور تہذیب وتصحیح کی ہو، اسے اپنے شاگردوں کے سامنے پڑھا ہو اور شاگردوں نے بھی مؤلف کے سامنے اس نسخے کو پڑھا ہو، ایسے نسخے کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ 
اس نوعیت کے نسخے کے حصول کا بنیادی مقصد تو واضح ہے، لیکن اس میں ایک اور علمی پہلو یہ ہے کہ مؤلف نے کبھی اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں کتاب تالیف کی ہوتی ہے، اس وقت انہیں علم اور حفظ میں امامت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا، ان کے احکام وآراء اور ترجیحات کو بھی حجت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر یہ نسخہ ان کی دسترس میں رہا ہو اور اس پر مؤلف کی تنقیح وتہذیب کے آثار نمایاں ہوں تو یہ کتاب میں درج آراء پر ان کے علمی استقرار کی دلیل ہوگی، ورنہ یہ احتمال رہے گا کہ ممکن ہے بعد میں ان کی ترجیح بدل گئی ہو۔ اہلِ علم کے احوالِ واقعی میں تو یہ پہلو معروف ہے ہی، خود ہمارے گرد وپیش کے اعتبار سے بھی ایک واضح حقیقت ہے۔ شیخ موصوف دیکھتے ہیں کہ بہت سے محققین جس کتاب کی تحقیق رکھتے ہوں، اس کے مؤلف کا نسخہ حاصل کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں، لیکن شیخ اس اہتمام کے ساتھ اپنے متعلقین کو مذکورہ علمی وفنی امور کی جانب بھی متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ 
2-     اگر مؤلف کا نسخہ حاصل نہ ہو تو اس کے فروعات میں سے کوئی نسخہ تلاشتے ہیں، یعنی ایسا نسخہ جو مؤلف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو، یا مؤلف کے نسخے سے اس کا تقابل کیا گیا ہو۔ اگرچہ یہ نسخہ مؤلف کے نسخے کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، لیکن تحقیق کے دوران اس سے کافی حد تک اطمینان حاصل ہوگا۔ 
3-    اگر مؤلف کا نسخہ یا اس کا کوئی فرعی نسخہ بھی حاصل نہ ہو تو کوئی ایسا نسخہ تلاش کرتے ہیں جو ائمہ کرام میں سے کسی امام کے سامنے رہا ہو؛ کیونکہ عام طور پر ایسا نسخہ، حواشی اور سماعات (اس نسخے کی قراءت وسماع کی تاریخوں ودیگر تفصیلات) سے مزیّن اور تصحیح شدہ ہوتا ہے، اس بنا پر ایسا نسخہ‘ اصل (نسخۂ مؤلف) یا اس کی فرع کے قائم مقام ہوکر اعتماد کے لائق ہوجاتا ہے۔ 
4-    اگر مؤلف کا نسخہ حاصل ہو تو شیخ اسی کو اصل قرار دیتے ہیں، اگر وہ حاصل نہ ہوپائے تو اس کی فرع کو اصل شمار کرتے ہیں، اور اگر اصل وفرع دونوں دریافت نہ ہوں تو کسی امام کے نسخے کو ہی اصل ٹھہراتے ہیں، ورنہ تمام نسخوں کو یکساں درجہ دیتے ہیں۔ 
5-    شیخ موصوف، اصل نسخہ پر پورا اعتماد کرتے ہیں، کتاب کے متن میں اسے مکمل لکھتے ہیں، اگرچہ اس کی عبارت میں کوئی غلطی ہی کیوں نہ ہو، ہاں اگر کاتب کی سبقتِ قلم کا نتیجہ محسوس ہو تو اسے نہیں لکھتے، پھر حاشیہ میں نسخوں کی دیگر تبدیلیوں یا درست لفظ یا عبارت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی معتمد اصل دریافت نہ ہو تو تمام نسخوں کو پیشِ نظر رکھ کر کتاب کی عبارت کو درست کرتے ہیں، اور حواشی میں اشارہ کرتے جاتے ہیں، اور اگر تمام نسخے کسی بظاہر نادرست لفظ پر متفق ہوں اور ان کی غلطی واضح ہو تو شیخ درست لفظ کو متن میں لکھتے ہیں اور حاشیہ میں اس کی جانب تنبیہ کر دیتے ہیں۔ 
6-   خطی نسخوں کے حواشی میں لکھی گئی تمام عبارتوں کو بھی کتاب میں درج کرتے ہیں، اور قاری کی سہولت کی خاطر انہیں ضائع نہیں کرتے؛ تاکہ قاری‘ ائمہ اہلِ علم کے افادات سے محروم نہ رہے، بلکہ جو محققین ان فوائد کو اپنی تحقیق میں درج نہیں کرتے، شیخ ان پر شدید تنقید کرتے اور ان کی اس حرکت پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ 
7-  جن خطی نسخوں پر اعتماد کرتے یا جن کی مراجعت کرتے ہیں، کتاب کے ’’مقدمۃ التحقیق‘‘ میں دقت رسی سے ان کے اوصاف وبیانات قلم بند کرتے ہیں، تاکہ قاری کے سامنے ان کی واضح صورت آئے، اس تفصیل سے ان مخطوطات کا درجہ واضح ہوتا اور ان پر اعتماد کی حد متعین ہوتی ہے۔ 
8-  خطی نسخوں کے تقابل میں نہایت باریک بینی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اپنی تمام کتابوں میں بھی اپنے بجائے کسی اور کے تقابل کو پسند نہیں کرتے، کسی لفظ کا بلا تقابل رہ جانا بھی پسند نہیں، بذاتِ خود موجود رہتے ہیں اور اپنی نگاہوں میں اس کی نگرانی کرتے ہیں۔ 
9-   نسخوں کی بہت سی تبدیلیوں کی جانب حواشی میں اشارہ کرتے ہیں، البتہ کسی تبدیلی کے تذکرہ کا کوئی فائدہ نہ ہو تو اسے ترک کردیتے ہیں، اور ان کے ذکر سے کتاب کے حواشی کو گراں بار نہیں کرتے۔ 
10-   کتاب کی ابتدا کو انتہا کے ساتھ اور انتہا کو ابتدا کے ساتھ مربوط کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، اگر کوئی مفہوم، بحث، فائدہ، یا عنوان مکرر ہو تو اس کا حوالہ دے کر دونوں کے درمیان مطابقت بیان کرتے ہیں، یوں ان کی تحقیق کردہ کتاب سونے کی اینٹ کی مانند باہم جڑی ہوئی اور مضبوط بنیادوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ 
11-   کتاب میں درج احادیث کی تخریج کا اسلوب، کتاب کے مزاج وحال، اور اس کی ترتیب وموضوع کے مناسب ہوتا ہے، ہر کتاب کی تخریجِ حدیث مفصل نہیں ہوتی، نہ ہر کتاب کی تخریج مختصر ہوتی ہے، نہ ہر کتاب میں حدیث کا درجہ بیان کرتے ہیں، اور نہ ہر کتاب میں حدیث کا حکم ذکر کرتے ہیں، جبکہ وہ موضوع نہ ہو۔ بلاشبہ تخریج ذوقی عمل ہے، اور ہر کتاب کے ساتھ اس کے مناسب تعامل بھی ایک فن ہے۔ 
12-   شیخ موصوف کی مستحکم ومضبوط علمی شخصیت ان کی تحقیقات وتعلیقات میں واضح طور پر جھلکتی ہے، بہت سے مدّعیانِ تحقیق کی مانند وہ نسخوں کے مفید وغیر مفید تغیّرات کو حواشی میں نقل نہیں کرتے، وہ اپنی تحقیقات میں مؤلف کے شریکِ کار عالم کی حیثیت سے دکھائی دیتے ہیں، جو مؤلف کے علم ورائے، لغت وفقہ، اصول وحدیث، اور عقیدہ وغیرہ میں ان کے ساتھ شریک ہوتا ہے، کبھی مؤلف کا موافق ومؤید نظر آتا ہے، کبھی اس سے بحث ومباحثہ کرتا دکھائی دیتا ہے، اور کبھی اس پر تنقید اور استدراک کرتا ہے۔
13-   شیخ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قاری کو کتاب کے سابقہ تمام طبعات سے مستغنی کردیں، وہ پچھلے محققین کی خوبیوں کا احاطہ کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں، اور اپنی جانب سے ان میں اضافہ بھی کرتے ہیں، اس لیے ان کا تحقیق کردہ نسخہ، نفیس اور کامل ہوتا ہے، اور اس نسخے کے دسترس میں ہوتے قاری کو کسی اور نسخے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ 

اختتامیہ 

شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ، عالمِ اسلام کے نامور محقق اور دورِ حاضر میں امتِ مسلمہ کی آبرو ہیں، ان کے تحقیقی وتالیفی منہج میں طلبۂ علم واہلِ علم کے لیے رہبری کا وافر سامان ہے، خصوصاً علومِ حدیث کا کوئی طالب علم شیخ موصوف کے علمی سرمائے سے مستغنی نہیں رہ سکتا، طلبۂ علم اور متخصصینِ علومِ حدیث کو شیخ کی کتابوں کو حرزِ جاں بنانا چاہیے اور ان کی تحقیقات وتالیفات سے دقتِ نظر کے ساتھ استفادہ کرنا چاہیے، اور اپنی تحقیقی وتالیفی کاوشوں میں شیخ حفظہ اللہ کے منہج کو اپنانا چاہیے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین