بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

نابالغ بچوں کی ملازمت  اور مزدوری (Child Labour) کا حکم

نابالغ بچوں کی ملازمت  اور مزدوری (Child Labour) کا حکم


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
اسلام میں نابالغ بچوں کی مزدوری سے متعلق کیا حکم ہے؟ جیسے میں نے متعدد چھوٹی بچیوں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہوئے ، ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے دیکھا ہے اور جب آپ ان سے کچھ کہیں تو جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  بھی ہمارے پیارے پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں کام کیا کرتے تھے۔                                    

 مستفتی: شاہ زیب

الجواب باسمہٖ تعالٰی

واضح رہے کہ معاشرے میں موجود بیوہ، یتیم، مسکین اور ان جیسے غریب اور نادار افرا د کی کفالت اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا بنیادی طور پرحکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، لہٰذا حکومت ایسے تمام افراد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرے اور ان کی ضروریات کی کفالت کرے۔ (۱) 
نیز بچے مستقبل کے معمار ہیں، انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لیے بچپن ہی سے اچھی تعلیم و تربیت دینا ضروری ہے، اگر ضرورت محسوس ہو اور بچے میں صلاحیت موجود ہو تو اسے کوئی ہنر سکھانے اور اس کی تربیت کے لیے کسی ماہرِ فن کے پاس بٹھانے کی گنجائش ہے، بسا اوقات بچے کی طبیعت پڑھائی کی جانب آمادہ نہیں ہوتی،ایسے بچوں کو سرپرست ہنر مندی، محنت کشی اور کام کاج میں لگاتے ہیں ، تاکہ ان کے دلوں میں پڑھائی کی اہمیت پیدا ہو اور انہیں تعلیم کے فوائد و ثمرات کا ادراک ہو اور وہ محنت و مزدوری میں پیش آنے والی مشکلات دیکھ کر پڑھائی پر آمادہ ہوں۔
ان اغراض اور مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے بچے کو کوئی ہنر سکھانے کے لیے کسی کے پاس محنت و مزدوری کے لیے بٹھانے کی اجازت ہے، البتہ اس کے لیے کچھ حدود اور شرائط ہیں، جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
۱:-    بچہ کی عمراس حد تک پہنچ چکی ہو کہ اس کا جسم اس ہنر کو سیکھنے اور کام کاج کو برداشت کرسکتا ہو، عمر کی یہ حد بچوں کے مزاج ، علاقے اور زمانے کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے، چنانچہ جو بچہ کام کاج کرنے اور مزدوری کرنے کے قابل نہ ہو اس سے مزدوری اور کام کاج کروانا جائز نہیں۔(۲)
۲:-    بچے کو اس کی جنس کی رعایت رکھتے ہوئے ہنر اور کام پر لگایا جائے، بچوں کو مردوں کے مناسب اور لائق کاموں اور بچیوں کو عورتوں کے لیے موزوں امور میں کام پر لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ بچیوں کو سلائی کڑھائی جیسے ہلکے پھلکے کاموں میں لگانے کی گنجائش ہے۔(۳)
۳:-    جس جگہ بچے/ بچی کام کر رہے ہوں وہاں ان کی جان اور عزت کی حفاظت یقینی ہو، جس جگہ یا جس کام میں ان کی جان یا عزت کو خطرہ ہو وہاں انہیں کام پر نہیں لگایا جاسکتا۔ (۴)
۴:-    بچہ مزدوری کرکے جو کمائے گا وہ اسی کی ذات پر خرچ کیا جائے گا، اس کی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد جو آمدنی بچ جائے وہ بچے کے والد یا اس شخص کے پاس بطورِ امانت محفوظ رکھی جائے گی جس کی پرورش میں وہ بچہ ہے، اگر وہ شخص غیر معتمد ہے اور اس پر اطمینان نہیں کہ وہ بچے کی کمائی کو محفوظ رکھ سکے گا تو اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا جائے گا، عدالت وہ آمدنی کسی معتمد شخص کے پاس بطورِ امانت رکھے گی۔(۵)
۵:-    بچے کو محنت و مزدوری پر لگانا اس کی تعلیم و تربیت کو متاثر نہ کرے، اگر بچے کو کام پر لگایا جس کی وجہ سے وہ تعلیم میں بے رغبتی دکھاتا ہے یا تعلیمی سرگرمیوں سے دور ہوتا ہے تو بچے کو کام پر لگانا جائز نہیں ہے۔ (۶)
۶:-    بچے کو جس کام کاج پر لگایا جارہا ہے وہ اس کی ذہنی ، اخلاقی اور جسمانی نشو ونما کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔
۷:-    بچے کو مزدوری پر لگانے کے لیے اس کے ولی یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔(۷)
لہٰذا ایسے نابالغ جو عاقل ہوں اور پڑھائی وغیرہ میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں انہیں ولی کی اجازت کے ساتھ مزدوری کا موقع دینا شرعاً جائز ہے، لیکن اگر بچہ عاقل نہیں یا وہ پڑھائی میں دلچسپی رکھتا ہے اور ولی کے پاس اسے پڑھانے کی طاقت و استطاعت ہے تو ایسے بچے کو مزدوری پر نہیں لگانا چاہیے۔
 تاہم بچوں کی مزدوری پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خادم حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کے معمول سے استدلال کرنا درست نہیں، وہ مزدور نہیں تھے، بلکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خادم اور زیرِ تربیت تھے، فقط و اللہ اعلم

حوالہ جات

۱:- ’’قولہ: (ورابعہا فمصرفہ جہات إلخ) موافق لما نقلہ ابن الضياء في شرح الغزنويۃ عن البزدوي من أنہ يصرف إلی المرضی والزمنی واللقيط وعمارۃ القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبہ ذلک. اہـ. ، ولکنہ مخالف لما في الہدايۃ والزيلعي أفادہ الشرنبلالي أي فإن الذي في الہدايۃ وعامۃ الکتب أن الذي يصرف في مصالح المسلمين ہو الثالث کما مر. وأما الرابع فمصرفہ المشہور ہو اللقيط الفقير والفقراء الذين لا أولياء لہم فيعطی منہ نفقتہم وأدويتہم وکفنہم وعقل جنايتہم کما في الزيلعي وغيرہ. وحاصلہ أن مصرفہ العاجزون الفقراء فلو ذکر الناظم الرابع مکان الثالث ثم قال وثالثہا حواہ عاجزونا ورابعہا فمصرفہ إلخ لوافق ما في عامۃ الکتب۔‘‘ (رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج:۲، ص:۳۳۸ ، ط: سعید)
۲:- ’’الذکور من الأولاد إذا بلغوا حد الکسب، ولم يبلغوا في أنفسہم يدفعہم الأب إلی عمل ليکسبوا، أو يؤاجرہم وينفق عليہم من أجرتہم وکسبہم۔‘‘ (الفتاوی الہنديۃ، کتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع، ج:۱، ص:۵۶۲، ط: سعيد)
۳:- ’’ و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرہن في عمل، أو خدمۃ کذا في الخلاصۃ ۔‘‘ (الفتاوی الہنديۃ، کتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع،ج:۱، ص:۵۶۲، ط: سعيد)
’’قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثی بنحو خياطۃ وغزل يجب أن تکون نفقتہا في کسبہا کما ہو ظاہر، ولا نقول تجب علی الأب مع ذلک، إلا إذا کان لا يکفيہا فتجب علی الأب کفايتہا بدفع القدر المعجوز عنہ، ولم أرہ لأصحابنا. ولا ينافيہ قولہم بخلاف الأنثی؛ لأن الممنوع إيجارہا، ولا يلزم منہ عدم إلزامہا بحرفۃ تعلمہا. اہـ أي الممنوع إيجارہا للخدمۃ ونحوہا مما فيہ تسليمہا للمستأجر بدليل قولہم؛ لأن المستأجر يخلو بہا وذا لا يجوز في الشرع، وعليہ فلہ دفعہا لامرأۃ تعلمہا حرفۃ کتطريز وخياطۃ مثلا۔‘‘ ( رد المحتار، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:۳، ص:۶۱۲، ط: سعيد)
۴:- ’’وإذا بلغ الذکور حد الکسب يدفعہم الأب إلی عمل ليکتسبوا، أو يؤجرہم وينفق عليہم من أجرتہم بخلاف الإناث؛ ولو الأب مبذرا يدفع کسب الابن إلی أمين کما في سائر الأملاک مؤيد زادہ معزيا للخلاصۃ۔‘‘
’’و في الرد : (قولہ: وإذا بلغ الذکور حد الکسب) أي قبل بلوغہم مبلغ الرجال إذ ليس لہ إجبارہم عليہ بعدہ، (قولہ: بخلاف الإناث) فليس لہ أن يؤجرہن في عمل، أو خدمۃ تتارخانيۃ لأن المستأجر يخلو بہا وذلک سيئ في الشرع ذخيرۃ، ومفادہ أنہ يدفعہا إلی امرأۃ تعلمہا حرفۃ کتطريز وخياطۃ إذ لا محذور فيہ۔‘‘ ( رد المحتار، کتاب الطلاق، باب النفقۃ،ج:۳، ص:۵۶۹، ط: سعيد)
۵:-’’ ثم في الذکور إذا سلمہم في عمل فاکتسبوا أموالا، فالأب يأخذ کسبہم وينفق عليہم، وما فضل من نفقتہم يحفظ ذلک عليہم إلی وقت بلوغہم کسائر أملاکہم، فإن کان الأب مبذرا مسرفا لا يؤمن علی ذٰلک ، فالقاضي يخرج ذلک من يدہ ويجعلہ في يد أمين ويحفظ لہم، فإذا بلغوا أسلم إليہم کذا في المحيط۔‘‘ (الفتاوی الہنديۃ، کتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع، ج:۱، ص:۵۶۲، ط: سعيد)
۶:- ’’ وقال الإمام الحلواني: إذا کان الابن من الکرام، ولا يستأجرہ الناس فہو عاجز، وکذا طلبۃ العلم إذا کانوا عاجزين عن الکسب لا يہتدون إليہ لا تسقط نفقتہم عن آبائہم إذا کانوا مشتغلين بالعلوم الشرعيۃ لا بالخلافيات الرکيکۃ وہذيان الفلاسفۃ، ولہم رشد، وإلا لا تجب کذا في الوجيز للکردري ونفقۃ الإناث واجبۃ مطلقا علی الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يکن لہن مال کذا في الخلاصۃ۔‘‘ (الفتاوی الہنديۃ، کتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع، ج:۱، ص:۵۶۲، ط: سعيد)
۷:- ’’ وأما البلوغ فليس من شرائط الانعقاد ولا من شرائط النفاذ عندنا، حتی إن الصبي العاقل لو أجر مالہ أو نفسہ فإن کان مأذونا ينفذ وإن کان محجورا يقف علی إجازۃ الولي عندنا۔‘‘ (بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع، کتاب الاجارۃ، ج:۴، ص:۱۷۶، ط: دار الکتب العلميۃ)

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد انعام الحق

 

عمران ممتاز

سعد اللہ تونسوی

 

 

تخصصِ فقہِ اسلامی

  

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین