بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مینارۂ علم وکمال ( مولانا عبدالستار تونسوی رحمۃ اللہ علیہ )

مینارۂ علم وکمال

حضرت مولانا علامہ محمد عبد الستار صاحب تونسوی رحمۃ اللہ علیہ ان علماء میں سے تھے جن کے پاس واقعی دین کا مضبوط اور راسخ علم تھا۔ علم کے فضائل انہی جیسے علماء کرام کے لئے ہیں، ان کی وفات کو کئی روز بیت گئے۔ دل میں ہُوک سی اُٹھتی ہے اور بہت سے مناظر تازہ ہوجاتے ہیں۔ ساری امت کے لئے صدمے کا مقام ہے، إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔ بچپن میں ان کا ایک جلسہ سنا، ماشاء اللہ! کیا رعب تھا اور کیا آواز، شیروں جیسی گرج۔ اس زمانے میں علماء کرام کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا تھا، حضرت اسٹیج پر تشریف لائے تو ان کے جسم پر پستول سجا ہوا تھا، یہ منظر دل کو اچھا لگا۔ پھر سامنے میز پر کتابیں سجائی گئیں، بیان شروع ہوا تو یوں لگا کہ دریا کا بند کھول دیا گیا ہے، بلند موجیں اور اونچی لہریں۔ حضرتؒ میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ وہ حقیقت میں جہیر الصوت تھے، بہت خوبصورت، اونچی، گرجدار، اور بلند آواز کے مالک، مگر عام گفتگو میں اتنا نرم اور آہستہ بولتے تھے کہ کوئی اندازہ ہی نہ لگا سکے کہ ان کی آواز اس قدر بلند اور گرجدار ہوگی۔ بیان میں کتابوں کے حوالے دیتے، صفحہ نمبر اور سطر نمبر زبانی سناتے اور پھر وہ کتاب اُٹھا کر اس کا رُخ مجمع کی طرف کرتے۔ سبحان اللہ! عجیب علم تھا۔  باطل فرقے کے تمام علماء کو چیلنج فرماتے کہ روئے زمین کا کوئی عالم اس بات کا جواب دے دے تو میری سزا پھانسی اور حکومت کے لئے میرا خون معاف۔ حضرتؒ کے یہ ولولے اور چیلنج محض خطابت نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ پر خاص فضل فرمایا تھا اور علم وتحقیق کے دروازے آپؒ کے سینے پر کھول دیئے تھے۔ بندہ نے خود اُن کو بڑھاپے کی حالت میں باادب بیٹھ کر گھنٹوں مطالعہ میں گم دیکھا۔ کتابوں کی کتابیں اَزبر یاد تھیں اور علم دین کی ہر صنف پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ زمانے کے بڑے بڑے اساطین علم اُن کی صحبت میں بچوں کی طرح بیٹھ کر استفادہ کرتے تھے۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ جیسے عالمی مبلغ، حضرت تونسویؒ کے شاگرد تھے اور اپنے اس تعلق کو بیان کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ میرے شیخ ومرشداورمیرے استاذمحترم حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدرحمۃ اللہ علیہ حضرت علامہ تونسویؒ کے سامنے دوزانو بیٹھتے تھے۔ ایک بار اپنے گھر پر دعوت کی، معزز مہمان کو حضرت شہیدؒ کے گھر لانا میرے ذمہ لگا، اس پوری دعوت میںحضرت لدھیانویؒ علامہ تونسویؒ کے سامنے مکمل باادب رہے اور آخرمیں جب ہدیہ پیش کیا تو وہ بھی لفافہ میں بند اور دونوں ہاتھوں سے۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں استاد محترم حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب رحمۃاللہ علیہ کا زمانہ اہتمام تھا، شعبان کی چھٹیوں میں ملک بھر کے جبال العلم جامعہ میں جمع ہوجاتے تھے۔ واقعی عجیب منظر تھا،جامعہ کی مسجد کے دو بلند مینار اور نیچے جامعہ میں علم وتحقیق کے بلند مینارے ۔یہ چالیس دن کا مناظرہ کورس تھا، جو بہت اہتمام سے ہر سال منعقد کیا جاتا تھا۔ دورہ حدیث کا امتحان دینے والے طلباء کے لئے اس میں شرکت لازمی تھی، جبکہ باقی طلباء کے لئے اختیاری۔ علم وفضل کے ان میناروں میں جو سب سے بلند مینار جامعہ کو شرف بخشتا تھا، وہ حضرت تونسویؒ تھے۔ اپنی نادر کتابوں کے کئی بکسوں کے ساتھ تشریف لاتے اور بہت محبت اور لگن سے طلبہ کرام کو پڑھاتے۔ باقی حضرات میں ردِّعیسائیت کے لئے حضرت مولانا عبد الرحیم منہاجؒ، حضرت مولانا بشیر احمد شورکوٹیؒ۔ ردِّ مرزائیت حضرت مولانا عبد الرحیم اشعرؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ۔ ردِّغیر مقلدیت کے لئے حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ اور عمومی چومکھی کے لئے حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب مدظلہ العالی تشریف لاتے تھے۔ آج ان حضرات میں سے صرف حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب مدظلہ العالی حیات ہیں۔ اللہ تعالی اُن کے علم وعمر میں برکت عطا فرمائے۔ بلاشبہ وہ ’’جبل من جبال العلم‘‘ ہیں ۔باقی تمام حضرات چلے گئے۔حضرت علامہ مولانا محمد عبد الستار تونسویؒ بھی چلے گئے۔ ان کے حوالے سے کئی واقعات ذہن میں تھے، جو نہ لکھے جا سکے۔ وہ بندہ کے استاذ محترم بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ ہم حضرت تونسویؒ کے سانحۂ ارتحال پر اُن کے پسماندگان، تلامذہ اور جملہ متعلقین کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی کامل مغفرت فرمائے، اُن کے صدقاتِ جاریہ کو جاری وساری رکھے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین