بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

میرے مشفق ومہربان ابوجی ؒ

میرے مشفق ومہربان ابوجی ؒ

کیسے خراج عقیدت پیش کروں اپنے والد شہید ؒ محترم کو وہ تو علم وعمل کے پیکر تھے، ان کی ساری زندگی حدیث مبارک پڑھاتے اور فتویٰ دیتے ہوئے گزری ۔ وہ ایک طرف زہد وتقویٰ کے نمونہ تھے تو دوسری طرف پیارے آقا ا کی سنتوں پر عمل پیرا رہے ۔ وہ ایک طرف عاجزی وانکساری کے بادشاہ تھے تو دوسری طرف سادگی انتہاء درجے کی تھی۔ وہ طلبہ کے محبوب تھے تو اپنی اولاد کے لئے نہایت مہربان تھے۔ وہ تہجد گزار تھے، قرآن کی تلاوت کے پابند تھے، جب نماز پڑھانے کے لئے مسجد جاتے تو جماعت کا وقت ہونے تک تلاوت میں مشغول رہتے اور عصر کی نماز کے بعد قرآن کا درس بھی دیتے تھے۔ گھر میں سب کے ساتھ ہنسی مذاق کیا کرتے اور اپنے اوقات کے بڑے پابند تھے، حتی کہ مغرب اور عشاء کے بعد دار الافتاء میں بیٹھتے تھے۔ عشاء کے بعد آئندہ کل کے سبق کا مطالعہ کرتے تھے۔ کھانے کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ صبح سبق پڑھا کے آتے، پھر ناشتہ کرتے تھے اور دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تھے، بلکہ عصر کی نماز کے بعد کھاتے تھے، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، یہی ترتیب دیکھی ہے۔ جمعہ کے دن کی یہ ترتیب ہوتی تھی کہ جمعہ کی نماز کے بعد ایک ہی دستر خوان لگتا تھا اور سب ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ اپنے والد محترم شہیدؒ کی کون کون سی خوبی کاتذکرہ کروں؟ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن یادیں ہی یادیں ہیں۔ بڑے ہی نرم مزاج، مہربان اور تحمل والے تھے، صبر اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔سب کے لئے یکساں تھے اور مجھے بہت ہی محبوب تھے، کیونکہ میں سب سے چھوٹا ہوں۔ جہاں جاتے، مجھے ساتھ لے جاتے۔ میں نے والد صاحب کے ساتھ کئی اسفار کئے اور دو دفعہ بلوچستان کا سفر کیا اور ایک دفعہ اندرون سندھ کا سفر کیا۔ آہ۔۔۔! قلم لکھنے سے قاصر ہے، دماغ کام نہیں کررہا، ہاتھ کپکپارہے ہیں۔ ہمیں اپنے والد محترم کی شہادت کا اب تک یقین نہیں آرہا، لیکن کیا کریں! موت تو ہر ذی روح کو آنی ہے،موت سے کسی کو رستگاری نہیں۔والد محترم کو روضۂ رسول ا کی زیارت کا اشتیاق رہتا، ایک حج اور تین مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ حج سے پہلے خواب میں مجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا تھا، پھر تعبیر حج کرنے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ کبھی کبھی گھر میں اپنے واقعات بھی سناتے رہتے تھے۔ میں صرف ایک واقعہ پر اکتفاء کرتا ہوں، فرمایا کہ جب بھی چھٹیوں میں دین پور جانا ہوا واپسی پر حضرت مولانا میاں عبد الہادیؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر کراچی واپسی کی اجازت چاہتا، اسی طرح جب ایک مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اجازت چاہی تو مجھے اپنے ساتھ چار پائی پر بٹھایا اور اچانک میرے پاؤں پکڑ لئے اور فرمایا کہ حضرت بنوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر بالکل اسی طرح ان کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر میرے حسن خاتمہ کی دعا کرانا۔ دین پور شریف کے قبرستان میں دفنانے کے لئے حضرت میاں سراج احمد دین پوری دامت برکاتہم العالیہ سے اجازت لینی پڑتی ہے، جب والد صاحب کی شہادت ہوئی تو میرے چچا اجازت لینے گئے تو حضرت نے اجازت دے دی اور فرمایا: یہ تو فرشتہ تھا، اس کو کیوں مارا؟ حضرت کے صاحبزادے مولانا مسعود احمد دین پوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے خادم نے میرے چچا کو بتایا کہ کچھ سال پہلے جب والد صاحب خانپور گئے تو راستے میں حضرت گاڑی میں جارہے تھے اور والد صاحب موٹر سائیکل پہ جارہے تھے، حضرت صاحب نے والد صاحب کو دیکھ کے گاڑی رکوائی اور والد صاحب سے ملاقات کی، جب والد صاحب جانے لگے تو اپنے خادم سے فرمایا:ان کو جانتے ہو؟ خادم نے کہا: نہیں، حضرت نے فرمایا: یہ تو فرشتہ ہے جو موٹر سائیکل پہ جاتا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والد صاحب کی شہادت کو قبول فرمائے اور والد صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں اپنے والد صاحب کے نقش قدم پر چلائے، آمین یا رب العالمین! اپنی بات کو ان کی زبان زد رہنے والے اس شعر پر ختم کرتا ہوں: ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں ہمیں بھی یادکر لینا چمن میں جب بہار آئے

٭٭…٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین