بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

میرے درد کی دوا کرے کوئی!

میرے درد کی دوا کرے کوئی!

    یہ پشاور کا جلوزئی کیمپ ہے۔ یہاں قبائلی علاقوں درہ آدم خیل، مہمند، باجوڑ اور تیراہ وغیرہ میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری فوجی کاررائیوں کے دوران بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان چھوٹے چھوٹے خیموں کے اندر کئی کئی مہینوں اور برسوں سے رہ رہے ہیں۔ یہاں تاحد نظر خیمے ہی خیمے نظر آتے ہیں اور ان خیمہ بستیوں کے درمیان کھلی جگہوں میں دنیا و مافیہا سے بے خبر کھیلتے کودتے قبائلی بچے، جو ہر نووارد کو حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔     میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جلوزئی کیمپ پہنچا، یہ دوپہر کا وقت تھا۔ ہم ائیرکنڈیشنڈ گاڑی سے اتر کر کیمپ کے اندر داخل ہوئے تو گرم لو کے تھپیڑوں نے ہمارا استقبال کیا۔ جون کے اواخر، دوپہر کا وقت اور پشاور کی گرمی… ہمیں یہاں آکر معلوم ہوا کہ موسم کی شدت کیا ہوتی ہے۔ ہم اندازہ کرسکتے تھے کہ اس خیمہ بستی کے اندر چھوٹے چھوٹے خیموں کے اندر بسے خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔     گوکہ اس خیمہ بستی میں یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں کی نگرانی میں متأثرین کے لیے تھوڑے بہت راشن، پانی، بجلی اور دوا دارو کے انتظامات موجود ہیں، مگرو سیع دالانوں والے اور کھلے گھروں میں رہنے والے قبائلی پختونوں کے لیے ان چھوٹے چھوٹے خیموں کے اندر پورے پورے خاندانوں سمیت رہنا کتنا مشکل، اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوگا، اس کا اندازہ ہر اس شخص کوہوسکتا ہے جو قبائلی کلچر سے واقف ہو۔ ہمیں یہاں جوبھی شخص ملا، اس نے اسی بات کی شکایت کی کہ انہیں ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے جس کے وہ عادی نہیں ہیں۔     ہم نے کندھے پر راشن کا تھوڑا سا سامان اٹھائے ایک قبائلی کو روک کر اس کی مشکلات کا پوچھا تو اس نے سامان نیچے رکھتے ہوئے پہلے تو ایک لمبا سانس لیا اور پھر گویا ہوا، بھائی! ہما را سب کچھ لٹ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ یہاں اس کیمپ میں ہمیں اپنے بچوں کے لیے تھوڑا سا راشن مل جاتا ہے، مگر ہم اس طرح مانگ کر کھانے کی زندگی کے تو عادی نہیں ہیں۔ ہم دوسروں کو کھلانا پسند کیا کرتے تھے۔ ہمیں اپنے بھر ے پرے گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔ یہاں اس گرمی میں ہمیں ایک عذاب کا سامنا ہے، نجانے کب تک ہم اس طرح کسمپرسی میں رہیں گے۔ یہاں بچوں اور پردہ دار خواتین کے لیے رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم نے مشترکہ عارضی بیت الخلاؤں اور غسل خانوں کے استعمال کا کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا۔ آپ اربابِ اختیار تک ہمارا پیغام پہنچائیں کہ خدارا !وہ ہمیں جلد اپنے گھروں کو واپس جانے دیں۔ یہاں کی ذلت کی زندگی سے اپنے گھر کی موت اچھی ہے۔ یہ کہہ کر قبائلی کی آنکھیں بھرا گئیں اور ہم انہیں سوکھی تسلی دیتے ہوئے واپس ہوگئے۔     قارئین! یہ اس آئی ڈی پیز کیمپ کی کہانی ہے جو پہلے سے آباد ہے، جسے یونیسیف جیسے عالمی ادارے کی سرپرستی میسر ہے اور جہاں متأثرین کی تعداد بھی سنبھالے جانے کے قابل ہے۔ شمالی وزیرستان میں حالیہ دنوں شروع کیے گئے آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے لاکھوںمتأثرین کو بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک اور دیگر ملحقہ علاقوں میں ٹھہرایا گیا ہے، خیبر پختونخواکے یہ جنوبی اضلاع گرمی اور حبس کے لحاظ سے پنجاب اور سندھ کے گرم ترین علاقوں سے کسی بھی درجے میں کم نہیں ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ لاکھوں افراد کو مناسب پیشگی انتظامات کے بغیر ہی ان کے گھروں سے نکال کر در بدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا گیا ہے۔     متأثرین کی رجسٹریشن، امداد اور بحالی کے سرکاری دعوے ایک طرف، زمینی صورت حال‘ میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والی تفصیلات اور تصاویر سے بالکل عیاں ہے۔ روزنامہ ’’اسلام‘‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان سے بنوں نقل مکانی کرنے والے آئی ڈی پیز کی مشکلات رمضان میں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہیں، ان کے لیے ۲؍ وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے متاثرین کی بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں موجود ہے جن میں سے بیشتر کرائے کے گھروں، رشتہ داروں کے ہاں یا پھرسرکاری اسکولوں میں رہائش پذیر ہیں، تاہم راشن کا حصول ان متأثرین کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔ دن میں راشن نہ مل سکا تو اب یہی متأثرین رات جاگ کر اشیاء خورد و نوش کے حصول کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ دن کو گرمی ہوتی ہے، رات کو مجبوراً نکلنا پڑتا ہے، روزے ہیں لیکن راشن نہیں ملتا۔ تقریباً ۲؍ ہفتے گزرنے کے باوجود آئی ڈی پیز کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔     بعض غیرسرکاری تنظیموں نے متأثرین کی مدد کے لیے اِجازت نہ ملنے کے خلاف بنوں میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ بر طانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے قبائلی علاقوں سے آنے والے اکثر لوگ مایوس اور ناخوش ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں جلد ان کے گھروں کو واپس جانے دیا جائے۔     حقیقت یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے متأثرین کا مسئلہ ایک بڑا قومی چیلنج بنتا جارہا ہے اور اگر اس سے نمٹنے کے لیے بروقت کوششیں نہ کی گئیں تو صورت حال قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ: وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے     قبائلی نفسیات سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ قبائلی لوگ بھوک، پیاس، دکھ، درد، زخم سب برداشت کر لیتے ہیں، لیکن بے عزتی و بے توقیری کے احساس کو وہ کبھی ہضم نہیں کرتے۔ قبائلی عوام کو عزت نفس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، اس لیے جن قوتوں نے آپریشن کو ہی مسئلے کا آخری حل قرار دے کر قبائلی علاقوں میں چاند ماری کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر بے گھر ہونے والے قبائلی عوام کو سنبھالا نہ گیا، توپھر ایک بڑا آپریشن ان بندوبستی علاقوں میں بھی کرنا پڑسکتا ہے جہاں لاکھوں قبائلی مسلمان سخت گرمی اور رمضان کے مہینے میں آزمائشوں سے دوچار ہوکر صبر و ضبط کے بندھنوں کو ٹوٹنے سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔     قبائلی علاقوں میںعین رمضان کے آغاز پر نئے آپریشن کے آغاز کا کوئی جواز تھا یا نہیں؟ یہ سوال تو شاید اب بعد ازوقت ہوگا، تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ حلقے جو دن رات حکومت اور فوج کو آپریشن کے لیے اکسا رہے تھے، وہ آپریشن کے متأثرین کی امداد اور بحالی کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ مغربی اور مقامی این جی اوز، نام نہادسول سوسائٹی کے وہ ارکان کہاں ہیں جو انسانیت کی خدمت کے نام پر پورے ملک میںدھماچوکڑی مچائے رکھتے ہیں۔ ان صحافیوں، اینکرز اور کالم نگاروں کا بھی کچھ پتا ہے جو صبح شام حکومت اور فوج کوقبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے کی ہلا شیری دے رہے تھے؟وہ لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں جو قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی تھیں؟ کیا وجہ ہے کہ متأثرین کی امداد کے لیے اگر کہیں کچھ چلت پھرت نظر آتی ہے تو ان چندڈاڑھی اور پگڑی والے افراد اور دینی رفاہی اداروں کے کارکنوں کی نظر آتی ہے جن کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے، جن پر پابندیاں لگادی جاتی ہیں، جن کے اثاثے منجمد کیے جاتے ہیں۔     مگریہ موقع تلخ باتیں اور شکوہ شکایتیں کرنے کا نہیں، قبائلی عوام امداد کے منتظر ہیں، ان کی ایک ہی پکار ہے کہ: ابن مریم ہوا کرے کوئی مرے درد کی دوا کرے کوئی     اس لیے ہمیں آگے بڑھ کر ان متأثرین کی مدد کرنی چاہیے۔

٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین