بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

میراث کے معاملہ میں کوتاہیاں  اور ذمہ داریاں


میراث کے معاملہ میں کوتاہیاں  اور ذمہ داریاں

 

فطرتِ انسانی:

انسان کی فطرت اگرزندہ ہواور اس میں غوروفکرکی صلاحیت موجود ہو تو اسے جگانے اورحر کت میں لانے کے لئے ایک جملہ اور ایک بول بھی کافی ہو جاتاہے ،لیکن اگرانسان کی فطرت مردہ ہو چکی ہو، بصارت وبصیرت پر کفر وعصیا ن کے پردے پڑے ہوئے ہو ں تو پھر انسان کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے کے لئے تحریر کے سینکڑوںدفاتر،اور ہزاروں بیانات اور کائنات میں موجود لاتعداد مظاہرِ قدرت بھی ناکافی پڑ جاتے ہیں۔
   آفاق وانفس میںخالق کائنات نے بے شمار دلائل وحدانیت اور آیات وبراھین برائے ہدایت ودیعت فرمائے ہیں ،اگر انسان صرف اپنی خلقت میںغو ر و فکرکرے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب اس کی ذات کا کوئی وجود نہ تھا،وہ بالکل معدوم تھا، اللہ جلّ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے وجود بخشا،رحم مادر سے لے کرمامتا کی آغوش تک اور وہاں سے لے کر قبر کی گود تک،تمام مراحل میں اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا مکمل انتظام فرمایا،انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ،کسی طرح کا کوئی کمال نہیں،یہ تو محض اس رحیم وکریم آقا کی مہربانی اورانعام و احسان ہے۔
 اسبابِ زندگی:
 انسان کی ضرورتیںعام طور سے دارالاسباب میںمال و زر سے مربوط ہیں۔مال ودولت انسانی تقاضوںکو پوراکرنے کا ایک بہترین ذریعہ اور سبب ہے ،اس لئے فطری طور پر انسان کی طبیعت میںمال کی محبت پائی جاتی ہے ،اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لئے اس نے انسان کونہ صرف حلال طریقے سے کمانے کی اجازت دی ہے ،بلکہ اس کی باقاعدہ ترغیب ارشاد فرمائی ہے،مال کمانے کے حلال ذرائع بتلائے ہیں،اس کے احکام کی وضاحت کی ہے ،حرام ذرائع کی نشاندہی کی ہے ،پھر حلال وحرام کی تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے بعد حلال اموال سے متعلق حقوق واجبہ و نافلہ بتلائے،مال سے متعلق حقوق اللہ اور حقوق الناس دونوںکو واضح کیااور ان حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ۔
 تہذیب جدیداور جاہلی تہذیب میںمماثلت:
آج کا انسان جوتہذیب یافتہ اور روشن خیال ہونے کا دعویدارہے،مادی ترقی میں زمینوں کو تہہ وبالا کرنے کے بعد آسمانوںکی تسخیر کے خواب دیکھ رہا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنی زیادہ تسخیر کائنات ہوتی جارہی ہے، انسان اتناہی زمانۂ جاہلیت کے قریب سے قریب ترہوتا جارہا ہے۔جاہلیت کی تہذیب وتمد ن کو روشن خیالی اور ترقی کا جامہ پہنا کر اپنایا جارہا ہے ، حضرت مولانا ذکی کیفی مرحوم نے کیا خوب فرمایا:
’’زمانہ جاہلیت میںلوگ جس طرح کفر وشرک میں مبتلا تھے،طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں ،غلاموںپر بے جاتشدد کرنا،لڑکیوں کو زندہ در گورکرنا،یتیموں اور بیوائوں کامال ہڑپ کرجانا،اورعورتوںکو ان کے جائزحقوق سے بھی محروم کرناعام تھا،اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھاکہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کے قابل ہوں،باقی ورثاء، یتیم بچے ،عورتیں،روتے اور چلاتے رہ جاتے،ان کے قوی طاقتورچچااوربھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پرقبضہ جما لیا کرتے تھے‘‘۔
 بعثت نبوی اکے نتائج:
حضور اکرم اکی بعثت سے جہاںکفر و شرک کافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموںکی اصلاح ہوئی ،اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کی پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔
 اسبابِ میراث:
 زمانۂ جاہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی ،ان میں ایک سبب ’’نسب‘‘ تھا،دوسرا ’’معاہدہ‘‘ (یعنی ایک دوسرے سے خو شی وغم میں تعاون کریںگے ،ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا )تیسراسبب ’’متبنٰی‘‘(یعنی منہ بولا بیٹا)وارث بنتا تھا،اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میںان اسباب کے ساتھ ساتھ مواخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا،جو حقیقت میں معاہدہ کی ایک صورت تھی ۔
 وصیت کاحکم:
 اللہ رب العزّت حکیم وعلیم ذات ہے ،چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے حالات سے پوری طرح واقف و باخبر ہے،اس لئے اپنی حکمت وعلم کے پیش نظر زمانۂ جاہلیت کی رسموں کی اصلاح کے سلسلے میں تدریجاًاحکامات نازل فرمائے ،اس سلسلے میںسب سے پہلے یہ حکم نازل فرمایا کہ: ہر شخص موت سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے اپنی رائے سے مناسب وصیت کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کتب علیکم إذاحضر أحدکم الموت إن ترک خیران الوصیۃ للوالدین والأقربین بالمعروف۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘۔                      (البقرۃ:۱۸۰) 
ترجمہ:۔’’تم پر یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جب تم میںسے کسی کی موت کاوقت آئے تو وہ مال کے بارے میںبھلائی سے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت چھوڑجائے ،جن کوخداکا خوف ہے، ان کے ذمّہ یہ ضروری ہے۔
 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ بیان القرآن(۱:۱۱۵)اس آیت کی تفسیرمیں رقمطراز ہیں:
’’شروع اسلام میںجب تک میراث کے حصے شرع سے مقررنہ ہوئے تھے، یہ حکم تھاکہ ترکہ کے ایک ثلث تک مردہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو جتنا مناسب سمجھے، بتلا جاوے ۔اتناتو ان لوگوں کاحق تھا، باقی جو کچھ رہتاوہ سب اولاد کا حق ہوتا تھا۔اس آیت میںیہ حکم (یعنی وصیت)۔۔۔۔۔ا س حکم کے تین جزو تھے: ایک جزو: اولاد کے اوردوسرے ورثاء کے حصص وحقوق ترکہ میںمعین نہ ہونا۔دوم: ایسے اقارب کے لئے وصیت کا واجب ہونا۔ تیسرے: ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا،پس پہلا جزو تو آیتِ میراث سے منسوخ ہے۔ دوسراجزحدیث سے جو کہ مؤید بالاجماع ہے، منسوخ ہے ۔اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا،یعنی وارث شرعی کے لئے وصیتِ مالیہ باطل ہے۔تیسراجزواب بھی باقی ہے، ثلث سے زائد میںبالغ ورثاء کی رضاء کے بغیر وصیت باطل ہے۔‘‘
 حضور اقدس  انے ارشاد فرمایا:
’’ماحق امرئٍ مسلم لہ شیٔ یوصی فیہ یبیت لیلتین إ لا ووصیتہ مکتوبۃعندہ‘‘۔                            (صحیح البخاری ،کتاب الوصایا،  رقم الحدیث:۲۵۸۷)
ترجمہ:۔’’کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو جس کی وصیت کرنا ہو تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں کہ دو راتیں گذرجائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو‘‘۔۔ 
 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’من مات علٰی وصیتہ مات علی سبیل و سنّۃ ومات علی تُقی و شھادۃ و مات مغفوراً لہ‘‘۔                    (سنن ابن ماجہ،کتا ب الوصایا ،رقم الحدیث:۲۷۰۱)
ترجمہ:۔’’جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کر کے مرا)و ہ صحیح راستہ اور سنت پر مرا،اور تقوی اور شہادت پر مرا،اور بخشا ہوا ہونے کی حالت میں مرا‘‘۔
وصیت کے حوالے سے بتدریج احکامات نازل ہوئے، ان پر عمل ہوتا گیا تو پھر میراث کے حوالے سے تدریجاًاحکامات نازل ہونا شروع ہوئے،اس سلسلے میں سب سے پہلا حکم یہ نازل ہو ا کہ میراث جیسے مردوں کاحق ہے ،اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی نازل ہوا:
 ’’ للرجا ل نصیب مما ترک الوالدان والأقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والأقربون مما قل منہ أو کثر نصیباً مفروضاً‘‘۔ (النساء:۷)
ترجمہ:۔’’مردوں کے لئے بھی حصہ ہے اس(مال)میں جو ما ںباپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ،خواہ وہ چیز کم ہو یا زیادہ ،حصہ بھی ا یسا جو قطعی طور پر مقررہے‘‘۔
  اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر کچھ یوں ہے ،تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتو پسماندگان میں اہلیہ ام کُجّہؓ اور تین بیٹیاںچھوڑیں،حضرت اوس بن ثابتؓ کے چچازاد بھائی سوید اور عرفجہ جو ان کے وصی بھی تھے ،انہوں نے سارامال خود لے لیا اور ام کجہؓ اور حضرت اوس رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو جائیداد میں حصے سے محروم کر دیا،مظلومو ں کا ماوی اور ملجا حضور اقدس اکے علاوہ کون تھا؟!چنانچہ ام کجہؓ حضوراکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا عرض کیا تو حضورانے فرمایا: اپنے مکان لوٹ جائو ،جب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ آئے تم صبر کرو ،اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اجمالی طور سے اس آیت میں زمانۂ جاہلیت کے اس عمل کی نفی فرمائی اور میراث میں عورتوں کا حصہ ہونے کا حکم بھی ارشاد فرمایاکہ میراث صرف مردوں کا حق نہیں،بلکہ اس میں عورتوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضور انے سُوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر فرمایاہے ، لہٰذا تم اوس بن ثابتؓ کے مال کو بحفاظت رکھنا ،اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا۔
 تفسیر مظہری میںہے کہ اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا اورعورتوںکا حصہ ابھی تفصیلی طور سے بیان نہیں کیا گیا تھاکہ دوسرا واقعہ پیش آیا، تین ہجری اُحد کی لڑائی میں جلیل القدر صحابی سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ،ان کی شہادت پر حسب دستور بھائیوں نے تمام مال و جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو میراث سے محروم کر دیا،حضرت سعدؓ کی اہلیہ نے حضور  اکی بارگاہ اقدس میں آکر واقعہ بیان کیا کہ سب مال اُن کے چچا نے لیا ہے ،حضور انے ان کو بھی یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ صبر کرو، عنقریب اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمادیں گے ۔
 میراث کے تفصیلی احکامات :
 تفسیرقرطبی ،مظہری اور روح المعانی میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے عورتوں اورلڑکیوں کا حصہ بیان کرنے کے لئے اس آیت کو نازل فرمایا:
 ’’یوصیکم اﷲ فی أولادکم للذَّکر مثل حظ الأنثیین۔۔۔۔۔الخ۔(النساء:۱۱)
ترجمہ:۔’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں جتنا حصہ ملے گا‘‘۔ 
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو صاف صراحتاًحکم دیا ہے کہ جس طرح میراث میں بیٹوں کاحق ہے، اسی طرح بیٹیوں کابھی حق ہے ،اس آیت کے نازل ہو نے پر حضور اکرم  انے حضرت سعدؓ کے بھائی سے کہلوایا کہ اپنے بھائی کے مال میں سے دوثلث لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کو دو ،اور باقی مال تمہا را ہے ،اسلام کے قاعدۂ میراث کے مطابق سب سے پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی میراث تقسیم ہوئی۔
زمانۂ حیات میں مال وجائیداد کی تقسیم:
  بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد، اولاد و اقرباء میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹو ں کو حصہ دیاجاتا ہے اوربیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ،ان لوگوں کو حالتِ صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے،لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس کی روح و مقتضیٰ کے خلاف ہے ،چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم  ااور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لئے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپ انے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور کچھ ھھینٹیںمجھ پر ماریں، مجھے کچھ افاقہ ہوا ،میں نے پوچھا:میں اپنامال کیسے تقسیم کروں؟ترمذی شریف کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’کیف اُقسم مالی بین ولدی ؟‘‘یعنی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں ؟اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: ’’یوصیکم اﷲ فی أولادکم۔۔۔۔۔الخ‘‘۔
               (صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ ،باب:من انتظر حتی تدفن،رقمـ:۴۵۷۷،صحیح مسلم،کتاب الفرائض،باب:میراث الکلالۃ،رقم:۴۲۳۱)
اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ لڑکوںکی طرح لڑکیوںکو بھی مال میںسے حصہ دو۔
   مشکوٰۃ شریف کی ایک صحیح حدیث میں واردہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خداوندی میں مشغو ل رہتے ہیں ،لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضر رپہنچاتے ہیں، یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حقداروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں،یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں، ایسے شخص کواللہ تعالیٰ سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔
قارئین کرام !غورفرمائیں !میراث کے بارے میں اللہ کے ایک حکم کے سلسلے میںحیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے ،بلکہ ایسے شخص کے بارے میںجہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔سنن سعید بن منصور کی روایت میںحضور اکا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے :
’’من قطع میراثاًفرضہ اﷲ قطع اﷲ میراثَہ من الجنۃ‘‘۔ (رقم:۲۵۸)
ترجمہ:۔’’ جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وارث کو محروم کر ے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کردیتے ہیں‘‘۔
عورتوں کا حصہ بیان کرنے میں قرآن کااسلوب:  
  معززقارئین ! آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادمیں غور فرمائیں: ’’للذکر مثل حظ الأنثیین‘‘۔یعنی’’ لڑکے کو دو لڑکیوںجتناحصہ ملے گا‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے:’’ للأنثیین مثل حظ الذکر‘‘ نہیں فرمایا کہ دو لڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا،علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میںلکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’للذکر مثل حظ الأنثیین‘‘ فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے ،لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے،ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میںاہتمام کے لئے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا،گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دوگنا کر دیا ہے لڑکیوں کے مقابلے میں،لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو بالکلیہ میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ’’ احکام ا لقرآن‘‘ میں اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’ہذہٖ الآیۃ رکن من أرکان الدین وعمدۃ من عمد الدین وأمّ من أمّہات الآیات ، فإن الفرائض عظیمۃالقدر ،حتی أنھا ثلث العلم ‘‘۔
ترجمہ:۔’’یہ آیت (یوصیکم اللّٰہ فی أولادکم)ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے، اس لئے کہ فرائض(میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاںتک کہ یہ ثلث علم ہے‘‘۔
 اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد، اس کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ’’تلک حدود اﷲ ‘‘یعنی یہ میراث کے احکام اللہ تعالی کی بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لئے بطورِ انعام وجزا کے فرمایا :
’’من یطع اﷲ ورسولہ ید خلہ جنّٰت تجری من تحتھا الأنھٰر خالدین فیھا وذالک الفوز العظیم ‘‘۔                                         (النساء:۱۳)
ترجمہ:۔’’جو اللہ اور اس کے رسول( ا) کی اس(میراث ) کے حوالے سے اطاعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے ایسی جنت میں داخل فرمائیںگے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے ،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔۔ 
 میراث کے سلسلے میں اللہ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لئے آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا ،ارشاد ربانی ہے :
’’ومن یعص اﷲ ورسولہ ویتعدّ حدود ہٗ یدخلہ ناراًخالداًفیھا ولہ عذاب مھین ‘‘۔                                                          (النساء:۱۴)
ترجمہ:۔’’جو اس میراث کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لئے ذلت آمیز عذاب ہو گا‘‘۔
جاہلانہ طرز عمل :
 بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کومحروم کرنا،یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتو ں کو محروم کرنا،یہ زمانۂ جاہلیت کے کفار کاطرزعمل ہے ۔ حضرت مولاناسید اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث دارالعلوم دیو بندنے ’’مفید الوارثین ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
 ’’اللہ تعالیٰ کے واضح اور صریح حکم کو پس پشت ڈا ل کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیںہے ،نہایت سرکشی اور اعلیٰ درجے کاجرم ہے ،بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے ‘‘۔
علم میراث وفرائض کی اہمیت وفضیلت:
 قارئین کرام !آج ہم نے جہاں شریعت کے دیگر علوم سے غفلت برتی ہوئی ہے، وہاں پر علم میراث سے عوام تو عوام ،خواص بھی ناواقف ہیں۔یاد رہے کہ میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے ،بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے ،حضور اقدس  انے اُسے نصف علم قرار دیا ہے۔ دارقطنی میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  انے فرمایا:
’’تعلمواالفرائض وعلمو ہ الناس ،فإنہ نصف العلم ،وہو أول شیٔ ینسی وہو أول شیٔ ینتزع من أمتی ‘‘۔                           (کتاب الفرائض رقم:۱)
ترجمہ:۔’’اے لوگو!فرائض(میراث)کے مسائل سیکھو ،بے شک وہ نصف علم ہے اوروہ(میراث کا علم)سب سے پہلے بھلا یا جائے گااور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔
   بہت سارے دیندار کہلانے والے لوگ جو نماز ،روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں،ان کو ادھر اُدھر بہت ساری باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں ،لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں ،یہ انتہائی درجہ غفلت کی بات ہے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس غفلت سے محفوظ رکھے ۔
ورثاء کے لئے مال چھوڑنا:
 یہ بات یاد رکھیںکہ اپنی اولاد اور ورثاء کے لئے مال چھوڑنابھی ثواب کاکام ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیاہے کہ:’’ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں فتح مکہ والے سال ایسا بیما ر ہو ا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے ۔ رسول اللہ امیری عیادت کے لئے تشریف لائے ،تو میںنے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سامال ہے ،میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کاحصہ پہنچتا ہے ،تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں ؟آپ انے فرمایا: نہیں ،میں نے عرض کیا : آدھے مال کی وصیت کردوںـ؟آپ انے فرمایا :نہیں ۔میںنے عرض کیا:تہائی ما ل کی وصیت کردوں ؟آپ  انے فرمایا :تہا ئی کی وصیت کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے ،پھر فرمایا :
’’إن تدع ورثتک أغنیائً ،خیراً من أن تدعہم عا  لۃ یتکفّفون الناس فی أیدیھم ‘‘۔(صحیح بخاری،کتاب الجمعہ ،رقم:۲۷۴۲)
ترجمہ:’’ تم اپنے ورثاء کومالداری کی حالت میں چھوڑجائو، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیںتنگدستی کی حالت میں چھوڑدو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں‘‘۔
آخر میں ایک دفعہ مکرّر یہ گزارش ہے کہ یتیموں،عورتوں،اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنابہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ،قانونِ خداوندی سے بغاوت کے مترادف ہے ،اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے ،بلکہ جوشرعی حصہ داروں کا حق بنتا ہے، وہ ان کے سپرد کر دیا جائے ،ہاں! اگر اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعدوہ اپنی رضا ورغبت سے کچھ ،یا سارا کسی کو دینا چاہے تو اس کے لئے لینا جائز ہو گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور میراث کے حوالے سے پائی جانے والی غفلتو ں سے درگزر فر ما کر اس کے ازالے کی ہمت عطا فرمائے ،امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو آسانیوں اور عافیتوں میں بدل دے ۔آمین۔


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین