بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

میدانِ افتاء کا عظیم شہسوار

میدانِ افتاء کا عظیم شہسوار

حضرت الاستاذ مفتی دین پوریؒ علم وعمل کے پیکر ،اخلاص وتواضع کے مجسمہ تھے،آج لرزتے ہاتھوں اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ یہ چند حروف لکھ رہا ہوں، مگر قلم کی ہر جنبش پر مفتی صاحب کی یادیں تیر بن کر جگر سے پار ہورہی ہیں۔حق تعالیٰ شانہٗ نے آپ کومختلف خوبیوں سے نوازا تھا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت زیادہ خیر کا کام لینا تھا، اس لئے ان کو خصوصی طور پر فقاہت کے اونچے درجہ پر فائز فرمایا، مسند حدیث کو رونق بخشنے کے ساتھ ساتھ فقہ کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتے رہے۔جامعہ میں آپ سے جہاں ہزاروں تشنگان علوم دینیہ اور طالبان علم سیراب ہوئے، وہیں لاکھوں افراد نے مسائل کے ذریعہ سے رہنمائی حاصل کی، فیاض قدرت نے آپ کو اتنی ذہانت عطا کی ہوئی تھی کہ پیچیدہ سے پیچیدہ مشکل سے مشکل تر مسئلہ کو منٹوں میں حل فرمادیتے تھے۔ راقم الحروف کو بشمول اپنے چھوٹے بڑے پانچ بھائیوں کے جو کہ سب کے سب جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں، حضرت الاستاذ سے بعض کو ہدایہ ثالث اور بعض کو ہدایہ رابع پڑھنے کا موقع ملا ہے، سب بھائیوں نے حضرتؒ کا یہ وصف خاص یکساں طور پر محسوس کیاکہ ہدایہ ثالث ورابع جیسی مغلق اور معرکۃ الآراء کتاب میں سال بھر میں یہ اندازہ نہیں ہوسکتا کہ اس میں مشکل جگہ کونسی ہے اور آسان جگہ کونسی ؟۔حضرت کے پڑھانے کا انداز بھی انوکھا اور عجیب کہ درسگاہ میں قدم رکھتے ہی درس شروع ہوجاتا، کتاب کی تھوڑی سی عبارت پڑھنے کے بعد تقریر شروع فرماتے، پڑھانا کیا تھا، شعلے برساتے تھے، موسلادھار بارش کی طرح تسلسل کے ساتھ الفاظ زبان سے نکلتے تھے، جس میں کبھی خطابت کی آمیزش اور جوش وجلال کا گرج ہوا کرتا تھا، اور یوں ہی تسلسل کے ساتھ بغیر کسی اٹکن اور بلا انقطاع تشریح کرتے چلے جاتے تھے۔ بلامبالغہ ایسا لگتا کہ ہدایہ آپ کو ازبر ہے، تشریح کے بعد پھر کتاب کا ترجمہ فرماتے، جوقند مکرر کے طور پر دماغ پر نقش ہوجاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح ہے جب میں تخصص کا طالب علم تھا ایک دفعہ میری تصحیح کی باری حضرت مفتی صاحب کے پاس تھی، مسئلہ تداخلِ کفارات سے متعلق تھا، متعلقہ حوالہ تلاش بسیار کے باوجود مجھے نہ مل سکا، حضرت مفتی صاحب نے دورانِ تصحیح حوالہ کا پوچھا، جس پر میرا جواب یہ تھا کہ حضرت! بہت تلاش کیا، مگر حوالہ نہیں ملا۔ حضرت نے فوراً فرمایا کہ البحرالرائق کی فلاں جلدفلاں عنوان کے تحت دیکھ لیں، چونکہ خود کی معذوری کی وجہ سے میرا وہاں سے اٹھنا کافی مشکل تھا، نیز بچکانہ عادت بھی تھی کہ اٹھنے کے بعد کہیں میری باری لے کر کوئی دوسرا ساتھ تصحیح کے لئے نہ بیٹھ جائے ، بہرحال میںنے وہاں بیٹھے بیٹھے دوسرے ساتھی کے ذریعہ کتاب منگوائی،دیکھا تو واقعۃً من وعن حوالہ وہاں موجود تھا، اس طرح کے ایک نہیں، کئی سارے واقعات موجود ہیں۔ منصب افتاء کے نازک اور حساس ہونے کی بنا پر علماء امت نے ’’مفتی‘‘ کے لئے بہت سی شرائط اور آداب ذکر فرمائے ہیں، جن کا مفتی میں پایا جانا ضروری ہے، مثلاً یہ کہ مفتی قرآن وسنت کے علم وفہم سے آراستہ ہو، مسائل پر مکمل عبور اور قواعد فقہیہ کو جانتااور سمجھتا ہو، کسی ماہر ،مشاق اورتجربہ کار استاذ کا تربیت یافتہ ہو، بلند کردار اور عفت کا حامل ہو، نرم خو، دور اندیش اور بیدار مغز ہو، زمانہ کے عرف وعادت سے واقف ہو،فتویٰ دیتے وقت غوروفکر سے کام لیتا ہو اور دل میں خوفِ خدا ہو، اور بقول مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کے کہ ’’مفتی کو قوم کا نبّاض ہونا چاہئے ،صرف وسعتِ علم یا کثرتِ مطالعہ سے کوئی شخص مفتی نہیں بن سکتا، جس طرح پنساری طبیب نہیں ہوسکتا، حالانکہ دوائیوں کے نام سے وہ زیادہ واقف ہوتا ہے اور اس کے اثرات سے بھی زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔‘‘ بلاشبہ حضرت مفتی صاحبؒ ان خوبیوں سے آراستہ تھے،اور ہر اعتبار سے علمیت کے ساتھ ساتھ تفقہ وحکمت اور فہم وذکاوت میں ہر اعتبار سے اس درجہ پر فائز تھے، مذاہب اربعہ جو کہ سب کے سب برحق ہیں، ان چاروں فقہ میں فقہ حنفی کی گہرائی ، تعمق اور وسعت کسی سے مخفی نہیں،آپؒ صرف اس کے ماہر ہی نہیں، بلکہ اس گہرے سمندر کے زبردست  تجربہ کار غواص اور بہترین تیراک تھے۔مثل مشہور ہے کہ ’’المعاصرۃ سبب المنافرۃ‘‘کہ معاصرت حسد ورقابت کا ایندھن فراہم کرتی ہے، جس کے باعث فطرتِ انسانی اس کی آگ میں تپتی رہتی ہے ،جس سے منافرت پیدا ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے کسی معاصر کے لئے دوسرے معاصر کی تعریف کرنا یا کسی کمال کا اعتراف کرنابڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ہاں! البتہ کبھی کبھار کسی بڑی شخصیت کی علمیت وروحانیت اس میں رکاوٹ بن جائے تو مستثنیات میں شمار ہوتا ہے، اہل علم میں بسا اوقات چوٹی کے اکابربھی اپنے دامن کو اس سے پاک نہ رکھ سکے، علامہ ابن حجرؒ کی فتح الباری اور علامہ عینی کی عمدۃ القاری پڑھنے والے ان جبال کی نوک جھونک سے اس کا اندازہ کرسکتے ہیں۔حضرت مفتی صاحبؒ جس طرح اس مرض سے پاک تھے، آپ کے معاصرین کا بھی آپ کے ساتھ کچھ اسی طرح کا برتاؤ تھا،چنانچہ دور حاضر کے جید ،ممتاز اور اکابر مفتیان کرام آپ کے مذکورہ جملہ اوصاف کے معترف تھے،جو کہ ہر لحاظ سے آپ کے کامل ہونے کی واضح دلیل ہے۔ بنوری ٹاؤن جیسا عالمی ادارہ جس کی مرکزیت اور عظمت صرف خواص میں نہیں، بلکہ عوام اوراغیار میں بھی مسلم ہے، تقریباً تیرہ چودہ سال سے آپ عملی طور پر وہاں دارالافتاء کے رئیس تھے، لیکن تواضع کا یہ عالم تھا کہ بڑے مفتی صاحب یعنی حضرت مفتی عبدالسلام چاٹگامی صاحب مدظلہم کی موجودگی میں جیسے اپنے کو ان کا نائب سمجھتے تھے، ان کے جانے کے بعد بھی اپنے آپ کو اسی منصب پر سمجھتے رہے، چنانچہ فتویٰ کی آخری مہرتصدیق ثبت کرنے کے بعد اپنے نام کی بنائی ہوئی مہر جس پر نائب رئیس دارالافتاء کے الفاظ کندہ تھے،لگادیا کرتے تھے۔ درجہ تخصص سے فارغ ہونے کے بعد جب بندہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دارالافتاء سے منسلک ہوا،تو مشکل اور عمیق مسائل میں حضرت سے مشورہ اور رہنمائی لیتا رہا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت جلالپوری شہیدؒ کی شہادت کے بعد ہمارے دفتر ختم نبوت میں ایک استفتاء آیا، کئی دن سوچ بچار اور اور ادھر ادھر مطالعہ کرنے کے بعد اس کا جواب لکھا، اس پر اطمینان نہ ہوا تو بدل کر مکرر سہ کرر اس کا حتمی جواب لکھا، اپنے خیال میں سمجھ رہا تھا کہ یہ میں نے کوئی بڑا تیر مارا ہے، اور بہت تحقیقی جواب لکھا، دیگر ساتھیوں نے بھی اس کی تصدیق فرمائی، لیکن دل میں سو فیصد اطمینان پھر بھی نہ تھا، حضرت والا امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی حضرت مولانا محمد اعجاز مصطفی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ بڑے مفتی صاحب کو دکھائیں ، چنانچہ حسب عادت جس کی حضرتؒ سے پیشگی اس کی اجازت لے چکا تھا، فون پر حضرت کو سوال وجواب سنایا، حضرتؒ نے فوراً فرمایا کہ یہ اس کا جواب نہیں، بلکہ معمولی ترمیم کرکے فرمایا کہ یہ اس کا جواب ہے اور فرمایا: چونکہ اس کا دارومدار عرف پر ہے، ،اس لئے جواب اس طرح بنے گا۔ اہل علم جانتے ہیں کہ مفتی کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ علاقائی عرف وعادات سے مکمل واقفیت رکھتا ہو، زمانے کے حالات وواقعات پر اس کو دسترس حاصل ہو، ورنہ بسااوقات معمولی غلطی یا تعبیر کی معمولی تبدیلی سے مسئلہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتاہے۔ فقہاء کرام نے فرمایا کہ ’’من جھل بأھل زمانہ فھو جاہل‘‘(شرح عقود،ص:۹۸)جو آدمی اپنے اہل زمانہ کے طرزِ زندگی ، ان کی معاشرت،مزاج ومذاق سے واقف نہ ہو تو وہ جاہل ہے۔ حضرت لدھیانوی شہید نور اللہ مرقدہٗ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ پر تخریج کے دنوں بعض مسائل پر حضرتؒ سے مشورہ لیتا رہا۔ حضرت مفتی نظام الدین شامزئیؒ اور حضرت جلال پوری شہید رحمہما اللہ کی شہادتوں کے بعد کبھی کبھار بعض مشکل سوالات پر جب کبھی ان کی طرف رجوع کرتا، وہ بڑے شفیق استاذ اور مربی کی حیثیت سے مسکراکر اس کی فہمائش کرتے ۔سالِ رواں میںراقم درس وتدریس اور دفتر ختم نبوت کی مصروفیات سے فراغت کے بعد رات کے فاضل اوقات میں ایک کتاب پر تخریج کے کام میں مصروف ہے،ساتھی کبھی کبھار پوچھتے تھے کہ آخری تصدیق اور تقریظ کن سے کروائیں گے؟ تو اس پر میرا ایک ہی جواب ہوتاتھا کہ حضرت بڑے مفتی صاحب ہیں نا! بڑے مفتی صاحب سے مراد مفتی عبدالمجید صاحب ہوتے تھے۔سمجھ نہیں آتا کہ اب مشکل مسائل میں مشاورت کس سے کروں گا؟ لیکن بہرحال مجھے یقین ہے کہ خونِ شہیداں رائیگاں نہیں جاتا، اللہ رب العزت حضرت شہیدؒ کی نسبت کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں بے یار ومددگار نہیں چھوڑیں گے۔ شہیدوں کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے بہت زرخیز ہوتی ہے بہت شاداب ہوتی ہے اللہ رب العزت ہم سمیت حضرت کے تمام پسماندگان اور تلامذہ ومحبین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کو ان کا بہترین نعم البدل عطا فرمادیں۔  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین